حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد تین سال تک میکہ
میں مقیم رہیں۔ 2 سال 3 ماہ مکہ مکرمہ میں اور 7 یا 8 مہینے ہجرت کے بعد
مدینہ منورہ میں مقیم رہیں۔ مسلمانوں نے اپنے وطن سے دو بار ہجرت کی۔ پہلے
ملکہ حبشہ میں اور اُس کے بعد مدینہ منورہ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود
فرماتی ہیں کہ میرے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی حبشہ کی طرف
ہجرت کرنا چاہی تھی اور برک الغماد نامی مقام (جو مکہ مکرمہ سے پانچ روز کی
مسافت پر ہے) پہنچ چکے تھے کہ اتفاق سے ابن الدغنہ نامی ایک شخص کہیں سے آ
رہا تھا، اُس نے یہ دیکھ کر کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی اب وطن
چھوڑ رہے ہیں، قریش کی بدقسمتی پر اُس کو افسوس ہوا اور نہایت اِصرار سے
اپنی پناہ میں اُن کو مکہ مکرمہ لے آیا۔ ممکن ہے کہ اِس سفر میں حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا اور اُن کا خاندان بھی ہمراہ ہو۔
دوسری بار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب کی۔ اِس ہجرت کا تمام
واقعہ تفصیلاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، اِس تفصیل کو امام
بخاری نے صحیح بخاری باب الہجرۃ جلد اول میں نقل کردیا ہے۔ جب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے اور مدینہ منورہ میں مقیم ہوگئے، اور
اطمینان ہوا تو آپ نے اہل و عیال کو لانے کے واسطے حضرت زید بن حارثہ رضی
اللہ عنہ اور اپنے غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ بھیجا،
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا آدمی ساتھ بھیج دیا۔ چنانچہ
حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اپنی والدہ حضرت ام رومان رضی اللہ
عنہا اور دونوں بہنوں یعنی حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا کو مکہ مکرمہ سے لے کر روانہ ہوئے۔بیض منیٰ کے مقام پر
جب آپ اپنی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا کے ہودج میں اُن کے ساتھ سوار
تھیں، اِتفاق سے وہ اونٹ بھاگ نکلا اور اِس زور سے دوڑا کہ اب یہ خطرہ لاحق
ہوا کہ اب پالان گرا کہ اب گرا، خواتین کا یہ قاعدہ ہے کہ ماں کو اپنی پروا
نہ تھی بلکہ لخت جگر کے واسطے رونے لگیں، آخر میلوں پر جاکر جب اونٹ پکڑا
گیا تو اُن کو تشفی ہوئی۔ یہ مختصر سا قافلہ مدینہ منورہ پہنچا تو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت مسجد نبوی کے آس پاس میں مکانات تعمیر
کروا رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں صاحبزادیاں حضرت ام
کلثوم رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سودہ بنت زمعہ
رضی اللہ عنہا اِن نئے گھروں میں فروکش ہوئیں۔ (ابن سعد نے طبقات میں اِس
واقعہ کی مکمل تفصیل بیان کردی ہے مگر ہم نے یہاں مختصراً خلاصہ پیش کیا ہے
)۔ یہ واقعہ ماہِ شوال 1ھ/ اپریل 623ء کا ہے۔
رخصتی
ہجرت مدینہ منورہ کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے عزیزوں کے ساتھ بنو
حارث بن خزرج کے محلہ میں اُتریں۔ اور 7 یا 8 مہینوں تک اپنی والدہ ام
رومان رضی اللہ عنہا کے ساتھ رہیں۔ اکثر مہاجرین کو مدینہ منورہ کی آب و
ہوا موافق نہ آئی اور متعدد اشخاص بیمار پڑگئے۔ حضرت ابوبکر_صدیق رضی اللہ
عنہ بھی سخت بیمار ہوئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے والد کی
تیمارداری میں مصروف رہیں۔ بعد ازاں آپ بھی بخار میں مبتلا ہوگئیں، مرض کی
شدت کا یہ حال تھا کہ آپ کے سر کے تمام بال گر گئے۔کچھ مدت بعد آپ صحت مند
ہوئیں تو حضرت ابوبکر_صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سے کہا: یا رسول اللہ! آپ اپنی اہلیہ کو رخصت کیوں نہیں کرا لیتے؟ اِس میں
کیا رکاوٹ ہے؟ (مراد یہ تھا کہ آپ اپنی زوجہ اپنے گھر کیوں نہیں بلوا
لیتے؟)۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: اِس وقت میرے پاس مہر اداء
کرنے کے لیے رقم موجود نہیں۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر_صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ
کو ساڑھے بارہ اوقیہ یعنی 500 درہم دئیے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے
یہ تمام رقم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھجوا دی اور اِس طرح آپ کی رخصتی
عمل میں آئی (یہ واقعہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جسے ابن
سعد نے طبقات میں نقل کردیا ہے).
