قرآن کریم : پارہ 8 (وَلوْاَنَّنَا) خلاصہ

وَلوْاَنَّنَا‘ قرآن کریم کا آٹھواں پارہ ہے ، اس کا مطلب ہے ’’اور اگر بے شک‘‘ ۔ پارہ کا آغاز سورۃ الْانعْام کی آیت111 سے ہوتا ہے،اس سورۃ کا اختتام اسی پارہ میں 165ویں آیت پر ہوجائے گا ۔ یعنی پارہ8 میں سورۃ الْانعْام کی آخری55 آیات کا خلاصہ یہاں بیان کیا جائے گا ۔ اس کے بعدسورۃ الْاَعْرَاف شروع ہوگی جو کہ مکی سورۃ ہے ، قرآن میں ترتیب کے اعتبار سے 7 نمبر پر جب کہ نزول ترتیب میں 39ویں سورہ ہے ۔ اس میں 24کو ع ہیں ، کل آیات206ہیں ۔ آٹھویں پارہ میں سورۃ الْاَعْرَاف کی87آیات شامل ہیں ۔

ساتویں پارہ کا اختتام سورۃ الْانعْام کی110ویں آیت پر ہوا تھاجس میں کہا گیا تھا ’’اور ہم اسی طرح ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر دیتے ہیں جس طرح یہ پہلی بار اس قرآن پر ایمان نہیں لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیں گے‘‘ ۔ اس سے پہلے کفار کی جانب سے مخصوص نشانی یعنی خاص معجزہ جو ان کے خواہش کے مطابق ہو تو وہ ضرور ایمان لے آئیں گے ۔ جس کہ جواب میں اللہ نے نبی ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا’’ اے نبی! کہہ دیجئے نشانیاں تو صرف اللہ کے پاس ہیں ‘‘ ۔ پارہ آٹھ کی ابتدا کا تسلسل مشرکین کی یہی خواہش اور اس کے جواب میں اللہ کی سورہ الا انعام میں کی آیت 111 میں فرماتا ہے کہ ’’اگر بے شک ہم ان کی طرف فرشتے نازل کرتے اور ان سے مدے کلام کرتے اور ہم ان کی ہر مطلوبہ شہ ان کے سامنے پیش کردیے تو بھی وہ ایمان نہ لاتے‘‘ ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کو تسلی کے لیے فرمایا کہ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء گزرے ، ان کی تکذیب کی گئی ، انہیں ایذایں دی گئیں ، جس طرح انہوں نے صبر اور حوصلے سے کام لیا ، آپ بھی ان دشمنان حق کے مقابلے میں صبر و استقامت کا مظاہرہ فرمائیں ۔ آیت 121 میں ایسے جانور کا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے جس پر اللہ کا نام نہ پڑھا گیا ہو ۔ اس کے بعد مومن اور کافر کی مثال بیان کی گئی ، آیت122 میں اللہ تعالیٰ نے کافر کو مردہ اور مومن کو زندہ یا حَییََّّ قرار دیا ہے ۔ اس لیے کہ کافر کفر و ضلالت کی تاریکیوں سے نکل ہی نہیں سکتا، جب کہ مومن مسلمان کے دل کو اللہ ایمان کے ذریعے سے زندہ فرمادیاتا ہے جس سے زندگی کی رہیں روشن ہوجاتی ہے اور وہ ایمان و ہدایت کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے ۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے وہ جس کو چاہے ہدایت دے جس کو چاہے گھمراہی میں دھکیل دے ۔ سورہ 125 میں فرمایا گیا ’’اللہ جسے ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کو سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے ، اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اس کا سینہ بہت تنگ کر دیتا ہے ‘‘ ۔ اس کے بعد قیامت کا ذکر کیا گیا جس دن سب کو جمع کر لیا جائے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزاور سزا دی جائے گی ۔ آیت 128 میں یہ موضوع بیان ہوا ہے جس میں جنو ں اور انسانوں کا ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانے کا ذکر کیا گیا ہے ، یعنی جنوں اور انسانوں نے ایک دوسرے سے کیا فائدہ حاصل کیا ۔ جو انسان اور جن غلط کاموں میں شریک رہے، ان کے بار ے میں اللہ نے فرمایا کہ ان کا ٹھکانا آگ ہی ہے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ مشرکین کی عجب جاہلانا منطق اور از خود حلال اور حرام کا طے کرنے کا ذکر آیت138 میں بیان ہوا فرمایا گیا ’’اپنے جھوٹے خیال کے مطاق انہوں نے کہا یہ چواپئے اور کھیتی ممنوع ہیں ، انہیں بس وہی کھاسکتا ہے جسے ہم چاہیں (کفار)اور بعض چوپائے ہیں جن کی پشت پر سواری حرام کر دی گئی اور بعض چوپائے ہیں جن پر اللہ کا نام نہیں پڑھتے ، یہ سب وہاللہ پر جھوٹ گھڑتے ہوئے کرتے ہیں وہ جلد ہی انہیں اس جھوٹ کی سزا دے گا جو گھڑتے رہے ہیں ‘‘، اگلی آیت میں کہا گیا کہ ’’انہوں نے کہا ان حرام کیے ہوئے چوپایوں کے پیٹ میں جو بچہ ہو وہ خالص ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں پر حرام ہے ۔ اسب اس میں اس میں شریک ہیں جلد ہی اللہ انہیں اس طرح خودہی حلال اور حرام طے کرنے کی سزا دے گا‘‘ ۔ یہ مشرکین کی عجب بیہودہ منطق اور جاہلی شریعت اباطیل کی تین صورتیں بیان فرمائی ہیں ۔ پہلی یہ کہ جانور یا فلاح کھیت کی پیداوار ، ان کا استعمال ممنوع ہے، اسے صرف وہی کھائےگا جسے ہم اجازت دیں گے، یہ اجازت بتو ں کے خادم اور مجاورین ہی کے لیے ہوتی، دوسری صورت یہ کہ مختلف قسم کے جانوروں کو اپنے بتوں کے نام ، آزاد چھوڑ دیتے جن سے وہ بار برداری یا سواری کا کام نہیں لیا کرتے تھے اور تیسری صورت کہ وہ ذبح کرتے وقت صرف اپنے بتوں کا نام لیتے ، اللہ کا نام نہ لیتے ۔ مشرکین کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ وہ یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہی کر رہے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ جو غلط بیانی کرتے ہیں وار اللہ پر افترا باندھتے ہیں ، ان پر عنقریب اللہ تعالیٰ انہیں سزادے گا ۔ ایک حماقت اپنی بیٹیوں کو فقر یا عار کی وجہ سے قتل کردیتے تھے، اسلام نے اس گھناونی اور ظالمانہ رسم کا کا خاتما کیا ۔ نبی آخری الزماں حضرت محمد ﷺ نے اپنی زبان اور عمل سے یہ پیغام پہنچایا کہ بیٹی کا وجود نہ تو باعث ننگ ہے اور نہ فقر و غریب میں اضافے کا باعث ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آیت 141 میں حکم دیاگیا ’ فضول خرچی نہ کرو بے شک اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘ ۔ صدقہ و خیرات میں بھی حد سے تجاوزنہ کرو، ایسا نہ ہو کہ کل تم ضرورت مند ہوجاوَ ۔ مشرکین کی فضول ، گمرہ کن باتوں اور ان کی شر انگیزی کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے کوئی دس وصیتیں فرمائیں جو سورہ الا انعام کی کی آیت151اور152 میں بیان فرمائیں ۔ کہہ دیجئے ۔ آوَ میں پڑھ کر سناتا ہوں جو کچھ تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے ۔ ا ۔ یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہراوَ (یعنی کہ پہلی وصیت یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرایا جائے ۔ شرک سب سے بڑا گناہ ہے جس کے لیے معافی نہینم مشرک پر جنت حرام اور دوذخ واجب ہے ۔ ۲ ۔ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو ( یعنی والدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور انہیں اپنی زبان و عمل سے تکلیف نہ دی جائے ۔ (اطاعت رب کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی اہمیت ہے اگر کسی نے والدین کی اطاعت اور ان سے حسن سلوک کے تققاضے پورے نہیں کیے تو وہ رب تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کے تقاضے بھی پورے کرنے میں ناکام رہے گا ۔ ۳ ۔ اپنی اولاد کو تنگ دستی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی اور انہیں بھی رزق دینتے ہیں (یعنی اپنی اولاد کو فقر کے ڈرسے یاننگ و عار کے خوف سے قتل نہ کیا جائے، رازق اللہ تعالیٰ ہے ، وہ سب کو رزق عطا کرتا ہے) ۔ ۴ ۔ بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاوَخواہ وہ ظاہر ہوں یا اچھپے ہوئے ہوں ۔ (یعنی ہر قسم کے فحاشی اور برائی سے بچاجائے خواہ وہ برائی خفیہ ہو یا اعلانیہ) ۔ ۵ ۔ کسی ایسی جان کو قتل مت کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہو ، سوائے اس کے جس کا قتل برحق ہو ، ان تمام ساری باتوں کی اللہ نے تہیں تاکید کی ہے تاکہ تم عقل سے کام لو ( انسان کا ناحق قتل بد ترین گناہ ہے ) ۔ ۶ ۔ یتیم کے مال کے قریب نہ جاوَ مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو ، یہاں تک کہ وہ پختگی کی عمر کو پہنچ جائے ۔ (جس یتیم کی کفالت تماہری ذمہ داری قرار پائے تو اس کی ہر طرح خیر خواہی کرنا تمہارا فرض ہے ) ۔ ۷ ۔ تم ناپ تول کو انصاف کے ساتھ پورا کرو ۔ (ناپ تول میں کم تولنا یا ڈندی مارنا نہایت پست اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے ۔ قوم شعیب میں یہی اخلاقی بیماری تھی جو ان کی تباہی کا سبب بنی) ۔ ۸ ۔ ہم کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے اور جب تو کوئی بات کہو تو انصاف سے کام لو اگرچہ معاملہ تمہارے قریبی رشتے دار کا ہو(یعنی عدل کو ملحوظ رکھاجائے )۹ ۔ اور تم اللہ کا عہد پورا کرو ۔ ۰۱ ۔ ان سب باتوں کی اللہ نے تمہیں تاکید کی ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرواور یقینا یہ میرا راستہ سیدھا ہے ، لیٰذا تم سی کی پیروی کرو اور تم دوسرے راستوں کی پیروی مت کرو، وہ تمہیں اللہ کے راستے سے اگ کر دیں گےا ۔ اللہ نے تمہیں تاکید کی ہے تاکہ تم پرہیز گار ی اختیار کرو(یعنی سیدھے راستے یعنی صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایت کی گئی ہے) ۔

