انگریزی زبان میں عربی زبان کے بہت سے
الفاظ پائے جاتے ہیں اور ان الفاظ سے نکلے ہوئے الفاظ علیحدہ ہیں۔ ان میں
کچھ لفظ ایسے ہیں جو انگریزی زبان بولنے والے روزانہ استعمال کرتے ہیں۔مثلاً
زیرو، الکحل، صوفہ وغیرہ۔ عربی زبان کے جو الفاظ انگریزی زبان میں مستعمل
ہیں ان میں سے زیادہ تر براہِ راست انگریزی زبان میں داخل نہیں ہوئے ہیں
بلکہ دیگر زبانوں جیسے لاطینی، فرانسیسی اور ہسپانوی کے ذریعے داخل ہوئے
ہیں۔ جو علمائے کرام بارھویں صدی عیسوی میں علم کیمیا، علم طب، علم نجوم
اور علم الحساب کے متلاشی تھے انھوں نے عربی کتب کا ترجمہ لاطینی زبان میں
کیا۔ قدیم اسپین میں عربوں کی بنائی ہوئی قرطبہ کی یونیورسٹی جس کی بنیاد
نویں صدی میں پڑ چکی تھی، تمام یورپی ممالک کے طلبہ کی دلچسپی کا مرکز بنی۔
یہی صورت حال عرب اسپین کی دوسری یونیورسٹیوں میں پائی جاتی تھی۔
عرب فاتحین چھٹی صدی عیسوی سے لے کر پندرھویں صدی تک تقریباً آدھی دنیا پر
حکومت کرنے لگے تھے اور ہر میدان میں چاہے وہ علمی ہو یا صنعتی، تجارتی ہو
یا زراعتی، معاشی ہو یا سماجی ترقی کے ہر زینے پر پہنچ چکے تھے۔ یہی سبب ہے
کہ دیگر اقوام کی تہذیب و تمدن اور زبان و فلسفہ پر عربی زبان اور عربی
تہذیب یعنی مسلم تہذیب کے اثرات نظر آتے ہیں۔ عربی زبان کے بعض الفاظ علم
نباتات، علم نجوم، علم کیمیا، علم طبیعیات، علم الحساب، علم طب و جراحی،
علم جغرافیہ، سیاحت، علم پارچہ بافی اور رنگ سازی کی اصطلاحات گھلے ملے ہیں۔
انگریزی میں ان کی شکلیں اصل سے بہت مختلف ہوگئی ہیں۔
ان الفاظ کی اصل جاننے کے لیے ان کی مختلف اشکال اور تلفظ پر نظر کرنا
ضروری ہے۔ عموماً عربی زبان کے وہ الفاظ جو سولھویں صدی سے پیشتر انگریزی
میں داخل ہوئے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ انگریزی تلفظ کی بنا پر خالص انگریزی
کے الفاظ معلوم ہوتے ہیں جیسے جبرالٹر (Gibralter) یعنی جبل الطارق، اوسینا
(Avicinna) یعنی ابوعلی سینا وغیرہ۔ موجود علم کیمیا میں کئی لفظ عربی سے
ماخود ہیں جیسے لفظ الکمی (Alchemy) یعنی کیمیا گری۔ یونانی زبان میں کیمیا
(Chyma) کے معنی ہیں پگھلی ہوئی دھات، عربی میں یہ Alchemy بنا اور انگریزی
میں عربی زبان سے داخل ہوا۔ اسی طرح لفظ الگزیر (Elixir) ال اکسیر کی بگڑی
ہوئی شکل ہے۔ اس کا اصل یونانی لفظ زیران (Xerion) ہے جس کی کچھ خصوصیات
تھیں۔ ان خصوصیات کی بنا پر یہ عربی میں ”ال اکسیر“ ہو گیا اور اس کے بعد
لاطینی زبان سے ہوتا ہوا چاسر کے انگریزی کلام میں داخل ہوا۔
الکحل (Alcohal) عربی لفظ ہے لیکن یہ مرکب شے عربوں کی پیدا کردہ نہیں ہے۔
اس کا پہلے پہل تذکرہ نویں یا دسویں صدی کی اطالوی زبان میں ملتا ہے۔
مسلمان الکحل کو ایک سفوف کی حیثیت سے جانتے تھے جو ابرں کو رنگنے کے لیے
استعمال کیا جاتا تھا۔ الکلی (Alkali) عربی لفظ القلی، پوٹاشیم کی کیمیائی
