یہ کائنات بہت بڑی ہے شاید اتنی بڑی کے یہ الفا ظ بڑا بھی
بہت چھوٹالگتاہے ۔اب تک سب سے طاقتوردوربین ہبل صرف تین ہزار کہکا شائیں ہی
دیکھ سکیں ہے جو بارہ ارب نوری سال میں پہیلی ہوئی ہیں اور ڈاکٹر الیس
جوامریکہ کا نام ور آر ک لو جسٹ ہے اس نے اپنی کتاب میں بڑا ہی دلچسپ داوہ
کیا ہے انسان اس سیارہ یعنی اس زمین کا ریہائشی نہیں ہیـ بلکہ اِسے کسی
دوسرے سیارہ پر تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے اِسے دوسرے سیارہ یعنی زمین
پر پھینک دیا گیا ۔یہ بات غور طلب ہے کہ یہ الفاظ ایک ایسے سائینسدان کے
ہیں جو کسی بھی مذہب پر یقین نہیں رکھتا اور اس کا کہنا ہے کہ انسان جس
ماحول میں پہلی بار تخلیق کیا گیا وہ سیارہ وہ جگہ آرا م د ے اور انتہائی
مناسب ماحول والی تھی وہاں پرانسان بہت ہی نرم ونازک ماحول میں رہتاتھااسکی
نازک مزاجی اور آرام پرست طبیعت سے معلوم ہوتاہے کہ اِسے اپنی روٹی روزی کے
لیے کچھ بھی ترددـ’ نہیں کرنا پڑہتاتھا ۔یہ کوئی لاڈلی مخلوق تھی جسے اِتنی
لطیف زندگی میسر تھی وہ ماحول ایساتھاجہاں سردی اور گرمی کے بجائے موسمِ
بہارکی حکومت تھی، اور وہاں پر سورج جیسے گرم سیارہ کی تیز دھوپ اورالٹرا
وائلیٹ شوائیں بلکل نہیں تھی جو اس کی برداشت سے باہر اورتکلیف دہ ہوتی۔اس
کامزیدیہ کہنا ہے لگتا ہے وہ کوئی طاقتور ہستی ہے جسکے گرفت میں ستاروں
اورسیاروں کا مکمل نِطام بھی تھا وہ جِسے چاہتاجب چاہتاسزا یا جزاکے طور پر
کسی بھی سیارہ پر پہنچاسکتا تھا وہ مختلف قِسم کی مخلوقات کو پیداکرنے میں
اختیاررکھتاتھا،ڈاکٹرالیس سلورکاکہنا ہے کہ یہ ممکن ہے زمین کسی ایسی جگہ
کی مانند تھی جِسے جیل قرار دیاجاسکتا ہے جہاں صرف مجرموں کو سزاکے
طورپربھیجاجاتاہوخشکی کے ایسے ٹکڑے کی شکل جسکے چاروں طرف سمندرہی
سمندرہووہاں انسانوں کوبھیج دیاگیاہے اگراس بات پر ہم غور کریں کہ ڈاکٹر
الیس سلورایک سائنسدان ہے جو مشاہدات کے نتائج حاصل کر نے کے بعد ہی کوئی
رائے قائم کرتا ہے اس کی کتاب میں سائنسی دلائل کا ایک انبار ہے جو انسان
کو سونچنے پر مجبور کر دیتا ہے اور اس کی دلائل کی بڑی وجہ جن حوالوں پر ہے
ان میں سے چند ایک ثابِت شدا ہے زمین کی کشِشِ ثقل اور انسان جہاں سے آیا
ہے اس سیارہ کی کشِشِ ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے جس سیارہ سے انسان آیا ہے
وہاں زمین کے مقابلے کشِشِ ثقل کم تھی جس کی وجہ سے انسان کے لیے چلنا
پھِرنابوجھ اٹھانا بہت آسان تھا انسانوں کے اندر کمر درد کی شکایات کشِشِ
ثقل کی وجہ سے ہے انسان کے اندر جِتنے دائمی امراض پائے جاتے ہیں وہ زمین
پر رہنے والے کسی بھی مخلوق میں نہیں پائے جاتے ڈاکٹر الیس سلور لکھتا ہے
کہ آپ اس روئے زمین میں کوئی ایک انسان بھی دکھا دیں جِسے کوئی بھی بیماری
نہ ہومیں اپنے داوے سے دست بردار ہو جاؤں گا جبکہ میں آپ کو ہر جانور کے
بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ وقتی اور آرزی بیماری کو چھوڑ کر ایک بھی مرز
ض میں ایک بھی جانور گرفتار نہیں ہے انسان اس سیارہ میں پائے جانے والے
