اگر آپ اپنے اِرد گرد نظر دوڑائیں تو آپ کو کسی نہ کسی
صورت میں پلاسٹک کی اشیا ضرور ملیں گی۔مثال کے طور پر: اگر آپ کے پاس فون
ہے ، تو اس میں بہت حد تک پلاسٹک استعمال ہوا ہے۔آپ کا کمپیوٹر، آپ کا بہت
سا کھانا جو کہ پلاسٹک کے ڈبوں میں بند ملتا ہے، آپ کے ارد گرد بہت سے
شاپنگ بیگز، کولڈ ڈرنکس کی بوتلیں، یہ سب کچھ پلاسٹک سے بنا ہے۔ چھوٹے
بچّوں کے کھلونے بھی زیادہ تر پلاسٹک سے ہی بنتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ آخر
یہ پلاسٹک ہے کیا؟
زیادہ تر پلاسٹک مصنوعی طور پر کیمیاوی امتزاج سے بنایا جاتا ہے ۔ پلاسٹک
کی دو اہم خصوصیات ہیں۔اِس کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ اسے کسی بھی شکل
میں آسانی سے ڈھالا جا سکتا ہے۔تقریباً ہر طرح کا پلاسٹک
پٹرولیمPetrochemicals)) سے بنتا ہے ۔ پلاسٹک کا زیادہ استعمال اس لیے بھی
کیا جاتا ہے کہ یہ سستے داموں میسّر ہوتا ہے۔عام گھریلو استعمال کے بہت سے
برتن پلاسٹک سے ہی بنائے جاتے ہیں۔سستا ہونے کے علاوہ اس کے عام استعمال کی
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ پائیدار ہوتا ہے۔
پلاسٹک ، بلا شبہ ایک مفید اور کار آمد چیز ہے؛ لیکن ماحولیاتی مسائل میں
اضافہ کرتے ہوئے ،پلاسٹک آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پلاسٹک کی دوسری بڑی
خاصیت یہی ہے کہ زیادہ تر پلاسٹک ،خراب ہونے کے بعد بھی ختم نہیں کیے جا
سکتے کیوں کہ زمین پر کوئی مخلوق ایسی نہیں جو کہ پلاسٹک کھا سکتی ہے۔انسان
کی بنائی ہوئی تقریباً تمام اشیا ٹوٹ پھوٹ یا انحطاط کا شکار ہوجاتی ہیں،
اُن جرثوموں کی وجہ سے جو قدرتی طور پر اُس چیز کوخوراک کے طور پر کھا جاتے
ہیں اور وہ چیز گلنا سڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس کی واضح مثال سٹیل ہے۔ جسے
زنگ لگ جاتا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ استعمال شدہ، خراب پلاسٹک کے ساتھ کیا کِیا
جائے؟ اس کا جواب واضح اور آسان ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اسے ری سائیکل
(Recycle) کرتے ہوئے دوبارہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔یہ بات یقینا درست
ہے۔لیکن بہت سا پلاسٹک ایسا بھی ہے جسے آسانی سے ری سائیکل نہیں کیا جا
سکتا۔ایسا پلاسٹک عموماً کوڑا دان میں ، گلیوں اور راستوں میں،نہروں اور
دریاؤں میں یا ساحلِ سمندر پر پھینک دیا جاتا ہے۔
کلو رین مِلاپلاسٹک،جب مٹّی میں شامل ہوتا ہے تو اپنے ارد گرد کی مٹّی میں
نقصان دہ کیمیکل شامل کرتا جاتا ہے۔یہ کیمیکل زیر ِ زمین پانی اور پانی کے
دیگر قریبی ذرائع کو بھی متاثر کرتا ہے۔ کوڑا کرکٹ پر مشتمل ، زمین کی
بھرائی کا ملبہ، مختلف قسم کے پلاسٹک سے بھرا ہوتا ہے۔ جب اِس پلاسٹک پر
مشتمل ملبے سے زمین کی بھرائی کی جاتی ہے ، تو اس پلاسٹک سے انتہائی نقصان
دہ بیکٹیریا پیدا ہوتے ہیں ، جن سے بے رنگ اور بُو کی ایسی گیس پیدا ہوتی
