عجیب مافوق سلسلہ تھا

عجیب ما فو ق سلسلہ تھا
شجر ،جَڑوں کے بغیر ہی
اُگ رہے تھے
خیمے بغیر چو بوں کے
اور طنا بو ں کے آسرے کے
زمیں پہ اِستادہ ہو رہے تھے
چراغ،لَو کے بغیر ہی
جل رہے تھے
کُو زے ،بغیر مٹی کے
چا ک پر ڈھل رہے تھے
دریا ،بغیر پا نی کے
بَہ رہے تھے
سبھی دعا ئیں گرفتہ پا تھیں
رُکی ہو ئی چیز یں قا فلہ تھیں
پہاڑ ، بارش کے ایک قطرے سے
گُھل رہے تھے
بغیر چا بی کے ،قُفل
اَز خود ہی کُھل رہے تھے
نڈر پیادہ تھے
اور بُزدِل
اصیل گھوڑوں پہ بیٹھ کر
جنگ لڑرہے تھے
گنا ہ گاروں نے سَر سے پا تک
بدن کو بُراق چادروں سے
ڈھکا ہوا تھا
ولی کی ننگی کمر کو چھپا نے کو
کو ئی کپڑا نہیں بچا تھا
عجیب ما فوق سلسلہ تھا !

رفیق سندیلوی اسلام آباد

”عجیب مافوق سلسلہ تھا“کا تجزیاتی مطالعہ۔۔۔۔
themes یا موضوعات ہمیشہ ہی سے نظم یا کہانی میں اوّلین حیثیت رکھتے ہیں۔اِس نظم کا عنوان ”عجیب مافوق سلسلہ تھا“ structuring کے اعتبار سے نہ صرف عمدہ ہے بلکہ اِس نے قاری کے لیے سوچنے کی راہ بھی کھول دی ہے۔عجیب اور مافوق کا لفظ قاری میں structurarist یعنی ساختیاتی نہیں تو structurarیعنی ساختی روّیہ ضرور اُبھارتا ہے۔چونکہ ساخت کا عمل ذہنِ انسانی کی کارکردگی کا بنیادی رمز ہے ،اِس لیے عنوان کی موضوعی ساخت (structure themtic) معنی کی تہوں کو کھولنے کی سعی کے لیے قاری کوtext کے اندر اُترنے پر اُکسا رہی ہے۔یہی وہ movement of mind یا ذہنی تحریک ہے جو مجھے رفیق سندیلوی کی کتاب” غار میں بیٹھا شخص “میں شامل تمام نظموں کا خاصہ نظر آئی ہے۔ ”عجیب مافوق سلسلہ تھا“ ایسا عنوان ہے جو اپنے اندر معنی کی ایک دُنیا سموئے ہوئے ہے اور یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ شاعر نے صرف ایک لفظ” تھا“ کی مدد سے نظم کو آفاقی حیثیت دے دی ہے اور کس فن کاری کے ساتھ متعدد سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔۔۔یعنی کیا وہ یہ سب کچھ کسی نئی دُنیا سے واپسی پر لکھ رہا ہے۔۔۔کیا یہ عالمِ خواب سے بیداری کے بعد کا منظر نامہ ہے جسے وہ اپنے اُوپر منکشف کر کے خود کو بھی اور دوسروں کو بھی حیرت میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔۔۔یا پھر یہاں” تھا“لکھ کر اُس نے کروڑوں ،لاکھوں ،ہزاروں یا سینکڑوں برسوں پہلے کی کوئی بات اشارةََ کہی ہے۔گو کہ اِن تینوں اِمکانات کی علامتیں اور اِستعارے نظم میں موجود ہیں مگر قضیہ یہ ہے کہ اِ ن باتوں کو کیسے قبول کیا جائے۔یہی وہ ذہنی تحریک ہے جو ہمیں ہر نظم نگار کے ہاں دیکھنے کو نہیں ملتی۔قاری کی فکر ونظر کوتحقیق و جستجو کے مرحلے میں داخل کرنا اورنظم کی باطنی ساخت یعنی deep structure کو معنویت کی بیانیہ سطح پر تلاشنا ہی رفیق سندیلوی کی نظموں کے متن کی آفاقیّت کو متعیّن کرتا ہے۔۔۔سو میرے نزدیک سوال یہ ہے کہ نظم میں’ ’تھا“ کی حقیقت کیا ہے؟

