قرآن کریم : پارہ11 ( یَعْتَذِرُوْنَ ) خلاصہ

یَعْتَذِرُوْنقرآن کریم کاگیارھواں (11)پارہ ہے،اس کا مطلب ہے ’ بہانے بنائیں گے‘ ۔ سابقہ پارہ جو کہ دسوان پارہ تھا اس میں ہم نے سُوْرَۃ التَّوْبَہ کی 93آیات کا خلاصہ پڑھا تھا ۔ اب ہم سورہ توبہ کی 94ویں آیت سے خلاصہ کا آغاز کریں گے اور 35آیت پرسُوْرَۃ التَّوْبَہ کا اختتام ہوجائے گا ۔ اس کے بعدسُوْرَۃیُوْنُسَ شروع ہوگی ۔

گیارھویں پارہ کی ابتدائی تین آیات میں منافقین کا ذکر ہے جو غزوہ تبوک میں مسلمانوں کے ساتھ نہیں گئے تھے ۔ یہ منافقین مختلف بہانے بناکر اس میں شریک نہیں ہوئے ۔ جب مسلمان بخیریت واپس آئے تو یہ شرمندہ ہوتے، عذر پیش کرتے ہوئے آپ ﷺ کے پاس آئے، تاکہ اپنی صفائی بیان کریں ۔ وہ ان کی نظروں میں وفا دار بننا چاہتے تھے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے آیت94 میں کہ ’’ بہانے بنائیں گے تمہارے سامنے جب تم واپس جاوَگے اُن کے پاس ، سو کہنا کہ بہانے نہ بناوَ، ہرگزنہیں کریں گے ہم اعتبار تمہارا، بے شک بتادیئے ہیں ہم کو اللہ نے تمہارے حالات اور دیکھے گا آئند ہ بھی اللہ تمہارا طرز عمل اور اُس کے کا رُسول بھی پھر لوٹائے جاوَگے تم اُس کی طرف جو جاننے والا ہے چھپے اور کھلے کا پھر وہ بتائے گا تمہیں کہ تم کیا کرتے رہے ‘‘ ۔ اس کے بعد ان منافقین کی قسموں کا ذکر ہے کہ تمہارے واپس لوٹنے پر یہ قس میں کھائیں گے تاکہ تم ان سے اعراض یعنی درگز کردوپس تم انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دو، یہ لوگ اپنے عقائد و اعمال کے لحاظ سے پلید ہیں ، انہو ں نے جو کچھ کیا اس کا بدلہ جہنم ہی ہے تیسری آیت میں فرمایا ’’یہ تمہیں راضی کرنے کے لیے قس میں کھائیں گے لیکن ان نادانوں کو پتہ نہیں کہ اگر تم ان سے راضی ہوبھی ہوگئے تو انہوں نے جس فسق یعنی اطاعت الٰہی سے گریز و فرار کا راستہ اختیار کیا ہے اس کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ ان سے راضی کیوں کر ہوسکتا ہے‘‘ ۔ ان آیات میں ان منافقین کے بارے میں بات ہورہی ہے جو مدینہ میں رہائش رکھتے تھے اور کچھ مدینہ کے باہر دیہاتوں میں رہتے تھے ۔ دیہات کے ان باشندوں کو ’اعراب‘ اور عربی بدو بھی کہا جاتا ہے ان کا ذکر ہے کہ ان میں اچھے اور برے دونوں قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ منافقوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا آیت 108 میں اے نبی ﷺ آپ اس مسجد (ضرار) میں کبھی بھی کھڑے نہ ہوں البتہ وہ مسجد جس کی بنیاداول روز ہی سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اس کی زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں ۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو اس بات کو پسند نہیں کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوں اور اللہ پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘ ۔ مسجد ضرار اسلام کو ضرف پہنچانے ، کفر کے فروغ اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لیے تعمیر کی گئی تھی اور آپ ﷺ سے اس کا افتتاح کی درخواست کی گئی تھی ، لیکن اللہ نے اپنے نبی کو اس میں کھڑا ہونے سے منع فرمایا ، چنانچہ اس مسجد کو آپ ﷺ کے حکم سے جلا کر راکھ کردیا گیا تھا ، مسجد ضرار کے مقابلے میں اللہ نے نبی ﷺ کو کھڑا ہونے کے لیے کہا وہ مسجد کون سی ہے;238; اس میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض نے مسجد قبا کہا اور بعض نے اسے مسجد بنوی قرار دیا ۔ جن صفات کا ذکر اللہ نے کیا وہ تمام کی تمام صفات دونوں متبرک اور قابل احتران مسجدوں میں پائی جاتی ہیں ، دونوں کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے اس لیے دونوں ہی قابل احترام ، توقیر و عزت کے لائق ہیں ۔

