اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ
وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ
اَجْمَعِیْن۔
قرآن اور رمضان کے درمیان چند مشترک خصوصیات (تقویٰ، شفاعت اور قرب الٰہی)
اور خاص تعلق
ماہ رمضان کے روزے رکھنا ہر مسلمان، بالغ، عاقل، صحت مند، مقیم، مردوعورت
پر فرض ہے، جس کی ادائیگی کے ذریعہ خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا
ہوتا ہے اور وہی تقویٰ کی بنیاد ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں
ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے
پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (سورۃ البقرۃ ۱۸۳)
لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ میں اشارہ ہے کہ زندگی میں تقویٰ پیدا کرنے کے لئے
روزہ کا بڑا اثرہے۔ اسی ماہ مبارک کی ایک بابرکت رات میں قیامت تک آنے والے
تمام انسانوں کی رہنمائی کے لئے اﷲ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم سماء دنیا پر
نازل ہوئی، جس سے استفادہ کی بنیادی شرط بھی تقویٰ ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد
قرآن کریم میں ہے: یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے
متقیوں یعنی اﷲ تعالیٰ سے ڈر نے والوں کے لئے۔ غرض رمضان اور روزہ کے
بنیادی مقاصد میں تقویٰ مشترک ہے۔
قرآن اور رمضان کے درمیان چند مشترک خصوصیات: قرآن اور رمضان کی پہلی اہم
مشترک خصوصیت تقویٰ ہے، جیساکہ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں ذکر کیا گیا۔
دوسری مشترک خصوصیت شفاعت ہے۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ روزہ اور قرآن
کریم دونوں بندہ کے لئے شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ عرض کرتا ہے کہ یا اﷲ میں نے
اس کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا، میری شفاعت قبول کرلیجئے، اور قرآن
کہتا ہے کہ یا اﷲ میں نے رات کو اس کو سونے سے روکا ، میری شفاعت قبول
کرلیجئے، پس دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی۔ (رواہ احمد والطبرانی فی
الکبیر والحاکم وقال صحیح علی شرط مسلم) تیسری خصوصیت جو رمضان اور قرآن
دونوں میں مشترک طور پر پائی جاتی ہے وہ قرب الہی ہے۔ یعنی اﷲ تعالیٰ کے
کلام کی تلاوت کے وقت اﷲ تعالیٰ سے خاص قرب حاصل ہوتا ہے، ایسے ہی روزہ دار
کو بھی اﷲ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے کہ روزہ کے متعلق حدیث قدسی میں
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔ مضمون کی طوالت سے
بچنے کے لئے قرآن ورمضان کی صرف تین مشترک خصوصیات کے ذکر پر اکتفاء کرتا
ہوں۔
ماہ رمضان کا قرآن کریم سے خاص تعلق: قرآن کریم کو رمضان المبارک سے خاص
تعلق اور گہری خصوصیت حاصل ہے۔ چنانچہ رمضان المبارک میں اس کا نازل ہونا،
حضور اکرم ﷺکا رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کا شغل نسبتاً زیادہ رکھنا،
حضرت جبرئیل علیہ السلام کا رمضان المبارک میں نبی اکرم ﷺکو قرآن کریم کا
دور کرانا، تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کرنا، صحابۂ کرام اور بزرگان دین
کا رمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام کرنا، یہ سب امور اس خصوصیت کو ظاہر کرتے
ہیں۔ لہذا اس ماہ میں کثرت سے تلاوت قرآن میں مشغول رہنا چاہئے۔ ماہ رمضان
کا قرآن کریم سے خاص تعلق ہونے کی سب سے بڑی دلیل قرآن کریم کا ماہ رمضان
میں نازل ہونا ہے۔ اس مبارک ماہ کی ایک بابرکت رات میں اﷲ تعالیٰ نے لوح
محفوظ سے سماء دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت
تھوڑا تھوڑا حضور اکرمﷺ پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں
قرآن مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کے علاوہ تمام صحیفے بھی رمضان میں نازل
ہوئے جیساکہ مسند احمد میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مصحف
ابراہیمی اور تورات وانجیل سب کا نزول رمضان میں ہی ہوا ہے۔ نزول قرآن اور
دیگر مقدس کتب وصحائف کے نزول میں فرق یہ ہے کہ دیگر کتابیں جس رسول ونبی
پر نازل ہوئیں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ میں، جبکہ قرآن کریم لوح محفوظ سے
پہلے آسمان پر رمضان کی مبارک رات یعنی لیلۃ القدر میں ایک بار نازل ہوا
اور پھر تھوڑا تھوڑا حسب ضرورت نازل ہوتا رہا۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان
ہے: بے شک ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں اتارا ہے ،یعنی قرآن شریف کو لوح
محفوظ سے آسمان دنیا پر اس رات میں اتارا ہے۔ آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ شب
قدر کیسی بڑی چیز ہے ، یعنی اس رات کی بڑائی اور فضیلت کا آپ کو علم بھی ہے
، کتنی خوبیاں اور کس قدر فضائل اس میں ہیں۔ اس کے بعد چند فضائل کا ذکر
فرماتے ہیں، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یعنی ہزار مہینوں تک عبادت
کرنے کا جتنا ثواب ہے اس سے زیادہ شب قدر کی عبادت کا ہے اور کتنا زیادہ ہے؟
یہ اﷲ ہی کو معلوم ہے۔ اس رات میں فرشتے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنے
پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر زمین کی طرف اترتے ہیں۔ اور یہ خیر
وبرکت فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔
سورۃ العلق کی ابتدائی چند آیات (اِقْرَاْ بِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق....)
