OOOقوم کو مبارک ہو وفاقی حکومت نے بجٹ میں مجموعی طور پر
729ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی تجاویز کا جائزہ لینا شروع کردیا یہ خبر
ایسی ہے کہ جی چاہتاہے اپنا گریبان چاک کرکے کسی جنگل میں جا بسوں پھر خیال
آتاہے کہ وہاں جنگل میں منگل منانے والے آدھمکے تو پھر کہاں جائیں گے یعنی
قسمت میں آرام نام کی کوئی چیز نہیں اورہاں یاد آیا بات ہورہی تھی حکومت نے
نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں مجموعی طور پر 729ارب روپے کے نئے ٹیکس
لگانے کی تجاویز کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے جس میں سب سے زیادہ 634 ارب
روپے ان لینڈ ریونیو کی مد میں اور 95 ارب روپے کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں عائد
کرنے کی تجاویز زیر غور ہے جبکہ ان لینڈ ریونیو ٹیکسوں میں سب سے زیادہ
انکم ٹیکس کی مد میں عائد کیے جانیکا امکان ہے۔ جبکہ انکم ٹیکس کی مد میں
334ارب کے نئے ٹیکس عائد کرنے کی تجاویز کو حتمی شکل دی جارہی ہے سیلز ٹیکس
کی مد میں 150 ارب اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں بھی 150 ارب روپے کے
نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں اور تو اور کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 95 ارب روپے کے
ریونیو اقدامات کا جائزہ بھی لیا جارہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نئے مالی سال
میں بھی عوام کیلئے کوئی اچھی خبرنہیں مہنگائی کا ایک طوفان بڑے کروفرکے
ساتھ آیاہی چاہتاہے لگتاہے اب غریبوں کی خیرنہیں۔ گذشتہ حکومت نے کھربوں کا
منی بجٹ پیش کرکے عوام کا کچومر نکال دیا تھا جبکہ تحریک ِ انصاف کے رہنما
اقتدار میں آنے سے پہلے بڑے بڑے دعوے،لچھے دار باتیں اور عوام کو ریلیف
دینے کے وعدے کرتے رہے پھران کی حکومت آئی تو انہوں نے پے در پے منی بجٹ
پیش کرکے عوام سے رہی سہی خوشیاں بھی چھین لیں عام آدمی ابھی منی بجٹ کی
ہیٹ ٹرک سے سنبھلا ہی نہیں کہ اب پھر729ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کی
تیاریاں کی جارہی ہیں ایک سال پہلے مفرور وزیر ِ ِخزانہ اسحق ڈارنے بھی
تسلیم کیا تھا کہ غربت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے اب یہی باتیں اسد
عمرکررہے ہیں پھر تبدیل کیا ہوا؟ تبدیلی کیا آئی؟ لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی
کی قیمتوں مسلسل اضافہ ہوتاجارہاہے ہر چیز پر سیلز ٹیکس یہ شاید واحد ملک
جہاں پینے کے پانی پر بھی 17 فی صدٹیکس عائدہے اب پتہ چلا عام آدمی کا جینا
دوبھر کیسے ہوگیاہے۔ ایسا کیوں ہورہاہے کوئی اس سوال کا جواب ۔ہمارے
حکمرانوں کے پاس؟؟؟ایک دور تھا جب بجٹ پیش کیا جاتا تو سال بھر قیمتوں میں
استحکام رہتا انتظامیہ اور صوبائی و وفاقی حکومتیں سختی سے گراں فروشوں کے
خلاف ایکشن لینا اپنا فرض مجھتی تھیں اب تو حکومت بجٹ کا تو تکلف ہی کرتی
ہے ورنہ پتہ ہی نہیں چلتا کب بجٹ آیا کب گیا؟نئے مالی سال کا آغاہو یا
معمول کے حالات گرانی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے حسب ِ معمول اس مرتبہ
پھر کہا جارہاہے کہ وفاقی بجٹ میں غریبوں پرکوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا
عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا اب توپاکستان کا ہروزیر ِ خرانہ ہر سال غریب
عوام کو خوش کرنے کیلئے ایسے ہی دعوے، ایسے ہی وعدے کرتاہے ۔پاکستان جیسے
ملک میں بجٹ کو کوئی خوفناک چیز سمجھا جاتاہے یہ جب بھی آتاہے ملک میں
مہنگائی کا ایک نیا طوفان امڈ آتاہے اب تو بجٹ اعدادو شمارکا گورکھ دھندا
اور الفاظ کی جادو گری کا نام ہے اکثر وزیر ِ خرانہ جب بجٹ پیش کررہے ہوتے
ہیں انہیں خود اندازہ نہیں ہوتاوہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔جب سے حکومت نے اداروں
اور محکموں کو خود مختاربنایا ہے انہیں شتربے مہارآزادی مل کئی ہے ان کا
بااثر لوگوں پر تو کوئی زور نہیں چلتا لیکن انہوں نے غریبوں کا جینا
