‎ ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا۔

‎10 رمضان المبارک یومِ وفات
‎ناصرۃ النبی ﷺ ، محبوبہ محبوبِ خدا ﷺ، ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا۔

‎حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی زوجہ مطہرہ تھیں۔

‎خواتین میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کی سعادت حضرت خدیجہؓ کے حصے میں آئی-

‎حضرت خدیجہؓ نے ہر موقع پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حوصلہ بڑھایا اور اسلام کے کاموں میں ہر ممکن مدد فرمائی۔

‎ایک فرزند کے سوا حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اولاد بھی حضرت خدیجہؓ ہی کے بطن سے ہوئی۔

‎حضرت خدیجہؓ اصحاب الفیل کے واقعہ کے ظہور سے 15 سال قبل پیدا ہوئیں۔

‎رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکاح سے پہلے بھی حضرت خدیجہؓ کے دو نکاح ہو چکے تھے۔

‎حضرت خدیجہؓ اپنی فطری شرافت اور اعلیٰ اخلاق کی بنا پر مکہ کے معاشرے میں طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں۔

‎حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذریعہ معاش تجارت تھا۔

‎والد اور شوہر کی وفات کے بعد حضرت خدیجہؓ کو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

‎حضرت خدیجہؓ کو اپنے کاروبار کی نگرانی کے لئے ایسے شخص کی ضرورت تھی جو دیانت اورامانت میں اپنی مثال آپ ہو۔

‎کاروبار کی نگرانی کے لئے حضرت خدیجہؓ کی نگاہِ انتخاب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑی۔

‎حضرت خدیجہؓ نے اپنے تجارت کا مال شام بھیجنے کے لئے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معاوضہ پر اپنے مال کا نگران مقرر کیا۔

‎رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجہؓ کا مالِ تجارت لے کر شام گئے۔

‎اس سفر میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام میسرہ بھی تھے۔

‎میسرہ نے سفر سے واپسی پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیانت کی بہت تعریف کی اور تجارت کے اس سفر میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت کی وجہ سے منافع بھی بہت ہوا۔

‎حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل سے مشورہ کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی کا پیغام بھیجا۔

‎حضرت خدیجہ کی جانب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغامِ نکاح سفر شام کے دوماہ پچیس دن بعد بھیجا گیا۔

‎رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابو طالب سے مشورہ کیا اور پھر حضرت خدیجہؓ کے اس پیغامِ نکاح کو قبول فرمایا۔

‎نکاح کی مقررہ تاریخ پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا ابو طالب، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور دیگر معززین خاندان کی معیت میں تشریف لائے اور حضرت ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا۔

‎500 طلائی درہم مہر مقرر ہوا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی زوجہ بنیں۔

‎حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ان کے ولی ورقہ بن نوفل تھے-

‎حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہؓ کی شادی کے انتظامات میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پیش پیش تھے۔

‎نکاح کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی تمام دولت ، مال واسباب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔

‎حضرت خدیجہؓ کی جانب سے مالی تعاون پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر معاش سے نجات مل گئی۔

‎حضرت خدیجہؓ نے ایک جاں نثار کنینر کی طرح اپنے شوہر کی خدمت کی اور کبھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیو اپنی ذات سے کوئی تکلیف نہ ہونے دی۔

‎حضرت خدیجہؓ سےنکاح کے وقت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر 25 سال تھی۔

‎حضور صلی اللہ علیپ وسلم سے نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی للہ عنہا کی عمر کے متعلق دو روایتیں موجود ہیں۔
‎ایک روایت کے مطابق آپ کی عمر 38 سال تھی۔
‎اور دوسری روایت کے مطابق 40 سال ۔

‎پہلی بار وحی نازل ہونے پر جب حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہیبت کا عالم طاری ہوا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ہی آپ کو تسلی تشفی دی۔

‎پہلی وحی کے بعد جب وحی کا سلسلہ عارضی طور پر رک جانے سے حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں حزن و ملال نے ڈیرے جمائے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ہی آپ کی دلجوئی کی۔

