قرآن کریم : پارہ18 ( قَدْ اَفْلَحَ) خلاصہ

قَدْ اَفْلَح‘قرآن کریم کا اٹھارواں (18) پارہ ہے ۔ قَدْ اَفْلَحکا مطلب ہے ’’یقینا فلاح پاگئے ‘‘ ۔ یہ پارہ تین سورتوں سُوْرَۃُ الْمُوْمِنُوْن اور سُوْرَۃُ النُّوْر، سُوْرَۃُ الْفُرْقَان پر مشتمل ہے ۔ اس پارہ میں سُوْرَۃُ الْفُرْقَان کی صرف 20آیات ہیں ، باقی 57آیات اگلے پارہ میں شامل ہیں ۔

سُوْرَۃُ الْمُوْمِنُوْن

سُوْرَۃُ الْمُوْمِنُوْن مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے تئیسویں (23)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار 74ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 6رکو اور118آیات ہیں ۔ اس سورۃَ میں اللہ نے مومنون کی صفات بیان کی ہیں ، اس مناسبت سے اس کانام سُوْرَۃُ الْمُوْمِنُوْنہے ۔

مومن کی صفات یا وہ جو جنت کا استحقاق رکھتے ہیں کی سات صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا اللہ پاک نے سورۃ المومنون کی اولین آیت میں فرمایا ’’یقینا فلاح پاگئے وہ مومن جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں ، اور وہ جو بے ہودہ باتوں سے منہ موڑے رہتے ہیں ، اور وہ جو زکوٰۃ کے طریقہ پر عمل پیرا ہیں ، اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ، سوائے اپنی بیویوں کے ، اگلی آیت 6 میں کہا گیا ’بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقینا یہ ملامتیوں میں سے نہیں ، پھر یہ بھی کہا کہ جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں حد سے تجاوز کرجانے والے ہیں ‘‘ ۔ (یہاں اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ فی زمانہ لونڈی کا تصور ختم ہوچکا، اس لیے اب جائز اور شرعی طریقہ نکاح کے بعد بننے والی بیوی سے ہی جنسی خواہش پوری ہوسکتی ہے ۔ کسی دوسرے طریقے کی یہاں گنجائش نہیں ) ۔ اس کے بعد مومن کی صفات کے حوالے سے آیت 8 میں ارشادہوا کہ ’’اور فلاح پاگئے وہ جو اپنی امانتوں کا اور اپنے عہد و پیماں کا پاس رکھتے ہیں ‘‘ ۔ ان ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومن کی صفات بیان کی ہیں ان میں اولین صفت نماز کی ادائیگی وہ بھی خشوع کے ساتھ، جو لوگ فضول اور بے ہودہ باتیں کرتے ہیں انہیں منع کیا گیا اور ایسے لوگ مومن ہیں ، زکوٰۃ کی ادائیگی وہ بھی کامل طریقے سے ادا کرنے والے مومن ہیں ، یعنی حقو ق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی لازمی قرار دیا گیا، غلط کاموں سے اپنے آپ کو بچائے رکھتے ہیں ، امانت دارہونا بھی مومن کی ایک خصوصیت بیان کی، نماز وں کی حفاظت سے مرادنماز وقت پر ادا کریں ۔

