آپؓ کانام ’’فاطمہ‘‘اورآپ ؓحضورنبی اکرم ،نورمجسم ،شاہ
بنی آدم،نبی محتشم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں سب سے چھوٹی
لیکن سب سے زیادہ پیاری اورلاڈلی ہیں۔آپؓ کی ولادت مبارکہ کے سال میں
اختلاف ہے ۔بعض لوگوں نے کہاکہ جب نبی اکرم علیہ افضل الصلوٰۃ واکمل
التسلیم کی عمرشریف اکتالیس41؍ برس کی تھی ،توآپ پیداہوئیں اورکچھ لوگوں نے
لکھاہے کہ اعلان نبوت سے ایک سال قبل ان کی ولادت ہوئی ۔اورعلامہ ابن جوزی
نے تحریر فرمایاہے کہ اعلان نبوت سے پانچ سال پہلے20؍جمادی الثانی بروز
جمعہ مبارکہ جبکہ خانۂ کعبہ کی تعمیرہورہی تھی آپ پردۂ عدم سے منصہ
شہودپرجلوہ گرہوئیں ۔آپ کی تربیت حضوراکرم،نورمجسم،سیدعالم ﷺاورام المؤمنین
حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے فرمائی ۔حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے
انتقال کے بعدرسول خداﷺ نے آپ کی تربیت وپرورش کے لئے حضرت فاطمہ بنت
اسدکاانتخا فرمایا۔جب ان کابھی انتقال ہوگیاتواس وقت آقائے دوجہاں ﷺنے حضرت
ام سلمیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کوان کی تربیت کی ذمہ داری عطافرمادی۔
القاب اورکنیت: آپ کے مشہورالقاب میں ’’زہرا،بتول،محدِّثہ ،خیرالنساء،صدیقہ
اورسیدۃ النساء العالمین‘‘(دنیاوجہاں کی عورتوں کی سردار)ہیں۔مشہورکنیت’’ام
الائمہ،ام السبطین،ام ابیھااورام الحسنین ہیں۔آپ کامشہورترین لقب’’ سیدۃ
النساء العالمین‘‘ایک مشہورحدیث پاک کی وجہ سے پڑاجس میں حضورپاک صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم نے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے متعلق فرمایاکہ وہ دنیاوآخرت
میں عورتوں کی سیدہ(سردار) ہیں۔اس کے علاوہ’’خاتون
جنت،طاہرہ،زکیہ،مرضیہ،سیدہ،عذراء‘‘ وغیرہ بھی القاب کے طورپرملتے ہیں۔
آپؓ کابچپن:حضرت فاطمہ زہرارضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی ابتدئی تربیت
خودسرکاردوعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اوراُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا نے فرمائی۔بچپن ہی میں آپ کی والدۂ ماجدہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہاکاانتقال ہوگیا۔انہوں نے اسلام کاابتدائی زمانہ دیکھااوروہ تمام
تنگی برداشت کی جوآقائے دوجہاں ﷺ نے ابتدائی زمانہ میں قریش کے ہاتھوں
برداشت فرمائی تھی۔حضرت فاطمہ زہرارضی اﷲ تعالیٰ عنہادل کی گہرائی کے ساتھ
اپنے والد مکرم،امام الانبیاء ﷺ کاخیال رکھتی تھیں۔آپ انتہائی خلوص کے ساتھ
اپنے قلب میں موجزن مہربانی اورالفت ومحبت کاسایہ اپنے والدمکرم خاتم
الانبیاء ﷺپر پھیلادیتی تھیں اوراپنے مشن اورذمہ داریوں کی ادائیگی کے
دوران پیغمبراسلام ﷺ کو جوزخم لگتے تھے حضرت فاطمہ زہرارضی اﷲ تعالیٰ
عنہاایک شفیق ماں کی طرح آپ علیہ السلام کامرہم بن جاتی تھیں۔یہاں تک کہ
