میں روزے سے ہوں یہ جملہ ہر سعودی استعمال کرتا ہے کسٹمر
سروس میں ایک عمر گزاری ہے جتنا روزے کا نخرہ یہ عرب اٹھاتے ہیں اور چونچلے
شائد کوئی نہیں گرچہ وہاں رمضان میں چھ گھنٹے ڈیوٹی ہوتی ہے لیکن پھر
بھی۔ہم لوگ جو کسٹمر سروس ڈیسک پر کام کرتے تھے ڈرے سہمے رہتے کہ کسی وقت
بھی کوئی مغز پھرا آ گیا تو اپنا روزہ تو خراب کرے گا ہی ہماری بھی مٹی
پلید کر دے گا 1988 کی ایک صبح کا ذکر ہے میں ان دنوں جنرل موٹرز کی
ایجینسی جس کا نام الجمیح تھا میں کام کرتا تھا میں ٹیکنیکل سپر وائزر تھا
میرے انڈر کوئی چھ سات انجینئر کام کر تے تھے ہمارا کام گاڑیوں کی انسپکشن
کرنا مرمت کے بعد انہیں ٹیسٹ کرنا تھا۔سعید شاہ،احمد تمام،ابوبکر جندی،وحید
شریف اور چند ایک انجینئر میرے ساتھی تھے رمضان میں ریسیپشن پر برادر طلعت
محمود اﷲ مغفرت فرمائے رفعت شراکی یہ دو مصری تھے میری ڈیوٹی آٹھ سے دو تھی
چلعت دس سے چار کام کرتے تھے۔مدینہ روڈ پر واقعہ اس ڈیلر شپ میں کوئی سو کے
قریب لوگ کام کرتے تھے۔مجھے یہ اعزاز حاصل تھا کہ کوئی پھنسا ہوا کام ہو
تفتیش اور تحقیق کے لئے مجھے کہا جاتا اﷲ کے کرم سے گاڑیوں کو چیک کرنا ختم
تھا یہیں اسی کمپنی میں ولی عہد فہد بن عبدالعزیز،اسامہ بن لادن کی خاص
گاڑیاں مجھے دی جاتیں اسامہ بن لادن کی جی ایم سی سوبربان کا مسئلہ میں نے
ہی ٹھیک کروایا جس پر مجھے تعریفی سند اور تنخواہ میں بڑھوتی ملی۔ایک صبح
ریسیپشن پر گیا تو دیکھا ایک نوجوان ہے جس نے منہ پر ڈاٹا باندھا ہوا تھا
مجھے کسی نے بتایا یہ پرنس ہے اور سابق گورنر مکہ المکرمہ فواد بن
عبدالعزیز کا بیٹا ہے یہ فواد بن عبدالعزیز وہ ہیں جن کے زمانے میں حرم پر
قبضہ ہوا تھا انہیں گھر بھیج دیا گیا تھا۔کاؤنٹر کے سامنے بیٹھے اس پرنس کو
میں بڑے القاب سے سلام کرتے ہوئے کہا طول عمرک ،امرک اﷲ آپ کی عمر دراز کرے
حکم کریں۔اس نے کہا یبغی غیر سیارہ من ابیض الی احمر میں سفید گاڑی کی
بجائے سرخ لینا چاہتا ہوں۔معلوم ہوا شہزادے نے کل ہی کاڈیلاک فلیٹ وڈ سمال
باڈی خریدی ہے اور ب اس کا موڈ بدل کے سرخ لینے کا ہے۔یہ ٹوٹل شو روم سیلز
کا کام تھا ۔لیکن چونکہ شو روم دس بجے کھلتا تھا لہذہ یہاں ہماری ورک شاپ
کے استقبالئے میں آ گیا ہے۔میں نے بڑے اہتمام سے اسے ہینڈل کیا عربوں کی
خرابی یہ ہے کہ یہ ساری رات جاگتے ہیں اور سارا دن سوتے ہیں۔اگر اس دوران
انہیں کام پڑ جائے تو سمجھے وہ مرنے مارنے کی موڈ میں ہو گا عرب میں رمضان
میں حادثات چوگنے ہو جاتے ہیں۔میں اس موضوع کو نہ چھیڑتا ابھی منصور محمود
کا فون آیا کہ بھائی اب یہ مرض پاکستان میں بھی آ گیا ہے اب یہاں بھی
ٹائمینگ عربوں جیسے ہو گئے ہیں اور نک چڑھے لوگ یہاں بھی کہتے ہیں منہ
سنبھال کے بات کر میرا روزہ ہے۔۔
