ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

میں کب تک ان کرپشن کی داستانوں سے اپنی جیب بھروں گا۔میں چار ماہ سے تمام عملہ کو تنخواہ اس ہی بچت سے دے رہاہوں جو سابقہ کرپٹ منیجر نے مجھے دی تھی۔تمہیں اس کام کا تجربہ نہیں تو پھر تم نے کام کرنے کی ہامی کیوں بھری۔ گاہکوں سے بناکررکھنی پڑتی ہے بگاڑکر نہیں ۔ اب تم پرانے ریکارڈ کو اٹھا کر گھر لے جاؤ اور ان تمام ثبوتوں سے اگر تمہارا گھر چل سکتا ہے تو ٹھیک ہے ۔۔۔ اب میں دوبارہ اس ہی کرپٹ شخص کو منیجر بنانے جارہاہوں۔

موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل بہت بلند وبالا دعوے کئے تھے ۔سابقہ چوروں،غداروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا،لوٹی ہوئی دولت بلکہ ایک ایک پائی واپس لائی جائے گی،ایک کروڑ گھر، نوکریاں۔۔۔ صرف 100 دن !۔ہمارا خیال تھا کہ 100 نہیں 200 دنوں میں تو ملک کی تقدیر بدل ہی جائے گی۔ لیکن 300 دن گزرجانے کے باوجود صرف سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں اور مہنگائی کا سونامی، کاروباری حلقے سے چھیڑچھاڑ۔ تاجر کو اعتماد ،عزت، دینے کے بجائے ڈرا یا دھمکایا جارہا ہے۔ ہر سرمایہ دار کو بلیک منی بنانے والاثابت کی جانے کی کوشش کی جارہی ہے اور لوٹ مار کا نام دے کر مال غصب کرنے کی کوشش نہ سہی نیت تو ضرورنظرآرہی ہے۔ اوپر سے نت نئے ٹیکس (بالخصوص ان ڈائریکٹ ٹیکس)نافذ کرکے ، ڈالر،پیٹرول،بجلی،گیس مہنگی کی جارہی ہے ۔ جس سے رہی سہی تجارت کا بھی بیڑا غرق ہورہا ہے۔ایسے میں مجھ جیسا معیشت سے نابلد شخص بھی یہ بات سمجھتا ہے کہ اس ماحول میں سرمایہ دار کبھی بھی انویسٹ نہیں کرے گا۔جب سرمائے کی سرکولیشن نہ ہوگی تو اسٹاک ایکس چینج سے لے کر چھوٹی مارکیٹوں میں مندی کارجحان غالب رہے گا "اور ہے"۔جس سے مہنگائی اوربیروزگاری کا سونامی آئے گا۔اب تو ویسے بھی "جون "قریب آرہا ہے۔جی جی "جون" ہی کہا ہے "خون" نہیں۔لیکن وہی "جون کا مہینہ "جو بجٹ کے ذریعے عوام کا "رہا سہا خون بھی" نچوڑ لیتا ہے ۔ جس میں یہ حکومت ہتھوڑے سے عوام کو کوٹ کر اس کی چیخیں بھی بند کرنا چاہتی ہے،بقول خالد عرفان
پھر بجٹ اس نے گرایا ہے ہتھوڑے کی طرح
وہ حکومت کو بھی لوہے کی دکاں سمجھا تھا

اس پر مستزاد عوام کو لولی پاپ دیا جارہا ہے کہ دوڈھائی سال کی مشقت مزید برداشت کرلو اس کے بعد دودھ و شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی ۔ وہی نہریں جنہیں سو دنوں میں بہناتھا ۔لیکن پچھلے تین سو دنوں کی کارکردگی یہ ہے کہ دوسروں کی کرپشن کی داستانیں سناتے سناتے اس حکومت کے چند وزراء نااہل ٹھہرتے ہیں،پھر چند وزراء کرپٹ ٹھہرتے ہیں،پھر چند وزراء۔۔۔ پھر بھی نئی ٹیم نئی افراد کی زبانوں پر صرف ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں ہی ہر جگہ ،ہرفورم،ہرمیڈیا سے سنی جارہی ہیں۔جن سے عوام کا پیٹ نہیں بھرسکتا۔عوام کے کان یہ سن کر پک چکے ہیں " ہر برا کام ہے نواز شریف" اب آگے بھی بڑھو۔موجودہ حکومت کے طرز حکومت اور عوام کی مہنگائی سے چیخیں نکلتی دیکھ کر مجھے ایک سچی کہانی یاد آرہی ہے۔ اس موضوع پر زیادہ لکھنے کے بجائے وہی سچی کہانی بلاکسی تبصرہ کے پیش خدمت ہے:

