بقلم: حافظ ابتسام الحسن
رمضان المبارک کے بے شمار فضائل و مناقب ہیں، ہزاروں فضیلتیں اور کئی بڑی
بڑی عبادتیں اس سے منسلک ہیں، اس کے اعزازات میں سرکش شیاطین و مردود جنات
کا جکڑ دیا جانا،ہولناک جہنم کے دروازوں کا بند ہونا اور نعمتوں سے بھرپور
جنت کے ابواب کا کھل جانا بھی شامل ہے۔اس ماہ مقدس میں گناہوں کی قلت اور
نیکیوں کی کثرت ہوجاتی ہے،پھر نیکیوں کے اجر میں دس گنا سے سات سو گنا اور
سات سو سے آگے جتنا اﷲ چاہے اضافہ کرتا ہے۔ہر دن اور رات میں کثیر تعداد
میں لوگوں کو جہنم سے آزادیاں ملتی ہیں، جنت کے پروانے ملتے ہیں اور ان سب
سے بڑھ کر رضائے الہی کا حصول ہوتا ہے۔
ان تمام کبار اعزازات کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک کا ایک جداگانہ اعزاز یہ
ہے کہ اس میں قرآن مجید و فرقان حمید ایسی لاریب کا نزول ہوا ہے۔میں یہ
سمجھتا ہوں کہ رمضان کا اعزاز قرآن ہے اور قرآن کا اعزاز رمضان ہے۔قرآن
معجزہ ہے اور یہ معجزہ رمضان المبارک ایسے بابرکت اور پر رحمت مہینے اور
مہینے کی بھی سب سے مقدس اور فضائل کے لحاظ سے سب سے افضل رات ''لیلۃ القدر
'' جس کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں کی رات سے زیادہ ہے، میں رونما ہوا۔اس
کا خصوصی تذکرہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ میں بھی کیا
ہے۔''ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا
ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں۔'' اس آیت سے
معلوم ہوا کہ ماہ رمضان کا قرآن مجید کے ساتھ خاص تعلق ہے، اسی وجہ سے صاحب
القرآن والشریعہ جناب محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس مہینے میں قرآن کی تلاوت
بکثرت کیا کرتے تھے، بلکہ فرشتوں کے سردار جبریل امین سے مل کر قرآن مجید
کا دور کیا کرتے تھے۔صحیح بخاری میں عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ بیان کرتے
ہیں کہ ''رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم خیر کے سب سے زیادہ کام رمضان المبارک
میں کیا کرتے تھے، اور رمضان المبارک کی ہر رات آپ کو جبریل امین ملتے تھے،
اور جب بھی جبریل امین آپ کو ملتے آپ انہیں قرآن سناتے تھے۔''
قرآن اور رمضان کا تعلق صرف دنیا میں ہی نہیں یوم آخرت میں بھی ہوگا۔روزہ
اور قرآن مجید دونوں مل کر بندوں کی سفارشیں کریں گے۔مسند احمد میں روایت
ہے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''روزہ اور قرآن دونوں بندے
کے حق میں بروز قیامت شفاعت کریں گے۔روزہ کہے گا! اے میرے رب! میں نے اس
بندے کو کھانے پینے اور جائز ضروریات سے روکے رکھا۔اے میرے رب اس کو بخش
دے۔پھر قرآن کہے گا! اے میرے رب! میں نے اسے رات کو سونے اور آرام سے روکے
رکھا۔اے میرے رب اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما اور اسے بخش دے۔اﷲ
تعالیٰ دونوں کی شفاعت قبول کرتے ہوئے بندے کو بخش دیں گے اور بندہ جنت میں
چلا جائے گا۔''مذکورہ حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ رمضان المبارک میں قائم
الیل و صائم النھار شخص یوم قیامت روزے اور قرآن کے ذریعے باآسانی خلاصی