آقائے دوجہاں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کویہ محسوس ہونے لگتاکہ گویاان کی
والدۂ محترمہ دوبارہ اپنی حقیقی روح کے ساتھ زندہ ہوگئیں ہیں۔یہی وجہ تھی
کہ آپ ﷺ نے اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ زہرارضی اﷲ تعالیٰ عنہاکو’’ام
ابیھا‘‘(اپنے باپ کی ماں)جیسے مقدس لقب سے نوازا۔حضورپاک ﷺ پرپڑنے والے
مصائب وآلام کی وجہ سے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاروتی تھیں توحضورپاک ﷺ اپنی
لاڈلی بیٹی سے فرماتے کہ ائے جان پِدررونے کی ضرورت نہیں ہے خدائے وحدہٗ
لاشرک ضرورتمہارے والد مکرم (ﷺ)کی مددفرمائے گا۔حضرت فاطمہ زہرارضی اﷲ
تعالیٰ عنہاکے بچپن ہی میں ہجرتِ مدینہ طیبہ کاواقعہ ہوا۔حضورپاک علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کولوگوں کی امانتیں واپس
کرنے کے لئے مکہ مکرمہ میں رہنے کاحکم دیاتھا۔امانتیں واپس کرنے کے بعدحضرت
علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضرت فاطمہ بنت اسد،حضرت فاطمہ زہرااورفاطمہ بنت
زبیرجیسی محترم خواتین کاقافلہ لے کرچلے۔ حضرت ام سلمیٰ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہافرماتی ہیں کہ رسول خداصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرارضی
اﷲ تعالیٰ عنہاکو میرے سپرد کیا۔میں نے انہیں ادب سکھاناچاہامگرخدائے رب
ذوالجلال کی قسم فاطمہ تومجھ سے زیادہ مؤدب تھیں اورتمام باتیں مجھ سے
بہترجانتی تھیں۔
آپؓ کانکاح: حضرت فاطمہ زہرارضی اﷲ تعالیٰ عنہاسے شادی کی خواہش کئی لوگوں
نے کی ۔طبقات ابن سعدوغیرہ کے مطابق حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے
اوربعد میں حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے نکاح کرنے کرے بارے میں
پیغام بھیجا مگردونوں حضرات کوحضورپاک ﷺ نے یہ کہ کرانکارفرمادیاکہ مجھے اس
سلسلے میں وحی الٰہی کاانتظارہے۔کچھ عرصہ بعد حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ
الکریم نے اسی خواہش کااظہارکیاتوحضورﷺنے بحکم الٰہی اسے قبول فرمالیا۔ایک
روایت میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:اﷲ تبارک وتعالیٰ نے مجھے حکم فرمایاہے
کہ میں اپنی بیٹی فاطمہ کانکاح علی ؓسے کردوں۔مشہورروایت کے مطابق ۱۸؍سال
اوربعض روایتوں کے مطابق ساڑھے پندرہ سال کی عمر ۲ ھ میں آپ کانکاح
شیرخداعلی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوا۔مَہرکہ جس پرعقداقدس
ہواچارسومثقال چاندی تھی یعنی پورے ایک سوساٹھ روپے بھر(فتاویٰ رضویہ
،ج۵،ص۳۲۵)
آپ کاجہیز: شہنشاہ کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی پیاری اورلاڈلی
بیٹی کو جوجہیز دیاوہ بان کی ایک چارپائی تھی اورچمڑے کاایک گداجس میں روئی
کی جگہ پرکھجورکے پتے بھرے ہوئے تھے اورایک چھاگل ،ایک مشک ،دوچکیاں اورمٹی
کے دوگھرے(سیرالصحابیات،ص۱۰۰)
