قرآن کریم : پارہ12 ( وَمَامِنْ دَآبَّۃٍ ) خلاصہ

وَمَامِنْ دَآبَّۃٍ ‘قرآن کریم کا بارہواں پارہ ہے ۔ سُوْرَۃھُوْد جو گیارہویں پارہ سے شروع ہوئی تھی ، یہاں اس کی آیت 6سے 123 تک کی تفصیل بیان ہوگی ۔ پھر سُوْرَۃ یُوْسُف 55آیات کا خلاصہ بھی بارہویں پارہ کا حصہ ہوگا ۔ سُوْرَۃھُوْدکامختصر تعارف سابقہ پارہ میں بیان ہوچکا ہے ۔ وَمَامِنْ دَآبَّۃٍ ‘کا مطلب ہے’ زمین پر چلنے پھر نے والے‘ ۔

سُوْرَۃھُوْد ‘ میں اللہ کی کتاب ’قرآن کریم فرقان حمید‘ کی عظمت بیان ہوئی ہے، توحید اور دلائل توحید کا بیان ہے، رسالت اور ان کے اثبات کے لیے سات انبیائے کرام علیہم السلام جن میں حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ہود علیہ السلام ، حضرت صالح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت لوط علیہ السلام ، حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ، کے واقعات اور پھر قیامت کاذکر اختصار سے بیان ہوا ہے ۔ آیت 6 میں اللہ نے اپنی ہر مخلوق کے لیے رزق کی بات کی ہے ۔ اللہ کا ارشاد ہے ’’اور زمین پر چلنے والے ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمے ہے،‘ یعنی اللہ ہر ایک کا کفیل اور ذمے دار ہے ، زمین پر چلنے والی ہر مخلوق، انسان ہو یا جن، چرند ہو یا پرند ، چھوٹی ہو یا بڑی ، بحری ہو یابری ، ہر اک کو اس کا نوعی یا جنسی ضروریات کے مطابق وہ خوراک مہیا کرتا ہے‘‘ ۔ آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کرنے کی بات پہلے بھی بیان ہوچکی ہے سورہ ھُودکی آیت 7 میں بھی دہرائی گئی ہے ۔ انسانوں میں پائی جانے والی مذموم صفات کا بیان ہے ۔ انسان کے بارے میں کہا گیا کہ انسان بہت نہ شکرا ہے ۔ آیت 9 میں فرمایا اللہ نے اگر ہم انسا کو اپنی رحمت کا مزہ چکھائیں ، پھر وہ اس سے چھین لیں ، تو بے شک البتہ وہ بڑا نا امید ، بہت نا شکرا ہوجاتا ہے‘ ۔ پھر کہا کہ’ اگر ہم اسے تکلیف پہنچنے کے بعد نعمتیں چکھائیں تو وہ ضرور کہے گا مجھ سے سختیاں دور ہوگئیں ‘ ۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں ، اعمال صالحہ کو ان باتوں سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’مگر جن لوگوں نے صبر کیا اور نیک عمل کیے ، انہی کے لیے بخشش اور بہت بڑا عجر ہے ‘‘ ۔ جیسا ہ حدیث مبارکہ ہے نبی ﷺ نے قسم کھا کر فرمایا ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ مومن کے لیے جو بھی فیصلہ فرماتا ہے ، اس میں اس کے لیے بہتری کا پہلو ہوتا ہے ۔ اگر اس کو راحت پہنچتی ہے تو اس پر اللہ کا شکر کرتا ہے جو اس کے لیے بہتر اجر کا باعث ہے اور اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے، یہ بھی اس کے لیے بہتر اجر و ثواب کا باعث ہے، یہ امتیاز ایک مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ۔ کفار اور مشرکین کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ ان کے لیے آخرت میں آگ ہی ہے ۔ آیت 15 میں کہا گیا ’’جو شخص دنیاوی زندگی اور اس کی زینت چاہتا ہے تو ہم انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی‘‘ ۔ لیکن جو لوگ دکھاوا کے لیے صدقہ خیرات کرتے ہیں ان کے بارے میں اگلی ہی آیت میں اللہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور برباد ہوگیا جو کچھ انہوں نے اس دنیا میں کیا تھا اور جو عمل وہ کرتے رہے ضائع ہوگئے‘‘ ۔ اسی جگہ منکرین اور کافرین کے مقابلے میں اہل فطرت اور اہل ایمان کا تذکر بھی کیا گیاہے ۔

