حکومتی اقدامات نے بالآخراپوزیشن جماعتوں کوایک دوسرے کے
قریب کرناشروع کردیاہے جواپوزیشن الیکشن میں دھاندلی کے بڑے ایشوپر نوماہ
اکٹھی نہیں ہوسکی وہ حکومت کی نااہلی سے ایک میزپربیٹھ گئی ہے،عیدکے بعد
ایک نئی اپوزیشن کی پکارسنائی دے رہی ہے اوراس اپوزیشن کی ڈرائیونگ سیٹ
پرمولانافضل الرحمن براجمان نظرآرہے ہیں کیوں کہ مولانافضل الرحمن نے ان
نوماہ میں ثابت کیاہے کہ وہ حقیقی اپوزیشن کاکرداراداکررہے ہیں وہ پہلے دن
سے حکومت کے خلاف میدان میں ہیں ،مولانا فضل الرحمان نے اپنے تازہ ویڈیو
پیغام میں کہا ہے کہ عیدالفطر کے بعد ہماری میزبانی میں آل پارٹیز کانفرنس
ہوگی، مشترکہ موقف کے تحت آئندہ کی حکمت عملی طے کی جائیگی۔ویڈیو پیغام میں
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے
انتخابات 2018 کو دھاندلی زدہ قرار دیا تھا، تاہم اتفاق رائے کے باوجود آل
پارٹیز کانفرنس منعقد نہ ہوسکی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کی نظریاتی
شناخت، عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ، اور مہنگائی کیخلاف ملین مارچ کیے، ملین
مارچ کا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔مولانا فضل الرحمان نے مزیدکہا کہ
کارکنان پرعزم رہیں، جلد اسلام آباد میں قومی سطح کا مارچ ہوگا، دیگر
جماعتیں اگر شرکت کرنا چاہیں تو خیرمقدم کریں گے۔
مولانافضل الرحمن جونوابزادہ نصراﷲ خان مرحوم کواپناسیاسی استادمانتے ہیں
ان کی کوشش ہے کہ نوابزادہ نصراﷲ خان کے نقش قدم پرچلتے ہوئے حکومت کے خلاف
ایک وسیع تراتحادتشکیل دیاجائے جوحکومت کے خاتمے پرمنتج ہو۔اپوزیشن کی
دوبڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اورپاکستان پیپلزپارٹی پہلے دن سے ڈیل کی کوشش
میں تھیں اورہیں ان کی یہ ڈیل حکومت سے نہیں بلکہ ،،حکومت سازوں،،سے تھی
مگردونوں جماعتوں کوبالآخرمایوسی ہوئی ہے اس مایوسی کے بعد دونوں جماعتوں
کے،،طفل مکتب،میدان میں اترے ہیں اورکٹھن سفرپرچلنے کاعزم کیاہے ۔
مولانافضل الرحمن کاویڈیوپیغام اس امرکی نشاندہی کررہاہے کہ مسلم لیگ ن
اورپیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھرڈیل کاماحول بنارہی ہیں اورمولاناسمجھ رہے ہیں
کہ اپوزیشن کی دوبڑی جماعتیں ایک دوسرے پراعتبارنہیں کررہی ہیں اس لیے
انہوں نے اپنے کارکنوں کوکہاہے کہ وہ پرعزم رہیں جلداسلام آبادمیں قومی سطح
کامارچ ہوگا دیگرجماعتیں اگرشرکت کرناچاہیں توخیرمقدم کریں گے اس کایہ بھی
مطلب ہے کہ اگردیگرجماعتیں اسلام آبادمارچ میں شرکت نہیں بھی کرتیں توتب
بھی مولانافضل الرحمن یہ مارچ ضرورکریں گے ۔مولانافضل الرحمن کے پاس سٹریٹ
پاورہے اوروہ اس سٹریٹ پاورکووارم اپ بھی کرچکے ہیں جبکہ دیگرجماعتوں نے
اپنے کارکنوں کوابھی متحرک کرناہے ،اس کے ساتھ ساتھ مولانافضل الرحمن پورے
