قرآن کریم : پارہ 6 (لَا یُحِبُّ اللہ ) خلاصہ

لَا یُحِبُّ اللہ‘ قرآن کریم کا چھٹا پارہ ہے ، اس کا مطلب ہے ’’نہیں پسند کرتا اللہ‘‘ ۔ پارہ کا آغاز سورۃ النساء کی آیت148 سے ہوتا ہے، سورہ النساء کا اختتام اسی پارہ میں النساء کی 176ویں آیت پر ہوجائے گا ۔ یعنی پارہ چھ میں سورہ انساء کی آخری 29آیات کا خلاصہ یہاں بیان کیا جائے گا ۔ اس کے بعد سورۃ المَاءِدہ شروع ہوجاتی ہے ۔

پانچویں پارہ کی آخر ی آیت میں بتایا گیا تھاکہ ایمان لانے اور شکر ادا کرنے والا کبھی اللہ کے عذاب کا شکار نہیں ہوسکتا، ایمان اور شکر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاوَ کا ذریعہ ہیں ۔ النساء کی آیت 148 میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے اور اللہ خوب سنتا جانتا ہے‘ ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم یا برائی کرتا ے تو شریعت نے اسے اسی حد تک بدلہ لینے کی اجازت دی ہے جس حد تک اس پر ظلم ہوا ہے ۔ آگے کہا گیا کہ جو لوگ اللہ کے ساتھ اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق رکھیں اور جو لوگ کہتے ہیں کہ بعض نبیوں پر تو ہمارا ایمان ہے اور بعض پر نہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے اور اس کے بین بین کوئی راہ نکالیں ۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے آیت 151’اصلی کافر قرار دیا‘ان کے لیے اللہ نے اہانت آمیز سزا بھی تیار کر رکھی ہے ۔ اس کے برعکس جو لوگ اللہ اور اس کے تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اوران میں سے کسی میں فرق نہیں کرتے ، انہیں پورا ثواب ملے گا ، اللہ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے‘ ۔ یہودیوں نے حضرت بی بی مریم;230; پر جو تہمت لگائی اس کی سختی سے مزمت کی گئی اور انہیں پاک دامن قرار دیا گیا اور حضرت عیسیٰ کو انہوں نے سولی پر جڑھانے کوشش کی اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی اور باعزت طریقے سے آسمان پر اٹھا لیا ۔ نصاریٰ حضرت عیسیٰ کے بارے میں غلو کا شکار تھے عقیدہ تثلیث کے حامل ہوگئے تھے،ان کا عقیدہ یہ تھا کہ خدا یک انہیں بلکہ تین ہیں یعنی باپ، بیٹا اور روح القدس ۔ انہیں سمجھایا گیا کہ تم اپنے دین میں غلو نہ کر و اور حضرت عیسیٰ ;174; کو ان کے اصل مقام سے نہ بڑھاوَ اور یہ مت کہو کہ خدا تین ہیں ۔ پھر جب کہ خود حضرت عیسیٰ ;174; اللہ کے سامنے عاجزی اور عبودیت میں اپنی کوئی ہتک محسوس نہیں کرتے بلکہ عزت کرتے ہیں تو تم کون ہو حضرت عیسیٰ کو خد ا ٹہرانے والے ۔ انہیں آیات میں اللہ کے بنیﷺ کو برہان اور قرآن کو نور قرار دیتے ہوئے تمام انسانوں کو اللہ، بنی حضرت محمد ﷺ اور قرآن پاک پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ آیت 163 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’یقینا ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح ;174; اور ان کے بعد والے بنیوں کی طرف کی‘ اور ہم نے وحَی کی ابرہیم ;174; اور اسماعیل ;174; اور اسحاق ;174; اور یعقوب ;174; اور ان کی اولاد پر اور دعیسی ;174; اور ایوب ;174; اور یونس ;174; اور ہارون ;174; اور سلیمان ;174; کی طرف اور ہم نے داود ;174; کو زبور عطا فرمائی‘ ۔ حضرت موسیٰ سے کالم کرنے کا ذکر ہے، نبی آخری الزماں حضرت محمد ﷺ پر وحی اتارے جانے کے بارے میں اللہ نے اپنی گوہی اور فرشتوں کی گواہی کی بات کی ۔ فرمایاصاف صاف آیت 166 میں ’’جو کچھ آپ کی طرف اتاراہے اس کی بابت خود اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہ کہ اسے اپنے علم سے اتا ارا ہے اور فرشتے بھی گوہی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بطور گواہ کافی ہے‘ ۔ حضرت عیسیٰ اللہ کے بندے اور نبی ہیں اس بات کی وضاحت اللہ نے اس آیت میں اس طرح کی ’ مسیح ;174; کو اللہ کا بندہ ہونے میں کوئی ننگ و عار یا تکبر و انکار ہر گز نہیں ہوستا اور نہ مقرب فرشتوں کو اس کی بندگی سے جو بھی دل چرائے اور تکبر و انکار کرے ‘ اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا اپنی طرف جع کرے گا‘ ۔ سورہ انساء کی آخری آیت 176 میں میراث کا موضوع پرپھر بات ہوئی اور کلالہ کی وضاحت کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ’ اگر کوئی شخص مرجائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کی بہن کے لیے ہے نصف اس کے ترکے کا ، اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس بہن کے اولاد نہ ہو ۔ اگر ہو دو بہنیں یا زائد تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا، اور اگر کئی بھائی بہنیں ، مرد عورتیں ہوں تو مرد کے لیے برابر دو عورتوں کے حصے کے، کھول کھول کر بیان کرتا ہے اللہ تمام کے لیے تاکہ بھٹکتے نہ پھرو تم اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے ‘ ۔

