اشرافیہ کی آنکھ مچولی ---- بے چاری عوام

پاکستان بھی تیسری دنیا کے ممالک کی طرح ایسا ملک ہے جہاں اشرافیہ کی معاشی دہشت گردی نے عوام کی ہڈیوں کا چوڑا بنا دیا ہے۔ اشرافیہ جو اِس ملک کے پچانوے فی صد وسائل پر قابض ہے سے ٹیکس لے کر نظام حکومت چلانے کی بجائے عوام کو نچوڑا جارہا ہے۔پٹرول کی قیمتوں میں رمضا ن سے چند دن پہلے اضافہ یقینی طور پر عوام پر بجلی بن کر گرا ہے۔ ڈالر کی اُڑان، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ۔ سب کچھ تو افراطِ زر میں اضافہ کا سبب ہے۔ عوام کو سیاسی بیان بازی کے ساتھ بہلایا جا رہا ہے۔ پٹرول بم گرائے جانے پر پوری قوم کی طرف سے اشرافیہ کو مباکباد۔ نیب۔ نواز شریف، شہباز شریف، وزارتوں میں تبدیلی۔۔۔۔ عوام کو مصروف کرکے حکومت خوب ستم ڈھا رہی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر عوام کے حقیقی مسائل پر بات کرنے کی بجائے صرف اور صرف سیاسی باتیں ہو رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کی گڈ گورنس سب پر عیاں ہے۔