پرنس کو دس بجے تک سنبھالا مہدس طلعت دس بجے شفٹ سنبھالنے آئے تو میں نے
کہا یا اخی ہزہ شخس الجالس ہو امیر اﷲ خلیک خلی بالک پیارے انجینئر ابھائی
یہ جو بندہ بیٹھا ہے وہ پرنس ہے خیال رکھنا۔اﷲ اس کی قبر کو جنت کے باغوں
میں سے باغ بنائے بلکڑ قسم کا فرد تھا کہنے لگا ماہمک فکر ای کر۔میں نے
سفید کوٹ پہنا ہاتھ میں کلپ بورڈ اور میں کام میں مصروف ہو گیا مائنر ٹیسٹ
مدیہن روڈ پر ہی کیا کرتے تھے لمبا ہو تو سمندر سائڈ پر چلے جاتے میں نے
کوئی دو تین کیپرس ایک آدھ کیڈلک ٹیسٹ کی ان پر ملاحظات لکھے آتے جاتے وحید
جو ٹیلی فون کالز لیتا تھا میں اس کے پاس پڑی باسکٹ سے کارڈ لیتا تھا گیارہ
بارہ بجے تک پرنس کو طلعت عامر نے پوچھا ہی نہیں وہ کبھی ہلتا تو مہدس اسے
گولی دے دیتا۔سعید شاہ چیچہ وطنی کا رہنے والا ایک انتہائی محنتی انسپکٹر
تھا ۔ہوا یہ کہ کوئی ایک بجے کے قریب پرنس اٹھا اس نے گاڑی باہر نکالنے کی
کوشش کی۔یہ ورکشاپ مین روڈ کے اندر تھی ایک گلی سی بنی ہوئی تھی جہاں سے
گاڑیاں نکلتی تھیں ۔ایک بمبو لگا ہوا تھا۔چوکیدار ناصر وہاں بیٹھا گیٹ پاس
چیک کر کے گاڑیوں کو جانے کی اجازت دیتا انسپکٹر کو دیکھ کر وہ بمبو اٹھا
دیتا سعید شاہ کسی جی ایم سی سوبربان کو ٹیسٹ کرنے جا رہا تھا پیچھے سے
پرنس نے ہارن بجانا شروع کر دئے ناصر نے سعید شاہ سے کہا شاہ جی گاڑی مت
ہٹانا وقف خلینی شف رک جاؤ مجھے دیکھنے دو۔پرنس اس اثناء میں گاڑی سے اترا
اس نے سعید شاہ کو دروازہ کھول کر نیچے اتار لیا۔شاہ کو تھپڑ پڑا لیکن میں
نے کیا دیکھا کہ ریسیپشن کے دروازے پر سعید شاہ نے سموالامیر کو لمیاں پایا
ہوا تھا اور دے مار تے ساڈے چار کر رہا تھا میرے پاؤں سے زمین نکل گئی سعید
شاہ کا سینئر میں تھا میں نے دل میں سوچا افتخار آج تو گیا۔میں نے چیخ کر
کہا سعید شاہ ظالم تو کس کو مار رہا ہے؟یہ تو پرنس ہے۔ماہ رمضان ہے اﷲ جھوٹ
نہ بلائے سعید نے کہا چودھر صاحب مروا دتا جے ہن اے پرنس اے تو میری جان
چھڈاؤ ۔افتخار صاحب آپ نے مروا دیا مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔حادثہ ہو چکا
تھا پرنس نے نیچے سے اٹھ کر باہر کی جانب دوڑ لگا دی۔وہ پھر واپس آیا اس نے
بڑی ایش ٹرے اٹھا کر شیشے توڑنے شروع کر دئے پہلے کچھ سعودی بولے لیکن جب
انہیں پتہ چلا کہ یہ پرنس ہے چپ ہو گئے دو تین کو تھپڑ بھی جڑ دیا۔پھر وہ
باہر چلا گیا پسٹل لے آیا پارکنگ ایریا میں سعید شاہ آگے آگے اور پرنس
پیچھے پیچھے وہ فائرنگ کرتا جا رہا تھا۔میں نے ایک میز کے نیچے سے داخلی
فون پر شیخ ابراہیم الجمیح کو فون کیا اور بتایا کہ یہاں یہ معاملہ ہو گیا
ہے۔کچھ دیر ہی گزری تھی سرخ رنگ کی گاڑیاں اور سرخ ٹوپی والی پولیس پہنچ
گئی انہوں نے پرنس کو ساتھ لیا اور چلے گئے دوسری عام پولیس نے سعید شاہ کو