یہ آج سے کم وبیش 30 سال پہلے کی بات ہے ۔ ایک شخص نے ایک پیٹرول پمپ خریدا اور اس پمپ پر اپنے دوست کو منیجر بنادیا۔ منیجر نے کامیابی سے اس پمپ کو تین چار سال چلایا۔ پھر ایک تیسرا شخص جو ان دونوں کا دوست تھا پمپ کے مالک کے پاس آیا اوربہت راز داری سے منیجر کی شکایات کرنے لگا کہ آپ نے کس شخص کو منیجر بنادیا ہے۔ وہ تو بہت کرپشن کرتا ہے۔ اس نے بڑے مگرمچھوں سے ساز باز کی ہوئی ہے۔ جس کی بدولت پمپ کو ہزاروں کا نقصان ہورہا ہے(اس زمانے میں ہزاروں بہت بڑی رقم تھی)۔ یہی حالت باقی رہی تو کچھ ہی عرصہ میں پمپ گروی رکھنا پڑے گا۔ مالک اس شخص کی باتوں سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے منیجر تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اور اسی شکایت لے کر آنے والے شخص کو منیجر بنادیا۔ یہ شخص بہت دیانت دار تھا۔ اس نے آتے ہی پمپ کا سارا عملہ تبدیل کردیا۔ سابقہ تمام ریکارڈ کی چھان بین کرنے لگا۔ اس کی تمام تر توجہ سابقہ منیجر کی کرپشن پکڑنے پر تھی۔ آئے روز وہ مالک کو رپورٹ دیتا کہ فلاں بڑے تاجر سے اس کا ناجائزلین دین تھا۔ ان لوگوں نے پمپ کو مکمل لوٹ کھسوٹ لیا۔ مہینہ پورا گزرنے کے بعد مالک نے جب پمپ کی آمدنی چیک کی تو وہ عملہ کی تنخواہیں بھی نہ نکال پایا۔ اس نے منیجر سے بات کی ۔

منیجر نے جواب دیا :دوست ابھی میری توجہ سابقہ ریکارڈ کی چھان بین کی جانب تھی۔سابقہ کرپشن پکڑنے پر تھی جس میں الحمدللہ! مجھے بہت کامیابی ملی ہے۔ اب کاروبار کو بھی بہتر بنالیں گے۔لیکن ہنوز دلی دوراست۔ اگلے مہینے کی آمدنی بلکہ خسارہ اور وہ بھی جاریہ وہیں کا وہیں ۔جیسے صدقہ جاریہ ہوتا ہے کچھ امور میں خسارہ جاریہ ہوتا ہے(موجودہ حکومت کو ہی دیکھ لیجئے)۔ جب تین چار ماہ میں آمدنی کے بجائے پمپ مستقل خسارہ جاریہ میں چلنے لگا تو مالک نے اس دیانت دار صاحب فراست منیجر کو اپنے دفتر میں بلوایا اورسابقہ منیجر کی کرپشن کی داستان سناتے سناتے گویا ہوا:
جناب !میں کب تک ان کرپشن کی داستانوں سے اپنی جیب اورخزانے کو بھروں گا۔میں چار ماہ سے تمام عملہ کو تنخواہ اپنی جیب سے دے رہا ہوں بلکہ اس ہی بچت سے دے رہاہوں جو سابقہ کرپٹ منیجر نے مجھے کر کے دی تھی۔تم نے کہا تھا اگر اس منیجر کو اس کے عہدے پر برقرار رکھا تو پمپ گروی رکھنا پڑے گا جب کہ اب واقعی اگر تم ایک دو مہینے اور اس عہد پر رہ گئے تو پمپ گروی رکھنے کی نوبت بھی نہیں آئے گی بلکہ اسے اونے پونے بیچنا پڑے گا۔ پھر اس نے مرزا غالب کا یہ شعر پڑھا:
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

تمہیں اس کام کا تجربہ نہیں تو پھر تم نے کام کرنے کی ہامی کیوں بھری۔ گاہکوں سے بناکررکھنی پڑتی ہے ان سے بگاڑی نہیں جاتی۔ تم نے زیادہ دیانت داری کے چکر میں گاہکوں کو پرانے منیجر سے لین دین کا الزام لگانا شروع کردیا یہ اس کے ساتھ ملا ہوا ۔ وہ اس سے ملا ہوا ہے۔ لہذا وہ تمام کاروباری حضرات ایک ایک کرکے میرے پمپ سے رخصت ہوگئے۔ اب تم پرانے ریکارڈ کو اٹھا کر گھر لے جاؤ اور ان تمام ثبوتوں سے اگر تمہارا گھر چل سکتا ہے تو ٹھیک ہے یہ کہہ کر ا س نے منیجر کو باعزت انداز سے گھر رخصت کیا اور کہا سابقہ منیجر کرپٹ تھا یا نہیں لیکن وہ مجھے کما کر ضرور دیتا تھا۔ اب میں دوبارہ اس ہی کرپٹ شخص کو منیجر بنانے جارہاہوں۔اللہ حافظ

 

Abu Abdul Quddoos Muhammad Yahya
About the Author: Abu Abdul Quddoos Muhammad Yahya Read More Articles by Abu Abdul Quddoos Muhammad Yahya: 69 Articles with 148699 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.