خط بنام خالق کائنات

سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں -وہ الفاظ کہاں سے لاؤں جن سے آپ کی تعریفیں کروں- خط شروع کرتے ہوئے جہاں اپنے اوپر ہنسی آرہی ہے کہ کہاں میں جو اس کائنات میں ایک ریت کے ذرے کی مانند بھی نہیں اور کہاں آپ جس کی بالادستی پورے عالم اقوام پر قائم ہے مگر سر مشاری کے اس عالم میں خط لکھنے کی جرت کر رہا ہوں یہ جانتے ہوئے کہ آپ بڑے معاف کرنے والوں میں سے ہیں- گزشتہ مہینوں سے کئی سوال میرے ذہن میں گردش کر رہے ہیں-

جب اس دنیا میں اپنے وجود کو دیکھتا ہوں تو خون کے آنسو روتا ہوں- میرے خالق آپ نے تو انسان کو ایک بہترین ساخت سے پیدا کیا تھا- آپ نے ہر انسان کو اس کائنات میں برابر کا درجہ دیا تھا -آپ نے اس کو زہن دیا تھا کہ وہ آپ کی اس حسین کائنات کا نظارہ کرے اور آپ کے حمد بجا لائے- آپ نے انسان کو انسان کا ہمدرد بنایا تھا مگر اے زمين و آسمان کے حاکم یہ سب دنیا میں کیا ہو رہا ہے -کیوں جگہ جگہ انسان انسان کا شکار ہے -بارود کے ڈھیر میں بیٹھا انسان کیوں بے فکر ہوکر دوسروں کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے ؟کیوں ہر طرف ظلم و ستم کا تلاطم ہیں؟ کیوں ہر طرف ناانصافی ہی ناانصافی ہے؟ ایسی صورتحال میں آپ اپنے بندوں سے صبر کی توقع کیسے کر سکتے ہیں جب پورا اقوام عالم ظلمت میں بھٹکا ہوا ہو -جب حکمران لگ دن دھاڈے خدایت کے دعوے کرتے ہو-

جب کہ تجھ بن کوئی نہیں موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

ایک سادہ لوح انسان آپ سے بس یہ کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ ہم جائیں توکہاں ?ایک طرف دنیا میں گستاخ اسلام کو گلے لگایا جارہا ہے- انہیں سونے کی مالا یا پہنا کر عزت افزائی کی جاتی ہے وہیں دوسری طرف ایسے ایسےحکمران نمودار ہو رہے ہیں جو مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے پر عزم ہے ایسی صورتحال میں گھبراہٹ ایک لازمی اور فطری عمل ہے
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں کو۶ی پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

آپ کا نام لینے والوں کو جگہ جگہ ذلیل کردیا جاتا ہے- انہیں سولی پر لٹکایا جا رہا ہے اور انہیں ملک بدر کردیا جاتا ہے -آپ کے دین کی پیروی کرنے والوں کو دہشت گرد کہا جاتا ہے اور ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھا۶ے جارہے ہیں-دنیا کو حق کی طرف بلانے والوں کو نظر زندان کیا جاتاہے-

مگر یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی آپ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں- مگر آپ کو ایک بات جان لینی چاہئے کہ
حوصلے وہ نہ رہے ہم نہ رہے دل نہ رہا
گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا

میں جانتا ہوں کہ میں بڑا بے ادب ہوں آپ کے دربار میں جہاں بڑی بڑی ہستیاں لب کشائی کرنے سے کتراتی ہے وہاں مجھ جیسے طفل بے شناس کا ہنگامہ بپا کرنے کا یہ ناقابل معافی فعل میرے ناقص عقل ہونے کا ایک واضح ثبوت ہے- مگر آپ ہی بتا دیں کہ اپنی فریاد لے کر میں کہاں جاؤں -میری حاجت تو آپ سے ہیں -

میرے وجود میں ہلچل پیدا کرنے والا -مجھے تپش الم میں جلسا دینے والا دل تو آپ نے ہی میرے سینے میں فکس کر رکھا ہے جو مجھے بار بار آپ کے دربار میں نالہ و آہ زاری کرنے کے لیے اکساتا ہے - یہ ایک ایسی شہ ہے جس سے میرے وجود میں نہ تھمنے والے طوفانوں کا سلسلہ جاری ہے-
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ میرے سارے حاجات سے اچھی طرح واقف ہے کیونکہ وہ ہستی جو سینوں میں بسے اسرار سے بھی آشنا ہو وہ بھلا میرے مصائب سے آگاہ کیوں کر نہ ہو? بس میں اپنے انسان ہونے کا دعوا صحیح ثابت کر رہا ہوں
چونکہ آپ ہی کا قول ہے کہ انسان بے صبر ہے خواہشات کا پتلا ہے اور نہ جانے کیا کیا -میں بھی اسی دوڈ میں لگا ہوا ہوں-

چھیڑتا ہوں کہ ان کو غصہ آئے ورنہ کیوں رکھوں غا لب میں اپنا نام
انشاءاللہ آپ سے خط وکتابت کا سلسلہ جاری رہے گا - اور امید ہے کہ اپ کا نظر کرم ہم پر بھی عنایت ہوگا-
خط لکھیں گے چاہے مطلب کچھ نہ ہو

ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

آپ کی رحمت کا طلبگار
یونس

Dr Younus
About the Author: Dr Younus Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.