ضرورمشکل کردیا ہے وہ سارا سال مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سروسز چارجز
بڑھاتے رہتے ہیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بجلی کے نرخوں میں تو سال
بھر کمی بیشی ہوتی رہتی ہے کمی کیا ہونی ہے اکثر ریٹ بڑھا دیئے جاتے ہیں
عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ،بڑے بڑے سیاستدانوں حتی کہ اپوزیشن
رہنماؤں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی ہیں۔حکمران عوامی مسائل اور
مشکلات سے لاتعلق ہو چکے ہیں جب بھی بجٹ آتا ہے ناقدین، اپوزیشن اور حکومت
مخالف رہنماؤں کو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا غبار نکالنے یا بیان بازی کا
ایک بہانہ میسر آ جاتاہے بجٹ کے حقیقی خدو خال پر کوئی غور کرنا پسند ہی
نہیں کرتا اس ملک میں ہر روز منی بجٹ آتاہے ،ہرروز چیزوں کے نئے ریٹ عوام
کا منہ چڑارہے ہوتے ہیں بنیادی طورپراس کی ذمہ دار حکومت ہے جس کی کسی بھی
معاملہ پر گرپ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے چھوٹے گروپ بھی حکومتی رٹ
کیلئے چیلنج بن گئے ہیں اس ماحول میں بجٹ کا رونا کوئی کب تک سنتا رہے۔بجلی
اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے اتارچڑھاؤ کی آڑ میں گراں فروشوں کو
چیزیں مہنگی کرنے سے کون روک سکتاہے؟ روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی
مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں ان
حالات میں وزیر ِ خرانہ کا صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ نئے بجٹ میں کوئی نیا
ٹیکس نہیں لگایا جارہا عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا دعوے کو حقیقت بنانے
کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے بھی۔ اس کیلئے
ماحول کو سازگار بنانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے عوام کو حالات کے رحم و کرم
پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی بجٹ کی اہمیت اور
افادیت تواس صورت ہی ممکن ہے کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے اشیاء،ہر قسم کی
یوٹیلٹی سروسز،ادویات کی قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا تعین ایک سال
کیلئے مقرر کرے،کسی ادارے، محکمے یا نیشنل،ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک سال سے
پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اس پر سختی سے عمل کروایا جائے
تو نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ غریب عوام بھی سکھ
کا سانس لے گی ورنہ اس سے بہتر یہ ہے کہ حکومت ہر سال بجٹ پیش کرنے کا تکلف
ہی نہ کرے تو وزیر ِ خرانہ کئی کڑوے کسیلے سوالات سے بچ سکتے ہیں ویسے ایک
دانشورنے سچ کہا تھا جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں جھوٹ۔سفید جھوٹ اور
اعدادوشمار اور اس سال پھر حکومت اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں الجھا کر
عوام کو الفاظ کے ہیرپھیر سے مات دیدے گی یہی عام پاکستانی کا مقدرہے عوام
ہرسال حکومت سے امید کرتے ہیں کہ اب کی بار بجٹ میں اعدادو شمارکا گورکھ
دھندا اور الفاظ کی جادو گری نہیں ہوگی غریبوں کی فلاح کیلئے حقیقی اقدامات
کئے جائیں گے۔یہ ایسا بجٹ ثابت ہوگاجس سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا ہم دعا
گو ہیں کہ اﷲ کرے ایسا ہی ہو حکمرانوں سے کوئی امید تو نہیں لیکن اﷲ کے
حضور دعا مانگنے میں ہرج کیاہے ۔ ایک بات ہم کہے بغیر نہیں رہ سکتے ٹیکس
نیٹ میں اضافہ اور ٹیکس چوری کا خاتمہ کئے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں
موجودہ حکومت کا یہ انکشاف کہ ٹیکسزگذشتہ سال کے مقابلے میں کم وصول ہوئے
ہیں یہی حکومتی نااہلی کا بین ثبوت ہے وزیر ِ خزانہ اپنی ناکامیوں اور اپنی
ٹیم کی نااہلی کا انتقام عام آدمی سے کیوں لینے کی کوشش کررہے ہیں وہ کچھ
کرکے دکھائیں کیونکہ میں اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری
زیادہ دیرتک نہیں چل سکتی۔ |