بچوں میں ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کی ضرورت

ہم ٹیکنالوجی کو اس کے منفی اثرات کی بناء پر آئے دن کوستے رہتے ہیں ، ہم سوشل میڈیا پر برپا ہونے والی طوفان بد تمیزی سے سخت نالاں ہیں اور بچوں میں برقی گیجیٹ کے لامتناہی استعمال سے والدین پریشان ہیں۔ ان تمام تر خرابیوں یا منفی اثرات کے باوجود ہم ٹیکنالوجی کے استعمال سے باز نہیں آتے ، سوشل میڈیا میں گھس کر پسند اورناپسند اور پوسٹنگ و شئیرنگ کرتے رہتے ہیں اور خود بچوں کے ہاتھوں میں کتاب کی بجائے برقی گیجیٹ دیتے ہیں اور تو چھوڑیں ، اگر بچہ رو رہا ہوتا ہے تو اس کو سمجھنے اور سمجھانے کی فرصت ہمارے پاس نہیں ہوتی ہے ، فوراً موبائل فون ہاتھ میں تھما کر رونے کا علاج کر دیتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ٹیکنالوجی کے منفی اثرات کے ساتھ ساتھ بے شمار فوائد اور مثبت پہلو بھی ہیں ، سوشل میڈیا کا بامقصد استعمال ہمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی کا ذریعہ بن سکتا ہے اور برقی گیجیٹ کے متوازن اور تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال بچوں میں تعلیمی و تخلیقی استعداد بڑھا سکتا ہے۔ افسوس ! ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیاں منفی سوچوں کے جال میں گِھر چکی ہیں اور ہمیں جو نظر آتا وہ مثبت پہلوؤں کی بجائے سب کچھ منفی ہوتا ہے اور پھر ہم اسی سمت آگے بہتے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے واپسی کا رستہ کٹھن اور مشکل ہوجاتا ہے اور ہمیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ آیا ہم ٹیکنالوجی میں کھو گئے ہیں یا ٹیکنالوجی ہم میں سرایت کر گئی ہے۔ بقول ِ شاعر۔
اُلجھا رہی ہے مجھ کو یہی کشمکش مسلسل محسن ؔ
وہ آبسا ہے مجھ میں یا میں اُس میں کھو گیا ہوں