اللہ ایک ایسا مصنف اور خالق ہے کہ جس کے کلام میں زبان و بیان کے ساتھ ساتھ ، اسلوب نگاری کی بہترین صفات پائی جاتی ہے ۔ اس کے کلا م میں کسی جگہ کوئی جھول ، سقم ، کمی کا احساس نہیں ہوتا ہے ۔ اس کا انداز سمجھانے والاہے، اس میں نرمی ہے، پیار ہے، شفقت ہے،جو کچھ اس نے اپنے بندوں کی بھلائی کے لیے کہا اس کی خلاف ورزی کرنے والو ں کے لیے اس نے سخت الفاظ ،ڈر اور خوف ، کڑی سزا کی باتیں صاف صاف کیں ۔ اللہ کے کلام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ پہلے دلائل کے ذریعہ، مثالوں سے، سابقہ حوالوں سے ، کفار اور مشرکین کے نظریات کی تردید کرتا ہے پھر ماضی کے حالات ، ماضی کی اقوام، انبیاء کی باتیں ، انبیاء کے اچھے کاموں ، بہادری و شجاعت کے کاموں ، جنہوں نے رو گردانی کی ان پر جو عذاب آیا اس کی تفصیل غرض ماضی کی داستوں کا بیان بھی کرتا ہے انبیاء کے قصے بیان کرتا ہے، بعض بعض قصے تو کئی کئی بار دہرائے بھی گئے، جس بات کی جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہ وہاں بیان کی گئی ۔ اس طرح بات میں وزن اور اثر پیدا ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ ایک بات ختم ہوتی ہے دوسری شروع ہوجاتی ہے، ایک قصہ پورا ہوتا ہے دوسرے انبیاء کا قصہ بیان ہوتا ہے، اس طرح پڑھنے اور سننے والے میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے ۔ بعض بعض آیات کے نام ہی انبیاء کے ناموں پر رکھے گئے جیسے سورۃ عمران، سورۃ یونس، سورۃ ھود، سورۃ یوسف، سورۃ ابرہیم ، سورۃ مریم، سورۃ لقمان، سورۃ محمد، سورۃ نوح وغیرہ ۔ سُوْرَۃھُوْد میں بھی سات انبیاء جن کے نام اوپر تحریر کیے گئے کے قصے بیان ہوئے ہیں ۔ تمام کے تما م قصوں کو بیان کرنے کا مقصد قرآن اور نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کی نبو ت کی حقانیت اور قرآن کے برحق ہونے کے دلائل کے طور پر بیان کرنا ہے ۔

حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ سورہ ھود کی آیت 25سے بیان ہوا ہے ، اللہ نے ارشاد فریا ’’ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا ، اس نے کہا بیشک میں تمہیں صاف صاف ڈرانے ولا ہوں ، یہ کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ، نوح کی قوم کے سرداروں نے کہا ہم تمہیں بس اپنے ہی جیسا بشر دیکھتے ہیں ، جن لوگوں نے تیری یعنی نوح کی پیروی کی سرداروں کے بقول وہ ان کے کمی کمین تھے، انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام سے کہا کہ تمہیں ہم پر کوئی فضیلت نہیں بلکہ ہم تمہیں جھوٹاسمجھتے ہیں ،حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا لیکن ان کی قوم کے سردار وں نے ایک نہ سنی بلکہ انہیں اپنی مجلس یا اپنے قرب سے دور رکھنے کا مطالبہ کیا، سرداروں کے اس مطالبے کو اللہ نے جہالت قرار دیا اور یہ بھی کہ ایسا کرنا اللہ کے غضب اور ناراضی کو دعوت دینا ہے ۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے جب ان کی دعوت کو ٹھکرایا تو وہ بہت افسرہ اور غمگین ہوئے ، اس پر اللہ نے وحی نازل کی ، سورہ 36 میں کہا اللہ پاک نے ’’تیری قوم میں سے کوئی ہرگز ایمان نہیں لائے گا، سوائے اس کے جو پہلے ایمان لاچکا ہے، چنانچہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں تو اس پر غم نہ کھا‘‘ ۔ پھر کشتی بنانے اور نوح کی قوم کے سرداروں کی جانب سے مزاق اڑائے جانے کی باتیں ہیں ۔ مختصر یہ کہ حضرت نوح علیہ السلام مسلسل ساڑھے نو سو سال دعوت و تبلیغ کرتے رہے لیکن ان کی قوم کی تکذیب اور ایذا رسانی وقت کے ساتھ بڑھتی ہی گئی، یہاں تک کہ قوم پر عذاب نازل ہوا اور طوفان نوح نے قوم کو ہلاک کردیا ۔ جو لوگ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جس کا نام ’’جُودِیِ‘‘ تھا محفوظ رہے اس میں سوار لوگ زندہ بچ گئے باقیوں کو طوفان بہا لے گیا ۔