یہ مختصرجہیزدے کررسول اﷲ ﷺ کی آنکھوں میں آنسوآگئے اورآپ علیہ الصلوٰۃ
والتسلیم نے دعاء فرمائی کہ ائے اﷲ ان پربرکت نازل فرماجن کے اچھے سے اچھے
برتن مٹی کے ہیں۔یہ جہیزاسی رقم سے خریداگیاتھاجوحضرت علی نے اپنی زرہ بیچ
کرحاصل کی تھی۔رخصتی کے جلوس میں حضرت فاطمہ زہرارضی اﷲ تعالیٰ عنہااشہب
نامی ناقہ پرسوارہوئیں جس کے ساربان حضرت سلما ن فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
تھے ۔ازواج مطہرات جلوس کے آگے آگے تھیں بنی ہاشم ننگی تلواریں لئے جلوس کے
ساتھ تھے ۔مسجدکاطواف کرنے کے بعدحضرت فاطمہ زہرارضی اﷲ تعالیٰ عنہا کوحضرت
علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم کے گھرمیں اُتاراگیا۔
ابتک حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضورﷺ کے پاس رہتے تھے شادی کے بعدالگ
گھرکی ضرورت ہوئی توحضرت حارثہ بن نعمان انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپناایک
مکان اُن کودے دیا۔جب حضرت فاطمہ زہرارضی اﷲ تعالیٰ عنہااس نئے گھر میں
گئیں توحضورﷺ نے ان کے یہاں تشریف لے گئے ۔دروازہ پرکھڑے ہوکراجازت طلب کی
پھراندرتشریف لے گئے۔جب عقدنکاح کی رسم اداہوگئی
توحضوراکرم،نورمجسم،سیدعالم ﷺ نے کھجورکاایک تھال منگوایااورحاضرین کے
سامنے رکھ کرفرمایاکہ لے جاکرتقسیم کردو۔پھرحضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
کوفرمایا’’لاتحدث شیئاحتیٰ تلقانی‘‘یعنی میرے حکم کے بے غیرکسی سے بات نہ
کرنا۔اس کے بعدبی بی ام ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہاخاتون جنت حضرت فاطمہ
زہرارضی اﷲ تعالیٰ عنہاکولائیں اوربی بی صاحبہ کوگھرکے ایک کونے میں
بٹھادیااور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ گھرکے دوسرے کونے میں بیٹھے حتٰی کہ
حضورسرورعالم ﷺ تشریف لائے اوربی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاسے فرمایاپانی
لائیے۔بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا شرم وحیاء سے کپڑوں میں چھپی چھپی
ایک پیالے میں پانی لائیں۔ حضورپاک صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم وہ پیالہ لے
کراس میں کلی کی اوربی بی صاحبہ سے فرمایالیجئے اس پانی سے اپنی چھاتیوں
اورسرپرچھینٹے ماریئے اورفرمایا’’اللھم انی اعیذھابک وذریتھامن الشیطان
الرجیم‘‘یعنی ائے اﷲ!میں اسے اوراس کی اولاد کوتیری پناہ میں دیتاہوں اوران
کے لئے شیطان رجیم سے پناہ چاہتاہوں ۔بعدہٗ پھرفرمایا’’ائتونی بماء‘‘پانی
لائیے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ میں سمجھ گیاکہ یہ میرے لئے
ہوگا۔اس لئے میں اٹھااورپانی کاپیالہ بھرلایاآپﷺنے اسے لے کرکلی کرکے پیالے
میں ڈال دی اورمیرے لئے وہی حکم فرمایاجوفاطمہ(رضی اﷲ تعالیٰ
عنہا)کوفرمایاتھا۔پھرمیرے لئے وہی دعامانگی جوفاطمہ(رضی اﷲ تعالیٰ عنہا)کے
لئے مانگی تھی ۔اس کے بعد ہمارے لئے مشترکہ دعاء مانگی:’’اللھم بارک