مومن کی صفات کے بیان کے بعد تخلیق انسان کے مراحل بیان کیے گئے ۔ انسان کی پیدائش یعنی شکم مادر کے تمام مراحل تفصیل سے اورکھلے الفاظ میں بیان کیے،یہ تفصیل اس سے پہلے بھی مختلف سورتوں میں بیان ہوچکی ہے ۔ قیامت کا ذکر ہواہے ، کہا گیا آیت 16 میں کہ ’’ہم نے تمہا رے اوپر سات آسمان بنائے اور ہم مخلوق سے غافل نہیں ہیں ، ہم ایک صحیح انداز سے آسمان سے پانی برساتے ہیں ، پھر اسے زمین میں ٹہرادیتے ہیں اور ہم اس کے لے جانے پر یقینا قادر ہیں ، اگلی آیت 19 میں اسی پانی کے حوالے سے کہا پرور دگار نے ’’اسی پانی کے ذریعہ سے ہم تمہارے لیے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا رکردیتے ہیں ، کہ تمہارے لیے ان میں بہت سے میوے ہوتے ہیں انہیں میں سے تم کھاتے ہو‘‘ ۔ آیت 20 میں کس قدر اہم بات کہی گئی ، جو ہمارے گمان میں بھی نہ ہو کہ اللہ قرآن میں تیل وہ بھی سالن بنانے کے لیے کا ذکر کرسکتا ہے، لیکن اللہ کی یہ بات کس قدر حق اور سچ ہے کہ ’’وہ مخلوق سے غافل نہیں ‘‘ ۔ کہا گیا ’’اور وہ درخت جو طور سینا پہاڑ سے نکلتا ہے جو تیل نکالتا ہے اور کھانے والے کے لیے سالن ہے‘‘ ۔ اس ضمن میں آیت21 میں جانوروں کا ذکر ہے جو انسان کے لیے سواری کے کام آتا ہے، اس کا دودھ انسان استعمال کرتا ہے بطور غذا، اور اس کا گوشت بھی انسان کی روز مرہ کی خوراک میں شامل ہے ۔ اللہ اکبر، بے شک اللہ بڑا ہے ۔

مومنوں کی صفات ، اللہ کی قدرت اور وحدانیت کے بیان کے بعد مختلف انبیاء کے قصص بیان ہوئے ہیں ۔ یہ قصص آیت 23سے 50کے درمیان میں ہیں ۔ حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ ، ان کی دعوت ، قوم کا ان کے ساتھ سلوک، کشتی کا بنانا، طوفان نوح سے نافرمان قوم کا غرق ہونا، نوح علیہ السلام اور کشتی میں سوار لوگوں کا زندہ بچ جانا، اور ان سے بعد کی مخلوقِ انسانی کا سلسلہ شروع ہوجانے کا بیان ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ہے، حضرت صالح، حضرت ہارون اور حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کے بارے میں تفصلات اس سورہَ کا حصہ ہے انبیاء کے قصوں کے مطالعہ سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ زمین پر اپنی قوم پیدا کرنا چاہتا تھا ، اسے نیک ہدایت دینے، سیدھا راستہ دکھانے کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ وہ انہی میں سے رسول بھیجتا رہا ۔ سب کا مقصد ایک تھا انسان کی بھلائی، برائیوں سے دوری ۔ اس بات کو مولانا محمد اسلم شیخوپوری نے ’خلاصتہ القرآن ‘ میں خوبصورت انداز سے اس طرح بیان کیا ہے کہ’ تمام ابنیاء ایک دعوت ، ایک ہی پروگرام اور ایک ہی مقصد تھا، یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب کے سب ایک ہی زمانے اور ایک ہی ملک میں مبعوث ہوئے تھے لیکن ان انبیاء کے جانے کے بعد ان کے امتی مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوگئے ،ہر گروہ اپنی کھال میں مست اور خیالات پر خوش تھا،کیسے کہا جائے کہ آج مسلمان بھی اسی صور حال سے دو چار ہیں ، قرآن بھی ایک، نبی بھی ایک ، قبلہ بھی ایک لیکن ،مسلمان ایک نہیں ، بھانت بھانت کی بولیاں ، تکفیر و تفسیق کے فتوے، باہم جدل و نزاع، ان اختلافات کے حل کی ایک ہی صورت ہے ، وہ یہ کہ ہر فرقہ کتاب و سنت کے کے سامنے گردنِ تسلیم خم کرے‘ ۔