آیت 51سے حضرت ھود علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے، انہوں نے بھی اپنی قوم جو قوم عاد کہلاتی تھی کو یہی پیغام دیا کہ وہ اپنے رب سے بخشش مانگیں ، توبہ استغفار کی تلقین کی لیکن ہود کی قوم عاد نے حضرت ھود علیہ السلام کو دماغی خلل میں مبتلا ہوجانے کاکہا، عاد قوم سرکشی والی قوم تھی، اس کے ساتھ زبردست شان و شوکت والی قوم بھی تھی، اسے اپنی طاقت اور قوت بازو پر بڑا گھمنڈ تھا، اس لیے کہ ہود نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ وہ ان تمام بتوں اور معبودوں سے بیزار ہیں ، ان کا یہ عقیدہ تھا کہ ان بتوں نے ہود پر کچھ کر دیا ہے، ہود نے ان باتوں سے انکار کیا اور کہا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ بت میرا کچھ کرسکتے ہیں تو میں حاضر ہوں اپنے معبودوں سے کہو کہ میرے خلاف کچھ کر کے دکھائیں ۔ ظاہر ہے کہ وہ بت کچھ کرنے کے قابل کب تھے، ہود کی تمام تر کوششوں کے باوجود عاد قوم نے حضرت ہود کی دعوت کو قبول نہیں کیا، مسلسل حق کا انکار کرتے رہے ۔ مشرکین کو شرمندہ ہونا پڑا ۔ اللہ نے سورہ 56 میں کہا کہ ’’جب ہمارا عذاب آگیا تو ہم نے ہود اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی رحمت سے انہیں شدید عذاب سے نجاتی دی ‘‘ ۔ آیت59 میں کہا گیا کہ ’’ دیکھو یہ ’عاد‘ ہیں انہوں نے رب کی آیتوں کا انکار کیا تھا، اور اللہ کے رسولوں کی نا فرمانی کی، اور ہر سرکش سے عاد رکھنے والے کے حکم کی پیروی کی اور اس دنیا میں لعنت ان کے پیچھے لگا دی گئی اور روز قیامت کو بھی لگی رہے گی، آگاہ رہو ، بے شک قوم عاد نے اپنے رب کا انکار کیا ، خبر دار! دوری ہے ہود کی قوم عاد کے لیے ‘‘ ۔

حضرت ھود کے بعد حضرت صالح کی قوم ’’قوم ثمود ‘‘ کا ذکر ہوتا ہے ۔ حضرت صالح د علیہ السلام کی قوم ’’قوم ثمود ‘‘ کہلاتی ہے ۔ اللہ نے ثمود کی ہدایت کے لیے ان کے بھائی صالح کو بھیجا جنہوں نے اہل ثمود کو توحید کی دعوت دی ، جنہوں نے اہل ثمود کو اللہ کا پیغام پہنچایا، اہل ثمود نے جواب میں کہا کہ اے صالح کیا تم ہ میں اس بات سے روک دوگے کہ ہمارے باپ دادا جن کی عبادت کرتے آئے ہیں ۔ یہاں اس اونٹنی کا ذکر ہے جو اہل ثمود کی خواہش پر معجزانہ طور پر پہاڑ سے نکالی گئی تھی ۔ قوم ثمود نے نہ صرف یہ کہ اپنے پیغمبر حضرت صالح کی باتوں سے انکار کیا، بلکہ اس اونٹنی کو بھی نقصان پہچایا ۔ اس کے نتیجے میں قوم نوح اور عاد کی طرح قوم ثمود کا انجام بھی تباہی و بربادی ہی ہوا ۔ اللہ نے آیت 68 میں فرمایا ’’بے شک ثمود قوم نے اپنے رب کا انکار کیا ۔ سن لو! پھٹکا یعنی لعنت ہے ثمود کے لیے‘‘ ۔

اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کاذکر ہے سورہ ھود کی آیت 69ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ ہمارے قاصد یعنی فرشتوں کی جماعت ابراہیم کے پاس خوشخبری لے آئی ، انہوں نے کہا آپ پر سلام ہو ، ابرہیم نے کہا تم پر بھی سلام ہو، پھر دیر کیے بغیر وہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے‘‘ ۔ ابراہیم کے پاس خوف کی صورت پیدا ہوئی ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے اگلی آیتوں 72-71 میں کہا گیا کہ ’’اور ابراہیم کی بیوی قریب کھڑی تھی تو وہ ہنس پڑی ، پھر ہم نے اسے اسحٰق کی خوشخبری دی اور اسحٰق کے بعد پوتے یعقوب کی، وہ بولی ہائے ہائے ! کیا اب میں بچہ جنوں گی،حالانکہ میں بڑھیاں ہوں اور میرا شوہر بھی بوڑھا ہے ، بے شک یہ تو بہت ہی عجیب چیز ہے، انہوں نے کہا کیا تو اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہے ، اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں تم پر اے اہل بیت! بے شک الہ قابل تعریف ہے ، نہایت بزرگی والا ہے‘‘ ۔ اللہ ہر بات پر قدرت رکھتا ہے ، اور ایسا ہی ہوا، حضرت اسحٰق پیداہوئے اور ان کے بعد ان کا بیٹا حضرت یعقوب دنیا میں آئے ۔ یہ فرشتے در حقیقت قوم لوط کی طرف بھیجے گئے تھے جو انتہائی غیر انسانی بدکاریوں اور غیر فطری فحاشیوں میں متلا تھی ، حضرت لوط نے اللہ کا پیغام اپنی قوم کو پہنچایا لیکن وہ نہ مانے تو ان پر پتھروں کی بارش کی گئی اور ان کی بستی الٹا دی گئی وہ سب کے سب بدترین عذاب کا شکار ہوئے ۔ آیت 74 میں کہاگیا کہ جب ابراہیم سے خوف چلاگیا اور اس کے پاس خوشخبری آگئی تو وہ ہم سے قوم لوط کی بابت جھگڑنے لگا‘ ۔ اللہ نے اس آیت میں ابراہیم کی بردباری اور آہ و زاری کی تعریف کے بعد ابرہیم اس بات کو جانے دو بے شک تمہارے رب کا حکم آپہنچا ہے اور بے شک ان لوگوں پر ایسا عذاب آنے والا ہے جو ان سے پھیرا نہیں جائے گا ‘‘ ۔ قوم لوط جو غلط کام کیا کرتی تھی ، اس سے نجات کے لیے لوط نے انہیں کہا کہ وہ جائز طریقے سے عورتوں سے نکاح کر لیں لیکن وہ تو اغلام بازی کے مرض میں مبتلا تھے ۔ بات اس قدر خراب تھی کہ جب فرشتے حضرت لوط کے پاس آئے تو حضرت لوط سخت پریشان ہوئے ، ا س کی وجہ مفسریں نے یہ لکھی ہے کہ یہ فرشتے نو عمر نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے جو بے ریش تھے ، جس سے حضرت لوط نے اپنی قوم کی عادت قبیحہ کے پیش نظر سخت خطرہ محسوس کیا کیونکہ ان کو یہ پتہ تھا کہ آنے والے یہ مہمان عام لوگ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں ، جو اس قوم کو ہلاک کرنے کے لیے ہی آ ئے ہیں ۔ اس دوران ان کی قوم کے بدکار لوگ بھی وہاں پہنچ گئے ، حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں سمجھایا کہ وہ لڑکیوں سے شادیاں کر لیں ، یہ کام چھوڑ دیں لیکن وہ نہ مانے ، ا ن کا انجام تو ہونا ہی وہ تھا جو اللہ نے کیا ۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے لوگ ناپ تول میں کمی یا ڈنڈی مار اکرتی تھی، حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں اللہ کا پیغا پہچایا اور حق کی دعوت دی اور ناپ تول میں غلط کاری نہ کرنے اور پورا پوراتولنے کا حکم دیا لیکن قوم نے دولت کی ہوس اور کاروبار ی بددیانتی کو اپنا تے ہوئے حضرت شعیب علیہ السلام کو برا بھلا کہا اور بستی سے نکالنے کی دھمکی دی جس کی وجہ سے وہ بالآ خر عذاب الٰہی کا شکار ہوئے اور کاروباری لوگوں اور نافرمانوں کے لیے نشان عبرت قرار پائے ۔ جنہوں نے اپنی اصلاح کر لی اور بات مان لی وہ بچ گئے ، باقی نافرمانوں پر عذاب نازل ہوا ۔ آیت 93 میں کہا گیا کہ ’’ حضرت شعیب نے تنگ آکر اپنی قوم سے کہا ’’اے میری قوم! تم اپنی جگہ عمل کرو ، بے شک میں بھی عمل کررہا ہوں ۔ جلد تم جان لو گے کہ کس پر رسوا کن عذاب آتاہے اور کون جھوٹا ہے، اور تم انتظار کرو، بے شک میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ‘‘ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ پہلے بھی آچکا ہے، فرعون کے دربار میں مقابلہ کرنے، جادوگروں کو شکست دینے، فرعون کا انجام بھی عبرت ناک ہوا ۔ یہ تمام واقعات عبرت والوں کو اس لیے سنائے گئے کہ وہ آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی مخالفت چھوڑ کر ایمان قبول کر لیں اور ان قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کریں ۔ قیامت کا تذکرہ ہے، روز قیامت انسانوں کے دو گروہ ہوں گے ایک بد بخت دوسرے نیک بخت، بد بختوں کے لیے ہولناک عذاب ہوگا، جب تک اللہ چاہیں گے ۔ حالت کفر میں مرنے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے ۔ نیک بختوں کے لیے اللہ نے جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کی بے حساب نعمتیں رکھی ہیں ۔ جنت میں ہمیشہ اس کا فضل ہوگا ۔

