قرآن کریم: پارہ 2 (سَیَقُول) خلاصہ

قرآن کریم کا پارہ نمبر ۲( سیقول ) سورة البقرة کی آیت نمبر 142سے 252پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ پارہ اول کے خلاصے میں بیان کیا گیا کہ قرآن کریم کی سورة البقرہ قرآن کی سب سے بڑی سورة ہے ۔ یہ کل 286آیات پر مشتمل ہے۔ 141ابتدائی آیات پارہ اول میں ، 111آیات پارہ نمبر 2میں اور 34آیات پارہ نمبر 3میں ہیں۔ اس طرح سورة البقرہ قرآن کریم کے ابتدائی تقریباً ڈًھائی پاروں پر مشتمل سورہ ہے۔ سورة البقرہ کے بارے میں ابتدائی باتیں پہلے خلاصے میں بیان کی جاچکی ہیں۔ دوسرے پارہ کی ابتدا 142ویں آیت سے ہوتی ہے اور آیت نمبر 252پر اس کا اختتام ہوگا۔

تحویل قبلہ
مکہ المکرمہ سے مدینہ المنورہجرت کیے ہوئے ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کو سولہ یا سترہ ماہ ہی ہوئے تھے۔ آپ اور تمام مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کررہے تھے۔ ہمارے نبی ﷺ کی خواہش تھی کہ قبلہ بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی جانب ہو جائے ، اس لیے کہ آپﷺ محسوس فرما رہے تھے کہ بنی اسرائیل کی امامت کا دور ختم ہوچکا اور اس کے ساتھ بیت المقدس کی مرکزیت بھی ختم ہوئی لہٰذا اب اصل مرکز ابراہیمی کی طرف رخ کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ اللہ تو دلوں کے حال بہتر جانتا ہے۔ وحی مبارک نازل ہوئی ، بعض مورخین نے تحویل قبلہ کا حکم رجب یاشعبان 2ھ لکھا ہے۔ سورة البقرہ کی آیت 144نازل ہوئی عین اس وقت جب کہ آپ نماز کی امامت فرمارہے تھے۔ جبرائیل تشریف لائے اور اللہ کا پیغام ہمارے نبی ﷺ کو اس طرح پہنچایا ” بیشک دیکھ رہے ہیں ہم بار بار اُٹھنا تمہارے چہرے کا آسمان کی طرف سو پھیرے دیتے ہیں ہم تمہیں اسی قبلے کی طرف جسے تم پسند کرتے ہو سو پھیر لو تم اپنا رُخ طرف مسجد حرام (خانہ کعبہ) کے اور جہاں بھی ہوا کرو تم پھیر لیا کرو اپنے رُخ نماز میں اسی کی جانب، اور بیشک وہ لوگ جنہیں دی گئی کتابِ الہٰی خوب جانتے ہیں کہ یہی (قبلہ) حق ہے ان کے رب کی طرف سے اورنہیں ہے اللہ بے خبر اُن کاموں سے جو یہ کر رہے ہیں“۔جس مسجد میں تحویل قبلہ کا حکم آیا اسے مسجد قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد کہا گیا ہے ، یہ آج بھی موجود ہے۔ لوگ اس مسجد میں جاتے اور نفل ادا کرتے ہیں۔ راقم کو بھی کئی بار مسجد قبلتین جانے اور نفل ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوچکی ہے۔

سورة البقرہ کی آیت 142اور پارہ دوم کا آغاز ہی اس سورة سے ہوتا ہے۔ جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ”عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا؟ آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت کردے “۔اس آیت کے فوری بعد یعنی آیت143میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ” اور اے مسلمانوں ! ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول ﷺ تم پر گواہ ہوں اور ہم نے آپ کے لیے پہلا قبلہ (بیت المقدس) صرف اس لیے بنایاتھا کہ ہمیں معلوم ہو کہ کون ہے جو رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاوں پھر جاتا ہے۔ یہ قبلہ کی تبدیلی ایک مشکل سی بات تھی مگر ان لوگوں کے لیے (چنداں مشکل نہیں ) جنہیں اللہ نے ہدایت دی ۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ہرگزضائع نہ کرے گا وہ لوگوں کے حق میں بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے“۔ ابنِ سعد کی روایت ہے کہ تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تو اس وقت آپ حضرت محمد ﷺ بشرؓ بن بَرا بن مَعرور کے ہاں دعوت پر گئے ہوئے تھے۔ وہاں ظہر کا وقت آگیا اور آپ صل اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھانے کھڑے ہوئے ۔ دو رکعتیں پڑھاچکے تھے تیسری رکعت میں یکا یک وحی کے ذریعے یہ آیت نازل ہوئی اور اسی وقت آپؑ اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں جماعت کے تمام لوگ بیت المقدس سے کعبے کے رُخ پھر گئے۔ خانہ کعبہ مسجد حرام کے وسط میں واقع ہے ، مسجد حرام کے معنیٰ ہیں حُرمت اور عزت والی مسجد ۔

