جماعت چلی کراچی سے ارادہ کر کے حب کی طرف جہاں دو سو سال
قبل ،ایک مچھیروں کی بستی بستے بستے آباد ہوئ تھی ۔ یہاں کی غربت پر حکومت
کا آنے جانے سے کوئ فرق نہیں پڑتا لیکن اس تنگی میں بھی مہمانوں کی آمد پر
فرق پڑتا ہے اور ٹوٹے پھوٹے برتنوں میں جن میں کئ سوراخ تھے جو خدا کی رحمت
کو اس میں سے گزر جانے کی دعوت دے رہے تھے ، گرم گرم نان آے ۔
ان کی تبلیغ سے ان کے سینے بھرے یا نہ بھرے لیکن ان روٹیوں نے مہمان مبلغوں
کے پیٹ ضرور بھر دیے ۔
جب تبلیغ کے لیے آبادی کے لوگوں سے انہوں نے بولنا شروع کیا اور پیغمبر کا
نام آنے پر آبادی والوں نے اپنی جوتیاں احترامآ اتار دیں تو تبلیغ کرنے
والوں کے دل کانپ اٹھے ۔
جو سکھانے آے تھے وہ سیکھ کر جارہے تھے ۔ جو دینے آئے تھے وہ بہت کچھ سمیٹ
کر جانے لگے ۔
بسا اوقات مبلغ کا بیان وہ اثر نہیں کرتا جو خاموشی اور عاجزی کی زبان کر
دکھاتی ہے ۔
شہر والوں کی عبادت سے زیادہ مچھلی والوں کی ندامت نے کام دکھا دیا اور
مچھلی والے کی دعا کی یاد دلادی
نہیں معبود سوائے تیرے ، تو پاک ہے ، بے شک میں ہی قصوروار ہوں |