ہم مرید بابا کرکٹ شاہ کے

پاکستان جنوبی ایشیا میں ہے۔ اور جنوبی ایشیا کرکٹ میں سما گیا ہے! جب پورا خطہ کرکٹ کے جنون کی زد میں ہے تو پھر ہم کیوں پیچھے رہیں؟ لے دے کے اب بس اِسی قسم کا جنون تو رہ گیا ہے ہمارے لئے! ورلڈ کپ فُل سوئنگ میں ہے اور شائقین کا مزاج ریورس سوئنگ جیسا ہوچکا ہے! جسے دیکھیے وہ کرکٹ کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ کرکٹ کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ کم از کم اپریل فول کے ایک دن بعد تک کے لئے کوڑا کرکٹ ہے!

ہمارے دامن میں کیا نہیں؟ مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن، جہالت، امن و امان کا مسئلہ، ڈرون حملوں میں بے قصور انسانوں کی ہلاکتیں۔۔۔ سبھی کچھ تو ہے مگر لگتا ہے قوم نے حافظے کو جبراً عارضی رخصت پر بھیج دیا ہے! تمام معاملات ورلڈ کپ کے بعد تک ٹھہر گئے ہیں یا ٹھہرا دیئے گئے ہیں! آٹا، چینی، تیل، گھی، سبزی، پھل، گوشت، مسالوں اور دوسری بہت سی چیزوں کے دام ہم سے بات چیت بند کرنے کے بعد صرف آسمان سے باتیں کر رہے ہیں مگر اب ہمیں اِس غم نے ستانا چھوڑ دیا ہے! یہ ورلڈ کپ کا کمال ہے! مہنگائی پر احتجاج کرنا ہے؟ کیوں نہیں؟ ضرور کریں گے۔ نوکری ڈھونڈنی ہے؟ پیٹ کا معاملہ ہے اِس لئے ضروری ڈھونڈیں گے۔ وزیروں، مشیروں اور افسروں کی کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنی ہے؟ کیوں نہ کریں؟ یہ ہمارا حق اور فرض ہے۔ مگر بھئی، یہ سب کچھ ہوگا ورلڈ کپ کے بعد! اِس وقت تو ہمارے ذہنوں پر ”ڈونٹ ڈسٹرب“ اور ”جسٹ میریڈ“ کے بورڈ لگے ہوئے ہیں! ورلڈ کپ کے شامیانے میں کرکٹ سے شادی کے بعد اب قوم کا ہنی مون پیریڈ چل رہا ہے! سیاست دانوں نے مارچ میں مارچ کی تیاری کر رکھی تھی۔ مارچ تو مارچ، اب اپریل فول بھی ورلڈ کپ کے ریلے میں بہہ جائے گا! ورلڈ کپ کا سیلاب آیا ہے تو کرکٹ کا دریا کنارے توڑ کر بہہ نکلا ہے! یہ سیلاب بہت کچھ بہا لے جائے گا۔ اہل سیاست اگر وقت کی نزاکت کو سمجھیں تو احتجاج اور تحریک وغیرہ کو ایک ڈیڑھ ماہ بعد پر اُٹھا رکھیں!

قوم باقی سب کچھ بھول کر کرکٹ کے نام پر بیدار ہوئی تو ہے! اب اگر کسی لیڈر میں ہمت ہے تو اس جوش و خروش کو channelize کر لے! زندگی بھلے ہی تیز نہ ہو، کرکٹ تو تیز ہے! یہ بھی کیا کم ہے! کھلاڑی تیز رفتار ہیں اور اُن سے بھی تیز رفتار ہمارے ”جذبے“ ہیں! امریکیوں کے مظالم اور حکمرانوں کی بے حسی بھی جنہیں بیدار نہ کرسکی وہ ”جذبے“ کرکٹ کے منتر سے پھر زندہ ہوگئے!

اب رات دن ہم ہیں اور کرکٹ ہے۔ زندگی نو بال، وائڈ، ایل بی ڈبلیو اور ری پلے کے سانچے میں ڈھل گئی ہے! چولھے پر چڑھی ہانڈی جلتی ہے تو جل جائے، خواتین کچن سے بار بار ڈرائنگ روم کا رخ کرتی ہیں تاکہ کھلاڑی کے آؤٹ ہونے یا چوکے چھکے کا ری پلے دیکھ سکیں! اور ہانڈی میں سالن ری پلے ہو ہوکر کالا بھجنگ ہو جاتا ہے! کہا جاسکتا ہے کہ سالن بھی کرکٹ سے خواتین خانہ کی وابستگی اور وفاداری دیکھ کر جل جاتا ہے!

جن کی زندگی میں مشاغل خال خال ہیں وہ بھی کم از کم کرکٹ کا شغل تو پال ہی لیتے ہیں! آج کل سرپرستی فرمانے اور چیزوں کو گود لینے کا چلن عام ہے۔ کوئی پارک کو گود لیتا ہے، تو کوئی اسکول کو۔ ہم نے من حیثیت القوم کرکٹ کو گود لے لیا ہے اور خود ورلڈ کپ کے آغوش میں ہیں!

کوئی اُفتاد اب ہماری اُفتادِ طبع کو بدل نہیں پاتی۔ حق تو یہ ہے کہ ہماری اُفتادِ طبع بجائے خود اُفتاد ہے جو ہم پر آن پڑی ہے! زہے نصیب، کرکٹ نے ہم میں زندگی کی رمق پیدا کردی ہے، توانائی ہمارے بدن میں انگڑائیاں لیکر بیدار ہوتی جارہی ہے۔ ”بابا کرکٹ شاہ“ کی مُریدی اختیار کرتے اور ان کے آستانے پر جبین شوق کو جھکاتے ہی ہمارا ظاہر و باطن ایک ہوچکا ہے یعنی سب نے کرکٹ کو تعویذ بناکر گلے میں ڈال لیا ہے! مراقبے کی کیفیت ہے کہ ہم پر پیہم طاری ہے۔ کوئی حال بھی پوچھے تو منہ سے اسکور ہی نکلتا ہے! شدید غصے کی حالت میں کسی کو گالی بھی دیجیے تو لگتا ہے مخالف ٹیم کے خلاف نعرہ لگ رہا ہے!

زندگی کے تمام بنیادی مسائل ہمارے لئے فی الحال ماضی کے مزار ہیں! ہماری تمام مشکلات کو کرکٹ نے اینیستھیسیا دے دیا ہے! میڈیا والے ہمارے ذوق و شوق کی لَے ٹوٹنے نہیں دیتے۔ میچ ختم ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی چینل اُسے دوبارہ پیش کرنے لگتا ہے۔ اور یوں ہم
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
کی عملی تصویر بن کر رہ جاتے ہیں! خواب دیکھیے تو کرکٹ کے، آنکھ کھلے تو کرکٹ، کھانے بیٹھو تو کرکٹ، گھر سے نکلو تو کرکٹ، گھر میں آؤ تو کرکٹ۔ شریفوں کے کھیل نے بدمعاش اور منہ زور ریلے کی شکل اختیار کرلی ہے اور ہمیں بہائے لئے جارہا ہے!

کراچی میں اچھے خاصے بارش کے آثار تھے۔ ”انتہائے کرم“ دیکھیے کہ دو چار بوندیں برس بھی گئی تھیں مگر جب کرکٹ کے بادل چھائے تو پانی والے بادلوں نے رختِ سفر باندھ لیا! موسم نے سوچا ہوگا جب لوگ کرکٹ کی بارش سے جل تھل ہوگئے ہوں تو پانی بے چارا برس کر کیا کرے گا؟

تصوراتی پچ پر ہم ہر مسئلے کو گیند سمجھ کر چوکے یا چھکے کی شکل میں میدان سے باہر پھینکنے کے درپے رہتے ہیں! اور عملی زندگی کی کرکٹ میں ہم وکٹوں کے درمیان دوڑنے پر یقین نہیں رکھتے! ایسے میں منی اسکرین کا دم غنیمت ہے کہ ہم کرکٹرز کو فارم میں دیکھ کر اُن کے بیٹ سے اپنی مرضی کے چھکے لگا رہے ہوتے ہیں!

کرکٹ رفتہ رفتہ ہمارے مزاج کے مطابق ہوتی جارہی ہے۔ پانچ دن کی ٹیسٹ کرکٹ سے معاملہ ایک روزہ میچوں تک پہنچا اور اب ٹوئنٹی ٹوئنٹی کا دور ہے۔ ہم سب یہی تو چاہتے ہیں۔۔۔ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اسکور! کل کو اگر میچوں کا فیصلہ محض ٹاس پر ہونے لگے تو شاید کسی کو حیرت نہ ہوگی! فی الحال تو کرکٹ نے ہم سے ٹاس جیت لیا ہے اور خوب بیٹنگ کر رہی ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524727 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More