اگلی آیت میں اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کے لیے بیان ہے کہ انہیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ حقیقت میں زندہ ہیں ، اسی جگہ یہ بھی کہا گیا کہ ”اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصان اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مُبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے ۔ ان حالات میں جولوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے ، تو کہیں کہ ”ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے “۔ انہیں خوشخبری دے دو ۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں“۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو مشکل اور پریشانی میں صبر کرنے کی ہدایت فرمارہے ہیں۔اس کے بعد صَفا اور مَروہ کے درمیان سعی کرنے کا حکم نازل ہوا، اس کی وجہ یہ تھی کہ زمانہ شرک میں صفا پر ”اساف“ اور مَروَہ پر ’نائلہ‘ کے اِستھان بنا لیے گئے تھے اور ان کے گرد طواف ہونے لگا تھا، اس کو سامنے رکھتے ہوئے اہل مدینہ کے دلوں میں سعی بین الصفا و المروہ کے بارے میں مثبت سوچ نہ تھی کیونکہ وہ مَناة کے معتقد تھے اور اِساف و نائلہ کو نہیں مانتے تھے ۔ اس وجہ سے مسجد حرام کو قبلہ مقرر کرنے کے موقع پر اَن غلط فہمیوں کو دُور کردیا گیا ۔ سورة البقرہ ہی میں حرام اشیا ءکی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ ’مردار، بہتا خون، خنزیر کا گوشت اور ہر ایسا جانور جس پر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کا نام پکارا گیا ہو حقیقت میں حرام ہیں، اگر کوئی جان بچانے کے لیے استعمال کرے تو بقدر ضرورت حلال ہے۔ قصاص کا ذکرہے۔قصاص ، یعنی خُون کا بدلہ ، یہ کہ آدمی کے ساتھ وہی کیا جائے جو اُس نے دوسرے آدمی کے ساتھ کیا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قاتل جس طریقے سے مقتول کو قتل کیا ہو، اُسی طریقے سے اس کا قتل کیاجائے بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ جان لینے کا جو فعل اُس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے، وہی اُس کے ساتھ کیاجائے۔ آگے چل کر وصیت کا ذکر ہے، وراثت کے قانون کی تفصیل سورة النساءمیں تفصیل سے آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تقسیمِ وراثت کے لیے خود ایک ضابطہ بنادیا ہے۔ اس کی تفصیل بعد میں سورة النساءمیں بیان کی جائے گی۔ روزہ کی فرضیت کا حکم ہے کہا گیا ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے ، جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ البتہ بیماری کی حالت میں یا سفر کی صورت میں ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرنے کا حکم ہے۔ فدیہ کے بارے میں بتا یا گیا کہ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کوکھاناکھلانا ہے ۔روزوں کی فرضیت کا حکم ہے جس میں کہا گیا کہ ”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے “۔ بندہ کی پکار کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ”اور اے نبیؑ ! میرے بندے، اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دیجئے کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں پکار نے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سُنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں ، یہ بات تم انہیں سنا دو ، شاید کہ وہ راہِ راست پالیں“۔رمضام المبارک میں شوہر اور بیوی کے تعلقات پر قدغن نہیں،البتہ جب مسجدوں میں معتکف ہوں اس وقت ملاپ منع کیا گیا ہے ۔ بیویوں کے لیے کہا گیا کہ ”وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے“۔ چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کا ذکر ہے، جہاد و قتال کے بارے میں کہا گیا کہ” تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو“۔اللہ کی خوشنودی کے لیے حج اور عمرہ کی نیت کرلی جائے تو اسے پورا کرنے کا حکم ہے، حج اور عمرہ کی مکمل تفصیل یہاں بیان کی گئی ہے۔ مال خرچ کرنے کی وضاحت اس طرح کی گئی کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر ، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرواور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہے۔ ماہِ حرام میں لڑنے سے منع کیا گیا ہے۔ مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرنے کا کہا گیا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ خواتین جب حالت حیض میں ہوں تو ان کے نذد یک جانے سے منع کیا گیا ہے، اس لیے کہ وہ ایک گندگی کی حالت ہے۔ جب وہ پاک ہوجائیں تو جاو طرح جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے۔ یہاں کہا گیا کہ ”تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ تمہیں اختیار ہے جس طرح چاہو ، اپنی کھیتی میں جاو مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو“۔ بے معنی قسمیں کھانے سے منع کیا گیا ہے ، خاص طور پر اپنی عورتوں سے تعلق کی قسم کھانے والوں کے لیے یہاں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ طلاق کے مسائل کا بھی ذکر ہے۔ مردوں اور عورتوں کے حقوق کا بیان ہے نمازوں کی نگہداشت کا حکم دیا گیا ہے، شراب اور جوے کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔اللہ کے آگے اس طرح کھڑے ہونا جیسے فرماں بردار غلام کھڑے ہوتے ہیں۔ مرتد کے لیے سزاکا حکم ہے کہ اس کے سارے اعمال باطل ہیں اور وہ جہنم کاحقدار ہے۔ حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرئیل کی جانب سے بادشاہ مقرر کرنے ، اللہ کی راہ میں جنگ کرنے، طالوت کو بادشاہ مقرر کرنے، طالوت اور جالُوت کا واقعہ بیان کیا گیا۔جس میں اللہ کے اذن سے کافروں کو مار بھگایا اور داود نے جالُوت کو قتل کردیا اور اللہ نے اُسے سلطنت اور حکمت سے نوازا ۔سورة251پر پارہ دوم کا اختتام ہوتا ہے۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438960 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More