گاڑی میں بٹھایا۔ہم ڈرے سہمے چھٹی کر کے گھر آئے والد صاحب باجی صاحبہ اور
ڈاکٹر رشید عمرہ کے لئے گئے ہوئے تھے انہیں بتایا ڈر اور خوف ایسا تھ والد
صاحب نے کہا چھوڑو یار کن یلوں کے دیس میں عمر ضائع کر رہے ہو جاؤ امریکہ
کینڈا اور برطانیہ جہاں کوئی تھپڑ تو نہیں مارتا،ہمارے خیال میں سعید شاہ
کی لمب چڑی ہو گی لیکن جب اگلے روز گیا تو اس نے جو کہانی سنائی وہ اس ملک
کے انصاف کی طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس نے کہا مجھے تھانے لے جا کر عزت
سے بٹھایا گیا پوری بات سنی دوسری جانب پرنس کی بھی سنی گئی۔مجھے کچھ رقم
اور پرنس کی معافی منگوا کر چھوڑا گیا پولیس سٹیشن کے ہیڈ نے کہا کہ ہمیں
آرڈر ہے جب تک پاکستانی پرنس کو معاف نہیں کرتا آپ پرنس کو بند کریں۔شاہ
بڑا خوش تھا بعد میں فیصلہ ہوا کہ پرنس کو گاڑی بدلے میں ملے گی وہ اس
ایرئے میں نہیں آئے گا جب بھی گاڑی خراب ہو گی کمپنی ٹوئینگ ٹرک سے گاڑی
منگوا کر ٹھیک کرے گی-
رمضان کے غصے اپنی جگہ لیکن کیا بات ہے وہاں کے نظام کی۔مجال گئی کہ کوئی
کسی کو تھپڑ مارے اور بچ جائے۔ہماری سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم لوگ زبان
نہیں جانتے۔سعودی عرب کے قصے وہاں کے تجربات بہت ہیں۔اسی الجمیح کے ساتھ
جڑی یادیں بہت ہیں قارئین نے پسند کیا تو ضرور لکھوں گا سعید شاہ کو جب
وہاں سے نکالا گیا تو میں نے ۲۰۰۹ میں اے ڈیلکو کے ہیڈ کی حیثیت سے اسے پھر
نوکری دی۔اﷲ پاک اسے خوش رکھے اور اس ملک سعودی عرب کو جس نے لاکھوں
پاکستانیوں کو نوکری دی۔اس ملک میں سب اچھا بھی نہیں لیکن امن امان جتنا
وہاں ہے کسی جگہ نہیں ۔اب رمضان کی راتیں ہیں لوگ تراویح کے بعد بازاروں
میں نکل جائیں گے ہمارے دوست احباب عزیزیہ کے ہوٹل زہرہ میں رونقیں لگائیں
گے وہ شہر جس میں برسوں گزارے ہمارے بغیر کیسا ہو گاْاسے تو کچھ نہیں ہاں
ایک پاکستان پاکستان کرتا افتخار اب وہاں نہیں ہے جو ہر دم رونقیں لگایا
کرتا تھا افطاری کی تقریبات سحری کی رونقیں ایک دوسرے کے گھروں ہوٹلوں میں
افطار ڈنر۔کمپنیاں اپنے سٹاف کو افطاریاں دیتی ہیں پورے سعودی عرب میں دستر
خوان لگ جاتے ہیں مجال گئی کہ کوئی مسلم غیر مسلم مزدور گھر پکاتا ہو۔ہاں
البتی سحری کے انتظامات ہوتے ہیں ورنہ چھڑے چھانٹ مزدور جدہ ریاض دمام
،قسیم بریدہ حفرالباطن کہیں بھی ہیں ان کی افطاری کا سامان شہر کے ہر چوک
میں ہوتا ہے۔اب یہ رسم یہاں پاکستان میں بھی چلی ہے۔اﷲ پاک سب کو خوش رکھے
ہر اس پاکستانی کو جو مزدوری کے لئے مڈل ایسٹ گیا ہے یہ اور کسی جگہ اﷲ کی
رحمتوں کے سائے میں رہے۔رمضان میں نخرے نہ کریں روضہ اﷲ کی رضا کے لئے رکھا
ہے میری درخواست یہاں کے غصے والوں کے لئے یہ بھی یہی ہے اور وہاں والوں کے
لئے بھی |