خدارا! صبر کریں (قسط 1)

اب درمیانہ راستہ ان لوگوں کا ہے جو پارٹیوں سے زیادہ ملک پاکستان کو اہمیت دیتے ہیں ان کے خیال میں حکومت چاہے کسی کی بھی ہو مہنگائی کنٹرول میں ہونی چاہیے،مریض آج مر رہا ہے اس کو دوائی کی ضرورت آج ہے تو سال کے بعد وہ دوائی کا کیا کرے گا؟میرے حالات آج خراب ہیں اور میرے گھر میں کھانے کو آج کچھ نہیں ہے تو میں سال صبر کر کے کیا کروں گا؟ اس لیے ان چیزوں پر زیادہ کنٹرول ہونا چاہیے تیسرے طبقے کے نزدیک غریب کو صبر کا درس دینے سے بہتر ہے خان صاحب اپنی تقریر کے الفاظ کو ہی دوہرا لیا کریں،اور یہی تیسرا طبقہ جو غیر جانبدار ہے یا سیاست سے کم دلچسپی رکھتا ہے وہ کچھ شرائط پر اس وقت تک صبر کرنے کے لیے بھی تیار ہے جب تک ملک پاکستان کی معیشت کے حالات بہتر نہیں ہو جاتے،اگر ہمارے ساتھ حکومت بھی صبر کر لیتی ہے تو انشاء اللہ ہم بھی صبر کریں گئے

آج کل آپ کو چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے،بازاروں،پارکوں میں اور مساجد کے باہر یہ الفاظ اکثر سننے کو ملتے ہوں گئے کہ ”بس تھوڑا صبر کرو،ٹھیک ہونے میں کچھ وقت لگے گا“ شروع میں تو لوگ اس جملے کو سنتے اور قرآن کریم کی یہ آیت یاد آجاتی ”بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“ پھر مطمئن ہو کر اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ذہن میں ایک امید کی کرن جگمگاتی کہ واقعی کوئی خدا ترس حکمران آگیا ہے جو کہ عوام کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھتا ہے کیونکہ عمران خان کا وزیر اعظم بننے کے بعد عوام سے جو پہلا خطاب تھا وہ اتنا متاثر کن تھا کہ پاکستانیوں کی اکثریت نے عمران خان کو پاکستانی قوم کا مسیحا سمجھنا شروع کر دیا اور خان صاحب کے شدید مخالفین بھی اس خطاب اور اس جذبے کی دا ددیے بغیر نہ رہ سکے،یہاں پر میں عمران خان کے خطاب کی کچھ لائنیں نقل کرتا ہوں تا کہ جن لوگوں نے وہ تقریر نہیں سنی تھی ان کو بھی علم ہو جائے کہ خان صاحب ہمارے متعلق کتنا درد دل رکھتے تھے،خان صاحب فرماتے تھے۔

”ہم نے اگر اپنے آپ کو تباہی سے روکنا ہے تو ہمیں اپنی سوچ بدلنی پڑے گی،ہمیں اپنے طریقے بدلنے پڑیں گے،ہمیں اپنا رہن سہن بدلنا پڑے گا اور اس قوم کے لیے جو سب سے زیادہ ضروری چیز ہے وہ یہ کہ ہمیں اپنے دل میں رحم پیدا کرنا پڑے گا کیونکہ ہماری آدھی آبادی صحیح طرح دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتی کیونکہ پاکستان کے45فیصد بچوں کو ہم صحیح طرح سے کھانا بھی نہیں دے پا رہے“

قارئین کرام! جو حکمران ایسی باتیں اپنے پہلے خطاب میں کرے تو اس کے بارے میں بندہ یہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ عوام کا مسیحا ہو سکتا ہے اس کو عوام کے چھوٹے چھوٹے مسائل کا بخوبی علم ہے،میں تحریک انصاف کے کارکنوں کے رویے کی وجہ سے کبھی اس جماعت کا حامی نہیں رہا ہوں لیکن میں بھی عمران خان کے اس خطاب سے بہت متاثر ہوا اور اکثر دوستوں کی محفل میں یہی کہتا رہا کہ ”یہ بندہ کچھ کرے گا پاکستان کے لیے“ اسی خطاب میں خان صاحب نے اور بھی متاثر کن باتیں کیں،مغربی ممالک کی مثال دیتے ہوئے خان صاحب نے فرمایا
”ناروے،سویڈن اور ڈنمارک جیسے ممالک جنہیں مہذب معاشرہ کہا جاتا ہے،وہاں پروگریسیو ٹیکسیشن موجود ہے اور پیسے والے ٹیکس دیتے ہیں جن کے پیسے سے نچلے طبقے کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے،غریبوں کی بنیادی تعلیم سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک،اعلیٰ علاج اور بے روزگاری کی صورت میں پیسے دیے جاتے ہیں،اگر کوئی عدالت میں جائے تو حکومت اسے وکیل کر کے دیتی ہے،یہ ساری چیزیں آج مغرب میں موجود ہیں اور یہی چیزیں اس وقت نبی کریمﷺ مدینہ کی ریاست میں لے کر آئے اور مدینہ کی ریاست میں ہی حضرت عمر ؓ کا اعلان تھا کہ اگر کوئی کتا بھی بھوکا مرے تو میں عمرؓ اس کا ذمہ دار ہوں یعنی صرف انسانوں کی نہیں بلکہ جانوروں کی بھی ذمہ داری عائد تھی“

