قرآن کریم : پارہ15 ( سُبْحٰنَ الَّذِی ) خلاصہ

سُبْحٰنَ الَّذِی‘قرآن کریم کا پندرھواں (15) پارہ ہے ۔ سُبْحٰنَ الَّذِیکا مطلب ہے ’’پاک ہے وہ ذات ‘‘ ۔ سُوْرَۃبَنیِْ اِسْرَآئیلسے اس پارہ کا آغاز ہوتا ہے ۔ یہ پارہ دو سورتوں پر مشتمل ہے سُوْرَۃبَنیِْ اِسْرَآئیل اور سُوْرَۃُ الْکَھْفِ
ِ پہلےسُوْرَۃبَنیِْ اِسْرَآئیل خلاصہ بیان کیا جائے گا ۔

سُوْرَۃبَنیِْ اِسْرَآئیل

سُوْرَۃبَنیِْ اِسْرَآئیل مکی سورۃ ہے ، قرآن میں آیات کی ترتیب کے اعتبار سے یہ17 ویں سورۃ ہے جب کہ نزو لی ترتیب میں 50نمبر پر ہے ۔ اس میں 12رکو ،111آیات ہیں ۔ بنی اسرائیل کے ذکر سے آغاز ہوتا ہے اس وجہ سے اس کا نام سورۃ بنی اسرائیل ہے ۔ اس سورۃ کا دوسرا نام ’’سورۃ الاسراء‘‘ ہے ۔ ’اسرا‘ کے معنی ہیں رات کو لے جانا، چونکہ اس میں معراج کا ذکر ہے جس میں ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کو رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور پھر وہاں سے آسمانوں پر لے جایا گیا تھا، اس لیے اسے ’سورہَ اسراء‘ بھی کہا جاتا ہے ۔

اس سورۃ کی خاصیت و اہمیت واقعہ معراج ہے ، اس میں بنی اسرائیل میں ہونے والے فتنے اور فساد کی تفصیل بھی ہے، اسلامی آداب و اخلاق کی باتیں بھی کی گئی ہیں ان کے علاوہ بعض دیگر موضوعات بھی سورۃ کا حصہ ہیں ۔

’پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقینا اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے‘‘ ۔ سُوْرَۃبَنیِْ اِسْرَآئیل کا آغاز اس پہلی سورۃ سے ہوا ہے ۔ واقعہ معراج اس سورہَ میں بیان ہوا، واقعہ معراج نبی ﷺ بہت بڑا معجزہ آپ کو اور آپ کی امت کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے ۔ واقعہ معراج کا ذکر کئی اور سورتوں میں بھی ہوا ے ۔ اولین صورت پر غورکریں تو کئی باتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں ۔ فرمایا اللہ نے اپنے ’بندہ ‘کو ، گویا معراج جسمانی تھی ، بیداری کی حالت میں یہ واقعہ پیش آیا، نیند کی صورت میں یا خواب کی صورت ہوتی تو اسے اتنے اہتمام کے ساتھ قرآن کریم میں ذکر نہ ہوتا ۔ پھر اللہ توبڑی طاقت اور حکمت والا ہے وہ تو پلک جھپکے لفظ ’کن‘ کہہ کر جو چاہے کرسکتا ہے، اسباب تو ہم آپ کے لیے ہیں اللہ ان پابندیوں سے مبر ہے ۔ دوسری بات ’’رات کو لے جانا‘، یہاں ’لَیلاً ‘ یعنی رات کی تنگی واضح کرنا مقصد، یعنی طویل سفر جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سفر چالیس راتوں کا ہے اسے رات کے ایک حصے میں یا تھوڑے حصے میں ، پوری رات میں بھی نہیں بلکہ رات کے ایک قلیل حصے میں طے ہوا، اَقصَیٰ دور کو کہتے ہیں جو بیت المقدس ، القدس یا’ا یلیاء ‘ (قدیم شہر) جو فسلطین میں واقع ہے، مکے سے القدس تک کی مسافت 40دن کی ہے اس اعتبار سے مسجد حرام کے مقابلے میں بیت المقدس کو مسجد اقصیٰ (دور کی مسجد ) کہا گیا ۔ یہ علاقہ قدرتی نہروں ، سبز و شاداب باغات، پھلوں کی کثرت اور انبیاء کا مسکن و مدفن ہونے کی وجہ سے ممتاز ہے ۔ جیسا کہ کہا گیا کہ یہ معراج بیداری کی حالت میں ہوئی، یہ خواب یا روحانی سیر یا مشاہدہ نہیں بلکہ عینی مشاہدہ جو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اپنے نبی کو کرایا ۔ اس معراج کے دو حصے ہیں ایک وہ سفر جو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ہوا ، اس مقام پر آپ ﷺ نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی ۔ بیت المقدس سے پھر آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا، ، یہ اس سفر کا دوسرا حصہ ہے اس پورے سفر کو’’معراج‘‘ یعنی سیڑھی کہا جاتا ہے ۔ آسمانوں پر آپ کی ملاقاتیں ہوئیں اور سدرۃ المنتہیٰ پر، جو عرش سے نیچے ساتویں آسمان پر ہے ، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے نمازاور دیگر چیزیں عطا کیں ۔ معراج کی تاریخوں میں اختلاف ہے بعض مفسرین اسے ربیع الا ول کی 17، یا 27کوئی رجب کی 27اور بعض کوئی اور تاریخ اور مہینہ لکھتے ہیں ۔

حضرت موسیٰ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنادیا ‘، پھر آیت 4 میں کہا کہ ہم نے بنو اسرائیل کے لیے ان کی کتاب میں صاف صاف بتادیا تھا کہ تم زمین میں دوبارہ فساد برپا کرو گے ‘، اور دونوں بار ہم بطور سزا کے تمہارے اوپر اپنے بندوں کو مسلط کردیں گے، چنانچہ پہلی مرتبہ جب انہوں نے تورات ک مخالفت کی اور حضرت شعیب علیہ السلام جیسے انبیا ء کو ناحق قتل کیا تو ان پر’ بخت نصر‘ اور اس کا لشکر مسلط کردیاگیا جو پورے ملک میں ایک کنارے سے دوسرے کنا رے تک پھیل گئے ۔ انہوں نے علماء اورروَسا کو قتل کردیا ، تورات جلاڈالی، بیت المقدس کو ویران کردیا اور بہت سارے اسرئیلیوں کو گرفتار کر کے لے گئے ۔ دوسری بار یہود کا فتنہ و فساد اس وقت عروج پر پہنچ گیا جب انہوں نے حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہما السلام کو شہید کیا اور وہ گناہوں میں حد سے بڑھ گئے اب کی بار بابل کا ایک بادشاہ جسے’ بیردوس‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ان پر مسلط کر دیاگیا ۔ یہی فتنہ و فساد یہودکی تاریخ رہی ہے ۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں انہوں نے اپنے آبا کی روایت کے مطابق جب جرائم اور سازشوں کی راہ اختیار کی تو ان پر مسلمانوں کو غلبہ عطا کردیا گیا جنہوں نے انہیں جزیرہ عرب سے نکال باہر کیا ۔ طوفان نوح کے بعد نسل انسانی کے ان بیٹوں کی نسل سے ہے جو کشتی َ نوح میں سوار ہوئے تھے اور طوفان سے بچ گئے تھے اس لیے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا کہ تمہارا باپ نوح اللہ کا بہت شکر گزار بندہ تھا تم بھی اپنے باپ کی طرح شکر گزری کا راستہ اختیار کرو ، اور ہم نے جو محمد ﷺ کو رسول بنا کر بھیجا ہے ان کا انکار کر کے کفران نعمت مت کرو ۔ یہاں ایک موضوع انسان کی فطرت و طبیعت میں داخل جلد بازی اور برداشت کم کا بیان ہوا ہے ،انسان بے حوصلہ ہے، اس لیے جب بھی اسے کوئی تکلیف کچھ زیادہ پہنچی ہے تو اپنی ہلاکت کی باتیں کرنے لگتا ہے ۔ رات اور دن کے بارے کہا گیا کہ رات آرام کے لیے جب کہ دن کسب معاش کے لیے بنائے گئے ۔ یہاں اجتماعی زندگی کے تقریبا تیرہ اسلامی آداب و اخلاق بیان کیے گئے ہیں ، ان آداب کو معراج کا پیغام بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ آداب آیت 39-23 کے درمیان بیان ہوئے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا جس سے والدین کی اطاعت ، ان کی خدمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہوتی ہے ۔ حکم خدا وندی ہے ’’اگر ان دونوں میں سے ایک ا دونوں تیرے ہاں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو تو ان سے ’اف‘ تک نہ کہہ اور انہیں مت جھڑک اور ان سے نرم لہجے میں ادب و احترام سے بات کراور ان کے لیے رحم دلی سے عاجزی کے ساتھ اپنا بازواور پہلو جھکائے رکھ اور کہہ میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی‘‘ ۔ فضول خرچی کو نہ پسند کرتے ہوئے کہا کہ ’’بے شک فضول خرچ شیاطین کے بھائی ہیں ‘‘ ۔ غریبوں ، مسکینوں ، رشتہ داروں کی مدد کر کے احسان نہیں جتلانا چاہیے ۔ ایک جانب فضول خرچی کو نہ پسند کیا گیا تو دوسری جانب بخل سے پرہیز کرنے کی تاکید کی گئی ۔ یتیم کے مال سے دور رہنے کی تاکید کی گئی فرمایا کہ ’یتیم کے بالغ ہونے تک اس کے مال کو ایسے استعمال کرو جس میں اس کا فائدہ ہو ۔ آ یت 37 میں انسان کو زمین پر اکڑ کر چلنے سے منع کیا گیا‘ ۔ باہم گفتگو کرتے وقت زبان کو احتیاط سے استعمال کریں اچھے کلمات بولیں کہا آیت 53 میں ’’اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بات کہیں جو احسن ہو ،بلاشبہ شیطان ان کے درمیان فساد ڈالتا ہے ، شیطا ن انسان کا کھلا دشمن ہے‘ ۔ نماز کی ادائیگی کا بیان ہے سورۃ 79-78 میں کہا گیا ’’سورج ڈھلنے سے لے کر رات کے ندھیرے تک نماز قائم کیجئے اور نماز فجر بھی بے شک فجر کی نماز فرشتوں کے حاضر ہونے کا وقت ہے اور رات کے کچھ حصے میں بھی آپ اس قرآن کے ساتھ تہجد پڑھیں ، یہ آپ کے لیے زائد ہے ، امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے گا‘‘ ۔ حضرت موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دینے کا ذکر ہے ان نو معجزوں میں ہاتھ کا سفید ہونا، لاٹھی کا سانپ بن جانا، قحط سالی، نقص ثمرات، طوفان ٹدی دل کا، کھٹمل ، جوئیں (مینڈک)، اور خون‘‘ ۔ آخری آیات میں اللہ نے کہا ’’ کہہ دیجئے (اللہ) کو’ اللہ‘کہہ کا پکارو یا ’’رحمٰن‘‘ کہہ کر، تم جس نام سے بھی پکارو تو اسی کے لیے اچھے سے اچھے نام ہیں ، اور اپنی نمازنہ بلند آواز سے پڑھیں ، نہ باکل پست آوز سے بلکہ اس کے بین بین راستہ اختیار کریں ‘‘ ۔

سُوْرَۃُ الْکَھْفِ

سُوْرَۃُ الْکَھْفِ مکی سورۃ ہے ، قرآن میں یہ آیات کی ترتیب کے اعتبار سے یہ18 ویں سورۃ ہے جب کہ نزو لی ترتیب میں 69 نمبر پر ہے ۔ اس میں 12رکو ،110آیات ہیں ۔ کہف غار کو کہتے ہیں ۔ اس سورۃ میں غار والوں کا قصہ بیا ہوا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام سُوْرَۃُ الْکَھْفِ ہے ۔ اس سورۃ کی تلاوت کی برکت اور بعض آیات کی فضیلت کے بارے میں کئی احادیث بیان کی گئی ہیں ۔ روایت ہے کہ جو شخص اس سورہَ کہف کی آخری آیات تلاوت کرے گا وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا، مفسرین نے ہر جمعہ کے دن اس سورہ کی تلاوت کو سنت قرار دیا ہے ۔ فرمایا نبی کریم محمد ﷺ نے ’’جو شخص جمعہ کے د ن سورہ کہف پڑھے گا اس کے لیے دو جمعوں کے درمیان کوہ نور سے منور کردیا جائے گا‘‘ ۔ سورہَ کہف ان پانچ سورتوں میں سے ایک ہے جن کی ابتداء الحمد للہ سے ہوتی ہے ، دیگرچار سورتوں میں سورۃ فاتحہ، سورۃ انعام، سورۃ سبا اور سورۃ فاطر ۔ سورہ کہف شامل ہے ۔ ا بتدائی دو آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ثناء بیان ہوئی فرمایا ’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے نازل فرمائی اپنے بندے پر یہ کتاب اور نہیں رکھی اس میں کوئی کجی ، ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب تاکہ خبردار کرے لوگوں کو سخت عذاب سے اللہ کے اور خوشخبری دے مومنوں کو جو کرتے ہیں نیک عمل، کہ یقینا ‘ان کے لیے ہے اجر بہت اچھا‘‘ ۔

اصحاب الکہف

عربی میں کہف اس غار کو کہتے ہیں جو پہاڑ میں ہو تا ہے ۔ اصحاب یعنی لوگ ، اصحاب کہف یعنی’ غار والے لوگ‘ ۔ یہ غار والے کون تھے ;238; اللہ تبارک تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ اپنے نبی حضرت محمد ﷺ کو ان کے بارے میں آگاہ کیا ۔ یقینا اس کی اہمیت ہوگی تب ہی تو اللہ نے اس واقعہ کو قرآن کا حصہ بنایا، ایک مکمل سورۃ ’’الکہف ‘‘ اتاری گئی ۔ یہ تین یا پانچ یا سات نوجوانوں کا قصہ ہے ۔ قرآن نے انہیں اصحاب الکہف کہا ۔ یہ جتنے بھی لڑکے تھے ا ن میں ان کا ایک کتا بھی تھا ۔ اس کی تصدیق قرآن نے کی آیت 18 میں کی اوریہاں کتے کا بھی ذکر ہے ۔ تعداد کے بارے میں قرآن کی آیت 13 میں کہا گیا کہ ’’وہ چند نوجوان تھے‘‘، ساتھ ہی آیت 22 میں کہا گیا ’’عنقریب کچھ لوگ کہیں گے وہ تین ہیں چوتھا ان کا کتاہے، کچھ دوسرے کہیں گے وہ پانچ ہیں ان کا چھٹا کتا ہے ، بن دیکھے پتھر مارتے رہے کچھ لوگ یہ بھی کہیں گے وہ سات ہیں ان کا آٹھواں کتا ہے، پھر کہا ’’آپ کہہ دیجئے میرا رب ان کی گنتی سے خوب واقف ہے‘‘ ۔ عیسائی ان کی تعداد سات بتاتے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ اصحاب کہف کو ’’سیون سلیپرز‘‘ کانام دیتے ہیں ، یعنی سات سونے والے ۔ یہ جتنے بھی نوجوان تھے ۔ انہوں نے پہاڑ کے ایک غار میں وقت کے ظالم بادشاہ کے ڈر سے جس کا نام ’’دقیانوس‘‘،بعض نے اسے رومی بادشاہ ’’ ٹروجان‘‘ لکھا ہے ۔ یہ قوم بت پرست تھی ، زمانہ 48 ء سے 117ء کے درمیان کا بتا یا جاتا ہے ۔ بادشاہ کے ظلم کا یہ حال تھا کہ وہ ہر اس شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا جو بت پرستی کے بجائے کسی اور مذہب کی جانب راغب ہوتے ۔ جس بستی میں یہ رہا کرتے تھے اس کا نام قرآن میں ’’ رقیم ‘‘آیا ہے ۔ بعض نے اسے پہاڑ کا نام دیا، بعض نے بستی کہا، بعض نے رقیم کو بمعنی مرقوم کہا،الرقیم کے حوالے ایک تحقیق یہ بھی سامنے آئی کہ یہ’’ پیڑا‘‘کا قدیم نام ہے ، یہ نوجوان جو اصحاب کہف کہلائے پیٹر اسے بھاگ کر ’’عمان‘‘ پہنچے ، عمان سے سو کلو میٹر کے فاصلے پر ’رجیب‘ نام کی ایک بستی آج بھی موجود ہے ، رجیب دراصل رقیم کا بگڑا ہوا نام ہے ۔ یہ غار اور اصحاف کہف کے نوجوان اسی غار میں آج بھی دفن ہیں ۔ قرآن میں کہا گیا کہ یہ ایک تختی ہے لوئے یا سیسے کی جس میں اصحاب کہف کے نام لکھے ہوئے ہیں اسے رقیم اسی لیے کہا گیا کہ اس پر نام تحریر ہیں ۔ یہ نوجوان بادشاہ وقت کے دین پر چلنا نہیں چاہتے تھے،سورہ کہف کی آیت 11 میں ان نوجوانوں کے غار میں چھپنے اور طویل عرصہ سوئے رہنے کا قصہ اس طرح ہے ’’ جب ان نوجوانوں نے غار کی طرف پناہ لی تو انہوں نے کہا اے ہمارے رب! ہ میں اپنے پاس سے رحمت دے اور ہمارے لیے ہمارے معاملے میں صحیح رہنمائی مہیا فرما ۔ اللہ کہتا ہے ’’پھر ہم نے غار میں ا ن کے کانوں پر گنتی کے برس تھپک دئے، یعنی وہ کئی برس نیند میں رہے ۔ پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ ہم معلوم کریں کہ دو گروہوں میں سے کون اس مدت کو زیادہ یاد رکھنے والا ہے جو انہوں نے گزاری ہے ۔ یہ نوجوانوں اللہ واحد کی عبادت کرنے لگے ، جب ان کے عقیدہ توحید کا چرچہ ہوا تو بادشاہ وقت تک بات پہنچی ، وہ ان کے درپہ ہوا، انہوں نے اس غار میں چھپ کر جان بھی بچائی اور عبادت بھی کرنے لگے، یہ بھی بیان ہوا ہے کہ بادشاہ نے اپنے دربار میں بلا کر ا ن سے پوچھا تو انہوں نے برملا عقیدہ توحید پر ایما ن کا اظہار کیا ،ئی بات بادشاہ کو سخت نہ پسند ہوئی، جب یہ نوجوان غار میں پناہ گزین ہوگئے ، ان کے ساتھ ان کا ایک کتا بھی تھا، اللہ نے ان پر نیند مسلط کری اور وہ تین سو نو309سال وہاں سوئے رہے ۔ اللہ جو چاہے کرسکتا ہے ۔ اس غار کے بارے میں قرآن کی آیت 19 میں کہا گیا کہ اسی طرح ہم نے انہیں جگایا تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کریں ، ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا تم کتناعرصہ ٹہرے ہو;238; وہ بولے :ہم ایک دن یا دن کاکچھ حصہ ‘‘ ۔ نیند سے بیدار ہوئے تو کھانے کی فکر ہوئی ان میں سے ایک کھانا خریدنے کے لیے شہر آیا، وہاں اسے پہچان لیا گیا، تین صدیوں میں حالات بدل چکے تھے اہل شرک کی حکومت کب کی ختم ہوچکی تھی اور اب موحد بر سر اقتدار تھے، ایمان کی خاطر گھر بار چھوڑنے والے یہ نوجوان ان کی نظر میں قومی ہیرو کی حیثیت اختیار کر گئے ۔ اللہ تباک و تعالیٰ آیت 21 میں ان نوجوانوں کے بارے میں لوگوں کے باہم جھگڑنے کہ یہ جہاں دفن ہیں وہاں ایک عمارت بنادی جائے ، چنانچہ وہ لوگ اس بات پر تیار ہوگئے کہ’ وہ ضرور اس جگہ ایک عبادت گاہ بنائیں گے‘ ۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ پر بحث و مباحثہ کرنے کو منع فرمایا اور انشاء اللہ کہنے کے بارے میں آیت 22 میں نبی ﷺ سے فرمایا کہ’’ آپ ان کے بارے میں بحث نہ کریں سوائے سرسری بحث کے اور آپ ان کی بابت ان میں کسی سے بھی نہ پوچھیں ‘‘ ۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہودیوں نے نبیﷺ سے تین باتیں پوچھی تھیں ، روح کی حقیقت کیا ہے اور اصحاب کہف اور ذولقرنین کون تھے;238; کہتے ہیں کہ یہی سوالات اس سورت کا نزول بنے ۔ مشرکین کے سوالوں کے جاواب میں نبیﷺ نے فرمایا میں تمہیں کل جواب دونگالیکن اس کے بعد 15 دن تک جبریل وحی لے کر نہیں آئے ، پھر جب جبریل آئے تو اللہ تعالیٰ نے ’’انشاء اللہ‘‘ کہنے کا حکم دیا ۔ آیت 23 میں فرمایا اللہ نے ’’اور آپ کسی شے کے متعلق کبھی یہ نہ کہیں بے شک میں اسے کل کرنے والا ہوں مگر یہ کہ اللہ چاہے یعنی انشاء اللہ‘‘ ۔ یعنی اگر کلام یا وعدہ کرتے وقت انشاء اللہ کہنا بھول جاوَ تو جس وقت بھی یاد آجائے انشاء اللہ کہہ لو یا پھر ر ب کو یاد کرنے کا مطلب اس کی تسبیح و تحمید اور اس سے استغفار ہے ۔ واقعہ کہف کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت وہی جان سکتا ہے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، کہف کے نوجوانوں نے ایمان کے راستے کا انتخاب کیا اور حق اور سچ کے سامنے ڈٹ گئے، اللہ نے انہیں لوگوں کے لیے مثال بنایا ۔ ان کا طویل عرصہ تک سوئے رہنا اللہ کے حکم سے تھا اور پھر نیند سے بیدار ہوکر اس طرح جیسے انہیں سوئے ہوئے ایک یا اس سے بھی کم وقت ہوا ہے اللہ ہی ایسا کرسکتا ہے ۔

قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر ہے کہ پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے اور رینگیں گے، زمین کو صاف کھلا میدان کی طرح کردیں گے ۔ لوگوں کو جمع کرنے اور کسی کو بھی نہ چھوڑنے کی بات کی گئی ۔ شیطان فرشتہ نہیں بلکہ جنوں میں سے ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیت 50 میں فرمایا ’’اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا : تم آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا وہ جنوں میں سے تھاچنانچہ اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی ‘‘ ۔ کہا گیا آیت 56 میں ’’اللہ کی آیتوں کا مزاق اڑانا تکذیب کی بد ترین قسم ہے‘‘ ۔ جہنمیوں کے ذکر کے بعد اہل جنت کا تذکرہ ہے تاکہ لوگوں میں جنت حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو، زمانہ َ نزول قرآن اور اس سے قبل رواج تھا کہ بادشاہ، روَسا اور سرداران قبائل اپنے ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنتے تھے ، جس سے ان کی امتیازی حیثیت نمایاں ہوتی تھی، اہل جنت کو بھی جنت میں کڑے پہنائیں جائیں گے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آیت33-32 میں دو آدمیوں ایک دولت مند مشرک اور ایک ایماندار مومن کی مثال بیان فرمائی ہے کہ مالدار شخص اپنے باغ اور کھیت کو اپنا کمال سمجھتا ہے ،وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہمیشہ خوشحال رہے گا اور غریب مومن پر طعن کرتا ہے کہ میں مال اور تعداد میں تم سے زیادہ ہوں ۔ غریب مومن اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرچکا تھا، مومن ، مشرک کو ہمیشہ اللہ کی طرف دعوت دیتا اور شکر ادا کرنے کا کہتا لیکن یہ انکار کرتا ۔ آخر کار اس کا سب مال و اسباب ، کھیتی و باغ تباہ و برباد ہوگئے ۔ اس کے بعد آیت 60 سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات اور ایک ساتھ سفر کا یہ قصہ سورہ کہف کا مشہور قصہ ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سفر کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ایک موقع پر ان سے ایک آدمی نے پوچھا : لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہےَ ، موسیٰ علیہ السلام نے برجستہ جواب دیا : میں ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ جملہ پسند نہ آیا اس لیے کہ انہوں نے علم اللہ کی طرف سے سپرد نہیں کیا ۔ اللہ نے وحی کے ذریعہ انہیں مطلع کیاکہ ہمارا ایک بندہ خضر ہے جو تجھ سے بھی بڑا عالم ہے ، موسیٰ علیہ السلام نے کہا یا اللہ اس سے ملاقات کیسے ہوسکتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا جہاں دونوں سمندر ملتے ہیں وہیں ہمارا بندی بھی ہوگا، اور فرمایا کہ مچھلی ساتھ لے جاوَ، جہاں مچھلی تمہاری ٹوکری (رنبیل) سے نکل کر غائب ہوجائے تو سمجھ لینا کہ یہی وہ مقام ہے ۔ اس حکم کے مطابق انہوں نے سفر شروع کردیا، اللہ نے سمند ر میں سرنگ کی طرح راستہ بنادیا ،کسی جگہ مچھلی سمندر میں چلی گئی، یوشع علیہ والسلام بھی ان کے ہمراہ تھے، یہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہونے والے پیغمبر تھے، انہوں نے مچھلی کو سمندر میں جاتے اور راستہ بنتے دیکھا لیکن موسیٰ علیہ السلام کو بتلانا بھول گئے ، سفر جاری رہا، رات سفر کے بعد بھوک نے ستایا تو موسیٰ علیہ السلا م نے اپنے ساتھی سے کہا کہ چلو کچھ کھالیں ، اس نے کہا کہ مچھلی تو جہاں ہم نے آرام کیا تھا وہاں زندہ ہوکر سمندر میں چلی گئی، یہ بھی کہا کہ میں آپ کو بتا نا بھول گیا، شاید شیطان نے بھلادیا، موسیٰ علیہ السلام نے کہاکہ وہی تو ہمارا مقام تھا جہاں مچھلی نے زندہ ہوکر غائب ہونا تھا، اسی بندہ کی تلاش میں تو ہم سفر کر رہے ہیں ، چنانچہ اپنے قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے پیچھے لوٹے اسی مجمع البحرین پر واپس آگئے ۔ یہاں اس بندہ سے مراد حضرت خضر علیہ السلام ہیں ۔ آخر موسیٰ علیہ السلام سمندر کنارے پہنچ گئے یہاں آپ کی ملاقات خضر علیہ السلام سے ہوئی اور آپ نے ان کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت مانگی، انہوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ آپ کوئی سوال نہیں کریں گے، پھر تین عجیب واقعات پیش آئے، پہلے واقعہ میں خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختے توڑ دئے، موسیٰ علیہ السلام چونکہ اس علم خاص سے واقف نہ تھے ، صبر نہ کرسکے اور بول پڑے، کہ بڑا ہیبت ناک کام کیا آپ نے، خضر علیہ السلام نے وعدہ یاد دلا ، موسیٰ علیہ السلا م نے کہا اب اگر سوال کروں تو مجھے اپنی مصاحبت کے شرف سے محروم کردیں ، مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا، آگے چلے تو خضر علیہ السلام نے ایک معصوم بچے کو قتل کردیا، پھر موسیٰ بولے تو نے قصاص کے بغیر بے گناہ کی جان لے لی ، آیت 74’’یقینا تو نے بہت بر ا کام کیا‘‘ ۔ اس پر خضر علیہ السلام نے کہا : کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ بلاشبہ تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کرسکے گا، موسیٰ علیہ السلان نے کہا اگر اس کے بعد میں تجھ سے کسی چیز کی بابت سوال کروں تو مجھے ہر گز صحبت میں نہ رکھنا ۔ اب پھر وہ دونوں چلے حتیٰ کہ ایک گاؤں والوں کے پاس رکے اور رہنے والوں سے طعام مانگا ، تو انہوں نے ان کی ضیافت کرنے سے انکار کردیا، پھر ان دونوں نے ایک دیوار پائی جو گراچاہتی تھی تو خضر علیہ السلام نے وہ سیدھی کردی، اس پر موسیٰ علیہ السلام نے پھر کہا کہ اگر تو چاہتا تو اس پر ضرور اجرت لیتا ۔ تیسرے سوال کے بعد خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلا م سے جدائی کا اعلان کردیا ، اب آپ میرے ساتھ نہیں چل سکتے ۔ البتہ تینوں واقعات کی اصل حقیقت انہوں نے آپ کے سامنے بیان کردی ۔ فرمایاخضر علیہ السلام نے کشتی کا تختہ اس لیے توڑا تھا کیونکہ آگے ایک ظالم بادشاہ کے کارندے کھڑے تھے جو ہر سالم اور نئی کشتی کو زبر دستی چھین رہے تھے ، میں نے کشتی کو عیب دار کردیا تو یہ اس ظالم کے قبضے میں جانے سے بچ گئی، غریبوں کا ذریعہ معاش محفوظ رہا، بچے کو اس لیے قتل کیا کیونکہ یہ بڑا ہوکر والدین کے لیے بڑا فتنہ بن سکتا تھا جس کی وجہ سے ممکن تھا وہ انہیں کفر میں مبتلا کر دیتا جب کہ اللہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے انتہائی نیک والدین محض اس کی محبت میں ایمان سے محروم ہوجائیں ، اس لیے اللہ نے اسے مانے کا اور اس کے بدلے انہیں باکرداراور محبت و اطاعت کرنے والی اولاد دینے کا فیصلہ فرمایا ۔ گرتی ہوئی دیوار اس لیے تعمیر کی کیونکہ وہ دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی، ان کے والدین اللہ کے نیک بندے تھے، دیوار کے نیچے خزانہ پوشیدہ تھا ، اگر دیوار گرجاتی تو لوگ خزانہ لوٹ لیتے اور نیک والدین کے یہ دو یتیم بچے اس سے محروم ہوجاتے، ہم نے اس دیوار کو تعمیر کردیا تاکہ جوان ہونے کے بعد وہ اس خزانے کو نکال کر اپنے کام میں لاسکیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کے اس واقعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ خضر علیہ السلام نے جو کام بھی کئے بظاہر تکلیف دہ تھے لیکن وہ سب کام انہوں نے اللہ کے حکم سے کیے، وہ علم اللہ نے انہیں دیاتھا ، انہوں نے اس کی پیروی کی ۔ حضرت موسیٰ کو بھی اصل حقائق کا علم نہیں تھا اس لیے وہ بھی ان باتوں پر سوال کرتے رہے ۔ موسیٰ علیہ السلام کا سوال کرنا جائز تھا لیکن خضر علیہ السلام کا عمل اللہ کے حکم سے تھا ۔ سورۃ کہف کی آخری آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’اے نبی ! کہہ دیجئے میں تو بس تمہاری ہی طرح بشر ہوں میری طرف وحی کی جاتی رہی ہے اسی وحی کی بدولت میں نے اصحاب کہف اور ذالقرنین کے متعلق اللہ کی طرف سے نازل کردہ باتیں بیان کی ہیں جن پر برسوں گزرے ایام کی دبیز تہیں پڑھی ہوئی تھیں یا ان کی حقیقت افسانوں میں ہوگئی تھی ، اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ ٹہراوَ‘‘ ۔ (15 رمضان المبارک 1440ھ ، 21 مئی2019ء)
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277161 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More