فیھماوبارک علیھماوبارک لھمافی شملھما‘‘یعنی ائے اﷲ!ان دونوں میں اوران
دونوں کے لئے ان دونوں کے جِماع میں برکت عطافرما۔پھرآپ ﷺنے سورۂ اخلاص
اورمعوذتین پڑھیں اورمجھے(حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو)فرمایا’’ادخل
باھلک باسم اللّٰہ والبرکۃ ‘‘یعنی اپنی اہلیہ کو اﷲ کے نام اوراس کی برکت
سے لے جا۔
شادی کے بعد کی زندگی :آ پ کی شادی کے بعد زَنانِ قریش انہیں طعنے دیتی
تھیں کہ ان کی شادی ایک غریب شخص سے کردی گئی ہے۔جس پرانہوں نے رسالت مآب ﷺ
سے قریش کے عورتوں کی شکایت کی تورسول اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہ زہرارضی اﷲ
تعالیٰ عنہاکوتسلی دی کہ ائے فاطمہ ایسانہیں ہے بلکہ میں نے تیری شادی ایک
ایسے شخص سے کی ہے جواسلام میں سب سے اول ،علم میں سب سے اکمل اورحلم میں
سب سے افضل ہے۔کیاتمہیں نہیں معلوم کہ علی میرابھائی ہے دنیااورآخرت
میں؟۔یہ سُن کرحضرت فاطمہ زہرارضی اﷲ تعالیٰ عنہاخوش ہوکرمسکرانے لگیں
اورعرض کیاکہ یارسول اﷲ ﷺمیں اس پرراضی اورخوش ہوں۔شادی کے بعدآپ کی زندگی
کاایک ایک لمحہ خواتین عالَم کے لئے ایک مثال ہے۔آپ کے حضرت علی رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی مثالی تعلقات تھے ۔کبھی ان سے کسی چیزکاتقاضانہیں
کیا۔ایک دفعہ آپ ؓبیمارپڑگئیں توحضرت علی ؓنے پوچھاکہ کچھ کھانے کودل
چاہتاہے توبتاؤ ۔آپ نے کہاکہ میرے پِدرِبزرگوارنے تاکیدکی ہے کہ میں آپ سے
کسی چیزکاسوال نہ کروں،ممکن ہے کہ آپ اس کوپورانہ کرسکیں اورآپ کورنج ہو۔اس
لئے میں کچھ نہیں کہتی ۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکایہ اُسوہ ٔ حسنہ تمام
خواتین عالَم کے لئے نمونۂ عمل ہے۔
آپ کی گھریلوزندگی: شہنشاہ دوعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی
ہونے کے باوجودحضرت فاطمہ زہرارضی اﷲ تعالیٰ عنہااپنے گھرکاکاروبارخودکرتی
تھیں،جھاڑواپنے مقدس ہاتھ سے دیتی تھیں،خودکھاناپکاتی تھیں بلکہ چکی بھی
اپنے ہاتھ سے پیستی تھیں اورمشک میں پانی بھرکرلایاکرتی تھیں جس سے ہاتھ
پرچھالے اوربدن پرگٹھے پڑگئے تھے۔ایک بارمالِ غنیمت میں کچھ باندی اورغلام
آئے ہوئے تھے ۔آپ نے ڈرتے ڈرتے حضورپاک ﷺ سے گھریلوکاروبارکے لئے ایک لونڈی
مانگی اورہاتھ کے چھالے دکھائے توحضورپاک ﷺ نے فرمایاجانِ پِدر!بدرکے یتیم
بچے تم سے پہلے اس کے مستحق ہیں۔(سیرت الصحابیات)
آپ نے کئی جنگیں بھی دیکھیں جن میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے
نمایاکرداراداکیامگرکبھی یہ نہیں چاہاکہ وہ جنگ میں شریک نہ ہوں اوران کی
جان کوکوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔جنگ اُحدمیں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے
سولہ۱۶؍زخم کھائے اوررسول اکرم ﷺ کاچہرۂ اقدس بھی زخمی ہوامگرآپ نے کسی خوف