سُورۃُ الْمَاءِدۃ

سُورۃُ الْمَاءِدۃ قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے پانچویں اور نزولِ ترتیب کے اعتبار 112ویں سورۃ ہے ۔ یہ مدینہ منورہ میں آپ ﷺ پر نازل ہوئی اس لیے مدنی سورۃ ہے ۔ اس میں 16رکو اور 120آیات ہیں ۔ چھٹے پارہ میں اس سورہ کی 82 آیات ہیں ۔ مائدہ کے معنی ’’خوان‘‘ کے ہیں ۔ یعنی دستر خوان ، انواع و اقسام کے کھانے ۔ یہاں پارہ چھ میں سُورۃُ الْمَاءِدۃ کی 82آیات کا خلاصہ بیان ہوگا ۔

سُورۃُ الْمَاءِدۃکی ابتدا عہد و پیما کو پورا کرنے سے ہوتی ہے، ارشاد ہوا ،’ اے ایمان والو! عہد و پیما پورے کرو تمام کے لیے مویشی چوپاے حلال کئے گئے بجز ان کے جن کے نام پڑھ کر سنادئے جائیں گے‘ ۔ اللہ کے شائر کی بے حرمتی سے بھی منع فرمایا گیا، شائر سے مراد اہم چیزوں کی تعظیم و حرمت اللہ نے مقرر فرمائی ، بعض مفسرین نے اسے عام رکھا ہے اور بعض کے نزدیک یہاں حج و عمرے کے مناسک مراد ہیں کہ ان کی بے حرمتی اور بے توقیری نہ کرو ۔ حرام جانور کی وضاحت اگلی آیت میں اس طرح کی گئی کہ ’تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جوکسی ضرب سے مرگیا ہو ،چوٹ لگنے سے مرگیا ہو ، اور جو اونچی جگہ سے گر کر مراہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو، لیکن اسے تم ذبح کرڈالو تو حرام نہیں ۔ پھر حلال چیزوں کے حوالے سے اللہ نے فرمایا ’’آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں ‘‘ ۔ پھر کہا گیا کہ کل پاکیزہ چیزیں تمہارے لیے حلاک کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لیے حلال ہے اور تمہا را ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور تم سے پہلے جنہیں کتاب دی گئی ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں ، جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو ۔ یہاں اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت تو دی گئی لیکن پاک دامن ہونے کی قید لگا دی گئی ہے ۔ اہل کتاب عورت سے نکاح تو ہو لیکن ایمان کسی صورت خطرے میں نہ ہونا چاہیے ۔

پاکی اور ناپاکی، طہارت ، وضوع، تیمم اور غسل کے مسائل کا بیان بھی اسی آیت نمبر6 میں بیان ہوئے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا ’اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ کو‘ اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھولو اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنو سمیت دھولو اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کر لو‘ ، گویا یہاں وضوع کا طریقہ بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادیا، اسی جگہ تیمم کا طریقہ بھی بیان ہواہے ۔ جس کا ذکر اس سے پہلے کی سورۃ میں بھی آچکا ہے ۔ اللہ نے عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا کہ دشمنوں کے ساتھ بھی نا انصافی نہ کی جائے ۔ بنی اسرائیل اورحضرت موسیٰ کا ذکر ہے ، ان کی قوم ان کی دعوت سے کیسے فرار ہوئی ۔ ہابیل اور قابیل کا قصہ ہے جس میں نصیحت کی گئی ہے کہ حسد بہت بری چیز ہے اس سے بچنا چاہیے ۔ قابیل نے حسد کی بنیاد پر ہی اپنے بھائی حابیل کو قتل کردیا تھا، یہی حسد یہودیوں میں بھی پایا جاتا تھاجس کی وجہ سے انہوں نے آپ ﷺ کی رسالت کا انکار کیا ۔ سورہ 27 میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’آدم ;174; کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو، ان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا ، ان میں سے ایک کی نذر قبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی، تو وہ کہنے لگا کہ میں تجھے مارہی ڈالوں گا ، اس نے کہا اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے‘ ۔ پھر کہا اس نے ’’گو تو میرے قتل کے لیے دست درازی کرے لیکن میں تیرے قتل کی طرف ہرگز اپنے ہاتھ نہ بڑھاؤں گا میں تو اللہ سے خوف کھاتا ہوں ۔ میں تو چاہتا ہوں کہ تو میرا گناہ اور اپنے گناہ اپنے سر پر رکھ لے ، پس اسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا اور اس نے اُسے قتل کر ڈالا، جس سے نقصان پانے والوں میں سے ہوگیا‘ ۔