عوام کو نواز شریف کے کیس کے حوالے سے مصروف کردیا گیا ہے ۔سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی ضمانت میں توسیع اور بیرون ملک علاج کے لئے جانے کی درخواستیں مسترد کردیں۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ رہائی علاج کیلئے دی تھی، ٹیسٹوں پر ضائع کر دی، معلوم نہیں ہر چیز کو سیاسی رنگ کیوں دیا جاتا ہے، ہر بات پر عدالت کی تضحیک کی کوشش کی جاتی ہے۔ نواز شریف کے وکیل نے نواز شریف کی سزا معطلی اور ضمانت میں توسیع کی نظرثانی درخواستوں پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کےموکل کی ضمانت میں توسیع کی جائے تاکہ وہ اپنا مکمل علاج کراسکیں۔ نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے ضمانت دی تھی، اس وقت عدالت نے ایک بات کی تھی کہ ضمانت کے لئے ہائیکورٹ سے رجوع کریں جس پر چیف جسٹس نے کہا دیکھتے ہیں کہ ہمارے آرڈر پر نظر ثانی بنتی بھی ہے کہ نہیں، ہمارے پاس نظر ثانی کی درخواست ہے آپ اس پر دلائل دیں۔ نواز شریف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا میں نے کہا تھا 8 ہفتے بعد سرنڈر کریں گے، نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس بھی جمع کرائی تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا مستقبل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرسکتے، نواز شریف کی بیماری کا ڈاکٹرز ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ وکیل نے کہا سپریم کورٹ نے 8ہفتے کی ضمانت دی تھی، یہ میری ابتدائی استدعا تھی۔ وکیل نے کہا فیصلہ کہتا ہے گرفتاری کے بغیر ضمانت توسیع کی درخواست نہیں دی جاسکتی، فیصلہ زبانی سنایا گیا، تبدیلی فریقین کو سنے بغیر نہیں ہوسکتی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا دستخط سے قبل عدالت تحریری فیصلے کو بھی بدل سکتی ہے، فیصلے سے قبل جو کچھ کہا گیا وہ فیصلہ نہیں عدالتی آبزرویشن تھی۔ نواز شریف کے وکیل نے کہا آپ کے فیصلے کے مطابق نوازشریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے سے پہلے گرفتاری دینا لازمی ہے؟، یہ فیصلہ درست نہیں کہ 6 ہفتوں کے بعد جو بھی طبی صورتحال ہو گرفتاری دینا ضروری ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا آج آپ کے لیے تمام راستے کھلے ہیں، 6 ہفتوں کے بعد آپ کے لیے تمام آپشنز موجود ہیں، یہ پورا پیکج ہے جو آپ کو ملا ہے۔ وکیل نے کہا میرے موکل ضمانت میں توسیع چاہتے ہیں، ابھی ان کی صحت ایسی نہیں کہ جیل جاسکیں، صحت کو دیکھا جائے تو موکل جیل نہیں جاسکتے، نواز شریف کا علاج جاری ہے، ان کی بیماری بڑھ چکی ہے، انہیں جو علاج درکار ہے وہ پاکستان میں ممکن نہیں، دوران ضمانت ان کا ہائپر ٹینشن اور شوگر کا علاج ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ضمانت پر جانے سے تو نواز شریف کی حالت مزید خراب ہو گئی ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا اچھے ڈاکٹرز، جدید مشینیں موجود ہیں کیسے معلوم ہوا کہ پاکستان میں علاج ممکن نہیں، آپ نے درخواست ضمانت میں میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پیش کی تھی، میڈیکل بورڈ نے انجیو گرافی کو لازمی قرار دیا تھا، اسی وجہ سے ہم نے آپ کو ضمانت دی۔ اب کہتے ہیں کہ ملک میں علاج ممکن نہیں، آپ اپنی ہی پہلی درخواست سے باہر چلے گئے، ان کے پاس بہت سے قانونی آپشن موجود ہیں، پاکستان میں علاج کے لیے بہترین ڈاکٹرز موجود ہیں، 6 ہفتہ بعد بھی ان کی انجیو گرافی نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہر چیز کو سیاسی رنگ میں دیکھ کر عدالت کو بدنام کیا جاتا ہے، صرف سزائے موت کے مقدمہ میں ہی سزا معطل ہوتی ہے، عدالتی حکم واضح ہے اگر نواز شریف نے سرنڈر نہ کیا اور جیل نہ گئے تو ان کی گرفتاری ہوگی۔نواز شریف کے وکیل نے کہا نواز شریف کی کلوٹیٹ آٹری 50فیصد بڑھ چکی ہے یہ بہت ہی خطرناک ہے۔ چیف جسٹس نے کہا جن ڈاکٹرز کی رائے آپ بتا رہے ہیں انہوں نے حتمی بات نہیں کی۔ وکیل نے کہا دنیا میں انجیو گرافی کے متبادل کارڈیک ایم آر آئی کی جاتی ہے، پاکستان میں کارڈیک کی ایم آر آئی ممکن نہیں، کارڈیک ایم آر آئی سے متعلق ہمیں کسی ہسپتال نے جواب نہیں دیا سوائے آغا خان کے، آغا خان نے بھی یہی کہا کہ کارڈیک ایم آر آئی پاکستان میں دستیاب نہیں۔ سابق وزیراعظم کے وکیل نے تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ دلائل دیئے جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تھینک یو خواجہ صاحب۔ اس کے بعد ججز نے کچھ دیر مشاورت کی اور چیف جسٹس نے درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ سنایا۔ چیف جسٹس نے کہا ہم نے 6 ہفتے علاج کیلئے دیئے تھے۔ ٹیسٹ کروانے کیلئے نہیں۔ آپ نے اس مدت میں صرف ٹیسٹ ہی کروائے ہیں۔ چیف جسٹس نے نواز شریف کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ضمانت منسوخی انہونی چیز ہوتی ہے۔ ہم پر آئینی ذمہ داری نہیں کہ ہم آپ کو مکمل علاج کا مشورہ دیں۔ عدالت نے بیرون ملک ڈاکٹر عدنان کی نوازشریف سے خط و کتابت پر سوال اٹھایا اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا سزا کی معطلی اور ضمانت پر رہائی کوئی انہونی بات ہے۔ سیاسی نظیریں موجود ہیں جہاں سزائیں موت والے قیدیوں کی بھی عدالت نے طبی بنیادوں پر سزا معطل کی۔ پتہ نہیں ہر چیز کو سیاسی رنگ کیوں دیا جاتا ہے اور ہر بات پر عدالت کی تضحیک کی جاتی ہے۔ بعدازاں عدالت میں طویل دلائل جاری رہنے کے بعد سپریم کورٹ کے ججز کی جانب سے مشاورت کے بعد چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ڈس مس کہہ کر نوازشریف کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔ 26 مارچ کو سپریم کورٹ نے نوازشریف کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں 6 ہفتوں کی عبوری ضمانت پر رہا کرنے کا فیصلہ سنایا تھا‘ تاہم فیصلے میں شرائط رکھی گئی تھیں کہ وہ اس دوران پاکستان سے باہر نہیں جا سکتے۔ سابق وزیراعظم کی ضمانت پر رہائی کی مدت 7 مئی کو ختم ہورہی ہے۔

عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی بجائے موجودہ حکومت ریلیف دے رمضان میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کو فعال کرئے۔
 

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 430198 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More