سے قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد آنے والی سورۃ القدر میں بیان
کیا کہ قرآن کریم رمضان کی بابرکت رات میں اتراہے، جیساکہ سورۃ الدخان کی
آیت ۳ (اِنَّا اَنْزَلْنَاہٗ فِیْ لَےْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ ہم نے اس کتاب کو
ایک مبارک رات میں اتارا ہے) اور سورۃ البقرہ کی آیت ۱۸۵ (شَہْرُ رَمَضَانَ
الَّذِیْ اُنْزِلَ فیہ القرآن رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم نازل
ہوا) میں یہ مضمون صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ غرض قرآن وحدیث میں واضح دلائل
ہونے کی وجہ سے امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ سے سماء دنیا
پر رمضان کی مبارک رات میں ہی نازل ہوا، اس طرح رمضان اور قرآن کریم کا خاص
تعلق روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے۔
رمضان المبارک کا قرآن کریم کے ساتھ خاص تعلق کا مظہر نماز تراویح بھی ہے۔
احادیث میں وارد ہے کہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام
کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا
اس سال آپ ﷺ نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ (بخاری ومسلم) نماز تراویح
آپ ﷺ نے شروع فرمائی اور مسجد میں باجماعت اس کو ادا بھی فرمایا لیکن اس
خیال سے اس کو ترک کردیا کہ کہیں امت پر واجب نہ ہوجائے اور پھر امت کے لئے
اس کو ادا کرنے میں مشقت ہو۔حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ
ﷺنے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی۔ لوگوں نے آپ ﷺکے ساتھ
نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی
رات آپ ﷺ نماز تراویح کے لئے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ
میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم
پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔ (مسلم ۔ الترغیب فی صلاۃ التراویح)
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ قیام رمضان کی ترغیب تو
دیتے تھے لیکن وجوب کا حکم نہیں دیتے تھے۔ آپ ﷺ فرماتے کہ جوشخص رمضان کی
راتوں میں نماز (تراویح) پڑھے اور وہ ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا
کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو اﷲ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف
فرمادیں گے۔ رسول اﷲ ﷺ کی وفات تک یہی عمل رہا، دورِ صدیقی اور ابتداء عہد
فاروقی میں بھی یہی عمل رہا۔ (مسلم ۔ الترغیب فی صلاۃ التراویح) صحیح مسلم
کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ کی حیات میں ، حضرت ابوبکر صدیق رضی
اﷲ عنہ کے دور خلافت اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے ابتدائی دور خلافت
میں نماز تراویح جماعت سے پڑھنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، صرف ترغیب دی
جاتی تھی اور انفرادی طور پر نماز تراویح پڑھی جاتی تھی۔ البتہ حضرت عمر
فاروق رضی اﷲ عنہ کے عہد خلافت میں یقینا تبدیلی ہوئی، اس تبدیلی کی وضاحت
محدثین، فقہاء اور علماء کرام نے فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ
کے زمانے میں عشاء کے فرائض کے بعد وتروں سے پہلے پورے رمضان باجماعت نماز
تراویح شروع ہوئی، نیز قرآن کریم ختم کرنے اور رمضان میں وتر باجماعت پڑھنے
کا سلسلہ شروع ہوا۔ سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور
مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی شیخ عطیہ محمد سالم ؒ(متوفی ۱۹۹۹) نے نماز
تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک کتاب (التراویح اکثر من
الف عام فی المسجد النبوی) تحریر کی ہے جو اس موضوع کے لئے بے حد مفید ہے۔
اسلاف کا ماہ رمضان میں تلاوت قرآن کا خاص اہتمام: روایات سے معلوم ہوتا ہے
کہ صحابہ وتابعین وتبع تابعین رمضان المبارک میں قرآن کریم کے ساتھ خصوصی
شغف رکھتے تھے۔ بعض اسلاف واکابرین کے متعلق کتابوں میں تحریر ہے کہ وہ
رمضان المبارک میں دیگر مصروفیات چھوڑ کر صرف اور صرف تلاوت قرآن میں دن
ورات کا وافر حصہ صرف کرتے تھے۔ امام مالکؒ جنہوں نے حدیث کی مشہور کتاب
موطا مالک تحریر فرمائی ہے، جو مشہور فقیہ ہونے کے ساتھ ایک بڑے محدث بھی
ہیں لیکن رمضان شروع ہونے پر حدیث پڑھنے پڑھانے کے سلسلہ کو بند کرکے دن
ورات کا اکثر حصہ تلاوت قرآن میں لگاتے تھے۔ اسلاف سے منقول ہے کہ وہ ماہ
رمضان اور خاص کر آخری عشرہ میں تین دن یا ایک دن میں قرآن کریم مکمل
فرماتے تھے۔ رمضان کے مبارک مہینہ میں ختم قرآن کریم کے اتنے واقعات کتابوں
میں مذکور ہیں کہ ان کااحاطہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لہذا اس مبارک مہینہ میں
زیادہ سے زیادہ اپنا وقت قرآن کریم کی تلاوت میں لگائیں۔ نماز تراویح کے
پڑھنے کا اہتمام کریں اور اگر تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کیا جائے تو
بہت بہتر وافضل ہے کیونکہ حدیث میں وارد ہے کہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ ﷺ
حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔
جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔
ماہ رمضان کے بعد بھی تلاوت قرآن کا روزانہ اہتمام کریں، نیز علماء کرام کی
سرپرستی میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم میں وارد
احکام ومسائل کو سمجھ کر اُن پر عمل کریں اور دوسروں تک پہونچائیں۔ اگر ہم
قرآن کریم کے معنی ومفہوم نہیں سمجھ پا رہے ہیں تب بھی ہمیں تلاوت کرنا
چاہئے کیونکہ قرآن کی تلاوت بھی مطلوب ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
جو شخص ایک حرف قرآن کریم کا پڑھے اس کے لئے اس حرف کے عوض ایک نیکی ہے اور
ایک نیکی کا اجردس نیکی کے برابر ملتا ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ الٓمٓ ایک
حرف ہے بلکہ الف ایک حرف،لام ایک حرف اور میم ایک حرف۔ (ترمذی)
تلاوت قرآن کے کچھ آداب ہیں جن کا تلاوت کے وقت خاص خیال رکھا جائے تاکہ ہم
عند اﷲ اجر عظیم کے مستحق بنیں۔ تلاوت چونکہ ایک عبادت ہے لہذا ریا وشہرت
کے بجائے اس سے صرف اورصرف اﷲ تعالیٰ کی رضا مطلوب ومقصود ہو، نیز وضو
وطہارت کی حالت میں ادب واحترام کے ساتھ اﷲ کے کلام کی تلاوت کریں۔ تیسرا
اہم ادب یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر اور اچھی آواز میں تجوید کے
قواعد کے مطابق تلاوت کریں۔ تلاوت قرآن کے وقت اگر آیتوں کے معانی پر غور
وفکر کرکے پڑھیں تو بہت ہی بہتر ہے۔ قرآن کریم کے احکام ومسائل پر خود بھی
عمل کریں اور اس کے پیغام کو دوسروں تک پہونچانے کی کوشش کریں۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو روزہ اور تلاوت قرآن کی برکت سے تقویٰ والی زندگی
گزارنے والا بنائے اور ہمیں دونوں جہاں میں کامیابی وکامرانی عطا فرمائے۔
آمین۔
|