وفاقی کابینہ نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی باضابطہ منظوری دے
دی ہے اور اس کا نفاذ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے عمل میں لایا جائے گا۔ حکومت
کا کہنا ہے کہ اس سکیم کا مقصد محصولات اکٹھے کرنا نہیں بلکہ بے نامی
جائیدادوں کو قانون کے دائرے میں لے کر آنا ہے۔
|
|
منگل کو وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس
سکیم کی منظوری دی گئی۔
ایمنسٹی سکیم میں کیا ہے؟
مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے میڈیا کے نمائندوں کو اس ایمنسٹی سکیم کے خدو خال
بتاتے ہوئے کہا کہ ان افراد کے علاوہ جو عوامی عہدہ رکھتے ہیں کوئی بھی
پاکستانی 30 جون تک اس سکیم میں حصہ لے سکتا ہے۔ اس سکیم سے وہ افراد
استفادہ حاصل نہیں کر سکتے جو عوامی عہدے رکھنے والوں کے زیر کفالت ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’چار فیصد ٹیکس دے کر بلیک منی کو وائٹ کیا جاسکتا ہے‘۔
مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ اگر کسی کے پاس دس ہزار امریکی ڈالر کی
بلیک منی ہے اور وہ اس رقم کی ڈاکومنٹیشن کروانا چاہتا ہے تو اس کو اس رقم
پر چار فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا اس کے علاوہ اس پر یہ بھی شرط عائد ہوگی کہ
وہ اس رقم کو پاکستانی بینکوں میں رکھوائے۔
حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ اگر وہ شخص اس رقم کو پاکستانی بینکوں میں نہیں
رکھوانا چاہتا اور اسے بیرون ملک ہی رکھنا چاہتا ہے تو وہ دو فیصد مزید
ٹیکس ادا کرے گا۔
|
|
انھوں نے کہا کہ بے نامی جائیداد کو بھی قانونی شکل دینے کے لیے اس سکیم کے
تحت اقدامات کیے گئے ہیں۔ سکیم کے تحت بے نامی جائیداد کی قیمت کا اندازہ
ایف بی آر کے مقررہ کردہ نرخوں سے ڈیڑھ فیصد زیادہ لگایا جائے گا تاکہ اس
جائیداد کی قیمت مارکیٹ ریٹ کے قریب رہے۔
مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے بتایا کہ اگر کوئی اس سکیم سے فائدہ نہیں اٹھائے گا
تو پھر قانون حرکت میں آئے گا اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی اور ان
کی جائیدادیں ضبط کرلی جائیں گی۔
حفیظ شیخ کے مطابق اس سکیم کا مقصد کسی کو ڈرانا دھمکانا نہیں بلکہ
کاروباری طبقے کو اس جانب راغب کرنا ہے کہ وہ اس سکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے
بےنامی جائیدادوں کو قانونی شکل دیں۔
اس سکیم سے صدر،وزیراعظم، گورنر،وزائے اعلیٰ اور اراکین پارلیمنٹ فائدہ
نہیں اٹھا سکیں گے۔
ایمنسٹی سکیم پر حکومتی موقف
وزیر مملکت برائے محصولات حماد اظہر کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی
طرف سے پیش کی جانے والی ٹیکس ایمنسٹی سکیم اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے
دور حکومت میں لائی جانے والی ایمنسٹی سکیم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اس
سکیم میں کالا دھن سفید کرنے والوں کو ٹیکس کے دائرے میں نہیں لایا گیا تھا
جبکہ موجودہ سکیم میں یہ لازمی ہوگا کہ وہ ٹیکس گوشوارے بھی جمع کروائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ سکیم میں ایسے افراد سے، جنھوں نے اپنی دولت
ڈیکلئیر کی مگر کسی ملکی بینک میں جمع نہیں کروائی، کوئی پوچھ گچھ نہیں
ہوتی تھی جبکہ موجودہ حکومت کی سکیم میں اس شخص پر لازم ہوگا کہ اس نے جو
رقم ڈیکلئیر کی ہے اس کو کسی بینک میں جمع کروائے اور اس پر ٹیکس بھی دے۔
اس سکیم کے تحت مستفید ہونے والے افراد کے کوائف کو سامنے نہیں لایا جائے
گا اور اگر کوئی سرکاری اہلکار ان کوائف کو سامنے لانے میں ملوث پایا گیا
تو اسے ایک سال قید کے ساتھ ساتھ دس لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس سکیم کو دو ماہ پہلے متعارف کروانا چاہتی
تھی تاہم متعدد وزرا کی طرف سے اس سکیم کی مخالفت کی وجہ سے اس معاملے کو
مؤخر کردیا گیا۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کے گذشتہ دور حکومت میں جب ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا
اعلان کیا گیا تھا تو عمران خان سمیت پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے نہ
صرف اس سکیم کی مخالفت کی تھی بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ جو لوگ اس سے مستفید
ہوں گے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے پر ان کے خلاف قانونی کارروائی
عمل میں لائی جائے گی۔
|
|
ایمنسٹی سکیم پر اپوزیشن کا اعتراض
حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے حکومت کی طرف سے ایمنسٹی سکیم کے بارے میں
کہا ’ان کے دور میں لائی گئی سکیم کو برا کہنے والے اب کس منہ سے اس سکیم
کی منظوری دے رہے ہیں۔‘
مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا
کہنا تھا کہ ’اس سکیم کا مقصد ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہے اور جس طرح سے نیب اور
ایف آئی اے کام کر رہے ہیں اس سے اس سکیم پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’عمران خان حکومت کرنے میں بھی فیل ہیں جبکہ
بدعنوانی کا سراغ لگانے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے‘۔
شاہد خاقان عباسی نے الزام عائد کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں جو
ایمنسٹی سکیم لائی گئی ہے اس سے عمران خان کے رشتہ داروں اور اہلکاروں کو
موقع ملے گا کہ وہ اپنی کرپشن کو پاک کرلیں۔
اقتصادی ماہرین ایمنسٹی سکیم پر کیا کہتے ہیں؟
اقتصادی امور پر نظر رکھنے والے صحافی مشتاق گھمن کا کہنا ہے کہ موجودہ
حکومت کی طرف سے اعلان کردہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم اور پاکستان مسلم لیگ نواز
کے دور میں لائی گئی ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
ان کے مطابق ایسی سکیموں کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ لوگ
اس سکیم کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مشتاق گھمن کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ
نواز کے دور میں شروع کی گئی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے تحت 98 ارب روپے اکٹھے
کیے گئے تھے۔ جن میں 36 ارب روپے بیرون ملک جائیدادوں کی مد میں جبکہ 61
ارب روپے پاکستان میں موجود بےنامی جائیدادوں کی مد میں اکٹھے کیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ نواز کے دور میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار
نے کہا تھا کہ وہ اس ایمنسٹی سکیم کا جائزہ لیں گے جس کی وجہ سے ایک قابل
ذکر تعداد میں لوگوں نے اپنی بے نامی جائیدادوں کو ظاہر کرنا چھوڑ دیا تھا۔‘
اُنھوں نے کہا کہ اس ایمنسٹی سکیم کے ختم ہونے سے دو ہفتے پہلے سابق چیف
جسٹس نے کہا تھا کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں مداخلت کرنا عدالت عظمیٰ کا کام
نہیں ہے۔
|