حضرت عائشہ ماہِ شوال میں خواتین کی رخصتی کو محبوب خیال فرماتی تھیں،
تابعی عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے اُم المومنین عائشہ رضی اللہ
عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شوال میں نکاح کیا
اور شوال میں ہی بیاہ کیا (یعنی رخصتی)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
کونسی بیوی آپ کی نگاہ میں مجھ سے زیادہ نصیبا والی تھی؟
دراصل دورِ جاہلیت میں مدینہ منورہ میں طاعون پھوٹ پڑا تھا جس کے سبب
اہلیانِ مدینہ منورہ ماہِ شوال میں رخصتی یا نکاح کو نیک خیال نہیں کرتے
تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات اقدس کے سبب یہ جاہلانہ رسم ختم
ہوگئی۔
غزوہ مُرَیسِیع
ماہِ شعبان 5ھ/ جنوری 627ء میں غزوہ المریسیع پیش آیا۔ مریسیع قدید کے
اطراف میں ساحل کے قریب ایک چشمہ ہے جس کے گرد بنو مصطلق آباد تھے جو بنو
خزاعہ کی ایک شاخ ہیں اور یہ بنی مدلج کے حلفاء میں سے تھے۔ بنو مصطلق اپنے
اِس کنویں یعنی مریسیع پر اُترا کرتے تھے۔ اِس کنویں اور الضرع کے مقام کے
درمیان میں ایک دن کی مسافت تھی، الضرع اور مدینہ_منورہ میں 8 برد یعنی 96
میل کا فاصلہ تھا۔
مریسیع میں بنو مصطلق کا سردار الحارث بن ابی ضرار تھا جو لوگوں کو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے پر آمادہ کر رہا تھا۔ یہ خبر جب رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے بریدہ بن حصیب الاسلمی رضی اللہ
عنہ کو بھیجا کہ وہ اِس خبر کا علم لائیں۔ اُنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کو بنو مصطلق کے حال کی خبر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
لوگوں کو بلایا اور جمع کیا اور لوگ بوقت روانگی گھوڑوں کی باگ دوڑ پکڑ کر
روانہ ہوئے، یہ تعداد میں 30 تھے، 10 مہاجرین کے اور 20 انصار کے افراد
شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ منافقین کے بھی بہت سے
آدمی روانہ ہوئے جو اِس سے قبل کسی غزوہ میں روانہ نہیں ہوئے تھے۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ_منورہ پر اپنا
قائمقام بنایا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے 2 شعبان 5ھ/ 26 دسمبر 626ء کو
روانہ ہوئے، الحارث بن ابی ضرار اور اُس کے ساتھیوں کو جب رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر ملی اور اِس امر کی بھی خبر ملی کہ اُن کا
جاسوس قتل کردیا گیا جو اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر
لانے کے لیے روانہ کیا تھا، تو الحارث بن ابی ضرار کے وہ ساتھی سخت ناگواری
کا اظہار کرکے اُس سے جدا ہوگئے اور اِسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم مریسیع پہنچ گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خیمہ نصب
کرنے کا حکم دیا۔ اِس غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو ازواج حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بھی ہمراہ تھیں۔ بنو
مصطلق سے جنگ کی تیاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کو صف
بستہ کیا، مہاجرین کا عَلَم حضرت ابوبکر_صدیق رضی اللہ عنہ اور انصار کا
عَلَم حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو دیا۔ تھوڑی دیر اُنہوں نے مخالفین
سے تیراندازی کی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کو حکم دیا تو
اُنہوں نے یکبارگی حملہ کردیا۔ مشرکین میں کوئی شخص نہ بچا، 10 آدمی قتل
ہوئے اور باقی گرفتار کرلیے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں،
عورتوں اور بچوں اور اونٹ اور بکریاں قید کرلیے۔ مسلمانوں میں ایک شخص شہید
ہوا۔ اِسی غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے
نکاح کرلیا جو بنو مصطلق کے سردار الحارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں۔
مسلمانوں کی مدینہ منورہ آمد سے اُنہیں جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا، اُن
میں منافقین سر فہرست تھے۔ منافقین کا یہ گروہ مسلمانوں اور اسلام مخالف
سازشوں میں مصروف رہتا تھا۔ منافقین کی سازشوں کی بروقت سرکوبی کردی جاتی
تاکہ وہ کامیاب نہ ہوسکیں مگر وہ مسلمانوں کی عزت و آبرو سے متعلق طرح طرح
کی سازشیں تیار کرلیتے تاکہ مسلمان قبیلوں میں پھوٹ پڑوا سکیں۔ کئی غزوات
میں منافقین بڑی تعداد میں جمع ہوجاتے تاکہ خونریزی پھیلانے کا کوئی موقع
ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ ایسا ہی موقع غزوہ بنو مصطلق یا غزوہ بنو مریسیع
(وقوعہ ماہِ شعبان 5ھ/ جنوری 627ء) پیش آیا جو تاریخ میں اِفک کے نام سے
مشہور ہے، اور یہ منافقین کی سب سے بڑی ذلیل حرکت تھی کہ اُنہوں نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی
ذات مبارکہ پر بھی اُنگلی اُٹھائی اور اِس تہمت کا بنیادی مقصد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو اِیذاء پہنچانا تھا، نعوذ باللہ ۔ چونکہ منافقین کو
یہ معلوم تھا کہ یہاں (یعنی مریسیع کے مقام پر) کوئی خونریز جنگ نہ ہوگی
اِس لیے منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد فوج میں شریک ہوگئی تھی۔ ابن سعد کی
روایت ہے کہ: " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ منافقین کے بھی بہت
سے آدمی روانہ ہوئے جو اِس سے قبل کسی غزوہ میں روانہ نہیں ہوئے تھے۔"