دوسرے جانداروں سے بلکل مختلف ہے اس کا (ڈی، این ،اے)اور جِنس کی تعداد
زمین پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے مختلف ہے اور پیچیدہ ہے۔اِس
ڈاکٹر کا مزید کہنا ہے انسان جس اصل سیارہ میں تخلیق کیا گیا تھا وہاں زمین
جیسا گندہ ماحول نہیں تھا اس کی نرم و نازک جِلدجو سورج کی شواؤں سے سرخ ہو
جا تی ہے اس کی پیدائیشی سیارہ کے مطابق بلکل مناسب بنائی گئی تھی یہ اِتنا
نازک مزاج تھا کہ زمین پر آنے کے بعد بھی اپنے نازک مزاجی کا ماحول پیدا
کرنے کی کوشِش میں لگا رہتا ہے جِس طرح اِسے اپنے سیارہ پر آرام دہ بِستر
پر سونے کی عادت تھی وہ زمین پر آنے کے بعدبھی اس کوشِش میں لگا رہتا ہے کہ
زیادہ سے زیادہ آرام دہ زِندگی گزار سکوں جیسے خوبصورت قیمتی مصبوت مکانات
وہاں میسر تھے وہ اب بھی اِیسے گھر بنانے کی کوشِش کرتا رہتا ہے جبکہ باقی
سب جانور اِس سے بِے نیاز ہیں یہاں زمین کی مخلوق عقل سے عاری ہیں اور غیر
منصوبہ ساز زندگی گزانے کے عادی ہیں جن کو نہ اچھا سونچنے کی توفیق ہے نہ
ہی اچھا رہنے کی ۔انسان اِن مخلوقات کو دیکھ کر ویحشی ہو گیا ہے جبکہ اِس
کی اصلیت محبت امن و سکون کی زندگی تھی۔ یہ ایک اِسا قیدی ہے جِسے سزاکے
طور پر زمین پر بھیج دیا گیا ہے تا کہ اپنی سزا کا دورانیا گزار کر واپس
آجائے ڈاکٹر الیس کا کہنا ہے کہ انسان کی ترقی اور عقل و شعور سے اندازہ
ہوتا ہے کہ اس کو اپنے سیارے سے زمین پر آئے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں بلکہ
ابھی کچھ ہزار سال ہی گزرے ہیں کیونکہ یہ اپنی زندگی اپنے اصل سیارہ کی طرح
لطیف اور آرام دہ بنانے کے لیے کوشِش کر رہا ہے کبھی گاڑیاں ایجاد کرتا ہے
تو کبھی موبائل فون اگر اِسے آئے ہوئے چند لاکھ سال بھی گزرے ہوتے تو جو
ایجاداد آج نظر آرہی ہیں وہ چند لاکھ سال پہلے ہی نظر آجاتی کیو نکہ انسان
اتنا گیا گزرا نہیں کہ جانوروں کی طرح بے چارگی کی زندگی گزار سکے ڈاکٹر
الیس سلور کی کتاب میں اِیسے دلائل ہیں جس کو کوئی بھی ابھی تک جھوٹاثابِت
نہیں کر سکا ․اگر اس بات پر غورکیا جائے کے یہ داوے ایک سائنسدان بیان کر
رہا ہے جو کہ داوے نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جِسکا اکثر مذاہب کی الہامی
کتابوں میں ذکر ہے ۔آپ سب ہی حضرت آدم ؑاورحو ّہ ؑکاقصہّ کو اچھی طرح جانتے
ہونگے ۔سائنسدان یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں جو انبیا ؑ اپنی نسلوں کو بتا
تے رہے تھے۔․اِرتکا کے نظریے کو چیلینج کا سامنا ہے اب انسانوں کی سونچ کی
سِمت درست ہو رہی ہے ۔یہ سیارہ ہمارا نہیں ہے اور یہ کہنا ہمارا نہیں ڈاکٹر
الیس سلور کا ہے اور اﷲ تعّالی نے بھی اپنی عظیم کتاب قرآن مجید میں یہ
بتادیا ہے یہ دنیا کی زندگی تمہارے لیے آزمائش ہے یہ تمہارا مستقل ٹھکانہ
نہیں ہے ۔جہاں سے تمہیں تمہارے عمال کے مطابق تمہاری سزااور جزاکا فیصلہ
کیا جائے گا اچھے عمال پر تمہیں وہ جنت ملے گی جہاں کی زندگی انتہائی
خوبصورت اور پرسکون ہے اور وہ ہی تمہارا اصل گھر ہے۔ |