اس کشمکش کی صورت میں سے نکلنے کے لئے مثبت سوچ اختیار کرنا ہوگی ، پھر ہمیں مثبت پہلو نمایاں نظر آئیں گے اور تب ہی ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال ممکن ہوگا جس سے ہم بھر پور استفادہ اٹھا سکیں گے۔ میری یہ ساری تمہید ماہ ِ شعبان کے آخری ’’ مصروف ترین اتوار‘‘ اور بچوں کے تفریح سے متعلق مطالبے کے حوالے سے ہے۔ یوں تو ہر اتوار کو مصروفیات کا انبار منہ چڑائے بیٹھا ہوتا ہے لیکن اس اتوار کو اُنتیس شعبان تھی ، یعنی اگلے دن رمضان کا پہلا روزہ متوقع تھا۔ لہٰذا کام حد سے زیادہ تھے۔ درحقیقت ہم ہفتہ بھر کے کام اپنے اوقات میں نہیں کرتے اور اُن کو اتوار کے لئے چھوڑتے جاتے ہیں جو پہاڑ کی مانند بن جاتے ہیں۔حالاں کہ اگر ’آج کا کام کل پر مت چھوڑو ‘ کی سنہری ضرب المثل پر عمل کیا جائے تو شاید یہ نوبت نہ آئے لیکن ہماری ریت ہی نرالی ٹھہری ہے کہ آج کے کام کی بجائے، ہفتوں کے کام التواء کا شکار ہوتے ہیں اور اُن کے لئے اتوار کا دن مختص ہوتا ہے۔ خیر، کام تو انسان کی زندگی کے ساتھ نتھی ہوتے ہیں اور جو ختم ہونے کا نام تک نہیں لیتے۔ البتہ مقررہ وقت پر کاموں کی انجام دہی اور بہترین منصوبہ بندی اِن کو اپنے قابو میں رکھ سکتی ہے۔ بچوں کا مطالبہ تھا کہ کافی عرصہ ہوچکا ہے اور انہوں نے کسی پارک وغیرہ میں تفریح نہیں کی لہٰذا آج تفریح کا پروگرام بنایا جائے۔ تھوڑی دیر کے لئے میں سوچوں میں گُم ہوگیا ۔ بچوں کا مطالبہ اپنی جگہ ٹھیک تھا لیکن آج کے دن کے لئے ٹالے گئے کاموں کا کیا بنے گا۔ سارا مسئلہ یہی تھا۔ تھوڑی سوچ و بچار کے بعد میں نے اپنا موبائل فون جیب سے نکالا اور اُس پر انٹرنیٹ ڈیٹا آن کیا۔ فیس بُک ، واٹس ایپ اور آئی ایم او چیک کئے، خوش قسمتی سے میرا پُرانا اور قریبی دوست محمد اسحاق سعودی عرب کے شہر جدہ سے آن لائن تھا۔گزشتہ دس ، بارہ سال سے وہ وہاں بسلسلۂ روزگار مقیم ہے جہاں وہ ایک پلاسٹک پائپ بنانے والی فیکٹری میں ملازمت کرتا ہے۔ دعا و سلام کے بعد میں نے اُس کو بتلایا کہ آج بچوں کا تفریح کرنے کا موڈ ہے اور وہ مجھ سے بار بار کسی پارک یا تفریح گاہ جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن مجھے فرصت نہیں کیوں کہ کاموں کی ایک لمبی فہرست سامنے پڑی ہے۔ اُس نے بھی بچوں کے مطالبے کو جائز قرار دینے کا فتویٰ صادر فرمادیا۔ میں نے کہا۔ ’’ آج کے دن کام کچھ حد سے زیادہ ہیں اور رمضان المبارک کی تیاری بھی کرنی ہے جس کی وجہ سے بچوں کو گھر سے باہر لے جانے کا پروگرام نہیں بن سکتا ہے ۔ ‘‘ ’’ پھر آپ اس صورت ِحال میں کیا کریں گے ؟ ‘‘۔ انہوں نے میری بات کو سمجھتے ہوئے سوال کیا۔ میں نے کہا کہ میرے پاس حل ہے اگر آپ تھوڑی دیر کے لئے میری مدد فرمائیں۔ ’’ کیوں نہیں ‘‘۔ انہوں نے ہامی بھرتے ہوئے کہا۔ ’’ میں حاضر ہوں، آپ حل بتائیں ۔‘‘میں نے اُس کو کہا کہ آپ موبائل فون کا کیمرہ آن کردیں اور آج بچوں کو اپنی فیکٹری کی سیر کروادیں۔ وہ مسکرایا اور کیمرہ آن کردیا۔ میں نے بچوں کے لئے موبائل فون کا پروجیکٹر آن کیا اور کہا کہ آج آپ کو اسحاق انکل جدہ سے پلاسٹک پائپ بنانے کا طریقہ دکھائیں اور سمجھائیں گے۔ اس کے علاوہ فیکٹری کی سیر بھی کراوئیں گے۔ بچے نہایت خوش ہوئے اور اسحاق انکل کے ساتھ قریباً پینتالیس منٹ فیکٹری کی سیر کرتے رہے۔اُس نے انہیں پلاسٹک پائپ کے لئے استعمال ہونے والے خام میٹریل سے لے کر لوڈنگ تک کے مراحل سمجھائے۔ اس کے علاوہ فیکٹری میں استعمال ہونے والی مشینوں اور آلات اور اُن کے فنکشن تفصیل سے بتائے۔ ان پینتالیس منٹوں میں ‘ میں تیار ہوا اور اپنے کاموں کی فہرست جیب میں ڈال کر بچوں کو اﷲ حافظ کہا اور انہوں نے بھی جواباً خوشی خوشی ہاتھ ہلا کر اﷲ حافظ کیا۔

پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں بچوں میں نہ صرف ٹیکنالوجی کے مثبت پہلوؤں کو اُجاگر کرنا ہوگا بلکہ منفی پہلوؤں کے نقصانات اور ان کے اثرات سے آگاہی دینی ہوگی اور یہ ذمہ داری والدین اور اساتذہ نے سر انجام دینی ہوگی۔اس مقصد کے لئے ہمیں چھوٹی چھوٹی مشقوں اور سرگرمیوں کا سہارا لینا پڑے گا تاکہ ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال پروان چڑھے۔
 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301561 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.