سُوْرَۃیُوْسُف

سُوْرَۃیوسف مکی سورۃ ہے، قرآن کی ترتیب کے اعتبار سے یہ 13 ویں نمبر پر جب کہ نزولی ترتیب کے اعتبار سے یہ 53نمبر پر ہے، اس میں 12 رکو ،کل 111 آیات ہیں ۔ اس پارہ میں 52آیات ہیں جب کہ باقی 59آیات تیرھویں پارہ میں ہیں ۔ اس سورہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کا تفصیلی ذکر ہے اس مناسبت سے ا س کا نام بھی سورۃ یوسف ہے ۔ اس سورہ کی اولین آیت میں قرآن کے بارے میں کہا گیاکہ ’’یہ آیات ہیں اس کتاب کی جو اپنا مدعا صاف صاف بیان کرتی ہے ، یقینا ہم ہی نے نازل کیا ہے اس کو قرآن بنا کر عربی میں تاکہ تم اسے سمجھو، ہم بیان کر رہے ہیں تمہارے سامنے اے نبیﷺ بہترین قصہ اس ذریعہ سے جس سے ہم نے وحی کیا ہے تم پر یہ قرآن اور اگرچہ تھے تم اس سے پہلے بالکل بے خبر‘‘ ۔ اب حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ شروع ہوتا ہے ۔ یہ قصہ بہت مشہور ہے، مسلمان گھرانوں میں چھوٹے بڑے سب ہی اس قصہ سے خوب واقف ہیں ۔ قرآن میں جگہ جگہ انبیاء کے قصے ، ان کا ذکر کسی نہ کسی حوالے سے درج ہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا مکمل قصہ اس سورۃ میں بیان ہوا ہے ، یہ سورۃ دو پاروں میں ہے یعنی پارہ 11 میں 52 آیات اور پارہ 12 میں باقی 59 آیات ، دیگر سورتوں میں حضرت یوسف علیہ السلام کا نام تو آیا لیکن قصہ پورا کاپورا کسی اور جگہ مذکور نہیں جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ کئی سورتوں میں بیان ہوا ہے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کا ذکر آیت 4سے شروع ہوتا ہے جس میں حضرت یوسف علیہ السلام اپنے اباجان سے گیارہ ستاروں ، چاند ، سورج کو انہیں سجدہ کرتا دیکھنے کا بتا تے ہیں ۔ انہوں نے یوسف سے کہا کہ بیٹا نہ بیان کرنا اپنا خواب اپنے بھائیوں سے ورنہ وہ تیرے ساتھ کوئی چال ضرور چلیں گے ۔ یہ خواب حضرت یوسف علیہ السلام کی عظمت اور بڑائی کی دلیل تھی، اسی وجہ سے ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام نے یوسف سے کہا کہ بیٹا اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے نہ بیان کرنا، اس لیے کہ وہ اپنے اس بھائی سے بہت حسد کیا کرتے تھے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے ان میں سے حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کے بہت لاڈلے تھے، وہ اپنے اس بیٹے سے بہت محبت کیا کرتے تھے، حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت خوبصورت، حسین و جمیل،وجہہ ، خوبرو اور علم و دانائی والی شکل و صورت عطا کی تھی ۔ وہ اچھی سیرت کے بھی مالک تھے، گویا صورت اور سیرت دنوں ہی اللہ نے غیر معمولی عطا کیں تھیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی مسلسل حسد کی باتیں کیا کرتے تھے، ایک دن وہ اپنے والد کو سیر و تفریح کا کہہ کر حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے ہمراہ ایک جنگل میں لے گئے اور آپ کو کنویں میں گرادیا، مقصد حضرت یوسف کو ہلاک کرنا تھا ۔ وہا ں سے ایک قافلہ گزر رہا تھا ، انہوں نے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا تو اندر سے پانی کے ساتھ حضرت یوسف بھی نکل آئے، قافلے والوں نے مصر جاکر حضرت یوسف علیہ السلام کو عزیز مصر کے ہاتھوں فروخت کردیا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا ، اللہ کو اس کا علم تھا لیکن اللہ نے سب کچھ اس لیے ہونے دیا کہ تقدیر الٰہی بروئے کار آئے ۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کے لیے اشارہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو بتلارہا ہے کہ آپ کی قوم کے لوگ یقینا ایذا پہنچارہے ہیں اور میں انہیں اس سے روکنے پر قادر بھی ہوں لیکن میں اس طرح انہیں مہلت دے رہا ہوں جس طرح برادران یوسف کو مہلت دی تھی ا ور پھر بالا ٓ میں حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کے تخت پر جا بٹھایا اور اس کے بھائیوں کو عاجز و لاچار کر کے اس کے دربار میں لا کھڑا کردیا ۔

