میرے بھی کچھ خواب تھے

اُسکے کالج کی چھٹی ہوئی، وہ باہر آ کر چنگچی پر بیٹھی، پرس سے موبائل نکال کر میسج لکھنا شروع کیا "میرا کھانا بناؤ میں آ رہی ہوں" اور چھوٹی بہن کا نمبر کنٹیکٹس میں سے ڈھونڈ کر اُس پر بھیج دیا. ابھی میسج بھیجا ہی تھا اور اُسکی نظر موبائل پر ہی تھی کہ فائر کی آواز آئی. اُسکو جھٹکا لگا اور اُس نے موبائل پھینک دیا کیونکہ گولی اُسے ہی لگی تھی اور اُس کے پیٹ سے خون نکل رہا تھا. اُس نے سامنے دیکھا تو پستول تانے ایک لمبی مونچھوں والا چھوٹے سے قد کا جوان کھڑا تھا. اُسکے سنبھلنے سے پہلے اُس نے مزید دو فائر کیے اور وہ تڑپ کر چنگچی سے نیچے آ گری اور وہیں اپنی جان دے دی.

وہ ایک خوبصورت، پڑھی لکھی اور غریب خاندان کی ایک سلجھی ہوئی لڑکی تھی. اُس نے مشکل حالات میں تعلیم مکمل کی اور ڈائریکٹ کالج لیکچرار منتخب ہو گئی. اُسکی تنخواہ اچھی تھی اسکی جاب سے گھر والو‍ں کے حالات سنبھلنے لگے وہ گھر والوں کی مشکلات میں مزید کمی کرنے کیلئے گھر میں ٹیوشن بھی پڑھانے لگی.

یہ مرد جوان جس نے اسے موت کے گھاٹ اُتارا تھا اسکا نام وقاص تھا اور یہ ایک اَن پڑھ، جاہل، گوار اور بدمعاش تھا. اقصی روز چنگچی پر کالج جاتی وہ راستے میں کھڑا ہو کر اُسے دیکھتا اور پھر کہیں سے اُسکا موبائل نمبر لے کر اُس سے محبت کا اظہار کرنے لگ گیا. اقصی نے انکار کیا اور اُسکا نمبر بلیک لسٹ کر دیا. وہ غنڈہ تھا اُسکا خاندان تگڑا تھا جسکا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُس نے کالج میں داخل ہو کر اُسے قتل کر دیا.
اقصی کو دفنا دیا گیا اور وقاص نے گرفتاری دے دی. کیس چلا، وقاص کے گھر والوں نے ایک نامور وکیل کو کیس کی ذمہ داری سونپ دی. اقصی کا خاندان غریب تھا اور اقصی کی موت کے بعد اُسکی تنخواہ بھی رُک گئی تھی اور گھر کے حالات پھر سے خراب ہو گئے تھے اسلئے انہوں نے ایک عام سے سستا وکیل کو کیس دے دیا. کیس سیشن کورٹ میں چلا قاتل کے وکیل نے یہ بیانیہ اپنایا کہ "اقصی ایک بدکردار لڑکی تھی اُس نے وقاص کو اپنے جال میں پھنسایا اور اُس پر شادی کیلئے دباؤ ڈالنے لگ گئی لہذا وقاص نے طیش میں آ کر اسے قتل کر دیا". یہ الزام مقتول کے خاندان پر بجلی بن کر گرا اور وہ محلے کے لوگ جو پہلے اقصی کے حق میں تھے اس الزام کے بعد اُنکی رائے بھی منقسم ہو گئی اور وہ بھی کہنے لگ گئے کوئی بات تو ہو گی وغیرہ وغیرہ.

بہرحال جو بھی ہو قتل قتل ہوتا ہے. سیشن جج نے بھی یہی کہ کر مجرم کو سزائے موت کا حکم سنا دیا. قاتل کے خاندان نے فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا یہاں بھی مقتول کے حق میں فیصلہ آیا اور سیشن کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا. جب کورٹس کے یہ فیصلے سنے تو قاتل کا خاندان حواس باختہ ہو گیا اور اُسے لگنے لگا کہ وقاص کی جان واقعی خطرے میں ہے. وہ معاملہ سپریم کورٹ لے گئے اور پھر مقتول کے گھر والوں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا. اُنہوں نے صلح کیلئے سیاسی لوگوں کو استعمال کیا اور اقصی کے گھر والوں کو یہ کہ کر بھی دھمکایا کہ اگر صلح نہ کی اور ہمار بچہ پھانسی چڑھ گیا تو پھر ہم اقصی کے بھائیوں کو بھی قتل کر دینگے. یہ دباؤ کا سلسلہ چلا تو اقصی کے گھر والوں کو رشتہ دار بھی سمجھانے لگ گئے کہ آپ غریب ہو اچھی رقم لے کر صلح کر لو آپکے حالات ٹھیک ہو جائیں گے. اب ویسے بھی اقصی نے تو واپس آنا نہیں ہے اور وہ طاقتور لوگ ہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اپنے باقی بچوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو. اقصی کے گھر والے یہ دباؤ برداشت نہ کر سکے اور صلح کر لی.

صلح ہوئی اور عدالت نے ملزم کو رہا کرنے کا حکم دے دیا. پولیس نے حکم پر عمل کیا اور وقاص کو رہا کر دیا. وقاص جیل سے نکلا، گھر والے اُسکے استقبال کیلئے جیل کے گیٹ کے باہر کھڑے تھے اُنہوں نے وقاص کو کندھوں پر اُٹھایا، وقاص کھلکھلا رہا تھا، مونچھوں پر ہاتھ مار رہا تھا اور وکٹری کا نشان بنا کر دوستوں اور رشتہ داروں کی محبت کا جواب دے رہا تھا. گھر والے اُسے کندھوں پر بٹھا کر گھر لائے، گھر میں آج وقاص کے رہا ہونے کی خوشی میں قرآن خوانی تھی اور خیرات تھی. اُدھر قاتل کا وکیل بھی خوش تھا وہ بھی اپنی رقم لے کر گھر گیا اور بیوی کو عمرہ کی تیاری کی تلقین کی اور یہاں اقصی کے گھر والے اقصی کی قبر پر کھڑے ہو کر اُسکے لیے دعائے مغفرت کر رہے تھے اور اقصی نا اسکی رہائی پر چیخ رہی تھی نا صلح کرانے والوں پر شور مچا رہی تھی بلکہ چپ چاپ خاموشی سے دو گز ذمین کے نیچے لیٹی ہوئی تھی اور شاید وہاں کہ رہی ہو "میرے بھی کچھ خواب تھے"

Qaisar Shahzad Khan
About the Author: Qaisar Shahzad Khan Read More Articles by Qaisar Shahzad Khan: 4 Articles with 3707 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.