دین اسلام کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے عبادات
کو اجتماعی حیثیت دی ہے جس سے سماجی سطح پرجو مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اس
کے دوسرے مذاہب والے بھی معترف ہیں۔ جب سحر اور افطارمیں تمام اہل خانہ ایک
ہی دسترخوان پر اکھٹے بیٹھتے ہیں تو ان میں محبت ،مودت اور خیرسگالی کے
جذبات کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ اہل مغرب اسے بہت حسرت کی نگاہ سے دیکھتے
ہیں اور اسلام کے معاشرتی نظام کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ علامہ اقبال
نے اپنے خطبات میں بھی یہ واضح کیا ہے کہ دین اسلام کی یہ اہم خوبی ہے کہ
اس میں عبادات کو بھی اجتماعی شکل دی گئی ہے۔باجماعت نماز ، نماز جمعہ اور
حج جیسی عبادت انفرادی طور پر ممکن ہی نہیں۔ ماہ رمضان المبارک میں یہ
اجتماعی ماحول ہر طرف نظر آتا ہے۔ اسی ماہ مبارک میں نزول قرآن ہوا۔ سورہ
القدر میں اس کی پوری تفصیل بیان کردی کہ ہم نے اس قرآن کو اس وقت جبکہ
ساری دنیا وحی کی روشنی سے محروم ہو کرتاریکی میں ڈووب چکی تھی ،نئی اقدار
اور قوانین کے ساتھ نازل کیا ۔تئیس سال تک یہ قلب نبوی پر نازل ہوتا رہا
پھر سورہ مائدہ کی تیسری آیت نازل ہوئی کہ آج دین مکمل ہوگیا ہے۔ اس کتاب
عظیم کے نازل کرنے کا مقصد سورہ ابراہیم میں بتایا کہ یہ کتاب جسے ہم نے آپ
کی طرف اتارا ہے تاکہ اس سے آپ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کرنور کی جانب لے
آئیں۔خدا نے قرآن کیوں بھیجا اس کا جواب بھی خود بھیجنے والے نے سورہ
الدخان میں یوں دیا ہے کہ یہ کتاب مبین ہے جس میں واضح ضابطہ حیات اپنی
صداقت پر آپ شاہد ہے۔ یہ ہمارے اسی سلسلہ کے مطابق نازل ہوئی جس کی رو سے
ہم روز اول سے انسانوں کو ان کی غلط روش کے نتائج سے آگاہ کرتے چلے آرہے
ہیں اور اب یہ اسی سلسلہ رشدوہدایت کی آخری کڑی ہے۔ سورہ الاسراء میں بھی
نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل
فرما رہے ہیں جو ایمان والوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے ۔ اس قدر عظیم ضابطہ
قوانین اور ہدایت ملنا کوئی معمولی بات نہیں جس بارے میں سورہ یونس میں
فرمایا کہ یہ وہی قانون ہے جو اب اے نوعِ انسان! تمہارے رب کی طرف سے ایک
ضابطہ ہدایت کی شکل میں تمہارے پاس آگیا ہے۔اس میں ہر اس کشمکش کا علاج ہے
جو تمہارے دل کو وقف اضطراب میں رکھتی ہے۔علامہ اقبال اپنے خطبات میں لکھتے
ہیں کہ قرآنِ حکیم وہ کتاب ہے جو تصور اور عقیدے سے زیادہ عمل پر زور دیتی
ہے۔قرآن حکیم خدا تعالیٰ کا عطا کردہ مکمل ضابطہ حیات اور صحیفہ ہدایت
ہے۔قرآن حکیم نے ہمارے اعمال سے پہلے ہمارے افکار،نظریات،احساسات،جذبات
بلکہ خیالات کی اصلاح وتطہیر پر زور دیا ہے۔چونکہ ہمارے اعمال ہمارے افکار
ہی کے غماز ہوتے ہیں اس لیے سب سے پہلے ان کی پاکیزگی ضروری ہے۔قرآن حکیم
خدا تعالیٰ کو ہمارے ہر فعل میں ہمارا حاکم بنانے پر زور دیتا ہے تاکہ ہم
لامحالہ ہر شعبہ حیات میں کی بلا شرط اطاعت اختیار کرسکیں۔جب خدا تعالیٰ کا
تصور ہمارے دل ودماغ میں اچھی طرح جاگزیں ہوجائے گا تو ہم اپنی عملی زندگی
