ملک کے بیشتر سیاستدان نیب کے خلاف ہیں حالانکہ
ماضی کی حکومتوں نے لوگوں کے پر زورمطالبہ پر بھی نیب کا ادارہ ختم کرنے سے
انکارکردیا تھا شنیڈہے سب سے پہلے نیب کو میاں نوازشریف نے آصف علی زرداری
ور ان کی شہیداہلیہ کے خلاف استعمال کیا پھر چل سو چل ہوگئی ۔کہاجاتاہے کہ
انہوں نے نیب کو سیاسی مخالفین کو مزاچکھانے کیلئے ا ستعمال کیا آج وزیر
اعظم عمران خان وضاختیں کررہے ہیں کہ ہم نے آصف علی زرداری اور شریف فیملی
کے خلاف کوئی نیامقدمہ نہیں بنایا یہ لوگ ایک دوسرے کے دور ِ حکومت میں
بنائے گئے مقدمات کو فیس کررہے ہیں جبکہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال
نے کہا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نیب اور معیشت ساتھ نہیں چل سکتے وہ
غلط کہتے ہیں، نیب اور معیشت ساتھ چل سکتے ہیں لیکن نیب اورکرپشن ساتھ ساتھ
نہیں چل سکتے، کوئی طاقت نیب کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی، بدعنوانی نہ ہوتی تو
پاکستان کو قرض نہیں لینا پڑتا، واحد خواہش کرپشن سے پاک پاکستان ہے۔
بدعنوان عناصر کے خلاف قانون ضرور حرکت میں آئے گا اور جو لوٹ مار کرے گا
اسے نیب کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان دنوں بہت سے سقراط اور بقراط
پیدا ہوگئے ہیں جنہوں نے نیب کا قانون ہی نہیں پڑھا، نیب کالا قانون ہوتا
تو سپریم کورٹ اسے ختم کردیتی، یہ ان لوگوں کے لئے کالا قانون ضرور ہے جو
ڈکیتیوں میں مصروف ہیں، کالک ان ہاتھوں میں ہوتی ہے جو قانون کا غلط
استعمال کرتے ہیں۔ نیب قانون کسی اور پر لاگو ہو تو ٹھیک اور جب آپ پر آئے
تو یہ کالا قانون ہو جاتا ہے، جب تک نیب موجود ہے وہ اس قانون کے مطابق
فرائض انجام دیتا رہے گا۔ چند دن پہلے ایک صاحب نے کہا کہ نیب منی لانڈرنگ
کا ادارہ ہے، نیب اگر منی لانڈرنگ کرے گا تو وہ عوام کے لیے ہوگی، پیرس میں
جائیداد بنانے کے لیے نہیں۔ وہ دور گزر گیا جب بدعنوانی اور کرپشن کی چشم
پوشی کی جاتی تھی، نیب جو بھی قدم اٹھائے گا قانون اور آئین کے مطابق
اٹھائے گا۔ نیب کے خلاف مذموم پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، کسی کے ذہن میں یہ
نہ رہے کہ نیب چوری پر آنکھیں بند کر لے گا، اب لوگ ڈاکہ زنی کرنے سے پہلے
ایک دفعہ سوچتے ضرور ہیں کہ کہیں نیب کو پتہ نہ چل جائے، بدعنوانی نہ ہوتی
تو پاکستان کو قرض نہیں لینا پڑتا۔ نیب پر الزام لگایا جاتا ہے کہ سب سے
زیادہ پنجاب میں ایکشن لیا جاتا ہے، پنجاب میں لوگ سالہا سال سے برسر
اقتدار رہے اور یہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور سب سے زیادہ منصوبوں پر
یہیں کام ہوا ہے وفاق اور پنجاب کی بیورو کریسی نیب کے خلاف کوئی کیس نہیں
لاسکی، نیب پر تنقید ضرور کریں لیکن وہ مثبت ہونی چاہیے، نیب کے پلی بارگین
قانون میں اصلاح کی گنجائش موجود ہے، نہ پہلے کبھی شوق سے ہتھکڑی لگائی ہے
نہ آئندہ لگائیں گے، ہماری واحد خواہش کرپشن سے پاک پاکستان ہے۔ چیئرمین
نیب نے عوام کو تاکید کی کہ وہ ہاؤسنگ سکیم میں سرمایہ کاری سے پہلے چھان
بین کرلیا کریں، تمام ہاؤسنگ سوسائٹیز کو خبردار کرتا ہوں کہ لوگوں کا لوٹا
ہوا مال واپس کردیں۔ نیب کی کسی کے ساتھ دشمنی اور دوستی نہیں ہے جو بھی
حکومت میں آئے اگر وہ لوٹ مار کرے گا تو نیب کی مزاحمت ہو گی۔ تمام بڑی
پارٹیاں برسراقتدار آئیں اگر نیب میں کوئی برائی تھی تو اس کو تبدیل کیوں
نہیں کیا۔ میں نے بھی سپریم کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک سکیم میں پیسہ
لگایا مگر مجھے آج تک نہیں ملا جب میں نیب کا چیئرمین بنا تو مجھے چیک دیا
گیا مگر میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جب تک آخری متاثرہ شخص کے پیسے
واپس نہیں ہونگے میں اپنے واپس نہیں لوں گا۔ ملک اس وقت 95ارب ڈالر کا
مقروض ہے۔ کیاآپ کو ملک میں 95ارب ڈالر کہیں خرچ ہوئے دکھائی دیتے ہیں؟
لیکن پانامہ جیسی چیزیں اور دبئی میں ٹاور ضرور نظرآتے ہیں۔ اگر یہ 95 ارب
روپیہ پاکستان میں خرچ ہوتا تو ہم اس طرح دنیا میں کشکول لیکر دربدر نہ پھر
رہے ہوتے اور نہ ہی اپنی معیشت کو سہارا دینے کیلئے دیگر ممالک سے قرض لیتے۔
نیب کے حوالے سے بہت تواتر کے ساتھ جھوٹ بولا گیا نیب کو بدنام کیا
گیا۔شہبازشریف فیملی، نوازشریف خاندان ہو یاپھر آصف علی زرداری،محترمہ
فریال تالپور یا مولانا فضل الرحمن ، خواجہ آصف ،خواجہ سعدرفیق سمیت نہ
جانے کتنے سیاستدان اوربیورو کریٹ قطار اندر قطار میں لگے ہوئے ہیں جن کی
دلی خواہش ہے کہ حکومت ان سے مک مکا کرنے پر مجبور کر ہوجائے تاکہ وہ نیب
کی بند گلی سے باہر آسکیں صرف انہی پر موقوف نہیں نہ جائے کتنے نیب زدہ آج
بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں شنیدہے کہ چوہدری برادران کے خلاف بھی نیب
نے انکوائری بندکردی ہے اور تو اور فردوس عاشق اعوان کے مشیربنتے ہی ان کی
فائل کو الماری میں مقیدکردیاگیاہے یہ باتیں اگردرست ہیں تو پھر نیب کے
ارباب ِ اختیارکو سوچنا چاہیے چیئرمین نیب کے دعوؤں اور مخالفین کے الزامات
میں کیا تال میل ہے؟۔ انصاف کا مفہوم کیاہے؟ اور نیب زد ہ لوگوں سے قومی
سرمایہ کیسے واپس لیا جا سکتاہے؟۔انصاف کا مطلب ہوتاہے بلا امتیاز بے رحم
احتساب۔۔ نیب کے دعوؤں اور عملی اقدامات میں جو فرق ہے چیئرمین نیب اس کے
بارے میں بھی سوچناہوگا اس کے بغیرانصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جا سکتے۔ |