قرآن کریم : پارہ 3 (تِلْکَ الرُّسُلُ ) خلاصہ

قرآن کریم کا پارہ نمبر3((تِلْکَ الرُّسُلُ ) ) سورۃ البقرۃ کی آخری 34 آیات یعنی آیت نمبر253 سے آیت نمبر286 پر مشتمل ہے ۔ سورۃ البقرہ کے آٹھ رکو اس پارے کے شروع میں شامل ہیں ۔ پارہ 3کی دوسری سورہ ’’سورۃ آلِ عمران ‘‘ ہے ۔ قرآن کریم کی یہ سورۃ البقرہ کی طرح طویل سورۃ ہے ۔ یہ مدنی سورۃ ہے، قرآن پاک میں ترتیب کے اعتبار سے تیسری اور نزول کے اعتبار 89 ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 20 رکو ہیں جو 200 آیات میں تقسیم ہیں ۔ پارہ نمبر 3 میں سورہ آلِ عمرٰن کے 9 رکو 91آیات شامل ہیں ۔ عمران حضرت مریم ;230; کے والد بزرگوار کا نام ہے ، آلِ عمران کا مطلب ہے عمران کا خاندان ، سورہ آل عمران کی آیات33تا37 میں اس خاندان کے بارے میں تفصیل سے ذکر آیا ہے ۔ اس وجہ سے اس سورہ کا نام آل ِ عمران ہے ۔

پارہ تِلْکَ الرُّسُل میں ابتدائی 34آیات سورۃ البقرہ کی ہیں ، ان میں اللہ تبارک و تعا لیٰ نے رسولوں کو فضیلت دینے کی بات کی ہے، اللہ کا فرمان ہے کہ اس نے بعض رسولوں کو بعض رسولوں پر فضیلت دی ہے، ا ن میں سے کوئی ایسا تھا جس سے اللہ ہم کلام ہوا، عیسی بن مریم کی مدد کی رُوح القدس سے ۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے ، حضرت ابو امامہ ;230; روایت کرتے ہیں کہ ’ میں نے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ دوروشن سورتیں یعنی بقرہ اور آلِ عمران پڑھا کرو‘ ۔

آیت الکرسی

آیت الکرسی کی فضیلت اور اہمیت ہم سب پر عیاں ہے، آیت الکرسی پارہ تِلْکَ الرُّسُل کی سورہ البقرہ کی آیت 255ہے ۔ اس آیت میں پروردگار کی صفات کا بیان ہے

’’اللہ! کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اُس کے زندہ جاوید ہے ، پوری کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، نہیں آتی اس کو اونگھ اور نیند ۔ اسی کا ہے جو کچھ ہے آسمان میں اور جو کچھ زمین میں ۔ کون ہے جو سفارش کر سکے اس کی اجازت کے بغیر ۔ وہ جانتا ہے اُسے بھی جو بندوں کے سامنے ہے اور وہ بھی جو ان سے اوجھل ہے اور نہیں احاطہ کر سکتے وہ، ذرا بھی اس کے علم میں سے مگر جس قدر وہ چاہے ، حاوی ہے اس کی کُرسی آسمانوں زمین پر، اور نہیں تھکاتی اس کو نگہبانی ان دونوں کی ، اور وہی ہے برتراور عظیم‘‘ ۔

آیت الکرسی کے حوالے سے متعدداحادیث مبارکہ میں ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے اس آیت کی فضیلت بیان فرمائی ۔ سید نا ابو امامہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ’’جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے گا اسے جنت میں سوائے موت کے کوئی چیز نہیں روک سکتی‘‘ ۔ ابن کثیر رحمہ کا کہنا ہے کہ ’یہ آیت کرسی جس کی فضیلت آپ ﷺ کی صحیح حدیث میں ہے کہ کتاب اللہ میں یہ سب سے افضل آیت ہے‘ ۔ ایک اور حدیث جس کے راوی حضرت ابو ھریرہ ;230; ہیں بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کہ ’’سورۃ البقرہ میں ایک آیت ایسی ہے جو کہ قرآن کی سردار ہے وہ جس گھر میں پڑھی جاتی ہے اس سے شیطان نکل بھاگتا ہے وہ ہے آیت الکرسی‘‘ ۔