رفیق سندیلوی کی کتاب ”غار میں بیٹھا شخص“ میں شامل مضمون میںڈاکٹر ستیہ پال آنند نے بتایا ہے کہ جب اُنھوں نے یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کے سامنے اِس نظم کو سہل انگریزی میں ترجمہ کر کے بلیک بورڈ پر لکھا تو ایک طالبہ نے کہا کہ نظم کے واقعات ماضی میں کیوں ہیں؟اُس نے پوچھا حال کیوں نہیں؟نظم کو ماضی میں بیان کر کے کیا شاعر اپنے فرضِ منصبی سے سبک دوش ہو گیا؟دوسرے طلبہ نے کہا کہ ماضی تاریخ کے صفحات پرfixd ہے،بدلتا نہیں جب کہ حال موجود ہے،چل رہا ہے۔۔۔تجربے کے طور پر نظم کو present continious tenceمیں بدل کر دیکھا گیا۔۔۔شجر جڑوں کے بغیر ہی اُگ رہے ہیں/خیمے بغیر چوبوں کے/ اور طنابوں کے آسرے کے/زمیں پہ اِستادہ ہو رہے ہیں/۔۔۔ولی کی ننگی کمر چھپانے کو کوئی کپڑا نہیں بچا ہے/عجیب مافوق سلسلہ ہے۔۔۔تو حال کے سیاق وسباق میں اور بین الاقوامی ،سیاسی سماجی اور تہذیبی تناظر میںنظم ایک ہمہ گیر معنی کی حامل ہوگئی۔

میں یہاں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ شاعر نے یہاں آج کی بات کی ہے مگر” تھا“ کا گھونگٹ ڈال کر اِس نظم کی خوب صورتی اور مسٹری میں اضافہ کردیا ہے۔یہاں پر سینکڑوں یا ہزاروں برسوں کی مسافت والا ”تھا“ نہیں ، ماضی قریب کے وجود سے نکلا ہوا جیتا جاگتا ”تھا“ہے جس کا لمس حال کے ہونٹوں پر بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔۔۔جیسے ہم دو منٹ پہلے مرنے والے شخص کے بارے میں کہتے ہیں---کیا اچھا آدمی تھا ۔۔جیسے ہم ابھی پاس سے اٹھ کر جانے والے کے بارے میں استفسار کرنے پر عرض کرتے ہیں---وہ یہیں بیٹھا تھا ---میرے خیال میں نظم کو حال میں تبدیل کرنے سے نہ صرف نظم کا حقیقی رنگ مدھم پڑ جاتا بلکہ نظم رپورٹنگ کرتی ہوئی نظر آتی۔یہی کام شاعر نے کیا ہے کہ نظم کو خبر بننے سے بچانے کے لیے لفظ ”تھا“کے سپرد کر دیا ہے اور قاری کی سوچ کو لا محدود کر دیا ہے۔ کبھی کبھار ہم سامنے بیٹھے آدمی کو سوچوں میں محو پا کر پوچھتے ہیں۔”بھئی کہاں کھو گئے تھے۔“یہاں وہ حال میں موجود ہوتے ہوئے بھی موجود نہیں ہوتا۔۔۔حالانکہ وہ حال میں موجود ہے لیکن ”تھا“کے بغیر نا مکمل ہے---یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ”عجیب مافوق سلسلہ تھا“ جیسی لائن کا سارا حسن ”تھا“ میں ہے لیکن یہاں ”تھا“اکیلا بھی کچھ نہیں ،اِس کا ہونا بھی اپنے بقایا سے ہے۔ وٹگنسٹائن کا کہنا ہے کہ”یہ عالم اشیاء کی ملکیت نہیں بلکہ حقائق کی نسبتوں یا روابط کی کلیت ہے،اور حقائق صورتِ حالات کا معاملہ۔۔۔“