اللہ تعالیٰ آیت 162 میں اپنے نبیﷺ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ ’کہہ دیجئے : بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت (سب کچھ) اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات یعنی توحید کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں ‘ ۔ توحید الوہیت کی یہی دعوت تمام انبیاء نے دی جس طرھ یہاں اللہ کے آخری بنی حضرت محمد ﷺ کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا ہے ’’ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلاہوں ‘‘ ۔

سورۃ الْاَعْرَاف

سورۃ الْاَعْرَا کامختصر تعارف شروع میں کیں کیاگیا ہے ،یہ مکی سورۃ ہے ، قرآن میں ترتیب کے اعتبار سے 7 نمبر پر جب کہ

نزولِ ترتیب میں 39ویں سورہ ہے ۔ اس میں 24کو ع ہیں ، کل آیات206ہیں ۔ آٹھویں پارہ میں اس سورہ کی 87آیات شامل ہیں ۔ اس سورہ میں تینوں بنیادی عقائد پر گفتگو کی گئی ہے

سورۃ الْاَعْرَاف کے آغاز میں اللہ پاک قرآن کریم کا ذکر کرتے ہوئے اپنے نبی محمد ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’اے نبی یہ کتاب آپ کی طفویل نازل کی گئی ہے اس سے آپ کے سینے میں کسی قسم کی تنگی نہیں ہونی چاہیے تاکہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کو خوف دلائیں اور یہ مومنوں کے لیے نصیحت ہے‘ ۔ امت سے اور رسولوں سے بھی سوال کیا جائے گا ، سورہ 6 میں فرمایا ’ضرور سوال کریں گے جن کی طرف رسول بھجے گئے اور ہم رسولوں سے بھی ضرور سوال کریں گے ‘ ۔ یہاں روز قیامت کے حوالے سے اللہ نے کہا کہ اس دن یعنی روز قیامت اعمال کا وزان کیا جائے گا جس کے اعمال بھاری ہوں گے وہ لوگ فلاح پانے والے ہوں گے اور جن کے اعمال کا وزن کم ہوگا وہ لوگ ہیں جنہیں اپنی جانوں کو خسارے میں ڈالا ۔ اس کے بعد سورہ 11سے ابلیس کے سجدہ نہ کرنے ، اس کے سوال و جواب ، اسے آسمان سے اترجاے کا حکم، شیطان کی اللہ سے مہلت مانگنا، لوگوں کو گمراہ کرنے کا کہنا اورآخر میں اللہ پاک کا ابلیس کو نکل جانے کا حکم اور دھتکارکے ساتھ یہ کہنا کہ ’ جو تیری پیروی کرے گا’’ تو یقینا میں جہنم کو تم سب سے ضرور بھر دونگا‘‘ ۔

شیطان کو جنت سے نکال دینے اور حضرت آدم اور اماں حوا کے جنت میں رہنے کا واقعہ سورہ 19 میں بیان ہوا ہے ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے ’اور اے آدم!تو اور تیری بیوی جنت میں رہو، اور تم دونوں جہاں سے چاہو کھا وَ اور تم دونوں اس درخت کے قریب مت جانا ، ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہوجاوَ گے ، پھر شیطا ن نے ان دونوں کو بہکانے کے لیے (ان کے دل میں ) وسوسہ ڈالا،تاکہ ان کے لیے ان کی شرم گاہیں ظاہر کردے ، جو ان سے چھپائی گئیں تھیں ، شیطان نے کہا : تمہارے رب تمہیں صرف اس لیے روکا ہے کہ (کہیں ) تم دونوں فرشتے نہ بن جاوَ، یا کہیں تم دونوں ہمیشہ رہنے والوں میں سے نہ ہوجاوَ‘‘ ۔ (وسوسہ سے مراد پست آواز اور نفس کی بات ، شیطان دل میں جو بری باتیں ڈالتا ہے اسے وسوسہ کہا جاتا ہے) ۔ اگلی آیت21 میں ’’شیطان نے ان دونوں کے سامنے قسم کھائی کہ بے شک میں تم دونوں کے خیر خواہوں میں سے ہوں ، چنانچہ شیطان نے ان دونوں کو دھوکا دے کر بہکا دیا، پھر جب ان دونوں نے اس درخت کا پھل چکھا تو ان دونوں کی شرمگاہیں ان پر ظاہر ہوگیں ، اور وہ دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے (تاکہ ستر ڈانک سکیں )اور ان کے رب نے ان کو آواز دی : کیا میں نے تمہیں اس درخت سے روکا نہیں تھا;238; اور میں نے تمہیں یہ نہیں کہا تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے‘‘ ۔ اللہ کی یہ باتیں سن کر آدم اور حوا کیا کہہ سکتے تھے، غلطی کر بیٹھے تھے، انکار بھی ممکن نہیں تھا ۔ آیت23’’ میں کہا ا گیا ’کہا انہوں نے اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تونے ہ میں نہ بخشا اور تو نے ہم پر رحم نہ فرمایا تو یقینا ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔ اللہ نے کہا کہ تم اتر جاوَ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں زمین میں ٹہرنا اور ایک مقررہ وقت تک فائدہ اٹھانا ہے اور فرمایا اللہ نے تم اسی زمین میں زندہ رہو گے اور اسی میں تم مروگے اور قیامت کے دن اسی سے تم نکالے جاوَ گے‘‘ ۔