علامت “K” کا ماخذ ہے۔ ”انٹی منی“ کا اصل عربی لفظ ”التمد“ ہے جو ایک دھات
ہے۔ علم کیمیا کو باقاعدہ سائنس کی شکل دینے والے مسلمان ہیں کیونکہ اس
میدان میں جہاں یونانی صرف صنعتی تجربات اور دھندلے نظریات رکھتے تھے وہاں
عرب کے باشندے باقاعدہ مشاہدات اور مکمل تجربات کیا کرتے تھے۔ انھوں نے
المبک (Alembic) یعنی قرنبیق ایجاد کیا اور اس کا نام رکھا ”المبک۔“ یہ ایک
ایسا برتن ہے جس کی مدد سے تجربہ گاہ میں بھپکا دیا جاتا ہے۔ آج بھی دنیا
کی ایک مشہور دوا ساز کمپنی ”المبک“ کے نام سے موسوم ہے۔
علم الحساب کے میدان میں عربی زبان کا اثر صاف نظر آتا ہے۔ زیرو (Zero) جس
کی طاقت علم حساب میں سب سے زیادہ سمجھی جاتی ہے ، عربی کے زیر اثر وجود
میں آیا۔ 976 میں محمد بن احمد اپنی کتاب ”سائنس کی کنجیاں“ میں لکھتے ہیں
کہ اگر گنتی میں کوئی عدد عشری جگہ پر نہ ہو تو ایک چھوٹا سا دائرہ استعمال
کرنا چاہیے تاکہ اعداد کی قطار قائم رہے۔ مسلمانوں نے اس دائرے کو ”صفر“
یعنی خالی کہا۔ لاطینی علما نے صفر کو زیفرم (Zepherum) میں تبدیل کر دیا
اور بعد میں اطالویوں نے اس کی تخفیف کر کے اسے زیرو بنا دیا، یہی زیرو آج
انگریزی میں مستعمل ہے۔ الگورزم (Algorism) یعنی عربی ”اعشاریہ“ عہد مامون
کے مشہور ریاضی داں محمد بن موسیٰ النحوارزمی کی نسبت سے یہ لفظ بنا ہے۔
813 میں النحوارزمی نے اپنے نجومی خاکوں میں ہندوستانی اعداد استعمال کیے۔
اس کے بعد الگورزم کے معنی ہو گئے ہر وہ حسابی طریقہ جو عشری علامت پر
منحصر ہوتا ہے اور یہی نظریہ آج بھی مروج ہے۔
علم فلکیات اور علم نجوم میں بھی عربی زبان کے الفاظ انگریزی زبان میں
درآئے ہیں مثلاً ازیمت (Azimuth) زنت (Zenith) المیانک (Almanac) وغیرہ۔
”ازیمت“ اس قوس آسمانی کو کہتے ہیں جو سمت الّر اس سے افق تک پھیلی ہوئی ہے۔
یہ عربی لفظ سمت سے بنا ہے۔ ”زنت“ کے معنی سمت الراس کے ہیں یعنی آسمان میں
وہ نقطہ جو دیکھنے والے کے ٹھیک سرپر ہو۔ آج کل یہ لفظ عام زبان میں نقطہ
عروج کی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے - آلات موسیقی اور ان کے نام
جیسے لوٹ (Lute) تمبورین (Tamburine) ریبک (Rebeck) گٹار (Guitar) وغیرہ
عربی زبان کے رہین منت ہیں۔ ”لوٹ“ عربی لفظ ال۔اد (Al=Ud) سے بنا ہے۔ عربی
ریبک (Rebeck) یا ربائبل (Rebible) آلہ موسیقی ہسپانوی زبان میں ریبل
(Rebel) اور پرتگالی میں ریبیکا (Rebeca) کہلانے لگا اور آج بھی یہ لفظ پر
تگالی میں وائلن (Violin) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
فن تعمیر میں بھی عربی زبان کے بعض الفاظ مثلاً ”مینار“ جس کے معنی روشنی
کے گھر کے ہیں۔ مینارٹ (Minaret) لفظ مدھانہ (Madhana) سے بنا ہے یعنی وہ
جگہ جہاں سے موذن کھڑے ہوکر اذان دیتا ہے۔ اڈمرل (Admiral) اور جبرالٹر بھی
(Gibralter) عربی الفاظ سے بنے ہیں۔ ”اڈمرل“ یعنی بحری بیڑے کا افسر اعلیٰ