منافقین ہر چند اِس غزوہ میں اپنی شریر حرکات سے باز نہ آئے، ایک دفعہ قریب
تھا کہ مہاجرین اور انصار تلوار کھینچ کر باہم لڑتے، آخر مشکل سے معاملہ
رفع دفع کیا گیا۔ اِن شریروں نے انصار کو کہا کہ وہ مسلمانوں یعنی مہاجرین
کی مالی خدمت کرنا چھوڑ دیں، عبداللہ بن اُبی جو منافقین کا سردار تھا، اُس
نے تو برملا کہا کہ: ہم عزت والے اِن ذلیل لوگوں کو مدینہ سے نکال دیں گے
(نعوذ باللہ)۔ اللہ تعالیٰ نے اِسی کے قول کو سورہ منافقون میں دہرا دیا ہے
کہ
هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِنْدَ رَسُولِ
اللَّهِ حَتَّىٰ يَنْفَضُّوا ۗ وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ
وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ O يَقُولُونَ
لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا
الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ
وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ O
یہی ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس
(رہتے) ہیں ان پر (کچھ) خرچ نہ کرو۔ یہاں تک کہ یہ (خود بخود) بھاگ جائیں۔
حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانے خدا ہی کہ ہیں
لیکن منافق نہیں سمجھتے۔کہتے ہیں کہ اگر ہم لوٹ کر مدینے پہنچے تو عزت والے
ذلیل لوگوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے۔ حالانکہ عزت خدا کی ہے اور اس کے
رسول کی اور مومنوں کی لیکن منافق نہیں جانتے۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن اُبی کا یہ قول رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا۔ آپ نے لشکر کے کوچ کا حکم دیا اور اُسی وقت
مریسیع سے روانہ ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارِ مدینہ کو
جمع کرکے اِس واقعہ کی اطلاع دی گو کہ وہ اِس جرم میں شریک نہ تھے مگر اُن
کو ندامت ہوئی اور عبداللہ بن اُبی کی نسبت اُن میں نفرت سی پیدا ہوگئی۔
خود اُس کے بیٹے نے جب یہ سنا تو اُس نے باپ کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور
کہا: میں اُس وقت تک تجھے نہ چھوڑوں گا جب تک تو یہ اقرار نہ کرلے کہ تو ہی
ذلیل ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) عزت والے ہیں۔
واقعہ اِفک
واقعہ اِفک(واقعہ تہمت) یعنی اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر
تہمت کا واقعہ غزوہ بنو مصطلق (جسے غزوہ بنو مریسیع بھی کہا جاتا ہے) سے
واپسی پر ماہِ شعبان 5ھ/ جنوری 627ء سے واپسی پر پیش آیا۔ واقعہ اِفک کی
تفصیل خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی صحیح بخاری میں موجود ہے،
یہاں یہ واقعہ اِختصار سے تحریر کیا گیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غزوہ مریسیع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
ہمراہ تھیں، مدینہ_منورہ سے روانگی سے قبل اُنہوں نے اپنی بہن حضرت اسماء
بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے ایک ہار عاریتہً پہننے کو مانگ لیا تھا، ہار
کی لڑیاں کمزور تھیں کہ ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھیں، اِس وقت آپ کی عمر بھی 14/15 سے
زائد نہ تھی، یہ دور خاتون کے لیے ایسا ہے کہ اُن کے نزدیک معمولی سا زیور
بھی گراں قیمت ہوتا ہے۔چونکہ پردہ کا حکم اِس غزوہ سے قبل ہی نازل ہوچکا
تھا اِسی لیے آپ دورانِ سفر محمل یعنی ہودج میں سوار ہوتی تھیں جس پر پردے
لٹکے رہتے تھے، ساربان ہودج سمیت آپ کی سواری کو اُتار لیتے اور یونہی ہودج
سمیت آپ اونٹ پر سوار ہوجاتیں۔ اُس زمانہ میں حضرت عائشہ دبلی پتلی تھیں،
اور ساربانوں کو یہ مطلق معلوم نہ ہوتا تھا کہ آپ ہودج میں سوار ہیں بھی کہ
نہیں۔
بنو مصطلق سے واپسی پر مدینہ_منورہ سے ایک منزل پہلے ذی قرع کی بستی میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کا حکم دیا، یہاں ایک رات لشکر نے
پڑاؤ کیا، پچھلے پہر لشکر روانگی کو تیار تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
لشکر کے کوچ سے قبل قضائے حاجت کے لیے لشکر سے ذرا دور نکل کر باہر آڑ میں
چلی گئیں۔ واپس لوٹیں تو اِتفاقاً ہاتھ گلے پر پڑا تو ہار نہیں تھا، وہیں
تلاش کرنے لگیں، اُدھر لشکر تیار تھا، سفر کی ناتجربہ کاری سے اُن کو یقین
تھا کہ لشکر کی روانگی سے قبل ہی ہار تلاش کرکے میں واپس آجاؤں گی مگر ہار
تلاش کرنے میں دیر ہوگئی، جاتے وقت آپ کسی کو مطلع کیے بغیر چلی گئیں تھیں،
ساربانوں نے خیال کیا کہ آپ ہودج میں سوار ہیں، ہودج کے پردے چھٹے ہوئے
تھے، سو اُنہوں نے ہودج اونٹ پر رکھا جو دراصل خالی تھا، اور لشکر روانہ
ہوگیا۔ اُس زمانہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غالباً 14/15 سال کی تھیں
اور دبلی پتلی تھیں اِسی لیے ہودج رکھنے والوں کو معلوم نہ ہوسکا کہ آپ
سوار ہیں کہ نہیں؟۔ آپ فرماتی ہیں کہ جب میں ہار کے بغیر واپس آئی تو دیکھا
کہ لشکر کوچ کو تیار ہے، میں پھر ہار تلاش کرنے چلی گئی، اب کی بار وہ ہار
مجھے مل گیا، جب دوبارہ واپس آئی تو دیکھا کہ لشکر روانہ ہوچکا تھا اور لوگ
مجھ کو ہودج میں بیٹھا ہوا سمجھ کر میرا ہودج اونٹ پر کس کر لے گئے تھے۔
جب آپ ہار مل جانے کے بعد واپس اُسی مقام پر آئیں تو دیکھا کہ لشکر روانہ
