رزم حق و باطل

اسلام کا پہلا عظیم اور اہم معرکہ جس میں حق و باطل کا آمنا سامنا ہوا اور جس کے نتائج نے یہ واضح کر دیا کہ حق پر کون ہے باطل پر کون ہے، اس معرکہ میں ایمان و شجاعت کی ایسی زندہ دل مثالیں پیش کی گئی جنہیں تاریخی صفحات میں سنہری حروف سے مرقوم کیا جاتا ہے، یہ معرکہ معرکہء بدر ہے تاریخ میں اس کو بدر الکبری اور بدر العظمی کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے،اور جس کو قرآن میں یوم الفرقان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

قرآن میں غزوہ بدر کا ذکر:
• سوره انفال کی آیت نمبر 41 میں ہے کہ وَمَا اَنْزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَنِ " اور جسے ہم نے اتارا اپنے (محبوب ) بندہ پر فیصلہ کے دن جس روز آمنے سامنے ہوئے تھے دونوں لشکر۔"
• سورہ ال عمران کی آیت نمبر 123 میں اس طرح ذکر موجود ہے کہ وَلَقَدْ نَصَرَكُمْ اللهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلّةٌ "اور بے شک مدد کی تھی تمہاری اللہ نے میدان بدر میں حالانکہ تم بالکل کمزور تھے۔"
• سوره دخان کی آیت نمبر 16 میں ہے کہ یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى اِنَّا مُنْتَقِمُوْن "جس روز ہم انہیں اپنی پوری شدت سے پکڑیں گے ،(اس روز) ہم( ان سے) بدلہ لیں گے"

بدر میدان یا کنواں؟:
ضیاء القران جلد 1 صفحہ نمبر 272 زیر آیت 123 جز 135 ،136 میں درج ہے کہ مدینے سے بیس میل کے فاصلے پر ایل کنواں ہے جس کا نام بدر ہے ۔

بدر کا واقعہ کب پیش آیا:
ہجرت کا دوسرا سال رمضان المبارک کی 17 تاریخ ، اور جمعة المبارک کا دن

اس کا سبب؟؟
اس کا سبب عمر بن خضرمی کس قتل اور قافلہ قریش کا شام کی طرف سے آنا تھا، اور یہ وہی قافلہ تھا جس کے قصد سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم ذوالعشیرہ تک تشریف لے گئے تھے۔ امیر قافلہ ابو سفیان (جو فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے) تھے۔ ابو سفیان کو اس بات کی خبر مل گئی لحاظہ ضمضم بن عمرو کو بیس مثقال سونے کی اجرت پر مکہ روانہ کیا تاکہ قریش مکہ کو اس صورت حال سے آگاہ کرے۔۔ ضمضم مکہ پہنچا اور اپنے اونٹ کے کان اور ناک کو کاٹ کر کجاوہ الٹ دیا اور اپنی قمیض بھی پھاڑ دی۔۔ اور اسی تمام صورت حال سے آگاہ کیا، قریش نے اس اطلاع کو سنتے ہی تیاری کی اور بدر کی طرف روانہ ہوگئے ، تمام سرداران قریش نکل کھڑے ہوئے سوائے ابو لہب کے۔

مسلمانوں اور کفار کی تعداد:
• مسلمانوں کی تعداد صرف 313 تھی ستر اونٹ، دو گھوڑے تھے اور بعض روایت میں 1 گھوڑا اور 80اونٹ بتایا گیا ہے ۔۔
• ابتداء میں مکی لشکر کی تعداد تیرہ سو تھی جن کے پاس 100 گھوڑے اور چھ سو زرہیں تھیں اونٹ کثرت سے تھے۔۔