عربی زبان کے دو الفاظ امیر (سردار) اور البحر (سمندر) سے مل کر بنا ہے۔
اڈمرل اسی ”امیر البحر“ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ کپڑوں کی کئی قسمیں ان عرب
ممالک کے نام سے موسوم ہیں جہاں وہ تیار کیے جاتے تھے۔ چانسر (Chancer) کے
زمانے میں فسٹین (Fustian) کے نام سے جو کپڑا مشہور تھا وہ فستات (Fustat)کا
بنا ہوا تھا جو مصر کے مسلمان حکمرانوں کا اولین پایہ تخت تھا۔ دمسک
(Damask) نامی کپڑا پہلے پہل دمشق میں جو کہ دنیائے تجارت کا بڑا مرکز تھا
بنایا گیا۔ مسلن (Muslin) (ململ) اسے اطالوی تاجر موصل سے درآمد کیا کرتے
تھے۔ بغداد اطالوی زبان میں بل ڈاکو (Baldaco) کہلاتا ہے۔اس طرح وہ ریشمی
کپڑا جو بغداد میں بنایا جاتا تھا اور جو آج کل گرجا گھروں میں زینت کے لیے
لٹکایا جاتا ہے بل ڈاچنو (Baldachino) کے نام سے مشہور ہوا۔
ایران کا تفٹھا (Taftah) ٹفیٹا (Taffeta) کے نام سے مشہور ہے۔ بغداد کا
اٹابیا (Atabiya) یا ”اتاب“ محلہ جہاں ایک صحابی کے خاندان والے رہتے تھے
بارھویں صدی عیسوی میں ایک خاص قسم کے کپڑے کے لیے مشہور تھا جو اسپین میں
پہنچ کر ”اٹابی سلک“ کے نام سے مشہور ہوا۔ فرانس اور اٹلی میں یہ ٹابس
(Tabis) کے نام سے رائج ہوا اور آج بھی اسی نام سے پورے یوروپ میں معروف
ہے۔ للاک (Lilac)ایک قسم کا رنگ ہے جو ایران میں بھی اسی نام سے مشہور تھا۔
یہی رنگ آج کل سلک کے کپڑوں کی رنگائی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اِملی کو
انگریزی میں ٹامرنڈ (Tamrind)کہتے ہیں۔ ہندوستان میں عربوں نے جب پہلے پہل
اِملی کے درختوں کی کثرت دیکھی تو انھوں نے اس کو ”ثمرالہند“ یعنی ہندوستان
کا پھل کہا۔ لفظ ثمر کا حرف ”ث“ انگریزی میں ”ت“ یا ”ٹ“ بن گیا اور ”الہند“
کا مخفف ”انڈ“ ہو گیا۔ اس طرح ثمرالہند بگڑتے بگڑتے انگریزی زبان میں
”ٹامرنڈ“ بن گیا۔ اورینج (Orange) بھی عربی سے ماخوذ ہے۔ اور ”نارنج“ سے
بنا ہے۔ اصل لفظ ”نارنج“ تھا جو ”نارینج“ میں بدلا اور بعد میں ”اورینج“
میں تبدیل ہو گیا اور یہی انگریزی میں مستعمل ہے۔
سیرپ (Syrup) عربی لفظ ”شراب“ سے بنا ہے۔ اسی طرح لیمن (Lemon) سوگر
(Sugar) بازار، کارواں، میاٹرس (Matress)، صوفہ، چیک (Cheque)، ٹیرف
(Tariff)، میگزین (Magazine)، رسک (Risk)، المامیٹر (Almameter) اور کئی
دوسرے الفاظ عربی زبان کے زیر اثر وجود میں آئے ہیں اور انگریزی، ہسپانوی،
اطالوی اور دوسری یورپی زبانوں میں مستعمل ہیں۔ بہت سے مسلمان عرب علما کے
نام بھی انگریزی زبان میں اس طرح گڈمڈ ہو گئے ہیں کہ وہ خالص انگریزی نام
معلوم ہوتے ہیں جیسے ابن رشد (مشہور فلسفی) انگریزی میں اوِروس (Averoes)
کے نام سے مشہور ہیں۔ ابن سینا مشہور فلسفی و سائنس داں اوِسنّا (Avicinna)
اور عظیم طبیب ابن زہر (Avenzoa) کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔ |