ارتھ ڈے

گزشتہ دنوں دنیا بھر میں 22 اپریل کو ارتھ ڈے بنایا گیا اس دن کو منانے کا مقصد عالمی سطح پر یہ شعور اور اجاگر کرنا ہے کہ زمین پر زندگی اور استحکام کے لیے بہتر ماحولیاتی نظام بےحد ضروری ہےاس دن دنیا بھر کے ممالک میں مختلف طریقوں سے زمین سے محبت کا اظہار کیاجاتاہے اس سلسلے میں تقاریب سیمنارز لیکچرز اور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں شرکاء سے ماحول کو صاف رکھنے فضائی آلودگی پھیلانے سے گریز کرنے اور شجرکاری کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہیں اس دن زمین کو ماحولیاتی آلودگی سے ہونے والے نقصانات کے پیش نظر درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور تحفظ پر بھی غور کیا جاتا ہے .

ہر سال اس دن کو ایک خاص عنوان سے منسوب کیا جاتا ہے ا اس برس کا عنوان اسپیشیز کا تحفظ ہے ہمارا سیارہ قدرت کے تحفوں سے مالا مال ہے انہی میں سے ایک اہم تحفہ مختلف اقسام کے اسپیشیز ہیں .

قدرت نے ہر چیز کو ایک توازن میں پیدا کیا ہے لیکن انسان کی مختلف سرگرمیاں اس توازن میں بگاڑ کا سبب بن رہی ہے جس کا نتیجہ ناپیدگی کسی جاندار کی نسل کا ختم ہو جانا کی صورت میں سامنے آ رہا ہے مثلا ڈایناسور کی ہیں مثال لے لیں 600 سال قبل ڈایناسور کی نسل دنیا سے نابود ہو چکی ہے ڈایناسور ہی نہیں اس کے علاوہ بھی سینکڑوں جنگلی اور زیرآب جاندروں کی نسل مختلف انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں تیزی سے معدومیت کا شکار ہو رہی ہیں .

گزشتہ برس اقوام متحدہ کے عالمی ادارے برائے تحفظ جنگلی حیات کی جانب سے جاری اعدادو شمار میں بتایا گیا کہ مختلف انسانی سرگرمیاں جنگلی حیات کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہیں انیس سو ستر سے 2018 کے دوران اس کا نتیجہ 60% جنگلی حیات کے خاتمے کی صورت میں نکلا اور یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ آج بھی بیشتر جنگلی حیات اور ان کی خاص ا آسام معدومیت کے خطرات سے دوچار ہیں .

اس دن ہم بھی عزم کریں کہ زمین پر ہر اس قسم سرگرمی کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں گے جو اسپیشیز کی معدومیت یا ان کی بقاء کے لئے خطرات بن رہی ہیں اس کے ساتھ ان تمام کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے جو ماحولیات کے ساتھ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے قدرت نے اس روئے زمین پر سب سے پہلے انسان کو اتارا اوراسےبسانےکے لئے ایک قدرتی نظام وضع کیا گیا اس نظام میں جنگلی حیات درخت جانور پرندے اور مچھلیوں سمیت دیگر آبی حیات اور رینگنے والے مختلف قسم کے جانداروں کی تخلیق بھی کی گئی لیکن انسان کی بیشتر سرگرمیاں جیسے کہ جنگلات کی کٹائی مندہم امارات غیر قانونی شکار غیر قابل قدر زراعت ٹریفک کےمسائل آلودگی اور کیڑے مار ادویات کا متواتر استعمال غیرمعمولی تباہی و اور جنگلی حیات کی تعداد میں نمایاں کمی کا باعث بن رہی ہے اگر ہم نے ابھی اس بارے میں نہیں سوچا تو ان اسپیشیز کی تعداد وقت کے ساتھ نابود ہو جائے گی ماہرین اس حوالے سے چند بنیادی نکات بیان کرتے ہیں جو اس مسئلے کا بنیادی حل بھی ہے.

اس دنیا میں تمام جاندار چاہے وہ ابھی حیات ہیں کیوں نہ ہو ایک خاص کردار ادا کرتے ہیں اسی سبب انسان کی طرح یہ تمام اسپیشیز بھی اہمیت کی حامل ہیں مثلا گدھ مردار جانور کا گوشت کھاتا ہے اگر وہ یہ مردارگوشت نہ کھائے تو روئے زمین پر کی جان لیوا بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں آبی حیات کی بات کریں تو سمندر میں موجود کئی اسپیشیز سمندری کچھوے اور مچھلیاں کی ذمہ داریوں میں سمندر کی پانی کی صفائی اور ان بیٹیریا کو کھانا ہے جو پانی کو زہر آلود کرنے کے ساتھ ساتھ ابھی حیات میں بھی منتقل ہوجاتے ہیں ہم سب کو مل کر تمام اسپیشیز مثلا شہد کی مکھیوں منگو ہاتھی زرافہ شارک ویل مچھلی اور دیگر آبی اور زمینی حیات کی نسلوں کو تحفظ دینے کے حوالے سے اقدامات کرنے ہوں گے . آبی حیات کی معدومیت کے پیش نظر ہمیں مچھیروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آب حیات کے شکار کا عمل اعتدال پر مبنی ہوں .

سمندر میں پھینکے جانے والے کوڑا کرکٹ کے سبب ہر سال لاکھوں ابیھیات مر جاتی ہیں اس حوالے سے عوامی سطح پر شعور اور آگاہی بیدار کرنے کی ضرورت ہے . پلاسٹک کے نقصان کے پیش نظر اس کا استعمال کم سے کم کرنا ہوگا اور استعمال شدہ پلاسٹک کو پھینکنے کے بجائے ری سائیکل کرنا سیکھنا ہوگا. جنگلی حیات کے لیے جنگل بہترین پناہ گاہ ہوتا ہے اس سے بہتر اور سازگار ماحول جانوروں کے لیے کوئی نہیں ہوسکتا لیکن تیزی سے درختوں کٹائی اور لکڑی جلائے جانے کے عمل پر غور و فکر کرنا ہوگا اس کے بجائے شجرکاری مہم پر زور دینا ہوگا . .

Muhammad Usama Nadeem
About the Author: Muhammad Usama Nadeem Read More Articles by Muhammad Usama Nadeem: 10 Articles with 22364 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.