شادی کی تقریبات میں ولیمہ ایک ایسا عمل ہے جس کا نبی
کریم صل اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ولیمہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بہت
محبوب اورمرغوب سنت ہے اور اس کا سب سے بڑا مقصد اللہ پاک کا شکر ادا کرنا
ہے کہ اللہ نے انسان کوایک شریکِ حیات عطا کی جو اس کی زندگی کے لیے تسکینِ
خاطر کا باعث ہوگی اور زندگی کے نشیب و فراز میںاس کی مونس وہمدرد بھی ۔
اللہ کا شکر ادا کرنے کا ایک طریقہ یہ بتایا گیا کہ اس خوشی میں دعوت کا
اہتمام کیا جائےاوراپنے دوستوں ،رشتے داروں نیزغرباکوبھی اپنی اس خوشی میں
شریک کیاجائے چنانچہ ولیمہ اسی خوشی کا اظہار ہےمگریادرکھناچاہیے کہ ولیمہ
اپنی استطاعت بھرصرف خوشی کااظہارہو،دولت ،تعلقات ، عزت اوراپنی سماجی
اہمیت کامظاہرہ نہ ہو۔ایک دوسرے پرسبقت لے جانے کی کوشش ہرگزنہ ہو لیکن
دوسری طرف سچائی یہ بھی ہے کہ اس پاکیزہ سنت کو ادا کرنے میں لوگ ایک دوسرے
پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ مسکینوں اور غریبوں کو دعوت دینے
کی بجائے زیادہ ترامیروں اور مال داروں کومدعو کیا جاتا ہے جب کہ حضور
رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے کہ :بدترین
کھانا وہ ولیمہ ہے جس میں مال داروں کو بلایا جائے اور فقیروں کو چھوڑ دیا
جائے۔ (بخاری و مسلم شریف)
ولیمہ اس قدرمبارک عمل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں برکت کی
دعافرمائی ہے ۔ایک حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے امیرالمؤمنین
حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ شادی کے
کھانے میں ہم کو جو لذّت اور خوش بو ملتی ہے وہ عام کھانوں میں نہیں ملتی؟
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے ولیمہ کے کھانے میں خیر و برکت کی دعا فرمائی ہے ۔
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام نے دعا کی ہے کہ اے اللہ! اس
کھانے کو لذیذ اور بابرکت بنا۔ ولیمہ میں جنت کے کھانے کا مزہ ہوتا
ہے۔(کنزالعمال)
ملاحظہ کیجیے کہ ولیمے کی دعوت میں اللہ عزوجل نے کس قدرلطف رکھاہے ۔اس
ولیمے کی دعوت کی اہمیت وبرکت کااندازہ اس حدیث نبوی سے بآسانی لگایا جا
سکتا ہے جس میں فرمایاگیا’’ جو شخص بلاعذرِ شرعی دعوت(ولیمہ) میں نہ جائے۔
اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نافرمانی
کی ۔‘‘ (بخاری و مسلم شریف)
اس قدراہمیت وعظمت والی دعوت جوہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین
سنتوں میں سے ایک ہے ،کوہم نے دنیاوی خرافات کامجموعہ بناکررکھ دیا ہے ۔
استغفراللہ ۔تھوڑی سی سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان کوبھی یہ بات آسانی سے
سمجھ آجائے گی کہ ولیمہ جب سنت ہے ،دنیاوی رسم نہیں تو اسے کرنا بھی
اسلامی طریقہ سے ہی چاہیے ،نہ کہ دنیاوی طریقے سے ۔مگرافسوس! آج کل ولیمے
کی تقریب میں بھی بارات سے زیادہ ہجوم دیکھائی دیتا ہے، اپنی شان و شوکت کا
اظہار کیا جاتا ہے، غربا کی شرکت کو ناپسند اور اپنے مقام و مرتبہ کے خلاف
سمجھا جاتا ہے۔خواتین کی بے پردگی کا یہ عالم دیکھا جاتا ہے کہ دسمبر اور
جنوری کے کڑکتے جاڑے میں بھی ان کے جسم پر بہت ہی باریک اور کم سے کم لباس