آیت 112 میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی صفات بیان فرمائی ہیں ان میں توبہ کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ، پھرکہا کہ اے بنی! مومنوں کو خوش خبری سنادیجئے‘‘ ۔ کہا گیا کہ نبی اور ایمان والو ں کے لائق نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کی اس کے لیے کہاگیا کہ وہ ایک وعدے کے باعث تھا، پھرجب ابرہیم پر واضح ہوگیا کہ کے ان کا باپ اللہ کا دشمن ہے اور جہنمی ہے تو انہوں نے اس سے اظہار براء ت کردیا اور اس کے بعد مغفر ت کی دعا نہیں کی ۔ مہاجرین اور انصار پر اپنی مہربانی کا ذکر آیت 117 میں کیا گیا ہے، پھر اگلی آیت میں ’ان تین افراد پر بھی مہربانی فرمائی جنہیں حکم الٰہی کے انتظار میں چھوڑ دیا گیا تھا‘ ۔ یہ تین افراد حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ، حضرت ہلا ل بن اُمیہ رضی اللہ عنہ اور حضرت مُرارہ بن رَبیع رضی اللہ عنہ ہیں ، یہ تینوں نہایت مخلص تھے ۔ اس سے قبل غزوات میں شریک ہوتے رہے لیکن غزوہ تبوک میں صرف تساہلاً شریک نہیں ہوئے، بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا و سوچا کہ ایک غلطی تو ہی گئی ہے ۔ لیکن اب منافقین کی طرح رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جھوٹا عذر پیش کرنے کی غلطی نہیں کریں گے، چنانچہ حاضر خدمت ہوکر اپنی غلطی کا صاف اعتراف کر لیا اور اس کی سزا کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیا ۔ بنی ﷺ نے ان کے معاملے کو اللہ کے سپرد کردیا کہ وہ ان کے بارے میں کوئی حکیم نازل فرمائیں تاہم اس دوران میں آپ نے صحابہ کرم رضی اللہ عنہ کو ان تینوں افراد سے تعلق قائم رکھنے حتیٰ کہ بات چیت تک کرنے سے روک دیا ۔ چالیس راتوں کے بعد انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں سے بھی دور رہیں ، چنانچہ بیویوں سے بھی جدائی عمل میں آگئی، مزید دس دن گزرے تو توبہ قبول کر لی گئی اور مذکورہ آیت نازل ہوئی ۔ اہل ایمان کو تقویٰ اختیار کرنے ، علم دین حاصل کرنے،اہل نفاق سے دور رہتے ہوئے صرف سچوں کی صحبت اختیار کرنے اور جہاد کی ترغیب دی گئی ہے ، رزق کی تنگی اور کشادگی میں اللہ کے رسول کو اپنے اوپر ترجیح دینے کو کہا گیا، اللہ کی طرف سے وعدہ ہے کہ ہر قسم کی عبادت اور اطاعت کا اللہ کی طرف سے اجر مل کر رہے گا ۔ رسول اللہ ﷺ کی اس تڑپ کا ذکر ہے جو وہ اپنی امت کی بہتری کے لیے رکھتے ہیں ۔ سورہ توبہ کے آخر میں دوبارہ منافقین کی مذمت کی گئی ہے ۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا آیت 129-128’’لوگو یقینا تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آگیا ہے اس پر تمہارا تکلیف میں مبتلا ہونا گراں گزرتا ہے اور وہ تمہاے لیے بھلائی کا حریص ہے، مومنوں پر نہایت شفیق بہت رحم کرنے والا ہے، پھر بھی اگر وہ پھریں تو کہہ دیجئے مجھے اللہ کافی ہے ، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے وہی عرش عظیم کا رب ہے‘‘ ۔