ہوچکا ہے اور وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ اِس خیال سے کہ جب لوگ مجھے نہ پائیں
گے تو میری تلاش میں واپس یہیں آئیں گے، آپ چادر لپیٹ کر لیٹ گئیں۔ اِسی
اثناء میں نیند آگئی۔ حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ جو لشکر کی گری
پڑی اشیاء اُٹھانے کے لیے پیچھے رہا کرتے تھے، وہ وہاں پہنچے اور حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہچان لیا۔ حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ
نے آپ کو پردہ کے حکم نازل ہونے سے قبل دیکھا تھا ۔ آپ کو دیکھتے ہی بلند
آواز سے اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ پڑھا۔ غالباً حضرت
صفوان رضی اللہ عنہ نے با آوازِ بلند اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ
رَاجِعُونَ اِس لیے پڑھا کہ اُم المومنین بیدار ہوجائیں اور خطاب و کلام کی
نوبت نہ آئے، اور ایسا ہی ہوا کہ کلام کی نوبت نہیں آئی جیسا کہ آپ خود
فرماتی ہیں کہ: اللہ کی قسم! صفوان نے مجھ سے کوئی بات تک نہیں کی اور نہ
اُن کی زبان سے سوائے اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ کے میں
نے کوئی کلمہ سنا۔ آپ فرماتی ہیں کہ: کہ صفوان نے اپنا اونٹ میرے قریب کیا
اور خود پیچھے ہٹ گئے، میں اُس پر سوار ہوئی اور صفوان اُس اونٹ کی نکیل
پکڑ کر آگے ہو لیے اور لشکر کی تلاش میں تیزی سے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب
صبح ہوئی اور لشکر ٹھہرا تو صفوان مجھ کو لے کر لشکر جا پہنچے، اور تمہت
لگانے والوں کو جو کچھ کہنا تھا، اُنہوں نے کہا اور مجھ کو اِس کی کوئی خبر
نہ تھی. آپ خود فرماتی ہیں کہ: لوگ پڑاؤ میں اُتر چکے تھے اور اطمینان سے
بیٹھے تھے کہ صفوان مجھے لیے ہوئے آگئے تو اہل اِفک اور تہمت تراشوں نے جو
کہنا تھا، کہا اور لشکر میں تہلکہ مچ گیا، واللہ! مجھے اِس ہیجان کا کچھ
علم نہ تھا۔
ابن ہشام نے آپ کی لشکر میں آمد کا وقت صبح لکھا ہے جبکہ مستند تواریخ کے
مطابق آپ کی لشکر میں آمد دوپہر کے وقت ہوئی، اور دوپہر کا وقت زیادہ صحیح
معلوم ہوتا ہے جسے امام بخاری نے خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے
نقل کیا ہے .کیونکہ منافقین نے دوپہر میں واضح دیکھا تو خباثت بکنا شروع
کی، صبح کا وقت صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اگر صبح کا وقت ہوتا تو
منافقین دیکھ نہ پاتے۔ منافقین کے سردار عبداللہ ابن اُبی بن سلول اور اُس
کے ساتھیوں نے یہ منظر دیکھتے ہی اپنی خباثت بکنا شروع کردی کہ اُم
المومنین اب پاکدامن نہ رہیں (نعوذ باللہ) اور جس کو ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک
ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس غزوہ میں 28 دن مدینہ منورہ سے باہر
رہے اور رمضان 5ھ کو بوقت رؤیتِ ہلال شب جمعرات 22 جنوری 627ء کو
مدینہ_منورہ پہنچے۔
مدینہ_منورہ پہنچ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوگئیں۔ تقریباً ایک
مہینہ بیماری میں گزرا۔ اِفتراء پرداز اور طوفان برپا کرنے والے اِسی چرچہ
میں تھے مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مطلق بھی اِس کا علم نہ تھا لیکن
آپ فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس تلطف اور مہربانی
میں کمی آ جانے کی وجہ سے جو سابقہ بیماریوں میں مبذول رہی، دل کو خلجان
اور تردد تھا کہ کیا بات ہے کہ آپ گھر تو تشریف لاتے ہیں اور دوسروں سے
میرا حال دریافت کرکے واپس ہوجاتے ہیں، مجھ سے دریافت نہیں کرتے، آپ کی اِس
بے التفاتی سے میری تکلیف میں مزید اضافہ ہوتا تھا۔ ابن ہشام نے آپ کا قول
نقل کیا ہے کہ: آپ فرماتی ہیں کہ یہاں تک کہ جب ہم مدینہ پہنچے تو میں
بیمار ہوگئی اور تہمت لگانے کی خبر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
گوش زد ہوئی اور میرے والدین کو بھی پہنچی، مگر کسی نے مجھ سے ذکر تک نہ
کیا۔ صرف اِتنی بات ہوئی کہ اِس سے قبل جب میں بیمار ہوتی تھی تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم میری دِلجوئی فرمایا کرتے تھے، اِس مرتبہ میں نے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی وہ توجہ اپنے حال پر نہ دیکھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم گھر میں آتے تو میری والدہ اُم رومان سے جو بیماری میں میرے پاس
تھیں، فقط اِتنا پوچھتے کہ اب یہ کیسی ہیں؟۔ بس، اِس سے زیادہ اور کچھ نہ
فرماتے۔آپ فرماتی ہیں کہ: اِن حالات میں، میں دل گرفتہ ہوگئی اور رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ
مجھے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیں اور میں وہاں منتقل ہوجاؤں تو وہ
میری تیمارداری اچھی طرح سے کرسکیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: کوئی ہرج نہیں۔
ابن ہشام نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں
اِختیار ہے۔ چنانچہ میں اپنی والدہ کے پاس چلی آئی اور میں اِن باتوں سے
قطعاً بے خبر تھی اور قریباً ایک ماہ کی بیماری میں نہایت کمزور ہوچکی تھی۔
ہم عرب لوگ تھے، ہمارے گھروں میں اہل عجم کی طرح بیت الخلا نہ تھا۔ قضائے
حاجت کے لیے مدینہ کی کھلی فضاء میں چلے جاتے تھے (یعنی کھلے جنگل میں شہر
کے باہر) اور خواتین حوائج ضروریہ کے لیے رات کو باہر جایا کرتی تھیں۔
چنانچہ میں بھی ایک شب رفع حاجت کے لیے باہر گئی اور میرے ہمراہ اُم مسطح
