قرآن کریم : پارہ 20 (اَمَّنْ خَلَقَ) خلاصہ

اَمَّنْ خَلَقَ‘قرآن کریم کابیسواں (20) پارہ ہے ۔ اَمَّنْ خَلَق کامطلب ہے ’’بھلا وہ کون ہے جس نے پیدا کیا ‘‘ ۔ یہ پارہ تین سورتوں سُوْرَۃُ النَّمْل کیا آ خری 34آیات ، سُوْرَۃُالْقَصَصِ مکمل اور سُوْرَۃُ الْعَنْکَبُوْت کی 44 آیات پر مشتمل ہے ۔

سُوْرَۃُ النَّمْل(آخری 34آیات)

بیسویں پارہ کا آغاز سُوْرَۃُ النَّمْل کی آیت 60سے ہوتا ہے ۔ جس میں کہا گیا ’’بھلا وہ کون ہے جسن نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو اور برسایا تمہارے لیے آسمان سے پانی(وہ ہم ہیں ) ، پھر اُگائے ہم ہی نے اس کے ذریعہ سے باغات رونق والے ، نہ تھا تمہارے بس میں کہ ۱ گا سکتے تم اُ ن میں درخت بھی ، کیا کوئی اور معبود بھی ہے اللہ کے ساتھ (شریک ان کاموں میں ) نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو سیدھی راہ سے ہٹتے چلے جارہے ہیں ‘‘ ۔ یہاں سے پچھلے جملے کی تشریح اور اس کے حق میں دلائل دیے جارہے ہیں کہ وہی اللہ تخلیق ، رزق اور تدبیر وغیر میں متفرد ہے ۔ کوئی اس کا شریک نہیں ۔ پوچھا گیا کہ کیا ان سب حقیقتوں کے باوجود اللہ کے ساتھ کوئی اور ہستی ایسی ہے جو عبادت کے لائق ہو;238; یا جس نے ا ن میں سے کسی چیز کو پیدا کیا ہو، وہ تو باغ کیا ایک درخت بھی اُگانے کا اختیار اور صلاحیت نہیں رکھتے ۔ آیت 64 میں کہا کہ ’’اگر تم سچے ہو تو اپنی کوئی دلیل لے آوَ‘‘ ۔ اگلی ہی آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا ’’کہہ دیجئے : آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا اور وہ خود ساختہ معبود تو یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ قبروں سے کب اٹھائے جائیں گے، بلکہ آ خرت کے بارے میں ان کا علم ختم ہوچکا ، بلکہ وہ آخرت کے متعلق شک میں ہیں ، بلکہ وہ اس سے اندھے ہیں ‘‘ ۔ اللہ عالم الغیب ہے ۔ اس کے سوا کائنات میں کوئی عالم الغیب نہیں ۔ قرآن کے بارے میں فرمایا اللہ نے آیت77 میں ’بلا شبہ یہ قرآن مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے‘ ۔ کافروں کی پروانہ کرنے ، اللہ پر مکمل بھروسہ رکھنے کی ہدایت کی گئی، یہاں کافروں کو مُردوں سے تشبیہ دی گئی ، کہا کہ یہ لوگ مردہ ہیں جو کسی کی بات سن کر فائدہ نہیں اٹھاسکتے یا بہرے ہیں جو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں نہ ہی انہیں نیک راہ ملنے والی ہے ۔ قرب قیامت کی علامات کا بیان ہے آیت 82 میں فرمایا گیا کہ ’’جب ان کے اوپر عذاب کا وعدہ ثابت ہوجائے گا ، ہم زمین سے ان کے لیے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرتا ہوگاکہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے‘‘ ۔ یہ قرب قیامت کی نشانیاں ہیں ۔ نبی ﷺ نے فرمایا ’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس نشانیہ نہ دیکھ لو، ان میں ایک جانور کا نکلنا ، دوسری سورج کا مشرق کے بجائے مغر ب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت جانورکا نکلنا، بعض کا کہنا ہے کہ یہ جملہ وہ جانور اپنی زبان سے ادا کرے گا، تاہم اس جانور کے لوگوں سے کلام کرنے میں تو شک نہیں کیونکہ قرآن نے اس کی صراحت کی ہے ۔ قیامت کا منظر پیش کرتے ہوئے فرمایا آیت 87 میں ’’جس دن صور پھونکا جائے گاتو جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے سب گھبراجائیں گے سوائے ان کے جسے اللہ چاہے اور یہ سب عاجز ہوکر اللہ کے حضور جائیں گے‘‘ ۔ آخری آیات میں نبیﷺ نے فرمایا کہ میرا کام صرف دعوت وتبلیغ ہے جو مسلمان ہوجائے گا، اس میں اسی کا فائدہ ہے کہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا، جو نہیں مانے گا ، اللہ خود ہی اس سے حسا ب لے لے گا اور انہیں جہنم کے عذاب کا مزہ چکھائے گا ۔ اس کے بعد سورۃ القصص شروع ہوتی ہے ۔