پاجائے گا۔
آج کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ قرآن سے دور ہوتے جارہے ہیں، اس کا اس
طرح سے حق ادا نہیں کر رہے جس طرح کہ کرنا چاہیے۔اکثریت اس معاملے میں خاصی
کمزور اور سست دکھائی دیتی ہے۔جب کہ اسلاف کا معاملہ رمضان المبارک میں
قرآن کے حوالے سے خاصا مضبوط بھی تھا اور مربوط بھی۔وہ قرآن کی تلاوت کو
پوری باقاعدگی،دلجمعی اور خوش الحانی سے کیا کرتے تھے۔ذیل میں کچھ حوالے
درج کیے جائے رہے ہیں جس سے ہمیں اندازہ ہوگا کہ اسلاف رمضان میں قرآن مجید
کی تلاوت کے لیے کس کس انداز میں کوشاں تھے اور اس کے بغیر رمضان کی عبادات
کو نامکمل سمجھتے تھے۔
جلیل القدر صحابی سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ رمضان میں تین دنوں میں قرآن ختم
کرتے تھے۔ ]سنن سعید بن منصور 150[ تابعی امام علقمہؒ پانچ دنوں میں قرآن
مجید مکمل کرتے تھے۔]ابن ابی شیبہ 8667[
تابعی امام قتادہؒ عام دنوں میں سات ایام میں قرآن ختم کرتے تھے،جب رمضان
آتا تو تین راتوں میں پورا قرآن پڑھ لیتے اور جب آخری عشرے میں داخل ہوتے
تو ہر شب پورے قرآن کی قراَت کرتے۔ ]حلیۃ الاولیاء[
امام ابراہیم نخعیؒ رمضان میں تین دنوں میں قرآن ختم کر لیتے تھے لیکن آخری
عشرے میں دو راتوں میں مکمل کرتے تھے۔ ]مصنف عبدارزاق 5955[
تابعی امام اسود بن یزیدؒ رمضان میں دو راتوں میں مکمل قرآن کی تلاوت
فرماتیاور مغرب و عشاء کے مابین آرام کرتے تھے، جب کہ عام دنوں میں وہ چھ
دنوں میں ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ ]ابن ابی شیبہ 8667[
امام زہریؒ فرماتے تھے رمضان قراَت قرآن اور کھانا کھلانے کا مہینا ہے۔
امام مالکؒ رمضان کے آتے ہی طلباء کو پڑھانا بلکہ حدیث کی مجلس ہی چھوڑ
دیتے تھے اور صرف قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہو جاتے تھے اور فرماتے تھے
یہ مہینا تو قرآن کا مہینا ہے،اس میں تو ہم بس قرآن کی طرف ہی رجوع کریں
گے۔امام سفیان ثوریؒ رمضان میں تمام عبادات چھوڑ کر صرف قراَت قرآن میں
مشغول رہتے۔ امام احمد ابن حنبلؒ تمام کتابیں بند کر دیتے اور فرماتے کہ یہ
قرآن کا مہینا ہے۔ امام وکیع بن جراحؒ ہر شب میں مکمل قرآن اور مزید دس
پاروں کی تلاوت کرتے۔
تین دن سے کم میں ختم قرآن کی ممانعت کے حوالے سے امام ابن رجب حنبلیؒ نے
یہ توجیہ کی ہے کہ یہ ممانعت عام دنوں کے دائمی معمول کے متعلق ہے لیکن
زمان و مکان کی فضیلت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس سے کم میں بھی قرآن مکمل کیا
جا سکتا ہے-امام احمد، امام اسحاق اور دیگر متعدد ائمہ کا یہی موقف تھا اور
اسی پر ان کا عمل بھی تھا۔ ]لطائف المعارف 183[
قارئین کرام! مذکورہ آیات و احادیث اور عمل ائمہ و تابعین سے یہ بات ثابت
ہوتی ہے کہ رمضان کا مہینا فی الحقیقت کا قرآن کا مہینا ہے۔جو لوگ قرآن کے
بنا ہی رمضان کو گزارتے ہیں وہ صحیح معنوں میں حق رمضان نہیں ادا
کرتے۔رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے تبھی مستفید ہوسکتے ہیں جب اس میں قرآن
کی تلاوت کا ایک بڑا حصہ شامل ہو۔کوشش کریں کہ رمضان میں ایک قرآن مجید
لازمی ختم کیا جائے۔
|