موسیٰ ;174; نے اپنی قوم کو اللہ کے احسانات یاد دلائے، آیت 20 میں فرمایا گیا ’’اور یاد کرو موسیٰ ;174; نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو اللہ تعالیٰ کےاس احسان کا ذکر کرو کہ اس نے تم میں سے پیغمبر بنائے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ دیا جو تمام عالم میں سے کسی کو نہیں دیا ‘‘ ۔

یہ اشارہ ہے ان انعامات اور معجزات کی جانب جن سے بنی اسرئیل نوازے گئے ۔ جیسے من وسلویٰ کا نزول، بادلو کا سایہ، فرعون سے نجاتکے للیے دریا سے راستہ بنادینا وغیرہ لیکن حضرت محمد ﷺ کی رسالت و بعثت کے بعد اب یہ مقام فضیلت امت محمدیہ کو حصل ہوگیا ہے ۔ پھر کہا ’اے میری قوم والو ! اس مقدس زمین میں داخل ہوجاوَ جس اللہ تعالیٰ نے تمہارے نام لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل روگردانی نہ کرو پھر نقصان میں جاپڑو ، انہوں نے جواب دیا کہ اے موسیٰ وہاں تو زور آور سرکش لوگ ہیں اور جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ہم تو ہرگز وہاں نہ جائیں گے ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں پھر ہم بخوشی چلے جائیں گے‘ ۔ اسرئیل کے موثِ اعلیٰ حضرت یعقوم ;174; کا مسکن بیت المقدس تھا ۔ لیکن حضرت یوسف ;174; کے امارت مصر کے زمانے میں یہ لوگ مصر جاکر آباد ہوگئے تھے اور تب سے اس قت تک مصر ہی میں رہے، جب تک موسیٰ ;174; انہیں راتوں رات (فرعون سے چھپاکر) مصرسے نکال نہیں لے گئے ۔ اس وقت بیت المقدس پر عمالقہ کی حکمرانی تھی جو ایک بہادر قوم تھی ۔ پھر حضرت موسیٰ اور ان کی قوم بیت المقدس جا کر آباد ہوئے ۔ انسانی جان کی حرمت بیان کرتے ہوئے قرآن نے انسانی جان کو بڑا قیمتی بتا یاہے ، ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل اور ایک جان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانا قرار دیا گیا ہے ۔ اسی جگہ زمین پر فساد پھیلانے والوں ، چوروں ڈاکووَں باغیوں کی سزاؤں کا بھی ذکر ہے ۔ یعنی کسی کو سولی پر لٹکایا جائے، کسی کے ہاتھ پاؤں الٹی جانب سے کاٹ دیے جائیں ، چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ ڈاکہ زنی ، چوری اور فساد کے احکام بیان کرنے کے بعد فساد کرنے والے دو بڑے گروہوں کا تذکرہ ہے یعنی منافیقین اور یہودیوں کا ذکر ہے، ان کے ساتھ ساتھ نصاریٰ کی گمراہی کا بھی بیان ہے اور بتایا ہے کہ ان کو تورات اور انجیل دی گئی لیکن انہوں نے ان کتابوں کے مطابق اپنے فیصلے نہیں کیے ۔ تورات اور انجیل کے ذکر کے بعد قرآن کا تذکرہ ہے جو کہ ہدایت اور گمراہی میں فرق کرنے والا ہے اور یہی کتابوں کا محافظ ہے ۔ اس کے بعد مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کے ساتھ قلبی دوستی کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کے سخت ترین دشمن ہے ۔ آیت51 میں ارشاد ربانی ہے کہ’’ اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناوَ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہر گز راہ راست نہیں دکھاتا‘‘ ۔ یہود و نصاریٰ دونوں کو دین میں ناحق غلو کرنے اور خواہشات کی اتباع کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ غلو اکثر گمراہی کا سبب بنتا ہے ۔ اللہ نے یہود پر لعنت کا سبب بتلایا ہے وہ یہ کہ ’’وہ اللہ کی نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرجاتے تھے اور ایک دوسرے کو برے کاموں سے منع نہیں کرتے تھے‘‘ ۔ (6 رمضان المبارک 1440ھ، 12مئی2019ء)
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277746 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More