ملک میں جماعتی انتخابات کرواچکے ہیں اوریونین کونسل کی سطح سے اوپرتک نئی
قیادت سامنے لاچکے ہیں جونئے عزم کے ساتھ میدان میں نکل رہی ہے ۔
مولاناکاخدشہ بھی درست ہے کیوں کہ مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی جس زوروشورسے
متحرک ہوتی ہیں نیب بھی ان دونوں جماعتوں اوران کی قیادت کے خلاف اسی
زوروشورسے متحرک ہوجاتاہے اتوارکو پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین
بلاول بھٹونے افطارپارٹی بلائی جس میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے شرکت کی
تواس سے اگلے دن ہی نیب متحرک ہوگیا اورنوازشریف کے ساتھ ساتھ مریم
نوازکوبھی پیغام دے دیاگیا ۔نیب نے احتساب عدالت سے بلٹ پروف گاڑیوں کے
ذاتی استعمال کے حوالے سے نواز شریف سے تفتیش کی اجازت حاصل کرلی نیب
کاکہناہے کہ 34 بلٹ پروف گاڑیاں جرمنی سے ڈیوٹی کی ادائیگی کے بغیر خریدی
گئیں جوسارک کانفرنس 2016 کے مہمانوں کیلئے تھیں،20 گاڑیاں سابق وزیراعظم
نے اپنے قافلے میں شامل کرلیں، مریم نواز نے بھی استعمال کیں،
گزشتہ روزہی قومی احتساب بیورکے ذرائع سے یہ خبربھی جاری کی گئی کہ نیب میں
جاری اہم کیسز میں بڑی گرفتاری کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ نیب لاہور کا
سیل نمبر تین کی خصوصی طور پر صفائی کروا لی گئی ہے۔ذرائع کے مطابق نیب کو
میگا کیسز میں اہم ثبوت ملنے کے بعد سیل نمبر 3 نئے قیدی کی راہ تکنے لگا
ہے۔ اس خبرکامقصدبھی اپوزیشن کوپیغام دیناتھا کہ اچھے بچے بن جاؤ ،بازآجاؤ،ہمارے
لاڈلے کوتنگ نہ کراگراس کوتنگ کروگے توہم تمھیں تنگ کریں گے ،نیب چیئرمین
جسٹس (ر)جاویداقبال ملک کے معروف کالم نگارکے ساتھ ایک سیاسی انٹرویوکی وجہ
سے پہلے ہی اپوزیشن کے زیرعتاب ہیں ان کے تازہ اقدامات ان کی غیرجانب داری
پرمزیدسوالات اٹھارہے ہیں ؟نیب کے متعلق یہ تاثرپختہ ہورہاہے کہ یہ ادارہ
غیرجانب دارنہیں بلکہ حکمرانوں کے سیاسی مقاصدکے لیے استعمال ہوتارہاہے
اورہورہاہے ۔
بہرحال اپوزیشن جماعتیں اگرمتحد ہوگئیں توچھوٹی عیدکے بعدبڑے احتجاج کی
تیاریاں شروع ہوجائیں گی اوربڑی عیدکے بعد شایدبڑی قربانی دیناپڑجائے کیوں
کہ بڑی عیدکے بعد موسم کی گرمی میں بھی کافی نرمی آچکی ہوگی ۔کچھ لوگوں کی
طرف سے یہ تاثردینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے اسلام
آبادپرچڑھائی جمہوریت کے خلاف سازش ہوگی اوراس عمل سے جمہوریت کی بساط
لپیٹی جاسکتی ہے ،ان کایہ سوال کسی طورپربھی درست نہیں کیوں کہ عمران خان
اورطاہرالقادری کے 126دھرنے ،وزیراعظم ہاؤس اورسرکاری دفاترپرچڑھائی ،ڈی
چوک میں گالم گلوچ سے جمہوریت کوکوئی خطرہ نہیں ہواتواپوزیشن کے متوقع
دھرنے یاتحریک سے جمہوریت کوکوئی خطرہ نہیں ہوناچاہیے ۔