آیت الکرسی کے بعد حضرت ابراہیم ;230; اور ان کے رب کے بارے میں جھگڑا کرنے والے شخص کا ذکر ہے جسے اللہ نے سلطنت عطا کی ہوئی تھی ، وہ تھا نمرود بادشاہ ، اس نے ابراہیم;230; سے کہا کہ’ وہ زندگی بخشتا ہے اور مارتا بھی ہے) یعنی نمرود، جس کے جواب میں حضرت ابراہیم;230; نے اس سے کہا ’’اللہ تو نکالتا ہے سورج کومشرق سے، ذرا نکال لا تو اس کو مغرب سے ‘‘ ابرہیم ;230; کے اس جواب پر وہ حواس باختہ ہوکر رہ گیا ۔ اسی جگہ حضرت ابرہیم;230; کا یہ واقعہ بھی موجود ہے جس میں انہوں نے مردوں کو زندہ کرنے کی فرمائش کی اور اللہ نے اپنی قدرت سے انہیں یہ منظر بھی دکھادیا، آیت 260 میں اللہ نے کہا کہ ابرہیم ;230; سے ’’اچھا تو لے لو چار پرندے اور مانوس کر لو اُنہیں اپنے ساتھ پھر رکھ دواو پر پہاڑ پر ان کا ا یک ایک ٹکڑا پھر پکارواُنہیں چلے آئیں گے وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے ‘‘ ۔ اور ایسا ہی ہوا ۔ بے شک اللہ ہر چیزپر قدرت رکھتا ہے ۔ اسی طرح حضرت عزیر;230; نے ایک تباہ حال بستی دیکھی جس کی جھتیں الٹی پڑیں تھیں ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اللہ اس بستی کو دوبارہ کیسے آباد کرے گا، اللہ نے سو سال کے لیے ان پر موت طاری کردی ، پھر انہیں زندہ کیا اور بستی آباد کی، پوچھا ایک شخص سے کہ تم کتنے عرصے سوئے رہے اس نے کہا کہ ایک رات ۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ اسی سورہ بقرہ میں مردوں کو زندہ کرنے کی بات پانچ جگہ آئی ہے، پہلے گائیں کا گوشت جسم کے ساتھ لگانے سے زندہ ہونا، بنی اسرائیل جنہوں نے رویتِ باری کا مطالبہ کیا تھا، اس قوم کے حوالے سے جو طاعون سے بچنے کے یے گھروں سے بھاگ کھڑی ہوئی تھی، اور پھر حضرت عزیر;174; اور حضرت ابراہیم ;174; کے قصے میں ۔ اللہ کی راہ میں صدق وخیرات اور مدد کرنے کا ذکر ہے ۔ سود کو حرام قرار دیا گیا ۔ سود خور کو اس شخص سے تشبیہ دی گی ہے جو جننات اور شیاطین کے اثرات کی وجہ سے خبطی اور دیوانے ہوجاتے ہیں ۔ لین دین کے بارے میں البقرہ کی آیت 282ہے ، جس میں کہاگیا کہ جب بھی لین دین یا ادھار کا سودا کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور تحریر لکھوائے وہ شخص جس پر قرض ہے، یہاں گواہ بنانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ کلام پاک کی سورہ البقرہ طویل تر سورہ ہے جس میں زندگی کے اہم ترین مسائل کا بیان آیا ہے ۔ اس کی سورہ 285ا میں للہ نے اپنے بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے واضح طور پر کہہ دیا کہ ’’اللہ کسی بھی انسان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا‘‘ ۔

سورہ البقرہ کی آخری آیات کی بہت فضیلت اور اہمیت ہے ۔ یہ دعائیہ کلمات بہت جامع ہیں ۔ ہر نماز کے بعد، دیگر موقع پر اللہ سے گڑ گڑ اکر ، رو رو کر اللہ کے سامنے بیان کرنے چاہیے ۔ دعائیہ کلمات پر سورہ البقرہ کا اختتام ہوتا ہے ۔ ممکن ہو تو ہر مسلمان کو یہ آخری آیات یاد کر لینی چاہیں ۔ ذیل میں ان کا ترجمہ پیش ہے ۔ یہ دعائیہ کلمات ’’آمَنَ الرَّ سُوْ لُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیہِ‘‘ سے ’’عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِ یْنَ‘‘ تک ہیں ۔ ترجمہ :

ایمان لایا رسول;174; اس (ہدایت) پر جو نازل ہو ئی اُس کی طرف اس کے رب کی طرف سے اور مومن بھی ایمان لائے، یہ سب ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اس کے رسُولوں پر ، نہیں فرق کرتے ہم اس کے رسُولوں کے درمیان کسی ایک میں دوسرے سے اور کہا اُنہوں نے کہ سُنا ہم نے اور اطاعت کی، طالب ہیں ہم تیری بخشش کے، اے ہمارے رب ! اور تیری ہی طرف لوٹ کر ناجانا ہے ۔ نہیں ذمہ داری کا بوجھ ڈالتا اللہ کسی شخص پر مگر اس کی قوتِ برداشت کے مطابق ۔ اسی کے لیے وہ نیکی جو اس نے کمائی اور اسی پر ہے وبال اس بدی کا جو اس نے کمائی، ۔ اے ہمارے رب! نہ مواخذہ کرنا اگر بُھول یا چُوک ہوجائے ہم سے ۔ اے ہمارے رب!اور نہ ڈالیو ہم پر بھاری بوجھ جیسا کہ ڈالا تو نے ان لوگوں پر جو ہم سے پہلے تھے، اے ہمارے رب! اور نہ اُٹھوائیو ہم سے ایسا بار نہ ہوطاقت ہم میں جس کی ۔ اور ہ میں معاف فرمادے اور ہ میں بخش دے اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا مولا ہے پس ہماری مددفرما ، کافروں کے مقابلے میں ‘‘ ۔