''The world is the totality of facts not of things and facts are states of affairs----''

اور اسی لیے معاملے کی صورتِ حالات میں سے ہر صورتِ حال کو اگر ظاہر ہونا ہے یا اِس سے کسی ایک صورت ِحال کا بھی اظہار ہونا ہے تو پھر اِس ایک صورتِ حال کو صرف کسی ایک’ لفظ ‘سے نہیں،جملے کے مربوط و مرکب الفاظ کے نظام کے ذریعے ظاہر ہونا پڑتا ہے۔

دراصل یہاں '' تھا'' کی ساخت (اسٹرکچر) کثیرالمعنویت کی حامل ہے۔ یعنی یہ معنی کشائی اور معنی افشانی کے مسلسل عمل سے عبارت ہے اور مربوط ہو کر اس نے معنی کی غیر معیّن صورت کو جنم دیا ہے ۔۔یوں پوری نظم موجودگی(Presence)اور ناموجودگی(Absence)کی عمدہ مثال بن گئی ہے۔ اِس نظم کا structureچونکہ بیک وقتPresentاورPastکی نشان دہی کرتا ہے، اس لیے میں اس کی structuringکوGrooves یعنی غیر مرئی کھائیاں خیال کرتا ہوں------ایسے جیسے سمندر میں لہروں کی اچھل کود سدا موجود رہتی ہے تاہم اُس کے کنارے ٹھوس وجود رکھتے ہیں۔ گو کہ نظم نے کہیں بھی بظاہر پیچیدہ صورت اختیار نہیں کی اور نہ ہی اسلوب کو گھمبیر تراکیب میں گوندھا گیا ہے پھر بھی اس کی معنویت اس کی بیانہ سطح (narrative suaface)کی تہہ میں تلاش کرنا پڑتی ہے یعنی پڑھتے ہوئے قاری کا سفر اگر افقی (horizontal)ہوگا تو ہی اس نظم کے Web of Relationsیا رشتوں کے جال کو سمجھ پائے گا۔نظم ابتدا ہی سے مصنف کے طرزِ احساس کو افضل اور معتبر بنا دیتی ہے کہ قاری نچلی سطح پہ رہ کر اِس کی پہلی لائن کے عقب میں چھپے تہ ورتہ معنی کی لذت کو کشید ہی نہیں کر سکتا کہ :شجر جڑوں کے بغیر اگ رہے تھے۔۔اب یہاں پڑھنے والے پر کئی سوال جھپٹ پڑیں گے---کیوں؟کہاں؟کیسے؟اصل میں اِس لائن میں سب سے اہم لفظ ہے ''شجر''جو اِس لائن میں بطور signifire کے موجود ہے۔سب جانتے ہیں کہ شجر کا کام سایہ دینا ہے۔سکون بخشنا اِس کا وصف ہے اور پناہ دینا اِس کی مجبوری------مگر جونہی جملہ مکمل ہوتا ہے یعنی” شجر جڑوں کے بغیر ہی اگ رہے تھے “تو وہ deconstructہو جاتا ہے اور معنی پس معنی، معنی در معنی اور سوال در سوال کی صورتِ ِحال جنم لیتی ہے اور یہ سلسلہ پوری نظم میں قائم رہتا ہے۔deconstructionکا مسلسل عمل کثیرالمعنویت سے عبارت ہے ۔یہ اوپری سطح کی بات ہے لیکن اس کی معنوی گہرائی میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ شجر تحفظ کی علامت ہے اور جڑ اس کی مضبوطی کا نشان یعنی معنی کے دوسرے ہی رخ پہ شجر کی اہمیت کم ہو گئی اور جڑ فوقیت لے گئی۔۔اس طرح تخلیق کار اپنی فلسفیانہ صداقت کو قائم کرتے ہوئے قاری کو Disseminationکی سرحد پر لا کھڑا کرتا ہے اور یہیں سے معنی کی اشتقاقی جڑوں تک پہنچنے کی مہم شروع ہو جاتی ہے۔۔۔ اِس نظم کا کرشمہ اُس کی قرات میں ہے جس سے قاری پر ہر بار معنی کے نئے آسمان طلوع ہوتے ہیں۔ اب دیکھیے ”شجر“یہاں مقدّم سگنی فائر ہے اور”جڑوں کے بغیرہی “نے اپنے موخر سگنی فائر کی اہمیت کو کم کیا ہے اور ''اگ رہے تھے''بطور سگنی فائر کے لائن کا اختتامی نقطہ ہے۔ لیکن کیا ---یہاں جملہ مکمل ہو گیا ؟نہیں یہ تشنہ تکمیل رہ گیا ہے اور سوچ کو ضربیں لگاتا جا رہا ہے کہ کیا شجر کبھی جڑوں کے بغیر بھی اگ سکتا ہے۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔ کیا یہ خواب کی بات ہے---؟کیا یہ کسی جادوئی دُنیا کی بات ہے---؟--- اگر ہم یہاں ” شجر“ کوفرد یا انسان کے روپ میں دیکھیں اور ایک نظر اپنی ذات میں جھانک کر اپنے کھوکھلے پن کا مشاہدہ کریں تو شاید تخلیق کار کی آواز ہمارے کانوں تک پہنچ سکے۔اصل میں پہلی لائن حضرت انسان سے مخاطب ہے اور بتا رہی ہے کہ انسان انسان تو ہے مگر منصب ِانسانیّت سے دور ہے---یعنی وہ ہوتے ہوئے بھی نہیں ہے۔ گویا جڑوں کے نہ ہوتے ہوئے بھی شجر کی موجودگی کی ما بعدالطبیعات (Mataphysics of Prasence)کو سمجھنا ہی اصل نکتہ ہے جو قاری کو معنی کشائی کے منصب تک لا سکتا ہے۔۔۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس نظم میںdee structuringکے عمل نے معنی کے افق کو روشن کیا ہے۔

اِسی رَو میں جب ہم نظم کی اگلی قرآت میں داخل ہوتے ہیں تو نظم ہمیں قدرے منتشر کرتی ہوئی خود اپنے ہی سامنے لا کھڑا کرتی ہے---اب سوالات کی گٹھڑی ایک بار پھر قاری کے سر پر ہے ---مگر اب یہ گٹھڑی دانتوں سے نہیں ، ہاتھوں سے کھولنے کے قابل ہو چکی ہے ۔اب ہم معنی کو الٹ پلٹ کر دیکھنے کی سعی کے اہل ہیں۔ لیکن یہاں بھی شاعر کا تخلیقی شعور تکنیک،اسلوب اور علامتی اظہار کا نقاب اوڑھے ہمارا منتظر ہے۔ اب آگے جو منظر نامہ پیش کیا گیا ہے وہ کچھ یوں ہے :
خیمے، بغیر چوبوں کے/اورطنابوں کے آسرے کے/زمیں پر اِستادہ ہورہے تھے/
چراغ ،لَو کے بغیر ہی /جل رہے تھے

یہ سطریں پڑھنے کے بعد ذہن میں خیمے اور چراغ کی تصویر ابھرتی ہے لیکن یہ تصویر بڑی عجیب سی ہے۔ دل تسلیم کرنے کے لیے راضی نہیں کہ چراغ بغیر لَو کے کیسے جل سکتا ہے اور خیمے بغیر چوبوں اور طنابوں کے کس طرح زمیں پر اِستادہ ہو سکتے ہیں ؟قاری اپنی جگہ صحیح ہے۔۔۔لیکن پریشان اِس لیے ہے کہ وہ اِس منظر کو اپنے باطن میں بظاہر دیکھ بھی رہا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور بھی ہے کہ آخر کس systemکے تحت فن پارے کو abstract system میں ڈھالا گیا ہے یوں کہ تجریدی شعریت بھی eventیعنی واقعے کے ساتھ ساتھ رہتے ہوئے فکر کو خلط ملط کر رہی ہے۔ اصل میں قاری چراغ اور خیمے کو دیکھتا ضرور ہے مگر ظاہری سطح پر---داخلی سطح پر اُترنے کے لیے اسے لذّت کوش قاری ( pleasure-seeker)کے منصب سے آ گے آنند کوش قاری (ecstacy-seeker)کے منصب کی طرف جانا ہو گا اور Readerly اور writerlyکے بیچ پُل بنانا پڑے گا۔ گو کہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ تحریر سے لذّت کوشی کا عمل ہی صحیح عمل ہے نہ کہ تحریر کو معنی کی ترسیل کا ذریعہ بنانے کا عمل۔۔تاہم قرات کے دوران آنند اور غایت انبساط کے جو لمحات آتے ہیں،وہی قرات کے افضل ترین لمحات ہوتے ہیں۔غور کیجیے تو ”خیمہ“یہاں ”شجر“ ہی کے مماثل ہے اور چوب و طناب بطور خیمے کی جڑ کے۔۔۔مگر ہو بہو نہیں۔ نظم کا کمال یہ ہے کہ اِس میں لذّت و نشاط اور آنند اور سرور کی دونوں سطحیں یکجا ہو گئی ہیں۔ اصلاً یہ نظم Singsکا مجموعہ ہے ---ایسے ہی جیسے ہارمونیم کا ہر بٹن اپنی ایک خاص آواز رکھتا ہے مگر ان آوازوں کے باہمی ملاپ سے ہی سُر وجود میں آتے ہیں۔

چونکہ پوری نظم بظاہر حقیقت کی ضد بن کر سامنے آئی ہے، اِس لیے پہلی قرآت میں جو تاثر تجسیم پاتا ہے اُسے antiyhesisکے طور پر بھی لیا جا سکتا ہے مگر اِس کے ساتھ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تشکیلات اور مرکبات (configuration and grouping) نے بھی نظم کے معنیاتی نظام میں اشارے اور کنائے سے جہاں باہمی افتراق کی فضا پیدا کی ہے وہاںتضاد کی ایک مسلسل کیفیت کو بھی جنم دیا ہے۔یقیناََ یہ کیفیت اِس نظم کی غیر معمولی صفت بن کر اُبھری ہے:
چراغ کا لَو کے بغیر جلنا ۔۔۔کوزے کا بغیر مٹّی کے چاک پر ڈھلنا۔۔۔دریا کا بغیر پانی کے بہنا۔۔۔۔
دُعاﺅں کا گرفتہ پا ہونا ۔۔۔رُکی ہوئی چیزوں کا قافلہ ہونا۔۔۔پہاڑ کا بارش کے ایک قطرے سے گھلنا ۔
بغیر چابی کے قفل کا از خود ہی کھلنا ۔۔نڈر کا پیادہ ہونا اور بز دل کا اصیل گھوڑوں پر بیٹھ کرجنگ لڑنا۔۔۔
گناہ گاروں کا بدن کو بُرّاق چادروں سے ڈھاپنا۔اور ولی کی ننگی کمر چھپانے کے لیے کپڑے کا نہ ہونا۔

اپنی ساخت کے اعتبار سے یہ نظمAntithesisکے زُمرے میں آتی ہے ا ور اِس مثال سے متّصل ہے جیسے کسی عورت کا بغیر باپ کے بچے کو جنم دینا ( گو کہ مذہبی طور پر یہ ایک حقیقت بھی ہے) لیکن نہ ماننے والے کے سامنےText کو خود بولنا ہوگا۔۔اگر ہم ایسا نہیں چاہتے تو کیوں نہ ہم خود اِس کی موضوعی ساخت میں غوطہ لگائیں اور تہہ در تہہ چھپے ہوئے معنی اکھاڑتے چلے جائیں۔گو کہ وہ آخری بات نہیں ہوگی ،اِس لیے کہ پوری نظم pattern orientedہے کیوں کہ یہ ایک معنی یا ایک مرکز کی داعی نہیں۔ ”شجر“ اور ”خیمے “کے بعد ہم ”چراغ “کو بطورِ دال یاسگنیفائر اِس کے sound pattern میں دیکھتے ہیں جس کا مدلول یا سِگنیفائڈ روشنی ہے۔