فنِ تشہیر

بچپن کی سرحدوں کو پھلانگنے والے نوجوان گدھے نے اپنی بات سے اپنے بوڑھے باپ کو چونکا دیا۔
”کیا کہا تم نے، کیا ہوسکتا ہے؟“ بوڑھے گدھے نے پوچھا۔
”بابا اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ میں یہ کام کرسکتا ہوں۔“
”مگر یہ تو بتاﺅ کہ تم کون سا کام کرسکتے ہو بیٹے؟“بوڑھے گدھے نے پوچھا۔
”اب میں.... شیر کی کھال پہن سکتا ہوں۔ کوئی پہچان بھی نہ سکے گا۔ اس طرح ہم ان سب کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ہمیں ماضی کے تجربات سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔“
”تمہیں اس گدھے کا حشر یاد نہیں جس نے شیر کی کھال پہن کر شیر بننے کی کوشش کی تھی۔“ بوڑھے گدھے نے کہا۔
”وہ احمق تھا۔“ نوجوان گدھے نے جوش میں کہا: ”اِدھر اس نے ہینگنا شروع کیا، اُدھر لوگوں کو اس کی اصلیت کا پتہ چل گیا۔“
نوجوان گدھے نے شیر کی کھال میں اپنے آپ کو چُھپالیا۔ اب وہ شیر ہی نظر آرہا تھا۔ کھال اوڑھ کر جوان گدھا بڑی شان سے اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا۔
بوڑھے گدھے نے کہا: اچھی کھال ہے.... اب ذرا شیر کی طرح دھاڑ کر دکھاﺅ۔“
نوجوان گدھے نے اپنا منہ کھولا مگر اس کے منہ سے جو آواز نکلی، وہ ہینگنے کی نہ تھی بلکہ کسی طاقتور اور جوان شیر کے دھاڑنے کی آواز تھی۔ بوڑھا گدھا اتنا حیران ہوا کہ وہ زمین پر گر گیا اور تقریباً آدھا منٹ آنکھیں جھپکتا رہا۔
”واقعی تم تو دھاڑ رہے تھے۔“
”ہاں! تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ اصل چیز تشہیر ہوتی ہے۔ وہ چیز نہیں جس کی تشہیر کی جاتی ہے۔ میری دھاڑ اصلی ہے۔ اندر سے میں گدھا ہوں تو کسی کو کیا خبر ۔“
بوڑھے گدھے کی زبان کی نوک پر ایک بات آتے آتے رہ گئی ”تھوتھا چنا باجے گھنا۔“ مگر اس نے چپ رہنے ہی میں بہتری سمجھی اور پوچھنے لگا۔
”مگر میں حیران ہوں کہ تم نے سچ مچ شیر کی طرح دھاڑنا کس طرح سیکھ لیا۔“
”نیا زمانہ....نئے اطوار....“ نوجوان گدھے نے اتراتے ہوئے کہا۔ ”میں ایک مدت سے شیروں کا مشاہدہ اور مطالعہ کر رہا ہوں۔ اب تو کوئی شیر بھی میرے مقابلے میں دھاڑ کر نہیں دکھا سکتا۔“
”غرور کا سرنیچا“ بوڑھے گدھے کے دل میں یہ الفاظ گونجے اور اس بار ہمت کر کے وہ ان الفاظ کو زبان پر لے آیا۔
”بندر کیا جانے ادرک کا مزہ“ نوجوان گدھے نے اپنے بوڑھے باپ پر طنز کرتے ہوئے کہا۔
”میٹھی گھاس بھی بوڑھوں کے ٹوٹے ہوئے دانتوں کے نیچے جاکر کڑوی ہوجاتی ہے۔“
”گھاس کے ذائقے کا پتہ کھانے سے چلتا ہے۔“ بوڑھے گدھے نے کہا ”اب تم باتیں کم اور کام زیادہ دکھاﺅ۔“
شیر کی کھال میں مگن اور اِتراتا ہوا نوجوان گدھا قریبی گاﺅں کی طرف چل پڑا۔ گاﺅں کے باہر اسے ایک کُتا دکھائی دیا۔ گدھے کو توقع تھی کہ کُتا اسے شیر سمجھ کر بھاگ جائے گا مگر کُتا بڑی بے نیازی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا رہا۔
