بھارتی فوج نے آزاد کشمیر کے نہتے شہریوں پر گولہ باری
جاری رکھے ہوئے ہے۔ جب کہ مقبوضہ کشمیر میں جموں اودھم پور، سرینگر اور
بارہمولہ کی بھارتی پارلیمنٹ کی نشستوں پر فوج کے سخت پہروں میں انتخابی
مرحلے مکم ل ہوئے اور اب اننت ناگ جو کہ جنوبی کشمیر ہے کی نشست کے الیکشن
کے لئے سیکروں کشمیریوں کو قید کر لیا گیا ہے۔ بستیوں کا کریک ڈاؤن محاصرے
اور لوگوں پر تشدد جاری ہے۔ عوام پر دباؤ بڑھانے کے لئے ہی آزاد کشمیر کی
سول آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حویلی ضلع کے فاروڈ کہوٹہ میں نو عمر
طالب علم طاہر اور اس کی کم سن بہن طاہرہ کو بھارتی گولہ باری کا نشانہ
بنایا گیا۔بھائی موقع پر شہید ہو گیا اور بہن شدید زخمی ہوئی جو ہسپتال میں
تڑپ رہی ہے۔ محمد حفیظ کے یہ بچے بھارتی جارحیت سے بے خبر تھے۔ جب گولہ
باری ہوئی تو لوگ حفاظتی بنکرز نہ ہونے کی وجہ سے جان بچانے میں بے کسی کی
تصویر بن جاتے ہیں۔ فاروڈ کہوٹہ سمیت آزاد کشمیر کے تمام سیکٹرز میں حکومت
سے مسلسل مطالبات کے باوجود بنکرز تعمیر نہ ہو سکے۔ ۔ بھارتی فائرنگ سے
لاتعداد لوگ زخمی ہو رہے ہیں۔ بھارتی افواج کی بلا اشتعال تازہ فائرنگ کی
وجہ سے مقبوضہ پونچھ سیکٹر کے دیہات کے لوگ پریشان ہوں گے۔کیوں کہ بھارتی
جارحیت کے بعد پاکستان کی طرف سے بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا
ہے تا کہ ان کی توپیں خاموش کی جائیں۔ مگر بھارتی بی ایس ایف بلا اشتعال
فائرنگ اور گولہ باری جاری رکھتی ہے۔ املاک کو شدید نقصان پہنچا یا جاتاہے۔
تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیئے جاتیہیں۔ لوگ ان علاقوں سے
نقل مکانے کرنے لگے۔ کیوں کہ بھارتی فوج انہیں نشانہ بنا رہی تھی۔ کسان
کھیتوں میں نہیں جا سکتے تھے۔ ان کے مویشی اور فصلیں بھی بھارتی گولہ باری
کی زد میں ہیں۔ لا تعداد مکانات بھی تباہ ہوئے ۔ کشمیر کی جنگ بندی لکیر
اور ورکنگ باؤنڈری سمیت بجوات اور شکر گڑھ سیکٹرز کے لوگ بھی بھارتی جارحیت
سے متاثر ہوئے ہیں۔ مقبوضہ جموں ڈویژن میں یہ مینڈھر پونچھ، آر ایس پورہ،
کانا چک، ارنیا سیکٹرز ہیں۔ آزاد کشمیر میں بھارتی گولہ باری سے نکیال کے
دانوٹ، لخوٹ، بالاکوٹ، پونچھ سیکٹرز میں بٹل اور درہ شیر خان میں عوام کا
بہت نقصان ہو اہے۔ جب بھی بھارتی جارحیت ہوتی ہے اقوام متحدہ کے فوجی
مبصرین علاقے کی طرف جاتے ہیں۔ رپورٹیں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو
جاتی ہیں۔ مگر بھارتی جارحیت پھر بھی نہیں رکتی۔ بھارتی جارحیت کا مسلہ
پاکستان اقوام متحدہ میں بھی اٹھاتاہے۔ لیکن بھارت پر کسی عالمی دباؤ کا
کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔کیوں کہ دنیا اس وقت بھارتی منڈی کو انسانیت سے
زیادہ اہمیت دیتی ہے۔دوسری طرف بھارت نے اپنی فوج کو مکمل اختیار دے دیا ہے
کہ وہ جب چاہے پاکستانی علاقوں کو نشانہ بنائے۔ بھارتی فوج بے لگام ہو چکی
ہے۔ وہ ہر وقت جارحیت پر تیار رہتی ہے اور آزاد کشمیر کی آبادی کو نشانہ
بناتی ہے۔ اسلام آباد میں بھارت کے ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کیا جاتا
ہے اور پاکستان کا احتجاج ریکارڈ کرایا جاتا ہے۔ لیکن ان پر اس کا کوئی اثر
نہیں ہوتا ہے۔ بھارت سیز فائر کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ کشمیر کی جنگ
بندی لائن کے نگرانی کے لئے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین تعینات ہیں ۔ بھارت
ان کو معمول کی پیشہ ورانہ خدمات انجام نہیں دینے دیتا ہے۔ بلکہ بھارت نے
ان کی نقل و حرکت پر مکمل پابندی لگا رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین
صرف بھارتی فوج کی چھاؤنیوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی طرف سے
انہیں مکمل آزادی ہے۔ فوجی مبصرین کی توجہ بھارتی جارحیت کی طرف مبذول تو