اِس کا بغیر لَو کے ہونا sound pattern کو زِچ کرتا ہے تو اسے ہم اور طرح سے دیکھتے ہیں کہ روشنی اندھیرے کی ضد ہے اور اندھیرا جہالت کے مترادف تو روشنی علم کا جسم ہوئی ۔۔ یوں چراغ لَو کے بغیر ہی سگنیفائر بنتا ہے اور جہالت اور اندھیرے کا سِگنیفائڈےامدلول decodeہوجاتا ہے۔ نظم نگار نے یہاں ایک خاص شعریاتی عمل کے ذریعے سامنے کی بات کو بھی اس گھمبیرتا کے ساتھ پیش کیا ہے کہ قاری متن میں متعدد کنونشز کو باہم گتھے ہوئے پاتا ہے۔ جیسے ”چراغ لَو کے بغیر ہی جل رہے تھے “ کہہ کر تخلیق کار نے ”تھا“میں ساری بات کو ڈھانپ دیا ہے۔مگریہاں ”تھا“کَل کی بات ہے یا پَل کی بات ،برسوں پُرانے کَل کی نہیں۔اصلاََ presenceاورabsenceکے درمیان کی بات ہے۔ مثلاََ چراغ لَو کے بغیر تھے یعنی اِن میں چراغ ہونے کی صلاحیت کو جہالت نے چاٹ لیا اور وہ چراغ ہوتے ہوئے بھی چراغ ہونے کے منصب سے بے گانہ تھے اور بجائے روشنی کے اندھیرا بانٹ رہے تھے یعنی اِن کی تہہ دار ذیلی ساخت نے ظاہر(Explicit) ہوتے ہوئے بھی خود کو پوشیدہ(Implicit) کیا ہوا تھا ۔ بعینہ پوری نظم خود کو deconstructکرتی چلی جاتی ہے۔ جیسا کہ کوزے بغیر مٹّی کے چاک پر ڈھل رہے تھے۔ کوزہ مٹّی سے ہے اور مٹّی انسان کی بنیادی علامت ہے اور انسان وفا کا پیکر ہے۔کوزے کا مٹّی کے بغیر ڈھلنا انسان کو وفا کے جوہر سے تہی ظاہر کررہا ہے اور دریا کے بغیر پانی کے بہنے میں گو کہ کوئی صداقت نہیں ،مگر ہم جب Significationاور معنویّت و دلالت کے دائروں میں اُترتے ہیں تو دریا ہمیں خوشحالی کا سمبل نظر آتا ہے اور اِس کا پانی کے بغیر بہنا اِس کے Antiprocess کو Diseminationیعنی معنی افشانی کے عمل میں کھینچ لاتا ہے۔ دُعاﺅں کا گرفتہ پا ہونا بھی اینٹی تھیسس کی مثال ہے کہ دُعا جو کوئی وجود نہیں رکھتی وہ Sound pattron میں کسی امیج کی طرح ذہن کے صفحے پر نمودار ہوتی چلی جاتی ہے لیکن ما فی الضمیر میں تڑپ برقرار رہتی ہے اور نہیں نہیں کی آواز بلند ہوتی ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ داخل میں منظر کی بازکشی ایک پل ٹھہرنے نہیں دیتی اور آگے ہی آگے نکل جانے پر بضد ہے گو کہ نظم میں کار فرما متن کی اصل یاOrigion کو تلاش کرنا عبث ہے مگر تلاش کا عمل سعی سے ہے اور یہی افضل ترین ہے۔ دُعا ''مانگنے'' سے تعبیر ہے اور مانگنا عاجزی کی دلیل ہے اور اِس کی گرفتہ پائی اِنسان کے اندر لگی ہوس و حرص کی آگ کے بڑھ جانے کی مثال بنتی نظر آرہی ہے۔ رُکی ہوئی چیزیں قافلہ تھیں۔۔اِس لائن نے قاری کو ایک بار پھر جھنجھوڑا ہے۔ رُکی ہوئی کون سی چیزیں ۔۔۔پہاڑ،عمارتیں،دُنیاوی سازوسامان ،جامد نظریات یا خود انسان ۔۔۔