‎ام_المؤمنین_سیدہ_خدیجہؓ خواتین میں سب سے پہلے ایمان لائیں۔

‎اعلانِ نبوت کے بعد ہر طرف مخالفت کی لہر اٹھی تو #ام_المؤمنین_سیدہ_خدیجہؓ. مونس حیات بن کر تسکین خاطر کا سبب بنیں۔

‎کفارِ مکہ کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی تکذیب اور طعن وتشنیع پر حضرت خدیجہؓ ہی تھیں جو نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حوصلہ دیتیں اور ان کی ہمت بندھاتیں۔

‎آپ نے ہجرت مدینہ سے تین سال پہلے نبوت کے دسویں سال اور نکاح کے 23 سال بعد 10 ماہِ رمضان میں انتقال فرمایا۔

‎حضرت خدیجہؓ کے انتقال سے تین یا پانچ روز پہلے ابو طالب بھی خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔

‎حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابو طالب دونوں حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہایت پیارے تھے۔

‎حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابو طالب دونوں کے شخصی اثر و رسوخ کی بدولت کفارِ مکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سختی کرنے سے ہچکچاتے تھے۔

‎حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابو طالب دونوں کی وفات حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے نہایت غم واندوہ کا سبب بنی۔

‎یہی وجہ تھی کہ حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابو طالب دونوں کی وفات کے سال کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا۔

‎وفات کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک 64 برس اور 6 ماہ تھی۔

‎حضرت خدیجہؓ کی وفات کے وقت نماز جنازہ کا حکم نہ ہوا تھا، اس لیے آپؓ کو بغیر جنازہ پڑھے دفن کیا گیا۔

‎رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود قبر میں اترے اور اپنی محبوب بیوی سیدہ خدیجۃ الکبریؓ کو اپنے ہاتھوں الحد میں اتارا۔

‎حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک بلند پایہ خاتون تھیں۔

‎سیدہ خدیجۃ الکبریؓ نے مال واسباب کو اسلام کی تبلیغ کے لئے وقف کر دیا۔

‎سیدہ خدیجۃ الکبریؓ اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی بت پرستی سے بیزاری کا اظہار کر چکی تھیں۔

‎سیدہ خدیجۃ الکبریؓ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئیں لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر آپ نے ہر طرح کی تکلیف اٹھائی اور سختیاں سہیں۔

‎نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ خدیجۃ الکبریؓ سے شدید محبت فرماتے تھے اور آپ کی زندگی میں انہوں نے دوسرا نکاح نہ کیا۔

‎حدیث مبارک ہے :
‎”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خدیجہ کو جنت میں ایسے محل ک بشارت دوں جو موتی کا ہوگا اور جس میں شورو غل اور مشقت نہ ہوگی۔“

‎ایک حدیث میں آتا ہے:
‎”جنت کی عورتوں میں سب سے افضل یہ چار عورتیں ہیں۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد، فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، مریم علیہا السلام بنت عمران اور آسیہ علیہا السلام بنت مزاحم جو فرعون کی بیوی تھیں۔“

‎سیدہ خدیجۃ الکبریؓ کے بطن سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چھ اولادیں ہوئیں۔
‎دو فرزند، قاسم اور عبداللہ۔
‎اور چار صاحبزادیاں، حضرت سیدۃ النساء فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا حضرت زینب رضی اللہ عنہا ، سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا ، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا۔

‎حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مقام اور کردار نہایت بلند ہے۔

‎سیدہ خدیجۃ الکبریؓ عالم اسلام کی وہ بلندو بالا خاتون تھیں جس کی طرف نظر اٹھانے سے تاریخ کی نظر بھی چندھیا جاتی ہے۔

‎تاریخ سیدہ خدیجۃ الکبریؓ جیسی خاتون کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

‎حضرت خدیجہؓ سے متعلق نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:
‎قَدْ آمَنَتْ بِى إِذْ كَفَرَ بِى النَّاسُ وَصَدَّقَتْنِى إِذْ كَذَّبَنِى النَّاسُ۔
‎ترجمہ:(خدیجہؓ)وہ ہیں جو مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ میراانکار کررہے تھے، انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلارہے تھے۔
‎(مسند امام احمد بن حنبل،حدیث نمبر:25606)
 

Hunain Qasim
About the Author: Hunain Qasim Read More Articles by Hunain Qasim: 7 Articles with 4047 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.