اللہ کے نیک بندوں کی چار صفات بیان کی گئیں ان میں وہ لوگ جو اللہ کا خوف رکھتے ہیں ، اللہ پر کامل ایمان ہوتا ہے، شرک اور ریاکاری نہیں کرتے ، ایسے لوگ اپنے دل ہی دل میں خوف کھاتے، اس بات کا کہ انہیں لوٹ کر اللہ ہی کے پاس جانا ہے ۔ منکرین قرآن ، اللہ کے نبیﷺ کے ساتھ گستاخی کرتے، اس پر اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو تسلی دی کہ کل قیامت میں سب کا فیصلہ ہوجائے گا اور یہ منکرین سخت عذاب کا شکار ہوں گے، آپ تبلیغ کے عمل کو جاری رکھیں ۔ آپ ﷺ کی باتیں نہ ماننے والوں کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ ان کے نہ ماننے کی وجہ یہ نہیں کہ آپ کوئی نئی بات کر رہے ہیں ، بلکہ آپ و ہی کچھ پیغام لائے ہیں جو پچھلے انبیا ء کرام لے کر آئے تھے ، اصل وجہ اس کے برعکس یہ ہے کہ حق کی جو بات آپ انہیں پہنچا رہے ہیں وہ انکی خواہشات کے خلاف ہے، اس لیے اسے جھٹلانے کے مختلف بہانے بناتے ہیں ۔ اللہ نے مومنوں اور کافروں کا آخرت میں تفصیل سے حال بیان کیا گیا ہے، کافر موت کے وقت دوبارہ دنیا میں آنے کی تمنا کرتا ہے ۔ انسان کی تخلیق کا مقصد بیان ہوا ہے، فرمایا’ انسان کو ہم نے بیکار پیدا نہیں کیا بلکہ ایک ذمے دار مخلوق بنایا ہے، اسی وجہ سے آخرت میں اس سے باز پرس ہوگی، شیطان سے محفوظ رہنے کی دعا سکھائی ’’اے پروردگار ، میں شیطان کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، اور تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں ‘‘ ۔ آخری آیت میں اللہ تعالیٰ دعا مانگنے کے الفاظ سکھائے ’’اے میرے رب !مجھے معاف فرمادے اور مجھ پر رحم فرما اور تو سب رحم کرنے والوں میں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے‘‘ ۔

سُوْرَۃُ النُّوْر

سُوْرَۃُ النُّوْرمدنی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے چوبیسویں (24)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار سے 102نمبر پر ہے ۔ اس میں 9رکو اور64آیات ہیں ۔ مکمل سورۃتئیسویں پارہ میں ہے ۔ یہ سورۃ ’’غزوہ بنی المصطلق ‘‘کے بعد نازل ہوئی ۔ اس سورۃ میں نور کا لفظ آیا ہے اسی مناسبت سے یہ سورۃ النور کہلائی ۔