ہے مگر وہ جیسے لاچار ہیں۔ جب اقوام متحدہ کے مبصرین متاثرہ علاقوں کا دورہ
کرتے ہیں۔ ان کی گاڑیوں پر اقوام متحدہ کے پرچم بھی لہرا رہے ہوتے ہیں ۔ اس
کے باوجود بھارت گولہ باری اور فائرنگ بند نہیں کرتا۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا
ہے کہ بھارت سر کش ہو چکا ہے۔ وہ جنگ بندی معاہدے کو کسی خاطر میں نہیں
لاتا اور نہ ہی اسے اقوام متحدہ کا احترام ہے۔ اس کے باوجود بھارت کو
سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دینے کے لئے حمایت کرنے والے ممالک اس اہم
نکتے پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ جو ملک سلامتی کونسل کا ڈیفالٹر ہے اور اس کے
فیصلوں کو ہی مسترد کر رہا ہے وہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن یا ویٹو بننے
کا کیوں کر حق دار ہو سکتا ہے۔
بھارت کی تازہ جارحیت وزیرا عظمعمران خان کی طرف سے الیکشن میں نریندر مودی
کی کامیابی کی خواہش کے بعد ہوئی ہے۔ جب کہ بھارت معصوم شہریوں کو نشانہ
بنا رہا ہے۔ پاکستان کا تحمل اور زمہ داری کا مظاہرہ بھی پاکستان کی کمزوری
سے تعبیر کیا جا تا ہے۔اس لئے پاکستا ن کو اب اس جانب سنجیدگی کا مظاہرہ
کرنا چاہیئے۔ بھارت نے مذاکرات ختم کر دیئے ہیں۔ دنیا کو وہ مسلسل گمراہ کر
رہا ہے۔ پاکستان کے موجودہ اندرونی حالات سے بھارت فائدہ اٹھانے کی کوشش کر
رہا ہے۔ شمالی وزیر ستان میں پاک فوج نے آپریشن میں کامیابی حاصل کی ہے،
دوسری طرف بلوچستان میں بھارتی جارحیت کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ افغانستان میں
اپنے فوجی اور سفارتی اڈے قائم کر کے بھارت نے پاکستان کے خلاف شرارتیں
جاری رکھی ہیں۔سرحد پار سے پاکستان کے خلاف دہشتگردی جاری ہے۔بھارت کشمیر
کی جنگ بندی لائن، ورکنگ باؤنڈری، انٹرنیشنل سرحد پر بھی عوام کے جان اور
مال کے درپے ہے۔ بھارت کی طرف سے اشتعال دلانے کی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔
بھارت مسلہ کشمیر کو جارحیت سے حل کرنے کا بہانہ ڈھونڈتا ہے۔وہ ایسے ظاہر
کر رہا ہے کہ جیسے سے امریکہ کا بھی آشیرواد حاصل ہے۔ اس لئے بھارت کو اسی
کی جال میں بند کرنے کی ضرورت ہے۔ سفارتی سطح پر دنیا کو حقائق سے آگاہی ،
جبکہ مسلہ کشمیر کو پر امن طور پر سفارتی زرائع سے حل کرنے کی کوششیں تیز
کر د ی گئیں تو یہ بھی بھارت کے راہ فرار کے راستہ بند کرنے کی جانب ایک
قدم ہو گا۔ نیز تحریک آزادی کو سائنسی اور تکنیکی بنیادوں پر متحرک کرنے کی
ضرورت ہے۔ بھارتی جارحیت کا نشانے بننے والوں کا کیس عالمی سطح پر اٹھانے
سے حکومت کو کوئی نہیں روک رہا ہے۔ بھارت کو سخت پیغام نہ دیا گیا یا یہ
تاثر دیا گیا کہ پاکستان اور بھارت مسلہ کشمیر خود ہی دوطرفہ مذاکرات سے حل
کر سکتے ہیں تو دنیا یہاں اپنی خدمات پیش کرنے سے قاصر رہے گی۔ مسلہ کشمیر
دوطرفہ نہیں بلکہ عالمی مسلہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔
سلامتی کونسل نے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین جنگ بندی لائن کی نگرانی آج
بھی کر رہے ہیں۔بھارت ان کی واپسی کے بہانے ڈھونڈ تا ہے اور دنیا کو گمراہ
کر رہا ہے۔ پاکستان کشمیر کی جنگ بندی لائن کو ریلیف کی لائن قرار دینے کا
مطالبہ کرتا رہا ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر اس راستے سے مقبوضہ وادی کو
ریلیف پہنچائیں، بھارت گولہ باری اور فائرنگ سے ریلیف لائن کو تباہی میں
بدل رہا ہے ۔ اس بارے دنیا کوبھارتی جارحیت اور سول آبادی کے خلاف جنگی
جرائم سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ گو کہ پاکستان اندرونی حالات کے ہاتھوں
مجبور ہے مگر مسلہ کشمیر کے حل کی جانب پیش رفت ضروری ہے کیوں کہ یہ مسلہ
پاکستان سمیت بھارت اور جنوبی ایشیا کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں سب سے
بڑی رکاوٹ ہے۔ |