تحریر: علی اصغر
مکہ المکرمہ کے قدیم ترین قبرستان جنت المعٰلی میں داخل ہوں تو انسان کی
آنکھیں عقیدت و احترام سے برسنا شروع ہوجاتی ہیں کیونکہ اس قبرستان میں
اسلام کے دو محسن آرام فرما رہے ہیں، یہ وہ دو محسن ہیں جنہوں نے اسلام کو
اس وقت سہارا دیا جب رسول اﷲ ﷺ نے عرب کے بدمعاش ماحول تنہا لا الہ الا اﷲ
کا نعرہ بلند کیا تو قریش رسول اﷲﷺ کے خلاف اٹھ کھڑے اس وقت اسلام کا کوئی
نام لیوا نا تھا ان محسنِ اسلام کی نصرت سے یہ نعرہ مکہ کی وادیوں سے ہوتا
ہوں قیصر و کسرٰی کے تخت و تاج کو روندتا ہوا پوری دنیا میں پھیل گیا۔
کسی بھی تحریک کی کامیابی کے پیچھے ہمت و حوصلہ کے ساتھ ساتھ طاقت اور مال
اہم ترین چیزیں شامل ہیں۔ رسول اﷲ ص نے جب اعلان نبوت کیا تو وہ عرب بدو
جورسول اﷲﷺ کے اخلاق کی تعریفیں کرتے تھکتے نا تھے وہ آپ ﷺ کے جانی دشمن بن
گئے اور مختلف طریقوں سے اذیتیں دینا شروع کر دیں لیکن اس وقت پورے عرب میں
واحد ایک جناب ابو طالب ع ہی تھے جنہوں نے اپنے بھتیجے کی پشت پناہی کی اور
ہر مقام پہ ڈھارس بندھائی اور جب طاقت کی بات آئی تو علی ابن ابی طالب ع کی
تلوار نے رسول اﷲ ﷺ اور اسلام کے دشمنوں کی نیندیں حرام کر دیں۔
وہ عرب معاشرہ جہاں بیٹی کا وجود بدنامی کا باعث سمجھا جاتا تھا اور جہاں
بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہیں زندہ دفن کرنے کا رواج تھا اور جہاں عورت کی عزت و
ناموس کی کوئی قیمت نا تھی جہاں عورتیں بازاروں میں فروخت ہوا کرتیں تھیں
اسی غلیظ ترین اور گھٹن زدہ معاشرے میں ایک ایسی بھی پاکیزہ خاتون تھیں نام
خدیجہ تھا لیکن پاکیزگی اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے عرب کے جاہل بدو بھی
طاہرہ کے لقب سے پکارتے تھے اور عرب کے بڑے سے بڑے قبائل اس عورت کے مقروض
ہوا کرتے تھے اس عظیم خاتون کا تعلق ایک بڑے تاجر خاندان سیتھا اور آپ کو
ملیکۃ العرب کے نام سے بھی جانا تھا۔آپ کے تجارتی قافلے شام و یمن وغیرہ
میں تجارت کے لیے جاتے تھے، آپ کے تجارتی قافلوں کی تعداد کافی زیادہ تھی،
اسی لیے آپ نے مختلف لوگوں کو معین کیا جو ان تجارتی قافلوں کو لے کر جاتے
اور سامان تجارت کی خرید و فروخت کرتے۔ انہی قافلوں میں سے ایک قافلہ نبی
کریم ﷺ کے سپرد ہوا، اس قافلے کی واپسی پر حضرت خدیجہؑ کے غلام میسرہ نے آپ
ﷺ کی جو اخلاقی صفات بیان کیں، ان سے متاثر ہو کر آپ ﷺ کو خود پیغام نکاح
بھجوایا۔
یہاں حضرت خدیجہؑ کی نگاہ انتخاب کو داد دینی چاہیے، آپ نے عرب کے بڑے بڑے
سرداروں کے پیغام نکاح ٹھکرا دیئے مگر عبداﷲ کے یتیم جو ظاہری مال و اسباب
سے محروم ہیں، انھیں پسند فرمایا۔ ایک تاجر خاتون کی حیثیت سے آپ کو ایک
ایسے مرد کا انتخاب کرنا چاہیے تھا جو بڑے مال و اسباب کا مالک اور صاحب
طاقت ہو، مگر حضرت خدیجہ کے ہاں ان جاہلی معیارات کی کوئی حیثیت نہیں ہتھی۔
آپ کے ہاں انتخاب کا معیار امانت، دیانت اور صداقت جیسی صفات حسنہ ہیں، اور
سیدہ خدیجہ س کا یہ طرز عمل ہمارے لئے بھی نمونہ ہے۔
سیدہ خدیجہؑ کا نکاح آپ ﷺ کے ساتھ سلطانِ سادات سیدنا ابو طالبؑ نے پڑھایا