بنت ابی رہم بن مطلب تھیں، چلتے چلتے وہ اپنی چادر میں اُلجھ کر ٹھوکر لگی
اور گر گئیں تو اُن کے منہ سے نکلا: مسطح ہلاک ہو (مسطح اُن کا بیٹا تھا،
لقب مسطح تھا اور نام عوف تھا)۔ یہ سن کر میں نے کہا: اللہ کی قسم! تم نے
ایک بدری مہاجر کو بددعاء دے کر برا کیا۔ تو اُم مسطح نے کہا: اے دختر ابی
بکر! کیا تم کو وہ بات معلوم نہیں؟ میں نے پوچھا کونسی؟ تو اُم مسطح نے
مجھے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ میں نے حیرت سے پوچھا: کیا یہ بات ہوچکی ہے؟۔
اُم مسطح نے کہا: ہاں واللہ! یہ بات پھیل چکی ہے۔ میرے اوسان خطاء ہوگئے
اور میں رفع حاجت کے بغیر ہی واپس چلی آئی، واللہ! میں رات بھر روتی رہی،
میں نے محسوس کیا کہ روتے روتے میرا کلیجا پھٹ جائے گا۔ یہ سنتے ہی مرض میں
اور شدت آگئی۔
میں اپنے والدین کے پاس آئی اور اپنی ماں سے کہا: اے میری ماں آپ کو معلوم
ہے کہ لوگ میری بابت کیا کہہ رہے ہیں؟۔ ماں نے کہا: اے میری بیٹی تو رنج نہ
کر، دنیاء کا قاعدہ یہی ہے کہ جو عورت خوبصورت اور خوب سیرت ہو اور اپنے
شوہر کے نزدیک بلند مرتبہ ہو تو حسد کرنے والی عورتیں اُس کے ضرر کے درپے
ہو جاتی ہیں اور لوگ بھی اُس پر تمہتیں تراشتے ہیں (صحیح بخاری میں واقعہ
اِفک کے اِس موقع پر لفظ ضرائر آیا ہے جو سوکن کے معنی میں مستعمل ہے،
چونکہ اِس واقعہ میں کوئی بھی زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شریک نہ تھی،
اِس لیے یہاں اِس لفظ سے مراد حاسد عورتیں ہیں جو زبان عربی میں مستعمل بھی
ہے)۔
ابن ہشام کی روایت ہے کہ میں نے کہا: کیا میرے باپ کو بھی اِس کا علم ہے؟
ماں نے کہا: ہاں۔ ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ میں نے کہا: اے میری ماں!
اللہ تمہاری مغفرت کرے، لوگوں میں تو اِس کا چرچہ ہے اور تم نے مجھ سے اِس
کا ذکر تک نہ کیا، یہ کہتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میری چیخیں
نکل گئیں۔ میرے والد بالاخانہ پر تلاوت قرآن میں مصروف تھے کہ میری چیخ سن
کر نیچے آ گئے اور میری ماں سے دریافت کیا۔ ماں نے کہا کہ اِس کو قصے کی
خبر ہوگئی ہے۔ یہ سن کر میرے والد رونے لگے۔ مجھ کو شدت کا لرزہ آیا کہ
میری والدہ اُم رومان نے گھر کے تمام کپڑے مجھ پر ڈال دئیے اور یونہی تمام
رات روتے ہوئےگزر گئی۔ایک لمحہ کے لیے آنسو نہیں تھمتے تھے کہ اِسی طرح صبح
ہوگئی۔ حضرت ابوبکر_صدیق رضی اللہ عنہ نے شدت غم سے صرف ایک بار یہ کہا کہ:
اللہ کی قسم! یہ بات تو ہمارے حق میں زمانہ جاہلیت میں بھی نہیں کہی گئی،
پھر جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام سے عزت بخشی تو اِس کے بعد کیسے ممکن
ہے؟
جب اِس معاملہ میں نزول وحی میں تاخیر ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ
فرمایا۔ حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم! وہ آپ کے اہل ہیں، جو آپ کے شایانِ شان اور منصبِ نبوت و رِسالت کے
مناسب ہیں۔ اُن کی عصمت و عفت کا کیا پوچھنا؟۔ آپ کی حرم محترم کی طہارت و
نزاہت تو اظہر من الشمس ہے، اِس میں رائے اور مشورہ کی کیا ضرورت ہے؟ اور
اگر حضور کو ہمارا مشورہ اور خیال معلوم فرمانا ہے تو یہ عرض کرتا ہوں کہ
جہاں تک ہم کو معلوم ہے، آپ کے اہل اور ازواج المطہرات میں ہم نے کبھی
سوائے خیر اور خوبی، نیکی اور بھلائی کے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ حضرت علی رضی
اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رنج و غم اور حزن و ملال کے
خیال سے یہ عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! اللہ نے آپ پر تنگی نہیں کی، عورتیں
اُن کے سواء اور بہت ہیں، آپ اگر گھر کی لونڈی سے دریافت فرمائیں تو وہ سچ
سچ بتا دے گی (یعنی آپ مجبور نہیں، مفارقت آپ کے اِختیار میں ہے لیکن گھر
کی لونڈی سے تحقیق فرمالیں، وہ آپ کو بالکل سچ سچ بتلادے گی اِس لیے کہ گھر
کی لونڈی بہ نسبت مردوں کے زیادہ خانگی حالات سے باخبر ہوتی ہیں۔معاذ اللہ،
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اُم المومنین کی برات و نزاہت میں ذرہ برابر شک
بھی نہ تھا، یہ کلمات محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے
فرمائے، مطلب یہ تھا کہ حزن و ملال کی شدت کی وجہ سے مفارقت میں عجلت نہ
فرمائیں، فی الحال تحقیقِ حال سے پہلے کوئی خیال قائم نہ فرمائیں اور بریرہ
باندی سے حالت دریافت کرنے کا آپ کو مشورہ دیا کیونکہ حضرت علی رضی اللہ
عنہ کو یقین کامل تھا کہ مجھ سے زیادہ گھر کی لونڈی زیادہ اُم المومنین کی
طہارت و نزاہت کو جانتی ہیں)۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کی
باندی بریرہ رضی اللہ عنہا سے پوچھ گچھ کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ
کو بلا کر اُن سے پوچھا: کیا تو گواہی دیتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟،
بریرہ نے کہا: ہاں۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں تجھ سے کچھ
دریافت کرنا چایتا ہوں، چھپانا نہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ مجھ کو بذریعہ وحی
بتلاد دے گا۔ بریرہ نے کہا: جی میں چھپاؤں گی نہیں، آپ دریافت فرمائیں۔ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے کوئی