سورۃ آلِ عمران

سورہ آلِ عمران کے بارے میں تعارفی باتیں اوپر بیان کی جاچکی ہیں ۔ سورہ البقرہ کے بعد سورہ آل عمران کا آغاز ہوتا ہے ۔ تیسرے پارہ کے 8رکوع تو سورہ البقرہ پر مشتمل تھے ، اب نویں رکوع سے سورہ آلِ عمران کی ابتداء ہوتی ہے ۔ سورۃ آلِ عمران کی زیادہ ترآیات اس زمانے میں نازل ہوئیں جب مسلمانوں نے مکہ المکرمہ سے مدینہ المنورہ ہجرت کی، کفار نے مسلمانوں کو مدینہ میں بھی چین نہ لینے دیا اور وہ طرح طرح کی مشکلات کا شکار رہے ۔ پہلے غزوہَ بدر پیش آیا ، غزوہَ بدر میں اللہ نے مسلمانوں کو غیر معمولی فتح سے ہم کنار کیا، جب کے کفار کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا، غزوہَ بدر کی شکست کفار کو برداشت نہیں ہورہی تھی، انہوں نے مسلمانوں سے بدلہ لینے کی تیاریاں شروع کردیں اور ایک سال بعد ہی مدینہ منورہ پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں غزوہَ احد ہوئی ، اس میں مسلمانوں کو وقتی یا عارضی طور پر پسپائی اختیار کرنا پڑی ۔ ان دونوں غزوات کا ذکر سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے کیا ، اس کے بارے میں مختلف مسائل پر قیمتی ہدایات بھی عطا فرمائی گئی ہیں ۔ آیت 33 میں فرمان خدا وندی کچھ اس طرح سے ہوا ’’بے شک اللہ نے منتخب فرمایا آدم ;174; کو اور نوح;174; کو اور آلِ ابراہیم;174; کواورآلِ عمران کو اہل عالم کی رہنمائی کے لیے ۔ یہ اولاد تھے ایک دوسرے کی اور اللہ ہربات سننے والا ، سب کچھ جاننے والا ہے ‘‘ ۔

فوری بعد کی آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت مریم ;230; کے والد عمران ، اللہ کے نیک بندے تھے، اولاد سے محروم بھی ، ایک دن انہوں نے ایک پرندے کو دیکھا کہ وہ اپنے بچے کو دانہ کھلا رہا تھا ، یہ دیکھ کر دل میں اولاد کی آرزو پیدا ہوئی ، اللہ کے حضور اپنی خواہش اور دعا کے ساتھ منت مانی کے اگر میرے بیٹا ہوا تو اسے میں بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کردوں گی، اللہ نے دعا قبول کی، لیکن جب اس کی مراد پوری ہوئی تو اس کے بیٹا نہیں بلکہ بیٹی پیدا ہوئی ، سورہ آل عمران کی آیت35 میں اس بات کا ذکر کچھ اس طرح سے ہے ’’وہ اس وقت بھی سن رہا تھا جب کہا تھا عمران کی عورت نے اے میرے رب! بے شک میں نے نذر مانی ہے تیرے حضور کہ جو کچھ میرے پیٹ میں ہے، وہ تیرے نام پر آزاد ہوگا، سو قبول فرما مجھ سے ، بے شک تو ہے ہر بات کا سننے والا ، سب کچھ جاننے والا ، پھر جب پیدا ہوئی اس کے ہاں وہ بچی تو بولی اے میرے رب میرے ہاں تو پیداہوئی ہے لڑکی جب کہ اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ درحقیقت اس نے کیا جنا ہے اور نہیں ہے کوئی لڑکا اس لڑکی جیسا اور میں نے نام رکھا اس کا’ مریم ‘اور میں پناہ میں دیتی ہوں اسے تیری اور اس کی اولاد کو بھی شیطان مردود سے بچا نے کے لیے‘‘ ۔ یہ لڑکی مریم ;230; تھی جس کی پرورش اللہ نے زکریا ;174; کے سپرد کرائی، زکریا;174; کا کہنا تھا کہ وہ جب بھی اس لڑکی کے پاس جاتے تو اس کے پاس کھانے پینے کا سامان دیکھتے تو کہتے کہ اے مریم یہ سب کچھ کہاں سے آیا تو وہ لڑکی کہتی اللہ کے ہاں سے ۔ حضرت زکریا کی عمر طویل ہوچکی تھی کوئی سو سال کی ، ان کی بیوی بھی بانجھ تھی لیکن انہیں حسرت ہوئی کہ اللہ انہیں بھی ایسی ہی اولاد سے نواز دے تو کیا بات ہے، اللہ نے زکریا;174; کی فریاد سنی تو بشارت دی زکریا ;174; کو، اللہ اسے اولاد سے نوازے گا اور ایسا ہی ہوا حضرت زکریا;174; کو بڑھاپے میں حضرت یحیٰ عطا کیے ۔ زکریا نے اللہ سے کہا کہ اے میرے رب کیوں کر ہوگا میرے ہاں لڑکا جب کہ میں ہوچکا ہوں بوڑھا اور بیوی میری بانجھ ہے ، اللہ کا جواب سورہ آل عمران کی آیت 40 میں ’’جواب دیا ’’اسی طرح‘‘ اللہ کرتا ہے جو چاہے‘‘ ۔