یہ باتیں اس وقت خان صاحب نے عوام کے درد کو محسوس کرتے ہوئے کیں یا پھر جیت کی خوشی میں عوام کو بھی شامل کر کے خوش کر نے کی کوشش کی وہ الگ ایشو ہے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد خان صاحب کو یہ اندازہ ہو گیا کہ وہ جس کرسی کو پھولوں کی سیج سمجھ رہے تھے وہ کانٹوں کی سیج نکلی، پھر وزیر اعظم صاحب نے عوام کو صبر کا درس دینا شروع کر دیا،پہلے پٹرول مہنگا ہوا صبر کا درس دیا گیا،پھر ڈالر مہنگا ہوا پھر صبر کا درس دیا گیا اس کے بعد جب دوائیں مہنگی ہوئیں تو پھر بھی صبر کا درس دیا گیا، پھر دوبارہ پٹرول مہنگا ہوا تو تقریباََ ہر چیز مہنگی ہو گئی پھر صبر کا درس دیا گیا کچھ عرصہ تو عوام بھی صبر کرتی رہی لیکن پھر عوام نے بھی چوں چراں شروع کر دی کیونکہ اب عوام کا بجٹ خراب ہونا شروع ہو گیاتھا۔

قارئین کرام! صبر تو آپ سمیت ہر پاکستانی کر رہا ہے کیونکہ اس کے علاوہ ہم کر ہی کیا سکتے ہیں؟ خوشی سے صبر نہیں کریں گئے تو ڈنڈے کے زور پر تحریک انصاف کے کارکن کروا رہے ہیں لیکن صبر کرنے کے لیے پہلے سو دن بتائے گئے، پھر کہا گیا چھ ماہ صبر کریں جب چھ ماہ بھی گزر گئے تو اب کہا جا رہا ہے کہ کچھ عرصہ مزید صبر کریں،حکومتی جماعت تحریک انصاف کے کارکن تو ستر سال صبر کرنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ ان کے نزدیک غریب عوام کی پریشانیوں سے زیادہ خان کی حکومت کی اہمیت ہے کیونکہ وہ بائیس سالہ جد جہد کے ملی ہے،اور اسی تناظر میں وہ غریب عوام کو طعنے مارنے سے بھی باز نہیں آتے کہ پچھلی حکومتوں نے تمہارہ بیڑا غرق کیا ہے تو اس وقت کیوں نہیں بولتے تھے ان لوگوں کو ووٹ کیوں دیتے تھے (گویا یہ حکومت ملنے کے بعد عوام سے پچھلے بائیس سال کا بدلہ لے رہے ہیں) دوسری جانب مخالف پارٹیوں کے کارکن تو ایک گھنٹہ بھی صبر کرنے کے لیے تیارنہیں کیونکہ ان کے نزدیک بھی غریبوں کے مسائل سے زیادہ اس چیز کا دکھ ہے کہ عمران خان وزیر اعظم کیوں ہیں۔

اب درمیانہ راستہ ان لوگوں کا ہے جو پارٹیوں سے زیادہ ملک پاکستان کو اہمیت دیتے ہیں ان کے خیال میں حکومت چاہے کسی کی بھی ہو مہنگائی کنٹرول میں ہونی چاہیے،مریض آج مر رہا ہے اس کو دوائی کی ضرورت آج ہے تو سال کے بعد وہ دوائی کا کیا کرے گا؟میرے حالات آج خراب ہیں اور میرے گھر میں کھانے کو آج کچھ نہیں ہے تو میں سال صبر کر کے کیا کروں گا؟ اس لیے ان چیزوں پر زیادہ کنٹرول ہونا چاہیے تیسرے طبقے کے نزدیک غریب کو صبر کا درس دینے سے بہتر ہے خان صاحب اپنی تقریر کے الفاظ کو ہی دوہرا لیا کریں،اور یہی تیسرا طبقہ جو غیر جانبدار ہے یا سیاست سے کم دلچسپی رکھتا ہے وہ کچھ شرائط پر اس وقت تک صبر کرنے کے لیے بھی تیار ہے جب تک ملک پاکستان کی معیشت کے حالات بہتر نہیں ہو جاتے،اگر ہمارے ساتھ حکومت بھی صبر کر لیتی ہے تو انشاء اللہ ہم بھی صبر کریں گئے (جاری ہے)
 

Shahid Mehmood
About the Author: Shahid Mehmood Read More Articles by Shahid Mehmood: 23 Articles with 20996 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.