کلام پاک اللہ کی کتاب ہے ، اس کی تمام سورتیں اللہ کی نازل کردہ ہیں ، لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نےسُوْرَۃُ النُّوْر کا آغاز ہی اس کی اہمت سے کیا، فرمایا’’ یہ ایک اہم سورۃ ہے جسے نازل کیا ہے ہم نے اور اس کے احکامات کو فرض کیا ہے اور ہم نے نازل کیے ہم نے اس میں واضح احکاما ت ، تا کہ تم نصیحت حاصل کرو‘‘ ۔ اس سورۃ کی اہمیت کی ایک وجہ اللہ تعالیٰ کا از خود یہ فرمان ہے کہ’ ’یہ ایک اہم سورۃ ہے‘‘، دوسری وجہ یہ کہ اللہ نے ازخود اس سورۃ میں ’’واضح احکامات‘‘ کا ذکر کیا ہے ۔ اس میں ایسے آداب و فضائل اور احکامات و قواعد کا بیان کیا گیا ہے جو اجتماعی زندگی کی راہ کو منور اور روشن کرتے ہیں ۔ پہلی آیت کے فوری بعد دوسری آیت بالکل مختلف موضوع لیے ہوئے ہے یعنی بد کاری کی سزاسے متعلق ہے ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے آیت2 میں ’’ زانیہ عورت اور زانی مرد، ان دونوں میں سے ہر ایک کو تم سو کوڑے مارو، اور اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین پر عمل کرنے کے معاملے میں تمہیں ان دونوں زانی اور زانیہ پر قطعاً ترس نہیں آنا چاہیے ‘‘ ۔ بعد کی آیت میں بدکارمرد اور بد کار عورت کے نکاح کے حوالے سے بات کی گئی جس کا مفہوم مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ عام طور پر بدکار قسم کے لوگ نکاح کے لیے اپنے ہی جیسے لوگوں کی طرف رجوع کرتے ہیں ، چنانچہ زانیوں کی اکثریت زانیوں کے ساتھ ہی نکاح کانا پسند کرتی ہے ۔ اس کا مقصدد اہل ایمان کو متنبہ کرنا ہے کہ جس طرح زنا ایک نہایت قبیح اور بڑا گناہ ہے اسی طرح زنا کاروں کے ساتھ شادی بیاہ کے تعلقات قائم کرنا بھی منع اور حرام ہے ۔ اس کے بعد پاک دامن عورتوں پر بہتان تراشی یعنی قذف کی سزاتجویز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آیت 4 میں فرمایا ’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ، پھر وہ چار گواہ نہیں لاتے تو تم انہیں اَسی کوڑے مارو، ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرواور یہی لوگ نافرمان ہیں ‘‘ ۔ پھرفرمایا جن لوگوں نے توبہ اور اصلاح کر لی،تو ا للہ بڑا غفور الرحیٰم ہے ۔ پھر آیت 6تا 8 ’ لعان ‘یعنی کسی بھی مرد کا اپنی بیوی پر بدکاری کی تہمت لگانے کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے’’لوگ اپنی بیویو پر تہمت لگائیں اور ان کے پاس اپنے سوا گواہ نہ ہوں ، تو ان میں سے ایک کی شہادت اس طرح ہوگی کہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ بے شک وہ سچوں میں سے ہے، اور پانچویں بار یہ کہے، اگر وہ جھوٹوں میں ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، اگلی آیت میں عورت اپنی صفائی کس طرح کرے اس کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے’اورعورت سے سزا کو (یہ شہ) ٹالتی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ بلاشبہ وہ (اس کا خاوند) جھوٹوں میں سے ہے ، پانچویں بار یہ کہے کہ اگر وہ (اس کا خاوند) سچو ں میں سے ہے تو اس (عورت) پر اللہ کا غضب ہو‘‘ ۔ مفسرین نے لکھا کہ اس کے بعد دونوں میاں بیوی میں صلاح ہوسکتی ہے اگر وہ چاہیں تو ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سوۃ 11 میں ’واقعہَ افک‘بیان کیا ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے دامن عفت و عزت کو داغ دار کرنا چاہا تھالیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی براَت نازل فرماکر ان کی پاک دامنی اور عفت کو واضح تر کردیا ۔ یہ واقعہ کچھ اس طرح بیان ہوا ہے کہ حجاب کے حکم کے بعد غزوہَ مصطلق (مریسیع) سے واپسی پر نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مدینہ کے قریب ایک جگہ قیام فرمایا، صبح کو جب وہاں سے روانہ ہوئے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجب کے لیے باہر گئی ہوئی تھیں اور وہاں پر انہیں اپنے ہار کی تلاش میں ، جو وہیں گرگیا تھا ، دیر ہوگئی جب واپس آئیں تو دیکھا کہ قافلہ چلاگیا، تو یہ سوچ کر وہیں لیٹ رہیں کہ جب ان کو میری غیر موجودگی کا علم ہوگا تو تلاش کے لیے واپس آئیں گے ۔ تھوڑی دیر کے بعد صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ آگئے، جن کی ذمہ داری یہی تھی کہ قافلے کی رہ جانے والی چیزیں سنبھال لیں ، انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حجاب کے حکم سے پہلے دیکھاہوا تھا ۔ انہیں دیکھتے ہی سمجھ گئے یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی ہیں ، قافلہ غلطی سے یا لاعلمی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہیں چھوڑ کر آگے چلا گیا ہے، چنانچہ انہوں نے انہیں اپنے اونٹ پر بٹھا یا اور خود نکیل تھامے پیدل چلتے قافلے کو جا ملے ۔ منافیقین نے جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہار کو اس طرح بعد میں اکیلے حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کے ساتھ آتے دیکھا تو اس موقع کو بہت غنیمت جانا اور منافقین کے سردار عبدا للہ بن ابی نے کہا یہ تنہا ئی اور علیحدگی بے سبب نہیں اور یوں انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہارکو حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کے ساتھ مطعون کردیا، حالانکہ ان باتوں سے وہ بالکل لاعلم تھے ، کچھ مسلمان بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے ۔ نبی ﷺ ایک ماہ تک جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے براَت نازل نہیں ہوئی سخت پریشان رہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اپنی جگہ بے قرار و مضطرب رہیں ۔ اللہ نے اس واقع کو اختصار و جامعیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ اور کہا اہل ایمان سے کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاپر اتہام طرازی کی گئی تو تم نے اپنے پر قیاس کرتے ہوئے فوراً اس کی تردید کیوں نہ کی اور اسے بہتان صریح کیوں قرار نہیں دیا ۔ ایک بات اللہ نے یاں یہ بھی کہا کہ ’اس بہتان پر انہوں نے ایک گواہ بھی پیش نہیں کیا ‘، پھر فرمایا آیت17 میں اللہ نے