ناپسندیدہ چیز دیکھی ہے؟ بریرہ کہنے لگیں: نہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ سے فرمایا: اے بریرہ! اگر تو نے ذرہ برابر بھی
کوئی شے ایسی دیکھی ہو جس میں تجھ کو شبہ اور تردد ہو تو بتلا۔
بریرہ کہنے لگیں: قسم ہے اُس ذات پاک کی، جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا، میں
نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی کوئی بات معیوب اور قابل گرفت کبھی نہیں
دیکھی، سوائے اِس کے کہ وہ ایک کمسن لڑکی ہیں، آٹا گندھا ہوا چھوڑ کر سو
جاتی ہیں، اور بکری کا بچہ آکر اُسے کھا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بریرہ کا یہ جواب سن کر مسجد نبوی چلے گئے
اور منبر پر کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا، اول حمد و ثناء بیان فرمائی
اور بعد ازاں عبداللہ بن اُبی کا ذکر کرکے یہ ارشاد فرمایا: اے گروہ
مسلمین! کون ہے کہ جو میری اُس شخص کے مقابلہ میں مدد کرے؟ جس نے مجھ کو
میرے اہل بیت کے بارے میں اِیذاء پہنچائی ہے۔ اللہ کی قسم! میں نے اپنے اہل
سے سوائے نیکی اور پاکدامنی کے کچھ نہیں دیکھا، اور علیٰ ہذا جس شخص کا اُن
لوگوں نے نام لیا ہے اُس سے بھی سوائے خیر اور بھلائی کے کچھ نہیں دیکھا"
(یہ اشارہ حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ کے متعلق تھا)۔ یہ سن کر
قبیلہ اَوَس کے سرداد حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ کھڑے ہوگئے اور عرض کیا:
یا رسول اللہ! میں آپ کی اعانت اور امداد کو حاضر ہوں، اگر یہ شخص ہمارے
قبیلہ اَوَس کا ہوا تو ہم خود ہی اُس کی گردن اُڑا دیں گے اور اگر قبیلہ
خزرج سے ہوا اور آپ نے حکم دیا تو ہم تعمیل کریں گے۔
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہا جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے، کو یہ خیال
ہوا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہم پر تعریض کر رہے ہیں کہ اہل اِفک قبیلہ
خزرج میں سے ہیں، اِس لیے اُنہیں جوش آگیا۔ ابن اسحاق کی روایت میں اِس کی
تصریح ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو مخاطب بناکر کہا: اللہ کی قسم! تم
اُس کو ہرگز قتل نہ کرسکو گے، یعنی اگر وہ ہمارے قبیلہ کا ہوا تو ہم خود
اُس کو قتل کردیں گے، اگرچہ وہ شخص قبیلہ خزرج کا ہو یا کسی اور قبیلہ کا
ہو، کوئی بھی ہم کو روک نہیں سکتا اور کیا تو منافق ہے جو منافقین کی طرف
سے جوابدہی کرتا ہے؟ یہ تلخ کلامی حد سے بڑھ گئی، خدشہ تھا کہ کہیں قبیلہ
اَوَس قبیلہ خزرج سے لڑ پڑیں۔ اِسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
منبر سے اُتر آئے اور لوگوں کو خاموش کروایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: یہ دن بھی تمام کا تمام روتے ہوئے
گزرا، ایک دقیقہ کے لیے بھی آنسو نہیں تھمتے تھے۔ رات بھی اِسی طرح گزری،
میری اِس حالت میں میرے والدین کو گمان ہونے لگا تھا کہ اب اِس کا کلیجا
پھٹ جائے گا۔ جب صبح ہوئی تو بالکل میرے قریب آکر میرے والدین بیٹھ گئے اور
میں رو رہی تھی اتنے میں انصار کی ایک عورت آگئی اور وہ بھی میرے ساتھ رونے
لگی کہ اِسی حالت میں اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور
سلام کرکے میرے قریب بیٹھ گئے۔ اِس واقعہ کے بعد سے کبھی آپ میرے پاس آکر
نہیں بیٹھے تھے اور وحی کے اِنتظار میں ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ آپ بیٹھ گئے
اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان فرمائی۔ اِس کے بعد یہ فرمایا:
اے عائشہ! مجھ کو تیری جانب سے ایسی خبر پہنچی ہے، اگر تو بَری ہے تو
عنقریب اللہ تجھ کو ضرور بَری کرے گا اور اگر تو نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا
ہے تو اللہ سے توبہ اور استغفار کر، اِس لیے کہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار
کرتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ اُس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔
آپ فرماتی ہیں کہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کلام کو ختم
فرمایا اُسی وقت میرے آنسو منقطع ہوگئے۔ آنسو کا ایک قطرہ میری آنکھ میں نہ
رہا اور میں نے اپنے والد سے کہا: آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کو جواب دیں، اُنہوں نے کہا: میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا جواب
دوں؟۔ پھر میں نے یہی الفاظ اپنی ماں سے کہے تو ماں نے بھی یہی جواب دیا۔
اِس کے بعد میں نے خود جواب دیا کہ: اللہ کو خوب معلوم ہے کہ میں بالکل
بَری ہوں لیکن یہ بات سب لوگوں کے دلوں پر اس درجہ راسخ ہوگئی ہے کہ اگر
میں یہ کہوں کہ میں بَری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بَری ہوں، تو تم
سب یقین نہ کرو گے اور اگر بالفرض میں اقرار کرلوں حالانکہ اللہ خوب جانتا
ہے کہ میں بَری ہوں، تو تم سب یقین کروگے اور میں نے روتے ہوئے یہ کہا کہ:
اللہ کی قسم! میں اُس چیز سے کبھی توبہ نہ کروں گی جو یہ لوگ مجھ سے منسوب
کرتے ہیں، بس میں وہی کہتی ہوں کہ جو یوسف علیہ السلام کے باپ نے کہا تھا
(آپ فرماتی ہیں کہ: میں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام یاد کیا تو نام
یاد نہ آیا تو اِس لیے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد کہا)، اور پھر کہا:
فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ ( پس صبر
وشکر بہتر ہے اور اللہ ہی مددگار ہے اُس بات کے آشکارا کرنے پر جو تم بیان
کرتے ہو)۔
آپ فرماتی ہیں کہ: اُس وقت قلب کو یقینِ کامل اور جزمِ تام تھا کہ اللہ
تعالیٰ مجھ کو ضرور بَری فرمائے گا، لیکن یہ وہم و گمان نہ تھا کہ میرے
بارے میں اللہ تعالیٰ ایسی وحی نازل فرمائے گا جس کی ہمیشہ تلاوت ہوتی رہے
گی، میں خیال کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ شاید کوئی خواب رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کو اِس طرح کا دکھا دے گا جس میں میری بریت آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو معلوم ہوجائے گی۔ آپ فرماتی ہیں کہ: ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم وہیں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ وحی کا نزول شروع ہوگیا اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے سر اقدس کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ رکھ دیا گیا اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو ایک چادر اوڑھا دی گئی۔باوجود شدید سردی کے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی جبین مبارک سے پسینے کے قطرات ٹپکنے لگے۔ آپ فرماتی
ہیں کہ جب وحی کا نزول شروع ہوا تو میں بالکل نہیں گھبرائی، کیونکہ میں
جانتی تھی کہ میں بَری ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ پر ظلم نہیں فرمائے گا،
لیکن میرے والدین کا خوف سے یہ حال تھا کہ مجھ کو اندیشہ ہوا کہ اُن کی جان
ہی نہ نکل جائے۔ اُن کو یہ خوف تھا کہ مباداء وحی اُسی کے موافق نہ نازل
ہوجائے جیسا کہ لوگ کہہ رہے ہیں۔
میرے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا کا یہ حال تھا کہ کبھی رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب دیکھتے اور کبھی میری طرف، تو اُنہیں یہ اندیشہ
ہوتا کہ آسمان سے کیا حکم نازل ہوتا ہے؟ جو قیامت تک نہ ٹل سکے گا، اور جب
میری طرف دیکھتے تو میرے سکون و اطمینان کو دیکھ کر اُنہیں ایک گونہ اُمید
ہوتی۔ سوائے آپ کے تمام گھر والے اِسی خوف سے گھبرائے جا رہے تھے کہ وحی
آسمانی کا نزول ختم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبین مبارک سے
پسینہ صاف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انوار پر مسرت و بشاشت کے
آثار نمودار ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے اور دست مبارک
سے جبین مبارک سے پسینہ صاف کرتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی
جانب متوجہ ہوئے، پہلا کلمہ جو زبان مبارک سے نکلا، وہ یہ تھا: يَا
عَائِشَةُ أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ بَرَّأَکِ (اے عائشہ! اللہ نے تمہاری
پاکدامنی بیان فرما دی)۔آپ فرماتی ہیں کہ: میری والدہ نے کہا: اُٹھ اے
عائشہ! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ اداء کر۔ میں نے کہا:
اللہ کی قسم! سوائے اللہ تعالیٰ کے جس نے میری براءت نازل فرمائی، کسی کا
شکر اداء نہ کروں گی (یہ شکر الٰہی اور انعامِ یزدانی کے باعث کہا وگرنہ
اُم المومنین کا اس حالت میں شکر نبوی سے انکار محض ناز محبوبی کے مقام سے
تھا اور ناز محبوبی کی یہ حقیقت ہے کہ جس چیز سے لبریز ہو، زبان سے اُس کے
خلاف اِظہار ہو، ظاہر میں ایک ناز ہی تھا اور صد ہزار نیاز مستور میں تھے
)۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی براءت میں سورۃ النور کی آیات 11 سے 20
تک نازل ہوئیں:
'
إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ
شَرًّا لَكُمْ ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا
اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ
عَذَابٌ عَظِيمٌ O لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ
وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَٰذَا إِفْكٌ مُبِينٌ
O لَوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ۚ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا
بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَٰئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ O
وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا
وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ O إِذْ
تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ
لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ
عَظِيمٌ O وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ
نَتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ O يَعِظُكُمُ
اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ O
وَيُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ O إِنَّ
الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا
لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ
وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ O وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ
وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ O
جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں
برا نہ سمجھنا۔ بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ ان میں سے جس شخص نے گناہ کا