مسلمانوں اور کفار کی قیام گاہیں:
• امام بیھقی نے دلائل النبوة لکھا ہے کہ عدوةالدنيا کے راستے وادی بدر میں داخل ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پہلے کنویں پر قیام فرمایا پھر حضرت حباب بن منذر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا کہ کیا اللہ عزوجل نے ہمیں اس جگہ قیام کا فرمایا ہے، اور ہم اس سے آگے جاسکتے ہیں نہ اس سے پیچھے رہ سکتے ہیں یا یہ رائے ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ رائے ہے۔
حضرت حباب نے عرض کی: یا رسول اللہ پھر یہ جگہ قیام کے لیے نا مناسب ہے ہم آگے بڑھ کر وہاں تک پہنچ جائیں جہاں سارے پرانے کنویں ہمارے عقب میں ہوجائیں۔ پھر ہم سارے کنوؤں کو بند کردیں اور صرف ایک کنواں رہنے دیں اور وہاں ایک حوض بنادیں جس میں پانی بھر جائے اس طرح ہم دوران جنگ بھی پانی سے سیراب رہیں گے اور دشمن محروم۔
• کفار نے وادی کے دور کنارہ قدوة القصوی میں اپنے خیمے نصب کیے۔۔ لیکن سارے پرانے کنوئیں وادی کے ٹیلے کے نشیبی علاقہ میں تھے۔

اسلامی لشکر کی پوزیشن:
اسلامی لشکر کی تنظیم اس طرح کی گئی کہ ایک جیش مہاجرین کا بنایا گیا اور دوسرا انصار کا ، مہاجرین کا علم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو دیا گیا اور انصار کا علم حضرت سعد بن معاذ کو اور جنرل کمان کا پرچم جس کا رنگسفید تھا حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ کو دیا گیا، میمنہ کے افسر حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ مقرر کئےگئےاوت میسرہ کے افسر حضرت مقداد بن اسود کو بنایا گیا اور ساقہ کی کمان حضرت قیس بن ابی صعصعہ کو دی گئی اور سپہ سالار اعلی کی حیثیت سے جنرل کمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود سنبھالی۔

مرکز قیادت:
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ تجویز پیش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے ایک عریش تعمیر کریں جس میں اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف فرما ہوںگے۔۔ چنانچہ میدان جنگ کے شمال مشرق میں ایک اونچے ٹیلے پر چھپر بنایا گیا جہاں سے پورا میدان جنگ دکھائی دیتا تھا اور اس مرکز قیادت کی نگرانی کے لئے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کیبکمان میں انصاری نوجوانوں کا دستہ منتخب کیا گیا۔

عریش میں مانگی گئی دعائے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم:
اللھم انجزلی ما وعدتنی اللهم آت ما وعدتنى اللهم ان تهلك هذه العصابة من اهل الاسلام لا تعبد فى الارض
”اے اللہ اپنا وعدہ پورا فرما اگر مسلمانوں کا یہ مختصر گروہ ہلاک ہوگیا تو روئے زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی " محویت کا یہ عالم تھا کہ دوش مبارک سے چادر گر پڑی حضرت ابو بکر صدیق نے پیچھے سے اپنے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو گلے لگایا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! اللہ ضرور اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ ( تفسیر قرطبی زیر آیت جز 4 ص 173)(دلائل النبوة جلد نمبر 3 ، صفحہ 49 – 53)

آغاز جنگ:
• پہلی چنگاری: جنگ کی پہلی چنگاری اسود بن عبد الاسد المخزومی کے اس اعلان سے کہ جس میں اس نے کہا کہ میں نے اللہ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے حوض سے پانی پئے گا اور اسے منہدم کر دے گا یا جان دے دے گا۔ جب وہ تالاب کی طرف بڑھا تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آگے بڑھ کر اسکا کام تمام کر دیا۔
• عتبہ ،شیبہ اور ولید کا انجام: اسود کو یوں تڑپتا دیکھ کر عتبہ اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولید کے ہمراہ آگے بڑھا اور ھل من مبارز کا نعرہ لگایا تین انصاری نوجوان مقابلے کے لیے آئے تو عتبہ نے بڑی رعونت سے پوچھا : تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا:" رھط من الانصار" کہا : ہمارے ہم پایہ کو بھیجو۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے فرمایا : قم یا عبیدة قم يا حمزة قم يا على ۔

حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے شیبہ کو سنبھلنے کا کوئی موقع نہ دیا اور ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کر دیا

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ولید کو مہلت دیے بغیر اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔

حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ عتبہ کے ساتھ گھتم گتھا ہوئے، آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے وارسے عتبہ کو زخمی کر دیا تھا عتبہ نے اپکی ٹانگ پر تلوار سے وار کر کے اس کو الگ کر دیا تھا۔۔ حضرت علی اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنھما آپکی مدد کو لپکے اور ایک ہی وار میں عتبہ کا کام تمام کر دیا۔ زخمی حالت میں حضرت عبیدہ کو بارگاہ رسالت میں لایا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انکو مژدہ سنایا اشھد انک شھید " میں گواہی دیتا ہوں کہ تو شہید ہے" ( سیرت ابن کثیر جلد 2 صفحہ نمبر 413- 414 ، سبل الہدی جلد 4 ، صفحہ نمبر 58)

ابو جہل نے جب یہ صورت حال دیکھی تو اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں قریش مکہ حوصلہ نہ ہار دیں نعرہ بلند کیا: لنس العزی ولا عزی لکم " ہمارا مدد گار عزی ہے اور تمہارے پاس کوئی عزی نہیں جو تمہاری مدد کرے-
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسلام کے مجاہدین کو حکم دیا کہ اس کے جواب میں یہ نعرہ بلند کریں: اللہ مولانا ولا مولا لکم ۔ قتلانا فی الجنة وقتلا کم فی النار " اللہ تعالی ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ۔ ہمارے مقتول جنت میں ہیں اور تمہارے مقتول دوزخ کا ایندھن بنیں گے-(سبل الہدی جلد 4، صفحہ 59)

میدان بدر میں سب سے پہلے جام شہادت حضرت مہجع کو نصیب ہوئی جو حضرت عمر فاروق کے غلام تھے۔ اس کے بعد بنو عدی بن نجار کے قبیلہ کے حضرت حارثہ بن سراقہ کو تاج شہادت پہننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد دونوں لشکر گتھم گتھا ہوگئے ۔

• ابو جہل کی بد بختی: فریقین جب ایک دوسرے کے بالکل قریب آگئے تو ابو جہل کی بد بختی نے زور پکڑا اور اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا: اللهم اقطعنا للرحم و اتانا بما يعرف فاحن الغداة اللهم من كان احب اليك و ارضى عندك فانصره اليوم " اے اللہ جو ہم دونوں فریقوں سے زیادہ قطع رحمی کرنے والا ہے اور غیر معروف چیزیں لانے والا ہے اسکو ہلاک کر دے ، یا اللہ جو تیرا زیادہ محبوب ہے اور جو تیرا زیادہ محبوب ہے اور جو تیرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے آج اس کی مدد فرما " ( سبل الهدى جلد نمبر 4 صفحہ 71 )۔اور اسکی یہ دعا قبول ہوئی ۔۔ وہ اور اسکا لشکر ناکام اور نامراد ہوا۔

• امام احمد ، امام بخاری اور امام مسلم اور دیگر محدثین نے ابو جہل کی ہلاکت کا منظر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے یوں روایت کیا ہے : روز بدر جب مجاہدین کی صف میں کھڑا ہوا تھا تو میں نے اپنئ دائیں بائیں دو نو عمر انصاری نوجوان کھڑے دیکھے۔ میں نے خیال کیا کہ بجائے ان کے اگر میری دونوں طرف آزمودہ کار ، بہادر اور جنگ جو ہوتے تو بہتر ہوتا۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھس کہ آہستہ سے سن میں سے ایک نوجوان مجھ سے پوچھنے لگا : اے عم! ھل تعرف ابا جھل " کیا آپ ابو جہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے جواب دیا : بھتیجے میں اسے خوب جانتا ہوں تم کو کیا کام ہے ؟ اس نے کہا : مجھے پتہ چلا ہے وہ میرے آقا کے بارے میں بے ادبی کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ بخدا اگر میں اس کو دیکھ لوں تو میرا بدن اس کے بدن سے جدا نہ ہوگا جب تک ہم دونوں میں سے وہ نہ مر جائے جسے مرنے کی جلدی ہے ۔