’’ تمہیں نصیحت کرتا ہے اگر تم مومن ہوتو دوبارہ کبھی اس جیسی بات نہ کرنا‘‘ ۔ آیت 23 میں اللہ نے فرمایا ’’بلاشبہ جولوگ پاک دامن ، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ، ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی، اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے‘‘ ۔ کسی کے گھر میں داخل ہونے کے آداب سکھا گئے ہیں ، کہا گیا کہ بغیر اجازت کسی کے گھر میں دخل ناہو ، اجازت سے پہلے سلام کرنے کا حکم ہے ۔ نظریں نیچے رکھنے کے لیے کہا گیا آیت 30 میں فرمایا گیا ’’اے نبی ! آپ مومن مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لے بہت پاکیزہ عمل ہے جو کچھ و ہ کرتے ہیں ، بلاشبہ اللہ اس سے خوب باخبر ہے‘‘ ۔ اسی طرح اگلی آیت میں مومن عورتوں کے لیے بھی اسی طرح کا حکم ہے ۔ خواتین کے لیے بعض اضافی باتیں بیان کی گئیں ہیں جیسے اوڑھنیا اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں ، اور اپنا بناوَ سنگار ظاہر نہ کریں ، مگر اپنے خاوند وں پر ، اپنے باپ دادا، یا خاندوں کے باپ دادا، اپنے بیٹوں ، شوہروں کے بیٹوں یعنی سوتیلے بیٹوں ، اپنے بھائیوں ، بھتیجوں ، بھانجوں یا اپنی مسلمان عورتوں پر ۔

احکامات و آداب کے بیان کے بعد عقیدہ و ایمان اور نورِ حق کا بیان ہے ۔ آیت 35 میں کہا گیا اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ۔ کفر کرنے والوں سے جلد پورا پورا حساب لینے کی بات ہوئی ہے، اہل حق اور اہل باطل کی مثالیں بیان کی گئیں ہیں ، توحید کے بیان کے بعد منافقین اور مومنین کے دو گروہوں کا تقابلی تذکرہ ہے ، منافق جھوٹے دعوے کرتے ہیں ، جب عمل کی نوبت آتی ہے تو وہ اعراض کرتے ہیں اس کے مقابلے میں مومن ہر حال میں اطاعت پر آمادہ رہتے ہیں ، یہ باتیں آیت 55-47 میں کی گئیں ہیں ۔ گھر میں داخل ہونے پر اجازت کے ساتھ ہی آیت 59 میں فرمایا اللہ کریم نے ’’اور جب لڑکے اور لڑکیاں بلاظت کی حد کوپہنچ جائیں تو انہیں چاہیے کہ وہ بھی اسی طرح اجازت مانگیں جس طرح ان سے پہلے ان کے بڑے اجازت مانگتے رہے ہیں ، اللہ اسی طرح تمہارے لیے اپنی بات بیان کرتا ہے ، بڑا جاننے والا ، خوب حکمت والا ہے‘‘ ۔ آیت 61 میں کہا گیا ’’جب تم گھروں میں داخل ہوتو اپنے لوگوں پر سلام کہو، یہ اللہ کی طرف سے بابرکت اورپاکیزہ تحفہ ہے ، اسی طرح اللہ تمہارے لیے آیات بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھو‘‘ ۔ اس کی تفسیر احسان البیان میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اپنے گھر میں داخل ہونے کا ادب بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ داخل ہوتے وقت اہل خانہ کو سلام عرض کرو، آدمی کو اپنی بیوی یا بچوں کو سلام کرنا بالعموم گراں گزرتا ہے لیکن اہل ایمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے مطا بق ایسا کریں ،آخر اپنے بیوی بچوں کو سلامتی کی دعا سے کیوں محروم رکھا جائے ۔ مجلس کے آداب کے حوالے سے حکم دیا گیا کہ کہ جب تم کسی اجتماعی مشورہ وغیرہ کے سلسلہ میں مجلس میں بیٹھے ہوتو اجازت کے بغیر مجلس سے نہ اٹھا کرو ۔ اللہ کے رسول ﷺ کو ایسے نہ پکارو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو ، آخری آیت 64 میں کہا گیا کہ’’خبر دار ! بلاشبہ اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے یقینا وہ اس روش کو جانتا ہے جس دن وہ اس کی طرف لوٹائے جائیں گے تو وہ انہیں خبردے گا جو انہوں نے عمل کیے ، اور اللہ ہر شہ کو خوب جانتا ہے‘‘ ۔