ہے جو کہ زمینی فضا میں افزائشِ حرارت ( global warming ) کی ایک بڑی وجہ
ہے۔
۲۰۱۲ء کے ایک اندازے کے مطابق، دنیا کے تمام سمندروں میں ، تقریباً ۱۶۵
ملین ٹن پلاسٹک کی وجہ سے آلودگی ہے۔ساحلوں اور سمندروں میں پلاسٹک آلودگی
کی ایک وجہ وہ پلاسٹک دانہ بھی ہے جو کہ سمندروں کے ذریعے در آمد اور بر
آمد کیا جاتا ہے۔ہر سال کئی ارب پلاسٹک دانہ ، دورانِ تجارت سمندروں میں
گرتا ہے ۔ اندازے کے مطابق ، عالمی سطح پر ، ساحل کی دس فی صد گندگی،
پلاسٹک دانہ کی وجہ سے ہے۔ مزید یہ کہ ساحلوں پر سیر کے لیے آنے والے لوگ
اپنے ساتھ لائے گئے پلاسٹک بیگز اور کھانے کے ڈبوں کو بھی وہیں پھینک دیتے
ہیں۔
پلاسٹک کی وجہ سے سمندروں میں پیدا ہونے والی آلودگی، سمندری حیات کے ساتھ
ساتھ انسانوں کے لیے بھی نہایت خطرناک اور زہریلی ہے۔ بہت سے سمندری جانور،
پلاسٹک کو کھانے کی چیز سمجھ کر کھا جاتے ہیں ۔ مثلاً سمندری کچھوے، اکثر
اسی وجہ سے مر جاتے ہیں کہ غذا سمجھ کرکھایا ہوا پلاسٹک اُن کے نظامِ
انہظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ سمندروں میں پلاسٹک کی آلودگی کے باعث ،تقریباً
چار لاکھ آبی ممالیہ (marine mammals) ،ہر سال مرتے ہیں۔
پلاسٹک سے پیدا ہونے والی آلودگی کو کس طرح روکا یا کم کیا جا سکتا ہے؟ اس
سوال کے جواب میں ہم چار ایسے طریقے اپنا سکتے ہیں جن سے ہم اپنے ماحول کو
پلاسٹک آلودگی سے بہت حد تک بچا سکتے ہیں۔ اوّل یہ کہ ہم کم سے کم ایسی
چیزیں خریدیں جو پلاسٹک سے بنی ہوں۔ ہم پلاسٹک کے بجائے شیشے سے بنی کولڈ
ڈرنکس کی بوتلیں بھی خرید سکتے ہیں۔جس کا واضح مطلب ہو گا کہ نہ پلاسٹک
خریدیں گے ، نہ ہی ہم استعمال کے بعد اُسے گھر سے باہر پھینکیں گے۔
دُوُم یہ کہ کیوں نہ ماضی کی طرح اب بھی ، اشیا کو محفوظ کرنے کے لیے
پلاسٹک کے بجائے شیشے کی بوتلیں اور برتن استعمال کیے جائیں۔
سِوُم یہ کہ پلاسٹک کو (Recycle) ری سائیکل کیا جائے۔چہارم یہ کہ پلاسٹک کے
استعمال ہی سے گُریز کیا جائے۔پلاسٹک کے تھیلوں کے بجائے کپڑے کے تھیلے
استعمال کیے جائیں۔ کھانے، پینے کی اشیا، جیسا کہ دودھ ، دہی، چائے یا کوئی
سالن وغیرہ لانے ، لے جانے کے لیے پلاسٹک کے تھیلے یا بوتلیں ہر گز استعمال
نہیں کرنی چاہییں۔انگریزی زبان میں ان چار طریقوں کو ’’ Four R's‘‘ کہا
جاتا ہے۔
(Reduse, Re-use, Recycle, Refuse )
سائنس دان اب اس بارے میں تحقیق کر رہے ہیں کہ کسی طرح پودوں سے ایسا
پلاسٹک بنایا جا سکے جس سے خریداری کے لیے تھیلے اور کھانے کی اشیا محفوظ
کر نے کے لیے ڈبے وغیرہ بنائے جا سکیں۔ جنھیں استعمال کے بعد ، پودوں کی
کھاد کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ چند
جرثوموں کے ذریعے انھیں تحلیل کیا جا سکے گا۔اِسے انگریزی میں
(biodegradable)کہا جاتا ہے ۔ جب کہ پیٹرولیم سے بنا پلاسٹک غیر
مُحلِّل(non- biodegradable) ہے ۔ اِسے کسی بھی جرثومے سے تحلیل نہیں کیا
جا سکتا۔ |