”تم بھاگے کیوں نہیں۔“ گدھے نے پوچھا۔
”میں بھلا کیوں بھاگتا؟“ کُتے نے بڑی بے نیازی سے پوچھا ”اگر تم دھاڑتے ہوئے یہاں آتے تو پھر میں یقیناً بھاگ اُٹھتا۔ پھر یہ کہ مجھے بھلا کیا علم کہ تم شیر کی کھال میں گدھے نہیں ہو۔ ایک بار تو ایسا ہوچکا ہے نا۔ وہ گدھا جس نے شیر کی کھال اوڑھ رکھی تھی یاد آیا....“
”یاد آیا....“ گدھے نے کہا ”مگر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ میں کون ہوں۔“
یہ کہہ کر اس نے منہ کھولا اور دھاڑنے لگا۔
”واقعی.... تم تو شیر ہو۔“ یہ کہہ کر کُتا دُم دباکر بھاگا۔
دو فرلانگ تک کُتا بھاگتا چلا گیا۔ جب وہ تھگ گیا تو ایک جگہ رُک کر سستانے لگا پھر اپنے پنجے سے جسم کو کھجایا اور اپنے آپ سے کہنے لگا ”دھاڑا تو وہ شیر کی طرح تھا مگر وہ شیر نہیں تھا۔ گدھا تھا، جو شیر کی کھال پہنے لوگوں کو بے وقوف بنارہا ہے۔ میں ابھی جاکر اپنے آقا کو خبردار کرتا ہوں۔“
کُتا تیزی سے بھاگتا ہوا اپنے مالک کے پاس پہنچا۔
”آقا! ایک احمق گدھا شیر کی کھال اوڑھے پھررہا ہے۔ اپنی چھڑی اُٹھائیے اور اس کی مرمت کردیجیے۔“
”یہ تو میں کروں گا ہی۔“ کُتے کے مالک نے کہا ”میں اس ناہنجار کو خوب پیٹوں گا جو اتنی اوچھی اور باسی حرکت کے ساتھ لوگوں کو دھوکا دے رہا ہے۔“
”آقا! مجھے آپ سے یہی امید تھی“ کُتے نے خوش ہوکر کہا۔
کُتا اور اس کا مالک تھوڑی دُور ہی گئے ہوں گے جب انہوں گدھے کو دیکھا جو شیر کی کھال میں تھا اور غرارہا تھا۔
کُتے کے مالک نے کہا: ”گدھے کے بچے! ابھی جب تم میری چھڑی کی ضرب سہو گے تو اپنی اصلیت جان جاﺅگے۔“
”میں اسے اپنے دانتوں سے نوچ لُوں گا۔“ کُتے نے کہا۔
مرد چھڑی لیے آگے بڑھا۔ اس نے گدھے کو مارنے کے لیے چھڑی اوپر اُٹھائی۔ گدھے نے منہ کھولا اور دھاڑنے لگا۔ شیر کی دھاڑ! اور آگے بڑھ کر مرد کے بازو پر بھی دانت دے مارے۔ مرد خوف سے چیخا۔ چھڑی اس کے ہاتھ سے گری اور وہ سرپر پاﺅں رکھ کر بھاگنے لگا۔ وہ ایک میل تک بھاگتا چلا گیا۔ کُتا اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ جب وہ دم لینے کے لیے رُکا تو کُتے نے کہا۔
”آقا آپ کیوں بھاگ رہے تھے؟ وہ تو گدھا تھا....“
”بکواس نہ کرو، وہ شیر تھا۔ شیر کی طرح دھاڑ رہا تھا۔ اس نے میرے بازو پر کاٹا بھی ہے۔ خاموش رہو۔ تم نے تو مجھے مروا ہی دیا تھا۔“
”مگر میرے آقا۔ آپ مجھے بات کرنے کی اجازت تو دیں۔ میں چند لفظوں میں ثابت کرسکتا ہوں کہ وہ شیر نہیں۔ گدھا تھا۔“
”لفظ نہیں۔ دنیا میں عمل پر نظر رکھی جاتی ہے۔“ یہ کہہ کر کُتے کے مالک نے کُتے کو پیٹنا شروع کردیا۔
ایک آسٹریلوی کہانی
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 174790 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More