وہراس کامظاہرہ نہیں کیااورمرہم پٹی ،علاج اورتلواروں کی صفائی کے فرائض
سرانجام دیئے۔
آپ ؓکے فضائل ومناقب: حضرت سیدہ فاطمہ زہرارضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے فضائل میں
بے شمارحدیثیں واردہیں جن میں سے چندروایتیں ملاحظہ ہوں۔
(۱)بخاری ومسلم شریف کی روایت ہے کہ سرکاراقدس ﷺ نے فرمایا:کہ فاطمہ میرے
گوشت کاایک ٹکڑاہے ۔توجس نے اسے غضبناک کیااس نے مجھے غضبناکیا۔اورایک
روایت میں ہے کہ ناراض کرتی ہے مجھ کووہ چیز
جوفاطمہ کوناراض کرتی ہے اوراذیت دیتی ہے مجھ کووہ چیز جوفاطمہ کواذیت دیتی
ہے(مشکوٰۃ شریف،ص۵۶۸)(۲)آقاعلیہ السلام ارشادفرماتے ہیں کہ ’’فاطمۃ سیدۃ
نساء اھل الجنۃ‘‘یعنی حضرت فاطمہ زہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
جنتی عورتوں کی سردارہیں(بخاری شریف،ج۱،ص۵۳۲)(۳)اورابن عبدالبرروایت کرتے
ہیں کہ رسول کریم علیہ افضل الصلوٰۃ واکمل التسلیم نے حضرت فاطمہ زہرا رضی
اﷲ تعالیٰ عنہاسے فرمایا کہ:ائے بیٹی !کیاتو اس بات پرراضی نہیں ہوکہ تم
سارے جہاں کی عورتوں کی سردارہو؟ حضرت فاطمہ زہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہانے عرض
کیااباجان پھرحضرت مریم کاکیامقام ہے۔حضورﷺ نے فرمایا وہ اپنے زمانے کی
عورتوں کی سردارہیں۔(الشرف المؤبد،ص۵۴)(۴)حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓنے عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ ہم میں سے کون زیادہ آ
پ کومحبوب ہے۔’’مَیں یافاطمہ؟ حضورﷺ نے فرمایا فاطمہ مجھے تم سے زیادہ
محبوب ہے اورتم میرے نزدیک ان سے زیادہ عزت والے ہو۔ (الشرف المؤبد،ص۵۳)
آپ ؓکی وفات: سرکاراقدس ﷺ کے وصال فرمانے کاآپ کوایساسخت صدمہ ہواکہ اس
واقعہ کے بعد کبھی آپ ہنستی ہوئی نہیں دیکھی گئیں یہانتک کہ چھ ماہ بعد
۳؍رمضان المبارک ۱۱ ھ کومنگل کی رات میں آپ نے وفات پائی ۔
آپ کی تجہیز وتکفین میں ایک خاص قسم کی جدت کی گئی اس لئے کہ اس زمانے میں
رواج یہ تھاکہ مردوں کی طرح عوروتوں کاجنازہ بھی بے پردہ
نکالاجاتاتھامگرسیدہ فاطمہ زہراہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکے مزاج اقدس میں چونکہ
انتہائی شرم وحیاتھی اس لئے انہوں نے قبل وفات حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کی بیوی حضرت اسماء بنت عُمیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہاسے فرمایا کہ
کھلے ہوئے جنازہ میں عورتوں کی بے پردگی ہوتی ہے جسے میں ناپسندکرتی ہوں
توانہوں نے حضرت سیدہ کے لیے لکڑیوکاایک گہوارہ بنایاجسے دیکھ کرآپ بہت خوش
ہوئیں ۔عورتوں کے جنازہ پرآج کل جوپردہ لگانے کادستورہے اس کی ابتداء آپ ہی
سے ہوئی ۔حضرت علی یاحضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنھمانے آپ کی نمازجنازہ
پڑھائی اورصحیح ومختار قول یہی ہے کہ آپ جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔(مدارج
النبوۃ ) |