سورۃ آلِ عمران کا تیسرا واقعہ اوپر بیان کیے جانے والے واقعات سے مختلف ہے ۔ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ ;174; کی ولادت کا ہے ، حضرت مریم ;230; اور حضرت یحییٰ کے والدین تو ضعیف العمر تھے ، ان کے ہاں ولادت کا ہونا لیکن حضرت عیسیٰ ;174; کا واقعہ قدرِ مختلف ہے اس لیے کہ آپ کی ولادت ، والد کے بغیر ہوئی ، جو ایک معجزہ تھا ۔ فرشتوں نے حضرت مریم کو بیٹے کی خبر دی تو انہوں نے حیرت سے کہا ’’میرے ہاں بچہ کیسے پیدا ہوگا;238;مجھے تو کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگایا ، اللہ کی جانب سے جواب دیا گیا کہ ’اسی طرح ہوجائے گا کیونکہ اللہ جو چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے، جب وہ کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اس سے کہتا ہے ہوجا پس وہ ہوجاتا ہے ۔ یہاں حضرت عیسیٰ ;174; کا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا، قیامت کے نذدیک ان کا دنیا میں تشریف لانا اور اپنی زندگی پوری کرنا ، یہ تو مسلمانون کا عقیدہ ہے، اس کے برعکس عیسائیوں کی رائے مختلف ہے ۔ اس سے ہ میں کوئی غرض نہیں ، ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ہمارے رب نے سورہ آل عمران کی آیت 55 میں فرمادیا کہ ’’جس وقت اللہ نے فرمایا میں اس وقت موت دونگا جو وقت موت کے لیے مقرر ہے اور فی الحال میں آپ کو اپنی جانب اٹھا لیتا ہوں اور میں تجھے کافروں کے الزامات سے پاک کیے دیتا ہوں اور تیری اتباع کرنے والوں کو قیامت کے دن کافروں پر غالب کردوں گا‘ ۔ نجران کے عیسائیوں سے بحث و مباحثہ کرنا ، پھر انہیں مباہلہ کی دعوت دینے کا ذکر ہے ۔ مباہلہ سے مراد یہ تھی کہ ج کفار دلائل سننے کے بعد بھی حق کا اعتراف کرنے پر تیار نہ ہوئے تو اللہ کے حم سے آپ ﷺ نے انہیں مباہلہ کا دعوت دی ۔ یعنی یہ کہ تم اپنے اہل وعیال کو لے آوَہم اپنے اہل و عیال کو لے آتے ہیں ، پھر ہم مل کر خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو ۔ اہل کتاب کو دعوت دی گئی ہے کہ آو ایک ایسی بات کی طرف جو یکساں ہے ہمارے ہاں اور تمہارے ہاں ، ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ، ہم سوائے اللہ کے کسی کو نہ مانے، کہا گیا کہ اے اہل کتاب کیوں انکار کرتے ہو تم اللہ کی آیات کا جب کہ تم خود گواہ ہو کہ وہ حق ہیں ، اے اہل کتاب! کیوں گڈ مڈ کرتے ہو حق کو باطل کے ساتھ اور کیوں چھپاتے ہو حق کو جب کہ تم جانتے ہو کہ حق کیا ہے ۔ آخر میں حقیقی گمراہ ہونے والوں ، کفر اختیار کرنے والوں ، دنیا سے گئے بھی کفر کی حالت میں ایسے لوگوں کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی، ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب کی نوید دی گئی ہے ۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438864 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More