دیکھنے کو ملتا ہے اور اس پرمستزادیہ کہ ساری محفل میں ویڈیو فلم، سیلفی
وغیرہ بنا بنا کر پورے سوشل میڈیا پر وایرل کیا جاتا ہے اور پوری محفل میں
بے پردگی کا ایک طوفان آیا ہوا ہوتا ہے حتی کہ دلہن کی تصاویر بار بار
پروجیکٹر پر لائو شو ہورہی ہوتی ہیں اور ہر عام اور خاص راہ چلتا اسے مزے
سے دیکھتا اور اس کا لطف لیتا ہے۔ شادی میں شرکت کرنے والے مہمان یہ کہتے
ہوئے نظرآتے ہیں کہ واہ کیا شاندار شادی کی ہے۔ اس وقت ان کے یہ الفاظ سن
کر میں دنگ رہ جاتی ہوں کہ یا اللہ ہماری اس قوم کو کیا ہوگیا ہے؟ اور کس
طرف ہم جارہے ہیں، لیکن اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ ایمان کی دوسری سطح پر
عمل کرتے ہوئے کم ازکم میںاس کو غلط کہنے کی ہمت تو رکھتی ہوں ۔ اس لیے
شاید لوگ مجھے پسند نہیں کرتے اور مجھے طرح طرح سے تنقید کا نشانہ بنایا
جاتا ہے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر میری اس بات کی بہترین ترجمانی کرتا
ہے.....
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مرد اور عورتیں سب ایک ساتھ اس محفل کا مزہ لیتے ہیں اور کسی کو یہ احساس
تک نہیں ہوتا کہ یہ ہم کیا کررہے ہیں؟ اس کا انجام کیا ہوگا؟ دو تین گھنٹے
کی اس جھوٹی شان و شوکت کے لیے ہم کتنے بڑے گناہ اور ریاکاری کی لعنت کو
اپنے سر باندھ لیتے ہیں۔ کیا یہی سنت ہے؟ کیا اسی طرح دعوت ولیمہ کی تقریب
ہونی چاہیے ؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ریاکاری کے طوفان میں بعض علماے دین
بھی یایوں کہہ لیں کہ علمانماحضرات بھی بڑھ چڑھ کر شامل ہوتے ہیں لیکن
اظہارِ افسوس کی ہلکی سی شکن بھی ان کے ماتھے پر دیکھنے کو نہیں ملتی۔
کیاعلمااپنی ذمے داریاں بھول گئے ؟یاانہیں اس طرح کی ولیمے کی قباحت
نظرنہیں آتی؟کیاایسے ہی ولیمے کا حکم دیا گیا تھا؟
اس طرح کے ولیمے میں دوسری خرابی یہ بھی دیکھیے، کھانے کابے تحاشہ اسراف
اورنہ جانے کتنے اقسام کے کھانوں اور ان کی بربادی کے مناظرآپ آسانی سے
دیکھ سکتے ہیں۔کھانوں سے لبریزپوری پوری پلیٹیں کوڑے کے ڈبے میں نظر آتی
ہیں۔ نہیں یہ سنت نبوی نہیں ،یہ آپ سنت ادا نہیں کررہے، ایک ریاکاری کررہے
ہیں جس سے آپ اپنے آپ کو گناہوں کے انبار میں لے کر جارہے ہیں۔ خدارا اب
بھی سنبھل جایے، توبہ کے دروازے کھلے ہیں ۔ولیمےکی تقریب جس کو آپ سنت کا
نام دیتے ہیں، اسے سنت کی طرح ادا کرنے کی کوشش کیجیے اور اپنے رویوں میں
تبدیلی لایے ۔اسلامی تعلیمات پرعمل کیجیے،اسراف، فضول خرچی سے بچیے۔اوراس
بات کویقینی بنائیے کہ ولیمے کی تقریب سادہ اور مختصرہو۔اس تقریب میں سارے
خاندان اور احباب کو اکٹھا کرنا ضروری نہیں ہے۔ عہد نبوی میں صحابہ کرام
اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادی کرتے تھے لیکن دعوتِ ولیمہ وغیرہ میں کسی
بہت بڑی محفل کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔آئیے رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم
کے ایک ولیمے کی دعوت کامنظردیکھیں:
حدیث شریف کی مشہورومعروف کتاب سنن بیہقی میں ہےکہ آقاے کائنات صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے خیبر سے واپسی پر خیبر اور مدینۂ منورہ کے درمیان تین