جتنا حصہ لیا اس کے لئے اتنا ہی وبال ہے۔ اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا
بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا O جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن
مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا۔ اور کیوں نہ کہا
کہ یہ صریح طوفان ہے O یہ (افتراء پرداز) اپنی بات (کی تصدیق) کے (لئے) چار
گواہ کیوں نہ لائے۔ تو جب یہ گواہ نہیں لاسکے تو خدا کے نزدیک یہی جھوٹے
ہیںO اور اگر دنیا اور آخرت میں تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی
تو جس بات کا تم چرچا کرتے تھے اس کی وجہ سے تم پر بڑا (سخت) عذاب نازل
ہوتا O جب تم اپنی زبانوں سے اس کا ایک دوسرے سے ذکر کرتے تھے اور اپنے منہ
سے ایسی بات کہتے تھے جس کا تم کو کچھ علم نہ تھا اور تم اسے ایک ہلکی بات
سمجھتے تھے اور خدا کے نزدیک وہ بڑی بھاری بات تھی O اور جب تم نے اسے سنا
تھا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں شایاں نہیں کہ ایسی بات زبان پر نہ لائیں۔
(پروردگار) تو پاک ہے یہ تو (بہت) بڑا بہتان ہے O خدا تمہیں نصیحت کرتا ہے
کہ اگر مومن ہو تو پھر کبھی ایسا کام نہ کرنا O اور خدا تمہارے (سمجھانے کے
لئے) اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے۔ اور خدا جاننے والا حکمت
والا ہے O اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بےحیائی یعنی
(تہمت بدکاری کی خبر) پھیلے ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب
ہوگا۔ اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے O اور اگر تم پر خدا کا فضل اور
اس کی رحمت نہ ہوتی (تو کیا کچھ نہ ہوتا مگر وہ کریم ہے) اور یہ کہ خدا
نہایت مہربان اور رحیم ہے۔(سورۃ النور، آیات 11 تا 20)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِن آیاتِ مبارکہ کی تلاوت سے فارغ ہوئے
تو حضرت ابوبکر_صدیق رضی اللہ عنہ اُٹھے اور لخت جگر کی جبین مبارک پر بوسہ
دیا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اے میرے باپ! پہلے سے آپ نے
مجھ کو کیوں نہ معذور اور بے قصور نہ سمجھا؟۔ حضرت ابوبکر_صدیق رضی اللہ
عنہ نے جواب دیا: کون سا آسمان مجھ پر سایہ ڈالے اور کون سی زمین مجھ کو
اُٹھائے اور تھامے جبکہ میں اپنی زبان سے وہ بات کہوں جس کا مجھ کو علم نہ
ہو۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر_صدیق رضی اللہ عنہ
کے مکان سے مسجد نبوی تشریف لائے اور مجمع عام میں خطبہ دیا اور یہ آیات
تلاوت فرمائیں۔
اِس فتنہ کا اصل بانی تو عبداللہ ابن اُبی تھا اور اُس کے ہمراہ منافقین کا
گروہ اِس فتنہ کے پھیلاؤ میں سرگرم تھا۔ مسلمانوں میں سے کوئی بھی اِس فتنہ
میں مبتلاء نہ ہوا، سوائے تین افراد کے جو منافقین کے بہکاوے میں آ گئے
تھے: مسطح بن اثاثہ، حسان بن ثابت، حمنہ بنت جحش۔ اِن تینوں افراد پر حد
قذف جاری گئی اور 80، 80 کوڑے مارے گئے اور وہ اپنی غلطی سے تائب ہوئے۔
عبداللہ ابن اُبی کو سزا نہیں دی گئی کیونکہ وہ منافق تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کود فرماتی ہیں کہ اِس تمہت کا بانی عبداللہ بن
اُبی بن سلول تھا اور قبیلہ خزرج کے چند لوگ جن میں مسطح بن اثاثہ اور حمنہ
بنت جحش بھی اُس کے ساتھ شریک تھے۔ حمنہ بنت جحش کے شریک ہونے کا مقصد یہ
تھا کہ حمنہ اُم المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی بہن تھی اور
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو التفات مجھ سے تھا، وہ کسی اور زوجہ سے نہیں
تھا، اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے زینب رضی اللہ عنہا کو اُن کی دینداری کے سبب
سے رشک و حسد سے محفوظ رکھا، مگر حمنہ بنت جحش بہن کی خاطر مجھ سے ضد رکھتی
تھی اور اِسی سبب سے اِس تمہت میں شریک ہوئی۔
مسطح بن اثاثہ حضرت ابوبکر_صدیق رضی اللہ عنہ کے خالہ زاد بھائی تھے۔ عسرت
و تنگدستی کے سبب سے حضرت ابوبکر_صدیق رضی اللہ عنہ اُن کو خرچ دیا کرتے
تھے۔ مسطح چونکہ اِفک کے فتنہ میں شریک تھے اِسی لیے حضرت ابوبکر_صدیق رضی
اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ اب مسطح کو کبھی خرچ نہ دوں گا۔ اُن کی اِس قسم
پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:
وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا
أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ
لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ O
اور جو لوگ تم میں صاحب فضل (اور صاحب) وسعت ہیں، وہ اس بات کی قسم نہ
کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ خرچ پات
نہیں دیں گے۔ ان کو چاہیے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں
کرتے کہ خدا تم کو بخش دے؟ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے۔ ( سورۃ النور:
آیت 22)
جب یہ آیت حضرت ابوبکر_صدیق رضی اللہ عنہ نے سنی تو کہا: کیوں نہیں، اللہ
کی قسم البتہ تحقیق میں اِس کو بہت ہی زیادہ محبوب رکھتا ہوں کہ اللہ میری
مغفرت فرمائے۔
اللہ آپ کو اور مجھے ایمان کی حلاوت نصیب فرمائے اورحقیقی خوشیاں عطا
فرمائے اور ہمیں اِن پاک نفوس کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے اور اللہ پاک
سے دعا ھے ہر کمی معاف فرما کر ﺫریعہ نجات بناۓ..آمین
|