اور خدا کی حمد و ثناٗ کے بعد ایک فصیح و بلیغ خطبہ بھی دیا جو تاریخ کی
کتب میں رقم ہے۔ ورقہ بن نوفل نے مقام ابراہیمؑ اور زمزم کے درمیان کھڑے ہو
کر حضرت خدیجہؑ کے حکم سے یہ اعلان کیا: اے عرب خدیجہؑ مہر کی رقم سمیت
تمام اموال، غلام اور کنیزوں کو پیغمبر اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کر رہی ہیں
اور اس سلسلے میں آپ کو گواہ بنا رہی ہیں۔ اپنے شوہر کے لیے اتنا جذبہ خیر
سگالی، اس محبت، اطاعت کا اظہار، یہ فقط حضرت خدیجہ ﷺکے حصہ میں آیا۔
سیدہ خدیجہؑ جیسے ایک کامیاب تاجر تھیں ویسی ہی کامیاب بیوی بھی ثابت ہوئیں
اور اسلام کی پہلی مسلم خاتون کے ساتھ ساتھ نبوت کی پہلی گواہ بھی قرار
پائیں۔ وہ عرب قبائل جو ملیکۃ العرب کے مقروض ہوا کرتے تھے انکے قرض اس شرط
پہ جناب خدیجہؑ نے معاف کیئے کہ وہ اسلام قبول کر کے دائرہ اسلام میں داخل
ہوجائیں،تبلیغ اسلام کا آغاز ہوا تو جس طرح آپ ﷺسے لوگ دور ہوئے نہ بات
کرتے، نہ مدد کرتے، الٹا تنگ کیا جاتا، ستایا جاتا، یہی صورت حال حضرت
خدیجہؑ کو قریش کی خواتین کی طرف سے پیش آئی۔
آپؑ کی سہیلیوں اور رشتہ دار خواتین نے آپ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا مگر آپؑ
ثابت قدمی میں ذرا برابر بھی لغزش نہ آئی، وہ جن کے پاس خواتین کے جھرمٹ
ہوتے تھے، جن کی کنیزیں تھیں، ان سے بات کرنے والا کوئی نہیں، جب نبی کریمﷺ
کفار کی طرف سے پہنچائی گئی اذیتوں سے پریشان ہوکر گھر تشریف لاتے تو جناب
خدیجہؑ آپ کو تسلی دیتیں اور آپ ﷺ گھر میں سکون پاتے۔ یہ وہ مسلمہ اول ہیں
جنہوں نے کعبہ میں سب سے پہلے نبی کریمﷺ کے ساتھ کھڑے ہوکر نماز ادا کی،
جناب خدیجہؑ کی زندگی میں نبی مکرمﷺ نے دوسرا عقد نہیں کیا اور آپ کے ہی
بطن سے اﷲ نے نبی کریمﷺ کو صاحب اولاد کیا اور دشمنان رسولﷺ کے ابتر جیسے
طعنے بند ہوئے۔
جب قریش نے مسلمانوں سے معاشرتی لاتعلقی اختیار کی تو بنی ہاشم شعب ابی
طالب میں پناہ لینے پہ مجبور ہوگئے تو یہی ملیکۃ العرب بی بی جن کے قافلے
عرب و عجم میں تجارت کے لئے جاتے تھے جن کی سینکڑوں کنیزیں قطاروں میں کھڑی
ہوا کرتی تھیں اسی بی بی کو درختوں کے پتے کھانے پڑے مگر مجال ہے جو انکی
رسول اﷲﷺ اور اسلام کے لئے محبت میں کمی آئی ہو زندگی کی ہر مشکل میں یہ
آپﷺ کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ جس سال شعب ابی طالب کا مقاطعہ ختم ہوا اسی
سال جناب ابو طالب اور سیدہ خدیجہؑ کا انتقال ہوا اس طرح نبی مکرمﷺ کے دو
عظیم پشت پناہ جدا ہوئے اور آپﷺ نے اس سال کو غم کا سال قرار دیا۔
تو ثابت ہوا کہ اس عظیم اسلامی انقلاب میں ہمت و حوصلہ جناب ابو طالبؑ کی
طرف سے طاقت و تلوار وصی رسول جناب علی ع کی اور دولت سیدہ خدیجہؑ کی خرچ
ہوئی اورخدا کی وحدانیت کا پیغام گھر گھر پہنچا۔
اسلام اور ہر مسلمان ممنون و مشکور ہیں اس عظیم المرتبت امت کی ماں کے۔
کروڑوں درود و سلام ہوں سلطانِ سادات نگہبان رسالت سید العرب سیدنا ومولانا
ابو طالبؑ اور ملکیۃ العرب مسلمہ اول ام المومنین سیدہ خدیجہ الکبریٰ سلام
اﷲ علیھا کے ذات اقدس پہ۔ |