روز قیام فرمایااور اسی مقام پر ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا سے نکاح کرکے دعوتِ ولیمہ کی۔ آپ نے دسترخوان پر کھجور، پنیر اور گھی
رکھ دیا۔ دوسرے حضراتِ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی اسی قسم کا سامان
لائے اور سب کو ملا کر لوگوں نے تناول کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ نکاح کی
صبح کو آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ : جس شخص کے پاس
کھانے پینے کا سامان ضرورت سے زائد ہواُسے لاکر رکھ دے ، چناں چہ لوگوں نے
کھجور، ستّو اور گھی کے ڈھیر لگادیے اور اسی سے ولیمہ کی دعوت ہوئی۔ (سنن
بیہقی)
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کے وقت رسول اللہ
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کھجور اور ستّو کا ولیمہ کھلایا۔ حضرت انس
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
نے بعض ازواجِ مطہرات سے نکاح کے موقع پر زیادہ مقدار میں ولیمہ کا
کھاناکھلایا ہے ۔ ثابت بنانی تابعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت انس رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھاکہ حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ولیمہ
کی مقدار کیا تھی؟ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ گوشت اور روٹی
کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ لوگوں نے شکم سیر ہوکر کھایاپھر بھی کھانا بچ
گیا۔(سنن بیہقی)
یہ دونوں حدیثیں میں نے محض نمونے کے طورپرپیش کی ہیں ورنہ اس مفہوم کی بے
شمارحدیثیں ہیں ۔ان سے یہ معلوم ہوتاہے کہ حسبِ استطاعت دعوتِ ولیمہ کا
اہتمام کرنا سنت ہے ، لیکن قرض لے کر لمبی چوڑی دعوت کرنا جائز نہیں ۔
مختصر دعوت سے بھی ولیمے کی سنت ادا ہوجاتی ہے۔ ان احادیث سے ان لوگوں
کوسبق لیناچاہیے کہ ولیمے کی دعوت کے لیے اپنی حیثیت سے زیادہ اہتمام کرتے
ہیں کہ کہیں سماج کے لوگ بعدمیں طعنہ نہ دیں ۔لاحول ولاقوۃ ۔لوگوں
کااتناڈرمگراللہ اوراس کے رسول کا کوئی ڈرنہیں؟
یہا ں غورکرنے والی ایک بات یہ بھی ہے کہ آج میاں بیوی میں طلاق کی کثرت
کیوں زیادہ ہورہی ہے ،اوردونوں میں نباہ کیوں نہیں ہوپارہی ہے ۔؟آپ نے
کبھی اس پرغورکیاہے؟میں دیکھتی ہوں کہ شادیوں میں کروڑوں روپے خرچ کردیے
جاتے ہیں مگرکچھ دن کے بعدپتہ چلتاہے کہ میاں بیوی میں ان بن چل رہی
ہےیادونوں الگ ہوگئے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ۔جانتے ہو،آج کل اس طرح کے واقعات
زیادہ کیوں دیکھنے کومل رہے ہیں ؟کیوں کہ ایسی شادیاں اورایسی دعوتیں جن
میں سنت رسول کا لحاظ نہیں کیاجاتا،برکتوں سے خالی ہوتی ہے اورجہا ں برکت
ہی نہ ہوتووہاں ایسے حادثات توہونے ہی ہیں ۔
جس لحاظ سے بھی دیکھا جائے،ولیمے میں ریاکاری اوراپنی سماجی اہمیت
کا’’اعلان‘‘نہایت قبیح چیزہے ۔اس کے نتائج اگرابھی نہیں ملیں گے تومستقبل
میں ضرورآپ کو مل جائیں گے۔اگر اللہ نے دنیاوی وسائل سے نوازا ہے تو اسے
ان ضرورتوں پر خرچ کیا جائےجن کی معاشرے میں ضرورت ہے۔ اللہ کے دین اور دین
کے محافظوں پر خرچ کیا جائے ،اس طرح کی نمود و نمائش پر نہیں۔اللہ پاک ہم
سب کو اس ریاکاری سے بچائے آمین۔
|