سُوْرَۃُ الْفُرْقَان

سُوْرَۃُ الْفُرْقَان مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے پچیسویں (25)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار 42ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 6رکو اور77آیات ہیں ۔ سُوْرَۃُ الْفُرْقَان مکمل میں اس سورہَ کی 20 آیات ہیں ، باقی اگلے پارہ میں شامل ہیں ۔

فرقان کے معنی ہیں ’حق و باطل، توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان فرق کرنے ولا‘ ۔ قرآن کی ایک ایک سورہ ایک ایک آیت سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حق و باطل، توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان فرق واضح ثبوت ہے ۔ پہلی آیت میں اللہ نے قرآن پاک کے نزول اور جن پر قرآن نازل کیا گیا کا تذکرہ فرمایا اللہ پاک نے’’وہ ذات بڑی ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر( فرقان ) قرآن نازل کیا، تاکہ وہ جہان والو کے لیے ڈرانے والا بنے، وہی ذات ہے جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اس نے اپنے لیے کوئی اولاد نہیں بنائی اور نہ بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے اور اس نے ہر چیز کو پید کیا ، پھر اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کیا‘‘ ۔ اس آیت سے واضح ہے کہ نبی ﷺ کی بنوت عالم گیر ہے اور آپ تمام انسانوں اور جنوں کے لیے ہادی و رہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔ قیامت کو جھٹلانا تکذیب رسالت کا باعث ہے جہنم ان کافروں کو دور سے میدان حشر میں دیکھ کر ہی غصے سے کھول اٹھے گی اور ان کو اپنے دامنِ غضب میں لینے کے لیے چلائے گی اور جھنجلائے گی ۔ اس کے بعد توحید کا بیان ہے یہاں چار صفات بیان کی گئیں ہیں ۔ پہلی صفت یعنی کائینات میں متصرف صرف وہی ہے کوئی اور نہیں ،ہر چیز کا خالق صرف وہی ہے ، شرک کی مذت کی گئی ہے، کفار اعتراض کیا کرتے تھے نبی ﷺ چلتے پھر تے اور کھاتے پیتے ہیں تو یہ رسول کیسے ہو سکتے ہیں ، ان کے پاس مال و دولت ، باغات ہونے چاہیں اور ان کے ساتھ فرشتے اترتے جو ان کی رسالت کی تصدیق کرتے ۔ اللہ تعایٰ نے وضاحت فرمائی سورہ فرقان کی آیت 20 میں ،فرمایا ’’اے نبی ﷺ آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے ، بلاشبہ وہ کھانا کھاتے تھے اور بارزروں میں چلتے تھے اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لیے آزمائش بنایا ، کیا تم صبر کرتے ہو ;238; اور آپ کا رب سب کچھ خوب دیکھ رہا ہے ‘‘ ۔ سورہ فرقان میں صرف 20آیات ہیں باقی 57آیات کا خلاصہ اگلے پارے یعنی پارہ 19 میں بیان ہوگا ۔

(18 رمضان المبارک 1440ھ ،24 مئی2019ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437677 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More