چونکہ مندرجات میں چیزوں کا ذکر ہے، اِس لیے وہ تمام چیزیں جو انسان کے غرور اور حرص وآز کی علامت ہیں قافلے کی حیثیت رکھتی ہیں اور انسان اِس قافلے کو Leadکرتا ہوا بہت دور جا نکلا ہے۔اُس نے شعوری طور پر اِن رُکی ہوئی چیزوں ہی کو اپنا اثاثہ مان لیا ہے اور اِسی میں خوش ہے مگر یہ خوشی مصنوعی ہے اور اُسے paradigmaticسمت میں لیے جا رہی ہے۔اِسی طرح پہاڑ طاقت کا سرچشمہ ہیں مگر اِن کا بارش کے ایک قطرے سے گھل جانے کا مطلب یہ ہے کہ فطرت انسان سے مُنہ موڑ رہی ہے اور بغیر چابی کے قُفل کا ازخود ہی کھل جانا انسان کی عیاری اور مکاری کا سِگنیفائڈ بن کر ہمارے داخل پر دستک دے رہا ہے۔نڈر کا پیادہ ہونا بے وقعتی اور ناقدری کا غمّاز ہے،اچھائی کو دبانے ،پیش قدمی کو روکنے اور حسبِ لیاقت مواقع اور سہولتیں مہیا نہ کرنے کی طرف اشارہ ہے۔اِسی طرح” اصیل گھوڑوں پر بیٹھ کر جنگ لڑنے کا منظر“ حق کے چھن جانے کے سِگنیفائڈ کے طور پر سامنے آتا ہے اور بڑی حد تک حقیقت نگاری کا عکاس بھی ہے جب کہ”گناہ گاروں نے سر سے پا تک/ بدن کو بُرّاق چادروں سے ڈھکا ہوا تھا“جیسی سطریں آج کے معاشرے کے سیاسی ،ادبی اور مذہبی پیشواﺅں کے ساتھ ساتھ عام انسان کو بھی آئینہ دکھا رہی ہیں۔اصلاََ اِن لائنوں کی گہری معنویت کو خود پر مُنکشف کرنے کے لیے اِن لائنوں کی representation in the mindکو مدِّنظر رکھنا ضروری ہے کہ کیسے گناہ گاروں کو نقاب پہنا کر بے نقاب کیا گیا ہے۔اختتامیہ لائن سے کچھ پہلے یعنی پنچ لائنوں میں۔۔۔ولی کی ننگی کمر چھپانے کو/کوئی کپڑا نہیں بچا تھا ۔۔۔کہہ کر فرد کی اپنی ذات میں اسیری اور ملّت کی بے حسی کو کوسا گیا ہے اور قاری کو روحانی گھاﺅ لگایا گیا ہے ۔ہم ان لائنوں میں صوتی ساختیہ (Sound Pettern)اور مدلول (Signified)کو واضح طور پر سُن اور دیکھ سکتے ہیں جیسے ہم کسی تصویر میں کھو جانے کے بعد محسوس کرتے ہیں ۔آخری لائن”عجیب مافوق سلسلہ تھا “کی قرآت نے ایک بار پھر ہمیں اختتام میں آغاز کا مزا دیا ہے اور نظم کی معنیاتی و جمالیاتی تکمیل پر مُہرِتصدیق ثبت کر دی ہے۔

آپ نے دیکھا کہ یہ نظم جب اپنے متن میں ''نہاں ''کو بذریعہ قرآت ''عیاں''بنا لیتی ہے تو اس کے معنی institutionalized ہوتے نظر آتے ہیں۔قاری معنی کے پھیلاﺅ میں اِس قدر کھو جاتا ہے کہ اسے اپنا آپ نظم کے کینوس میں گھومتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور وہ تخلیق کار اور تخلیق کے ساتھParticipantیعنی شریکِ کار کا رشتہ قائم کر لیتا ہے ۔ یہی ایک سچی تخلیق کا منصب ہے۔
Syed Tehseen Gilani
About the Author: Syed Tehseen Gilani Read More Articles by Syed Tehseen Gilani: 2 Articles with 2707 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.