فرق یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف اسلام آبادپرچڑھائی کے وقت عمران
خان تنہائی کاشکارتھے اورموجودہ اپوزیشن جماعتوں کی اسلام آبادکی متوقع
چڑھائی کے موقع پربھی ان کی حکومت تنہائی کاشکارہے ،اس وقت بھی حکمران
اوراپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ میں متحدتھیں اوراب کی باربھی اپوزیشن جماعتیں
متحد ہوتی نظرآرہی ہیں ۔مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کوساتھ
ملاکرحکمت عملی سے عمران اورطاہرالقادری کے دھرنے کوناکام بنایاتھا
مگرموجودہ حکومت اپنے اقدامات ،تدبرسے عاری فیصلوں سے اپوزیشن کے دھرنے
کوکامیاب بنائے گی ،ملک کی نظریاتی شناخت پررکیک حملوں ،مہنگائی ،بے
روزگاری،ڈالراورتیل کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ ،آئی ایم ایف سے قومی غیرت
کے منافی معاہدہ،نیب گردی ،دشنام طرازی ،گالم گلوچ ، اسٹاک مارکیٹ میں مندی،
سرمایہ کاروں کے کروڑوں روپے ڈوبنے، بجلی اورگیس کے نرخوں میں اضافے ،
قرضوں کابوجھ، ٹیکسوں اورقومی مفادسے عاری فیصلے عوام کے غیض وغضب میں
اضافے کاسبب بن رہے ہیں آنے والابجٹ جلتی پرتیل کاکام کرے گا ایسے حالات
میں اپوزیشن کوکچھ کرنے کی ضرورت نہیں اپوزیشن جماعتیں جس دن ایک پلیٹ فارم
پرجمع ہوگئیں اس دن ان کاآدھاکام ہوجائے گا ۔
موجود ہ حکومت کے برسراقتدارآنے کے بعد ملک میں کہیں بھی حکومتی رٹ نظرنہیں
آرہی ہے وفاقی دارالحکومت میں کرائم ریٹ بڑھ گیاہے باقی ملک کاکیاحال ہوگا
؟جنسی زیادتی ،قتل،چوری اورڈکیتیوں کے واقعات میں اضافہ ہوگیاہے تبدیلی
سرکارکسی محکمے میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کرسکی ہے صرف دعوے ہیں بیانات ہیں
اجلاس ہیں ،کہانیاں ہیں اور دعوے ہیں ،حکمرانوں کوکارحکومت کی سمجھ ہی نہیں
ہے، ملک کے معاشی،سیاسی حالات اس کی دسترس میں آ ہی نہیں رہے اور عمران خان
صرف،، گھبرانا نہیں،، کے دو لفظوں تک محدود ہو کر رہے گئے ہیں، کوئی عملی
اقدام وہ کر نہیں پا رہے، لگتاہے کہ ان کے ہاتھ پاؤں کسی نے باندھے ہوئے
ہیں ۔سمندرسے توتیل نہیں نکلا مگرعوام کاتیل نکل چکاہے بلکہ مزیدنکالنے کی
بھی تیاریاں کی جارہی ہیں ۔
پاکستان کی تاریخ میں اتنے بدترین حالات عوام کو دیکھنے کو کبھی نہیں ملے
جن کا وہ ان دنوں تبدیلی سرکار میں سامنا کررہے ہیں، فہم و فراست سے عاری
حکمران ٹولے نے وقت بھی ضائع کردیا اور ملک کو بھی پٹری سے اتار دیا، بلکہ
رواں ٹریفک کے آگے خودساختہ بند لگاکر اسے روک دیا اور اب ہر طرف ٹریفک بری
طرح پھنس چکی ہے، لیکن یہ سمجھ نہیں آرہا کہ اسے رواں کیسے کیا جائے؟مسلم
لیگ ق کے قائدچوہدری شجاعت حسین نے متوقع حالات دیکھتے ہوئے میثاق معیشت کی
پھلجڑی چھوڑی ہے دیکھتے ہیں کہ ان کے اتحادی وزیراعظم اس حوالے سے کیاکرتے
ہیں ؟
|