میں اس کا ثبوت بہم پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔خدائی قوانین کی ابدی
صداقت کا یقین اور اس کی ہمہ وقت اطاعت کا تصور ہی ہمارا عقیدہ اور ایمان
ہوتا ہے۔ایسی حالت میں ہم بلا چون وچرا اس کو ہر کام میں اپنا حاکم خیال
کرنے لگتے ہیں۔ ایمان، عقیدے، اور تصور کی پختگی کے بعد قرآن حکیم ہم سے یہ
مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنے عمل سے بھی اپنے قول کا ثبوت دیں۔ کسی بات کو
محض عقلی طور پر ماننے کے بعد اس کے مطابق عمل نہ کرنا منافقت اور بزدلی کی
علامت ہے۔
روزہ کے لئے قرآن حکیم میں صوم کا لفظ آیا جس کے بنیادی معنی ضبط نفس اور
اپنے آپ کو روکنے کے ہیں۔ عام حالات جو چیزیں جائز ہیں ان سے بھی رک جانا۔
روزے کے بہت سے طبی اور دوسرے فائدے بھی ہوسکتے ہیں لیکن قرآن حکیم نے سورہ
بقرہ میں تین مقاصد بیان کیے ہیں۔اوّل تقویٰ کا حصول یعنی اﷲ کے احکامات کی
پیروی کے قابل ہوجاؤ، اس کے لئے پختہ عزم پیدا ہو اور غلط راستوں سے بچنے
کی جدوجہد کرو۔ دوم ہدایت اور قوانین خداوندی کو سب پر غالب کرسکو اور سوم
تشکرون یعنی اس سے حاصل ہونے والی جدوجہد بھر پور نتائج کی حامل ہو اوراس
پر بارگاہ ایزدی میں شکر ادا کرو۔ ان عظیم مقاصد کے لیے یہ روزے فرض کئے
گئے ہیں۔ ان مقاصد کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو روزے کی فرضیت کا باعث
ہیں اور اس فرمان رسول اکرم ﷺ پر بھی غور کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ آپ ؐ نے
فرمایا کہ کئی روزہ دار ہیں جن کو ان کے روزہ سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ
حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی رات کو اٹھ کر عبادت کرنے والے ہیں مگر ان
کوسوائے بیداری اور بے خوابی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جو قوم سخت گرمی میں
پورا دن بھوک اور پیاس کا سامنا کرسکتی ہے وہ قوم دنیا کا ہر کام کرسکتی
شرط یہ ہے کہ وہ اس کی روح سے آگاہ ہو۔ماہ رمضان اخلاق و کرادر کی تربیت کا
سالانہ پروگرام ہے ۔ ذاتی اعمال اور کردار کو بہتر بنانے کے ساتھ اپنے اہل
خانہ اور ساتھ جڑے ہوئے لوگوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔رسول اکرم ؐ کے
فرمان کے تحت ہم ان لوگوں کے بھی ذمہ دار ہیں جو ہمارے دائرہ کار میں آتے
ہیں ۔ بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ان کے والدین ہیں۔ اس ماہ
رمضان میں اپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔ اس سالانہ
تربیتی پروگرام سے بھر پور فائدہ اٹھائیں ۔ بچوں سے مکالمہ کریں کریں ان کے
ذہن میں اسلام کے بارے میں آنے والے سوالات کا جواب دیں۔اگرابتدا میں ہی
بچوں کا ذہن اسلام کے با رے میں مطمئن ہوگیا تو وہ عمر بھر اس پر قائم رہیں
گے۔اس مقصد کے لئے نیشنل بک فاؤنڈیشن کی شائع کردہ کتاب سبق آموز کہانیاں
بہت معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ سحر اور افطار میں جب سب اہل خانہ اکٹھے بیٹھے
ہوں کچھ وقت اسلام کے حوالے سے گفتگو کے لئے صرف ہونا چاہیے۔ ذہنی نشوونما
اور دینی تعلیم تربیت کے لئے یہ عمل بہت سازگار ثابت ہوگا۔
|