سُوْرَۃ یُوْنُس

سُوْرَۃ یُوْنُس‘قرآن پاک کی ترتیب کے اعتبار سے دسویں (10) ،جب کہ نزول قرآن کے اعتبار سے 51ویں سورۃ ہے ۔ یہ سورہ مکہ المکرمہ میں ناز ل ہوئی اس لیے مکی سورہ ہے ۔ اس میں 11رکو ہیں ، 109آیات پر یہ مشتمل ہے ۔ سورہ یونس گیارھویں پار ہ سے شروع ہوتی ہے اور اسی پارہ میں ختم ہوجاتی ہے ۔ اس سورہ کانام حضرت یونس علیہ السلام کے نام پر ہے ۔ اس لیے کہ اس سورہ میں حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے جس میں ایک بڑی مچھلی انہیں نگل لیتی ہے اور پھر چند روز بعد ساحل سمند ر پر انہیں اگل دیتی ہے، ویسے یہ واقعہ سورۃ الصافات میں بھی ہے ۔ اس سورہ میں حضرت یونس علیہ السلام کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت ہاروں علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ بھی ہے لیکن اس سورۃ کو حضرت یونس علیہ السلام کے نام سے منسوب کیا گیا ۔

سُوْرَۃُ یُوْنُسَ ‘کا آغازقرآن کریم کی عظمت اور رسول اللہ ﷺ کے ذکر سے ہوتاہے، ان آیا ت میں قرآنی آیات کو حکمت والی کتاب کی آیتیں کہا گیا ہے ۔ علاوہ ازیں ایمان کے بنیادی ارکان اور عقائدپر بھی بحث کی گئی ہے ۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ’’کیا لوگوں کے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ ہم نے ان میں سے ایک آ دمی کی طرف وحی بھیجی کہ آپ لوگوں کو ڈرائیں اور ان لوگوں کو خوشخبری جو ایمان لائے کہ بے شک ان کے لیے ان کے رب کے ہاں سچائی کا متبہ ہے ۔ کافروں نے کہا بے شک یہ تو یقینا جادو گر ہے‘‘ ۔ ز میں و آسمان کی تخلیق کی بات کی گئی ہے ، ا اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو چھ دنوں میں تخلیق فرمایا، سورج کو چمکتاہوا اورچاند کو نورانی بنایا اور چاند کی منزلیں مقرر کیں ، تاکہ تم سالو ں کی گنتی اور حساب معلوم کرسکو ۔ آیت چار (4) میں قیامت کے وقوع ، بارگاہ الٰہی میں سب کی حاضری اور جزا و سزا کا بیان ہے ۔ قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر ہے اور فرمایا کہ اس دن اگر انسان چاہے گا کہ ساری دنیا کی دولت دے کر عذاب ٹل جائے تو بھی عذاب اس سے نہ ٹلے گا، البتہ دنیاوی زندگی میں قرآن پر عمل کر کے قیامت کے دن کے عذاب سے محفوظ رہا جاسکتا ہے ۔ مسلمانوں کو جنت کی بشارت دی گئی کہ وہاں ان کی زبانوں سے اللہ کا ذکر ’’سبحان اللہ ‘‘ نکلے گا اور ان کا باہمی سلام ’’السلام علیکم ‘‘ ہوگا اور ان کی آخری بات یہ ہوگی ’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے ولا ہے ‘‘ ۔ انسان کی ناشکری کی عادت کا ذکر ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’تم یہ ناشکری اور سرکشی کرلو ، چار روزہ متاع زندگی سے فائدہ اٹھا کر بالآ خر تمہیں ہمارے ہی پاس آنا ہے، پھر ہم تمہیں ، جو کچھ تم کرتے رہے ہوگے ، بتلائیں گے یعنی ان کو سزادیں گے ۔ کوئی معبود اور مشکل کشا وہاں کام نہیں آئے گا ۔ اس کے بعد تکذیب کا ذکر ہے ، کہا اللہ نے کہ قرآن پر تدبر اور اس کے معانی پر غور کیے بغیر اس کی تکذیب پر تل گئے جس طرح مقلدین کا حال ہوتا ہے، یعنی قرآن نے جو پچھلے واقعات اورمستقبل کے امکانت بیان کیے ہیں ۔ اس کی پوری سچائی اور حقیقت بھی ان پر واضح نہیں ہوئی اس کے بغیر ہی تکذیب شروع کردی ۔ ا س کی وجہ یہ بھی ہے کہ انسان کی فطرت میں عجلت ہے ۔ یہاں تک کہ یہ بعض اوقات اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے عذاب اور ہلاکت کی دعائیں مانگتا ہے ۔ آیت 44 میں کہا گیا ہے کہ ’’بے شک اللہ لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا مگر لوگ اپنے آپ پر خود ہی ظلم کرتے ہیں ‘‘ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تو انہیں ساری صلاحیتوں سے نوازا ہے، آنکھیں بھی دی ہیں جن سے دیکھ سکتے ہیں ، کان دیے ہیں جن سے سن سکتے ہیں ، عقل و بصیرت دی ہے جن سے حق و باطل کے درمیان تمیز کرسکتے ہیں لیکن اگر ان صلاحیتوں کا صحیح استعمال کر کے وہ حق کا راستہ نہیں اپناتے تو پھر یہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے کے مترادف ہے ۔ محشر کا حال بیان کرتے ہوئے بتا یا گیا ہے کہ محشر میں مختلف حالتیں ہوں گی ، جنہیں قرآن میں مختلف جگہوں پر بیان کیا گیا ہے ۔ ایک وقت یہ بھی ہوگا جب ایک دوسرے کو پہچانیں گے ، بعض مواقع ایسے آئیں گے کہ آپس میں ایک دوسرے پرگمراہی کا الزام دھریں گے اور بعض موقعوں پر ایسی دہشت طاری ہوگی کہ کچھ سمجھ نہیں پائیں گے ۔ اللہ سے کچھ پوشیدہ نہیں وہ آسمان و زمین میں ہے ، سب دیکھ رہا ہے ہر ایک عمل اس کے سامنے ہے ، اس سے کوئی چھوٹی بڑی چیز پوشیدہ نہیں ۔ آیت 22 میں مشرکین کی بت پرستی اور توحید کے دلائل ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ سختی اور مصیبت کے وقت بڑے بڑے مشرک بھی جھوٹ معبودوں کو بھول کر سچے معبود کو پکار نے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ اللہ نے اپنے حبیب کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ’آپ دشمنوں سے نہ گھبرائیں ، اللہ ان کاغرور اور تکبر توڑ دے گا، مشرکین کی مذمت کی گئی ہے اور ان لوگوں کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ کلام مجید کی اعلیٰ صفات بیان کرتے ہوئے آیت 87 میں فرمایا اللہ نے ’’اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت ، دلوں کی بیماری کی شفاء اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت آپہنچی ہے ۔ تو کہہ دیجئے کہ یہ کتاب اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے نازل ہوئی ہے تو چاہیے کہ لوگ اس سے خوش ہوں ، یہ مال و دولت سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں ‘‘ ۔