سورۃ الْاَعْرَاف ، کلام پاک کی وہ سورہ ہے جس میں اللہ پاک نے انسانوں کو چار بار ’بنی آدم ‘‘ آدم کی اولاد کہہ کرمخاطب کیا ۔ یہاں انسانوں کی ’بنی آدم ‘ کے صیغہ سے مخاطب ہونا ہے ۔ قرآن میں اس قسم کی مثال کسی اور سورہ میں نظر نہیں آتی ۔ پہلی بار بنی آدم کو مخاطب کرتے ہوئے لباس کی جانب توجہ دلائی ۔ فرمایا اللہ نے آیت26 میں ’’اے بنی آدم ! بے شک ہم نے تم پر لباس نازل کیا جو تمہاری شرمگاہیں چھپاتا ہے اور زینت کا باعث ہے اور پرہیزگاری کا لباس بہت بہتر ہے، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں ‘‘ ۔ دوسری ،مرتبہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو سورہ 27 میں مخاطب کیا جس میں اللہ تعالیٰ ابلیس کے فتنہ سے بچنے کی تلقین کی فرمایا ’’اے اولاد آدم! اپنی زینت (لباس) لے لو ہر نماز کے وقت اور کھاوَ اور پیووَ اور اسراف نہ کرو،بے شک اللہ اسراف کرنے والوں کوپسندنہیں کرتا‘‘ ۔ تیسری بار اولادِ آدم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا ’’اے اولاد آدم ! تم ہر نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کرو، اور کھاوَاور پیووَ، اور فضول خرچی نہ کرو، بے شک وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ ۔ چوتھی بارآیت 35 میں کہا گیا کہ ’’اے اولادِ آدم! اگر تمہارے پاس تمہیں میں سے رسول آئیں جو تم کو میری آیات سنائیں تو جو تقویٰ اختیار کرلیں گے اور اپنی اصلاح کر لیں گے تو ایسو ں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ افسردہ ہوں گے‘‘ ۔ اولاد آدم سے یہ خصوصی خطاب دراصل ابلیس کے وسوسوں ، مکاریوں سے محفوظ رہنے ، اس کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آجانے، اس کے دھوکے میں نہ آجانے کے لیے بتائیں گئیں ۔ شیطان ایک ایسا مکار اور چالاک دسمن ہے جو انسان کو بہکانے اور ورغلانے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔ اسے سچ کو چھوٹ اور چھوٹ کو سچ کا یقین دلانے کا ملکا آتا ہے،وہ اس میں طاق ہے ۔ وہ بظاہر نیک ، معصوم، دوست، ہمدرد، مسکین ، خیر خواہ بن کر آتا ہے کہ سادہ لوگ اس کی چال میں گرفتار ہوجاتے ہیں ۔ یہ شیطان انسانوں کے روپ میں ہی ہوتے ہیں ، انسان ہی انسان کو دھوکہ دے رہا ہے، انسان ہی انسان کو لوٹ رہاہے، انسان ہی انسان کو بے گناہ قتل کررہا ہے، انسان ہی انسان کو دھوکہ دیہی سے لوٹ رہا ہے، انسان ہی انسان کی جیب کاٹ رہا ہے، انسان ہی انسان کے گھر ڈاکے ڈال رہا ہے، یہ کبھی غریب کے روپ میں ، کبھی ظالم وڈیرے، زمین دار ، سرمایہ دار کے روپ میں کبھی حکمراں اور سیاست دانوں اور دیگر قسم کے روپ میں ابلیس کا کام کر رہے ہیں ۔ یہ ابلیس جب حضرت آدام ;174; کو ورغلہ سکتا ہے تو عام انسان ، سادہ لو انسان تو اس کی باتوں میں بہت آسانی سے آجاتے ہیں ۔ اس لیے ہ میں خود بھی شیطان مردود سے بچے رہنا چاہیے اور اپنے اردگرد رہنے والوں کو بھی شیطان کی شیطانیت سے آگاہی دیتے رہنا چاہیے ۔

اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اس کی ہمت سے بڑھ کر تکلیف اور دکھ نہیں دیتا لیکن اس کے لیے شرط ایمان کی ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے 43_41 میں ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے تو ہم کسی کو اس کی ہمت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، وہی لوگ جنت والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، اور ان کے دلوں میں جو کینہ ہوگا وہ ہم نکال پھینکیں گے، ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور وہ کہیں گے سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہ میں یہ سیدھی راہ دکھائی‘‘ ۔ اسی سورہ میں تین گروہ کا ذکر ہے، ایک جنتی، دوسرے دوزخی اور تیسرے اصحاب اعراف ، یہاں اہل جنت اوراہل جہنم کے مابین مکالمہ ہے جس میں جنت والے دوزخ والوں سے سوال کریں گے کہ اللہ کے وعدوں کے سچ ہونے کا یقین آیا کہ نہیں ، دوزخی جواب میں اقرار کریں گے اور اہل جنتیوں سے کھانے پینے کا سوال کریں گے تو ایک پکار اہل جہنم پر لعنت بھیجے گی ،یعنی ایسا نہیں ہوسکے گا ، کہ اہل جنت دوزخ کے باسیوں کی کچھ مدد کھانے پینے کے حوالے سے کرسکیں گے ۔ ا ور دونوں اپنے اپنے ٹھکانے پر رہیں گے ۔ تیسرا گروہ اعراف کاہوگا جو نہ جنت میں نہ دوزخ میں ، وہ بیچ میں ہوں گے ۔ یعنی ان کا فیصلہ موَخر کردیا جائے گا، لیکن بالاَ خر اللہ تعالیٰ ان کو بھی جنت میں داخل فرمادیں گے ۔ ان اعراف اور دوزخیوں کے مابین بھی مکالمہ ہوا، جنت کی آرام و آسائش کا بیان ہو اور جہنم کی ہولناکی کا ذکر ۔

کائینات کی تخلیق کا بیان ہے ۔ بتا یا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام تر قدرت کے باوجود آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، چاند سورج ، ستارے وغیرہ ہیں چھ دن میں بنائے ، اس لیے انسان بھی ہر کام غور و فکر سے کرے اور اللہ کی تخلیق اور نظام پر غور کرکے اس پر ایمان لائے، اس کی رحمتوں کا شکر ادا کرے ۔ مشرکین بیت اللہ کا ننگے طواف کیا کرتے تھے اورحجت یہ تھی کہ کیوں کہ ان کے باپ دادا ایسا کرتے چلے آرہے ہیں اس لیے وہ بھی اس پر قائم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اللہ بے حیائی کے کاموں کا حکم نہیں دیتا ‘‘ ۔ اللہ نے اپنے چھ برگزیدہ پیغمبروں حضرت نوع ;174;، حضرت ہود ;174; ، حضرت صالح ;174;، حضرت لوط ;174; ، حضرت شعیب ;174; اور حضرت موسیٰ ;174; اور ان کی قوم کے حالات بیان فرمائے ہیں ۔ ان انبیاء کرام کا ذکر کر کے صاف صاف بتادیا کہ وقت کے نبی حضرت محمد ﷺ کا جس نے کہا مانا ، وہ کامیاب ہوا اور جس نے کہا نہ مانا ، وہ تبای و بربادی کا شکار ہوا ۔ (8 رمضان المبارک 1440ھ،14مئی2019ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437674 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More