عزیز مصر نے انہیں اپنے گھر میں رکھ لیا ، جوان ہونے تک عزیز مصر کی بیوی زلیخا آپ کے حسن اور اچھے اخلاق پر فریفتہ ہوگئی ۔ اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو برائی کی دعوت دی، آپ اللہ کے خوف اور اس کی نشانیوں کو دیکھتے ہوئے گناہ کی جانب مائل نہ ہوئے اور اس کی دعوت کو ٹھکرادیا، عزیز مصر نے بدنامی سے بچنے کے لیے آپ کو جیل میں ڈلوادیا، قید خانے میں بھی آپ نے دعوت توحید کا سلسلہ جاری رکھا، جس کی وجہ سے قیدی آپ کی عزت کرتے تھے ۔ آپ اپنی نیک سیرت ، علم و دانش ، خوابوں کی تعمیر اور دیگر اچھائیوں کی وجہ سے لوگوں میں پہچانے جانے لگے، بادشاہ وقت بھی آپ سے مرعوب ہوگیا اور آپ کی عزت کرنے لگا ، اس نے آپ کو خزانے، تجارت اور مملکت کا خود مختار وزیر بنا دیا ، مصر اور دیگر علاقوں میں قحط کی وجہ س آپ کے بھائی گلہ حاصل کرنے لیے مصر آئے ، ایک دو ملاقاتوں کے بعد آپ نے انہیں بتا یا کہ میں تمہارا بھائی یوسف ہوں ، پھر آپ کے والدین بھی مصر آگئے اور سب یہیں آباد ہوگئے ۔ ایک مرتبہ بادشاہ مصر نے خواب دیکھا کہ سات موٹی گئیں ہیں اور انہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات خوشے سرسبز اور سات خوشے خشک ہیں ، بادشاہ کے دربار میں سے کوئی بھی اس خواب کی تعبیر نہ بتا سکا ، اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام سے رجوع کیا گیا ، انہوں نے تعبیر بتائی کہ سات سال خوشحالی کے ہوں گے اور سات سال سخت قحط پڑے گا پھر خوشحالی ہوگی ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی عظمت بادشاہ مصر کے دل میں گھر کرگئی، اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے پاس بلا بھیجا ، وہ تمام تر الزامات سے مکمل بری ہوئے اور ان کا سچ ہر ایک کی زبان پر جارہ ہوا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ ابھی جاری ہے، بقیہ انشاء اللہ آئندہ پارہ میں بیان ہوگا ۔ (12 رمضان المبارک 1440ھ،18مئی2019ء)

 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277132 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More