اس نے ابھی بمشکل اپنی بات ختم کی تھی کہ دوسرے نوجوان نے میری چٹکی لی اور آہستہ سے مجھ سے سوال پوچھا اور وہی بات کہی جو پہلے نوجوان نے کہی تھی۔ اچانک میں نے دیکھا کہ ابو جہل لوگوں کے درمیان چکر لگا رہا ہے ۔۔ میں نے انہیں کہا : یہ ہے وہ شخص جس کے بارے میں تم پوچھ رہے تھے۔ وہ عقابوں کی طرح جھپٹے اور اس پر حملہ آور ہوئے اور اپنی تلواروں کے واروں سے اسے گھائل کر دیا۔ وہ بے حس و حرکت زمیں پر جاگرا ۔ یہ کارنامہ بجلی کی سرعت سے انجام دینے کے بعد دونوں اپنے آقا علیہ الصلوة والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! ہم نے ابو جہل کو ٹھکانے لگا دیا ہے۔ حضور نے پوچھا: تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟ دونوں نے کہا : میں نے اسے قتل لیا ہے۔ حضور نے دریافت کیا جن تلواروں سے تم نے اسے قتل کیا ہےانہیں کپڑے سے صاف تو نہیں کیا؟ عرض کی: نہیں ، وہ جوں کی توں ہیں۔ نبی اکرم چلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی تلواروں کو ملاحظہ فرمایا وہ دونوں خون سے رنگین تھیں اور فرمایا : کلا کما قتله ۔ تم دونوں نے اس کو قتل کیا ہے۔
ان دونوں مجاہدین کا نام معاذ و معوذ ہے۔

• غیبی امداد:
• باران رحمت :اللہ عزوجل نے جنگ سے پہلی والی رات بارش نازل فرمائی جو مشرکین پر موسلا دھار برسی اور انکی پیش قدمی میں رکاوٹ بن گئی لیکن مسلمانوں پر پھوار بن کر برسی اور انہیں پاک کر دیا اور زمین کو ہموار کر دیا،اس وجہ سے ریت میں سختی آگئی اور قدم ٹکنے کے لائق ہوگئے قیام خشگوار ہوگیا اور دل مضبوط ہوگئے۔

• فرشتوں کا نزول: ابن اسحاق کی روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : ابو بکر خوش ہوجاؤ تمهارے پاس اللہ کی مدد آگئی یہ جبرئیل علیہ السلام ہیں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے اور اس کے آگے آگے چلتے ہوئے آرہے ہیں اور گرد غبار میں اٹے ہوئے ہیں۔

• مٹھی بھر کنکر: اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک مٹھی کنکریاں لیں اور قریش کی طرف رخ کر کے پھینک دی، پھر مشرکین میں سے کوئی بھی نہیں تھا جس کی دونوں آنکھوں ، نتھنے اور منہ میں اس ایک مٹھی مٹی میں سے کچھ نہ گیا ہو۔ اسی کی بارے میں اللہ عزوجل نے فرمایس کہ وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی۔

• جنگ کا نتیجہ: مسلمان کو یقینی اور واضح فتح ملی ، اور اس،جنگ کے مال غنیمت نے مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچایا، اس جنگ میں قریش مکہ کہ اہم اشخاص اور سرداروں کی موت نے اس بات کو کفار پر آشکار کر دیا تھا کہ مسلمانوں سے جنگ آسان نہیں ، کیونکہ لشکر اسلام کے پاس جذبہ ایمانی کی دولت سے مالا مال تھے۔

• شہدائے بدر کے اسم گرامی:
1. عبیدہ بن الحارث
2. عمیر بن ابی وقاص
3. عمیر بن حمام
4. سعد بن خیثمہ
5. ذوالشمالین بن عبد عمرو بن نضلہ خزاعی۔
6. مبشر بن عبد المنذر۔
7. عاقل بن بکیر اللیثی
8. مہجع
9. صفوان بن بیضا الفہری
10. یزید بن حارث خزرجی
11. رفاع بن معلی
12. حارث بن سراقہ
13. عوف بن عفراء
14. معوذ بن عفراء
رضی اللہ تعالی عنهم وجزاهم الله عنا وعن الاسلام خير الجزآء
(سیرت ابن ہشام جلد 2، صفحہ 354، 355، سبل الہدی جلد 4 صفحہ نمبر 114)

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اصحاب بدر کے صدقے امت مسلمہ کی مغفرت فرما آمین۔

(ماخذ : ضیاء القران ، ضیاءالنبی جلد 3 ، سیرت مصطفے، سیرت رسول عربی، رحیق المختوم، سیرت ابن کثیر ، سبل الہدی ، سیرت ابن ہشام، دلائل النبوة)

Aalima Rabia Fatima
About the Author: Aalima Rabia Fatima Read More Articles by Aalima Rabia Fatima: 48 Articles with 74499 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.