حضرت نوح علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت ہارون علیہ السلام اور حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں مشہور قصے بیان ہوئے ہیں ۔ پہلا قصہ حضرت نوح علیہ السلام کا ہے ، یہ قصہ عبرت اور نصیحت کے لیے بہت اہم ہے ۔ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا حال بیان کیا گیا ہے، ان کی عمر اور زمانہ تبلیغ تمام انبیاء سے زیادہ طویل لیکن ان کے متبعین بہت کم تھے یعنی ان کے ماننے والے بہت ہی مختصر تھے کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد 82تھی قو م نوح سرکشی اور بغاوت کی وجہ سے اللہ کے عذاب جو طوفان کی صورت میں تھا کا شکار ہوئے اور ہلاک ہوگئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ، ان کا فرعون کے دربار میں حاضر ہونا ، فرعون جیسے طاقت ور اور خدائی کا عوہ کرنے والے ظالم شخص سے مقابلہ کرنا، اس کے دربار میں معجزات کا ہونا،فرعون کے دربار میں جادو گروں سے مقابلہ کرنا، یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے ۔ فرعون جس نے خدائی کا دعویٰ کیا کی ہلاکت پانی میں ڈوب کرہونا بتا یا جاتا ہے اور مرتے وقت اس نے موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لانے کا اقرار کیا مگر اسے قبول نہیں کیا گیا ۔ اسی طرح حضرت ہارون علیہ السلام کا واقعہ بصیرت افروز ہے ۔ حضرت ہارون علیہ السلام کے بھائی تھے ، خود بھی پیغمبری سے سرفراز ہوئے، آپ نے فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ترجمانی کی تھی، حضرت موسیٰ جب احکام عشرہ لینے جبل طور پر تشریف لاے گئے تو حضرت ہارون علیہ السلام کو بنو اسرائیل کا نگراں مقرر کر گئے تھے، اس وقت بچھڑے اور سامری کا واقعہ پیش آیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب واپس آئے اور انہوں نے اپنی قوم کو بچھڑے کی عبادت کرتے دیکھا تو اپنے بھائی ہارون علیہ السلام پر ناراضگی کا اظہار کیا اور بنو اسرائیل کو لعنت ملامت کی ۔ حضرت ہارون کا انتقال ’ہور‘ نامی پہاڑ پر ہوا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کی تجہیز و تکفین کی ۔

حضرت یونس علیہ السلام مچھلی والے کے لقب سے بھی پکارے جاتے ہیں ۔ وہ اپنی قوم کے ایمان سے مایوس اور اللہ کا عذاب آنے کو یقینی دیکھ کر نینویٰ کی سرزمین چھوڑ کر چلے گئے،ساتھ ہی انہوں نے اپنی قوم میں اعلان بھی کردیا کہ فلاں فلاں دن تم پر عذاب آجائے گا اور خود وہاں سے نکل گئے ۔ جب عذاب کا بادل ا ن پر امڈ آیا تو وہ بچوں ، عورتوں حتیٰ کہ جانوروں سمیت ایک میدان میں جمع ہوگئے اور اللہ کی بارگاہ میں عاجزی و انکساری اورتوبہ و استغفار شروع کردیا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما کر ان سے عذب ٹال دیا ، حضرت یونس علیہ السلام آنے جانے والے مسافروں سے اپنی قوم کا حال معلوم کرتے رہتے تھے، انہیں جب معلوم ہوا کہ اللہ نے ان کی قوم سے عذاب ٹال دیا ہے تو انہوں نے اپنی تکذیب کے بعد اس قوم میں جانا پسند نہیں کیا بلکہ ان سے ناراض ہوکر وہ کسی اور طرف روانہ ہوگئے ۔ اسی سفر کے دوان کشتی کا واقعہ پیش آیا ۔ وہ آگے جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے تو کشتی والوں نے سمندر میں طغیانی کی وجہ سے انہیں سمندر میں پھینک دیا ، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی، پانی میں ایک بڑی مچھلی نے انہیں نگل لیا، اللہ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رکھا، حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں اپنے رب سے دعا کرتے رہے، ان کی دعا بہت مقبول ہوئی، اس دعا نے انہیں زندگی بخشی ، چند روز بعد مچھلی نے اللہ کے حکم سے انہیں ساحل پر اُگل دیا، ان کی قوم ان کی تلاش میں صحرا ء میں انہیں تلاش کے ساتھ ساتھ آہ زاری اور توبہ و استغفار بھی کر رہی تھی اور سچے دل سے ایمان قبول کر لیا جس کے باعث اللہ کا عذاب ٹل گیا ۔

اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کے حوالے سے سورہ یونس کی آخری آیات میں کہا گیا ہے کہ ’’اللہ کو چھوڑ کر ایسے معبودوں کو آپ پکاریں گے جو کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں تو یہ ظلم کا ارتکاب ہوگا ۔ ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ رکھ دینا، عبادت چونکہ صرف اس اللہ کا حق ہے جس نے تمام کائنات بنائی ہے اور تمام اسباب حیات بھی وہی مہیا کرتا ہے تو اس مستحق عبادت ذات کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا، عبادت کا نہایت غلط استعمال ہے، اسی لیے شرک کو ظلم عظیم سے تعبیر کیا گیاہے ۔ سورہ یونس کی آخری آیت109 میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد ﷺ سے فرمارہا ہے کہ ’’اور آپ کی طرف جو وحی کی جاتی ہے آپ اس کی اتباع کیجئے اور صبر کیجئے حتیٰ کہ اللہ فیصلہ کردے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے‘‘ ۔

سُوْرَۃ ھُوْد

سُوْرَۃ ھُوْد‘قرآن پاک کی ترتیب کے اعتبار سے دسویں (11) ،جب کہ نزول قرآن کے اعتبار سے52ویں سورۃ ہے ۔ یہ سورہ مکہ المکرمہ میں ناز ل ہوئی اس لیے مکی سورہ ہے ۔ اس میں کل 10رکو ہیں ، 123آیات پر یہ مشتمل ہے ۔ سورہ یونس گیارھویں پار ہ سے شروع ہوتی ہے ، اس پارہ میں اس کی صرف 5آیات ہیں ، باقی اگلے پارہ یعنی بارہویں پارہ میں ہیں ۔ اس میں اللہ کے رسول ہود علیہ السلام اور ان کی قوم کا تذکرہ ہے ۔ اسی مناسبت سے یہ سُوْرَۃ ھُوْد کہلاتی ہے ۔

پہلی آیت میں اللہ نے قرآن پاک کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ’’یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں پھر تفصیل سے بیان کی گئی ہیں ، بڑی حکمت والے بہت خبر رکھنے والے کی طرف سے ‘‘، پھر کہا گیا کہ ’’یہ کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، بے شک میں تمہارے لیے اسی کی طرف سے ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں اور یہ کہ تم اپنے رب سے بخشش مانگو ، پھر تم اسی کی طرف توبہ کرو، وہ تمہیں بہت اچھا فائدہ دے گا، ایک مقرروقت تک اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل بخشے گا اور اگر تم منہ موڑوگے توبے شک میں تم پر ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈراتاہوں ، تمہارا لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے ، آگاہ رہو ! بے شک وہ اپنے سینے دوہرے کرتے ہیں تاکہ اس (اللہ)سے چھپ جائیں ۔ آگاہ رہو جب وہ اپنے کپڑے اوڑھتے ہیں (تب بھی) وہ (اللہ) جانتا ہے جو وہ چھپاتے ا ور ظاہر کرتے ہیں ، بے شک اللہ سینوں کے راز خوب جانتا ہے‘‘ ۔ یعنی قرآن کے الفاظ نظم کے اعتبارسے اتنے محکم اور پختہ ہیں کہ ان کی ترکیب اور معینی میں کوئی خلل نہیں پھر اس میں احکام و شراءع م مواعظ و قصص ، عقائد و ایمانیات اور آداب و اخلاق جس طرح وضاحت اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں پچھلی کتابیں اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ اس لیے اس کی باتوں پر عمل کرنے سے ہی انسان برے انجام سے بچ سکتاہے ۔ (11 رمضان المبارک 1440ھ،17مئی2019ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1278496 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More