سُوْرَۃُالْقَصَصِ

سُوْرَۃُالْقَصَصِ مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے اٹھائیس ویں (28)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار 49ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 9رکو اور88آیات ہیں ۔ قصص سے مراد قصہ ، واقعہ ، کہانی وغیرہ ،لغت کے اعتبار سے ’قصص‘ کے معنی ترتیب وار واقعات بیان کرنا ہے ۔ یوں تو ہر سورت میں ابنیاء کے قصے بیان ہوئے ہیں لیکن اس سورت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ قدرِ تفصیل سے بیان ہوا ہے ، اس لیے بھی اس سورہ کا نام سورہ قصص کہلایا ۔ یہ بات سابقہ سورہ شعراء میں لکھی جاچکی ہے کہ سورہ شعراء،سورہ نمل اور سورہ قصص یکے بعد دیگرے نازل ہوئیں ۔ ان تینوں سورتوں کا زمانہ نزول ایک ہی تھا ۔ سورہ شعراء اور سورہ نمل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بیان ہوتا رہا ۔ اس سے پہلے کی آیات میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان ہوتا چلا آرہا ہے ۔ اب سورہ قصص میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کاقصہ تفصیل سے بیان کردیا گیا ہے ۔ جس طرح سابقہ سورۃ شعراء میں حضرت شعیب علیہ السلام کا قصہ تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔ سورہ قصص کا موضوع ان شکوک و شبہات اور اعتراضات کو دور کرنا ہے جو کفار نبی ﷺ کی بنوت پر لگا رہے تھے ۔ اس تعلق سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔

سُوْرَۃُالْقَصَصِ کی پہلی آیت میں کہا گیا ’’یہ آیتیں ہیں روشن کتابِ کی، ہم آپ کے سامنے موسیٰ اور فرعون کا صحیح واقعہ بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں ‘‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام کے قصے کا آغاز فرعون کی زمین پر سرکشی سے شروع ہوتا ہے ۔ اس نے اپنے ملک کے لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا تھا ، ایک گروہ کی وہ تذلیل کیا کرتا، ان پر ظلم کیا کرتا، ان کے لڑکوں کو قتل کرتا جب کہ لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جن کو اس وقت زمین پر ذلیل کیا جارہا تھا انہیں دنیا میں قیادت و رہنمائی کا اعزاز بخشنا چاہتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہتاہے اس کے لیے وہ غیر محسوس طریقے سے اسباب و ذراءع فراہم کردیتا ہے، جس بچے کے ہاتھوں فرعون کوتخت و تاج سے زمین بوس کرنا تھا اسے اللہ نے خود فرعون ہی کے گھر میں اس کے اپنے ہاتھوں پرورش کردیا اور فرعون یہ نہ جان جاسکا کہ وہ کس کی پرورش کررہا ہے ۔ یہ ہے اللہ کی حکمت اسے کوئی نہ جان سکا ہے اور نہ ہی جان سکتا ہے ۔ اس جگہ ’ وہامان ‘کا ذکر آیا ہے ، مشرکین نے اس پر بہت لے دے کی ، لیکن ہماری نظر میں قرآن کی ہر بات برحق ہے ، یہ فرعون کے دربار کے اہم مشیروں یا وزیروں میں سے ایک تھا ۔ اہمیت رکھتا تھا جب ہی تو قرآن نے یہاں فرعون کے ساتھ اس شخص کا ذکر کیا ۔ یہاں قرآن نے بیچ کے واقعات کو چھوڑ کر یہ بات بیان کی کہ ’ہم نے موسیٰ کی ماں کو اشارہ کیا کہ ’اس کو دودھ پلا ئے، پھر جب تجھے اس کی جان کا خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر، ہم اسے تیرے ہی پاس واپس لے آئیں گے اور اس کو پیغمبروں میں شامل کریں گے‘ ۔ یہ بات موسیٰ کی پیدائش کے بعد کی جارہی ہے، گویا موسیٰ کی جان کو کوئی خطرہ لاحق تھا ، ا لیے اللہ نے اس کی ماں کو اسے دریا کے سپرد کرنے کا کہا ۔ یہاں یہ ذکر بھی نہیں کیا کہ موسیٰ علیہ السلام کی ولادت عمران نامی اسرائیلی کے گھر میں ہوئی، موسیٰ سے پہلے ان کے ہاں دو بچے ہوچکے تھے ، بڑی لڑکی مریم اور بھائی ہارون ۔ فرعون کا یہ حکم یقینا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے کچھ پہلے ہی جاری ہوا ہوگا ان کے دونوں بہن بھائیوں کے زمانے میں ایسا کوئی حکم نہیں تھا ۔ سورہ کی آیات میں واقعہ کے تسلسل کے کو برقرار رکھتے ہوئے بیچ بیچ میں جو باتیں بیان نہیں ہوئیں ان کا ذکر مختصر کیا جارہا ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام کو جس چیز میں رکھ کر دریا برد کیاگیا تھا،وہ صندوق، ٹوکری، یا کوئی برتن ہوگا، بعض جگہ لکھا گیا ہے کہ ان کی ماں نے چکنی مٹی اور رال سے لیپ کر پانی سے محفوظ کردیا ، پھر موسیٰ علیہ السلام کو دریا نیل کے سپرد کردیا گیا ۔ وہ پانی پر بہتے ہوئے فرعون کے دربار کے سامنے پہنچے تو فرعون کے گھر والوں نے انہیں دریاسے نکال لیا، اس دوران موسیٰ علیہ السلام کی بہن مریم نے اپنے بھائی کے بحری سفر پرمکمل نظر رکھی، موسیٰ علیہ السلام کی ڈولی فرعون کے دربار کے سامنے پہنچنے تک کے سفر کو اس طرح دیکھتی رہی کہ دشمنوں کو خبر نہ ہوئی ۔ فرعون کے حکم کے مطابق تو موسیٰ کو قتل کردیا جانا چاہیے تھا لیکن اللہ جو کچھ چاہتا ہے وہ دلوں میں ڈال دیتا ہے، ایسا ہی ہوا فرعون کی بیوی نے فرعون سے کہا ’یہ میرے اور تیرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، اسے قتل نہ کر، کیا عجب کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو،یاہم اسے بیٹا ہی بنالیں ‘‘، قرآن نے یہاں کہا ’’اور وہ انجام سے بے خبر تھے‘‘ ۔ حقیقت میں ایسا ہی تھا، یہ بچہ جو فرعون کے گھر پرورش کا آغاز کرنے جارہا تھا ، اللہ کا پیغمبر اور فرعون کی حکمرانی کے خاتمے کا سبب تھا ۔ مشرکین اگراس واقع کو ہی صدق دل سے پڑھ لیں تو اللہ کی حقیقت پر کامل ایمان لے آئیں ، لیکن ان کے دلوں پر تو تالے لگے ہوئے تھے ۔ فرعون اور اس کی بیوی موسیٰ علیہ السلام کو اپنے گھر رکھنے اور پرورش کرنے پر آمادہ ہوگئے تو دوسرا مرحلہ ان کی خوراک کا تھا، فرمایا اللہ پاک نے ’’ہم نے بچے پر پہلے ہی دودھ پلانے والیوں کی چھاتیاں حرام کررکھی تھیں ‘ یعنی فرعون کی بیوی جن دودھ پلانے والیوں کو بلاتی بچہ اس کی چھاتی کو منہ نہ لگاتا، یہ صورت حال دیکھ کر گھر میں موجود خادمہ نے کہا ’’ میں تمہیں ایسے گھر کا پتا بتاؤں جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمہ لیں اور خیر خواہی کے ساتھ اسے رکھیں گے‘‘ ۔ اللہ نے یہاں فرمایا کہ ’’اس طرح ہم موسیٰ کو اس کی ماں کے پاس سے پلٹا لائے تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غمگین نہ ہو اور جان لے اللہ کا وعدہ سچا تھا‘‘ ۔ کہا جاتا ہے کہ جوں ہی موسیٰ علیہ السلام کی ماں اس بچہ کو لینے پہنچی اوربچہ کو دودھ پلانے کے لیے اپنے قریب لائی بچہ اپنی ماں سے چپٹ گیا اور اس نے خوب سیر ہوکر دودھ پیا ۔ درمیان کے واقعات کو چھوڑتے ہوئے اللہ نے ’’موسیٰ علیہ السلام کے جوا ن ہوجانے، اسے حکم اورعلم عطا کرنے کی بات کی اور ان کے ہاتھوں ایک آدمی کے قتل ہوجانے کا ذکر کیا ہے، قتل کی سزا کے خوف سے موسیٰ علیہ السلام مصر سے نکل کر مدین چلے گئے ، مدین پہنچے تو ایک کنویں سے لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے ان سے الگ تھلگ دو عورتیں اپنے جانوروں کو روک رہی تھیں ، موسیٰ علیہ السلام نے ان سے پوچھا تمہیں کیا پریشانی ہے، انہوں نے کہا کہ ’’ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتے جب تک یہ چرواہے اپنے جانورنہ نکال لے جائیں اور ہمارے والدین بہت بوڑھے ہیں ، یہ سن کر موسیٰ نے ان کے جانوروں کو پانی پلادیا، پھر ایک سایے کی جگہ جا کر بیٹھ گئے، یہاں اللہ سے خیر کی دعا مانگی، کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ان دونوں عورتوں میں س ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی ان کے پاس آئی اور کہنے لگی ’میرے والد آپ کو بُلارہے ہیں تاکہ آپ کوپانی پلانے کا اجر دیں ، موسیٰ علیہ السلام جب ان کے پاس پہنچے اپنا سارا قصہ اسے سُنا تو اس نے کہا ’’کچھ خوف نہ کرو، اب تم ظالم لوگوں سے بچ نکلے ہو‘‘، دونوں بہنوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا کہ یہ اچھے انسان ہیں انہیں اپنا نوکر رکھ لیں ، یہی نہی بلکہ ان کے باپ نے موسیٰ سے کہا کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تمہارے ساتھ کردوں بشرطیکہ تم آٹھ سال تک میرے ہاں ملازمت کرو، اور اگر دس سال پورے کرو تو یہ تمہاری مرضی، بات دونوں کے درمیان طے ہوگئی ۔ اب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی ازداجی زندگی وعدے کے مطابق پوری کی اور اپنے اہل وعیال کو لے کر چلے، جب وہ ’’طور‘‘ کے مقام پر پہنچے تو انہیں آگ نظر آئی انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا ’’ٹہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے ، شاید میں وہاں سے کوئی خبر لے آوَں یا اس آگ سے کوئی انگارہ ہی اٹھا لاؤں جس سے تم گرمائی محسوس کرسکو‘‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام جب اس آگ کے پاس پہنچے تو ایک درخت سے پکار ا گیا کہ ’’اے موسیٰ! میں ہی اللہ ہوں ، سارے جہاں والوں کا مالک‘‘ ۔ اورحکم دیا گیا کہ پھینک دے اپنی لاٹھی، جو نہی موسیٰ علیہ السلام نے لاٹھی پھینکی دیکھا وہ سانپ کی طرح بل کھارہی ہے تو وہ واپس ہو کر بھاگنے لگے، ارشاد ہوا! پلٹ آ، اور خوف نہ کر ، تو بالکل محفوظ ہے، اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال ، چمکتا ہوا نکلے گا اور خوف سے بچنے کے لیے اپنا بازو بھینچ لے، یہ دو روشن نشانیاں ہیں تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اللہ سے کہ میں تو ان کا ایک آدمی قتل کرچکا ہوں ڈرتا ہوں و ہ مجھے مار نہ دیں ۔ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو حوصلہ دیا کہا کہ وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے ۔ روشن نشانیوں اور فرعون کے دربار میں جانے سے مراد یہی تھی کہ تم یہ معجزے لے کر فرعون کے دربار میں اللہ کے رسول کی حیثیت سے فرعون کے پاس جاوَ اور اسے اطاعت کی دعوت دو ۔ پھر موسیٰ علیہ السلام فرعون کے پاس پہنچے تو اس نے انہیں ماننے سے انکار کیا ، بلکہ مزاق بھی اڑایا ، کہا کہ اے اہل دربار میں اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں مانتا ۔ یہاں موسیٰ علیہ السلام اپنے عصا اور ہاتھ کے روشن ہونے کا معجزات دکھاتے ہیں ، سامری جادو گروں سے مقابلہ ہوتا ہے، وہ جادوگر شکست کھاتے اور ایمان لے آتے ہیں ۔ اللہ نے کہا کہ ’’اس نے اس کے لشکر نے زمین میں بغیر کسی حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور سمجھے کہ انہیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے ۔ آخر کار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑکر سمندر میں پھینک دیا‘ ۔ یعنی فرعون اور اس کی قوم ہلاک ہوئی ۔ اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو کتاب (تورات )دی گئی ۔ آیت 44 میں کہا گیا ’’ اے محمد ! اس وقت تم مغربی گوشے میں موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ کو یہ فرمانِ شریعت عطا کیا‘‘ ۔

موسیٰ علیہ السلام کا قصہ اور فرعون کا انجا م بیان کرنے کے بعد اللہ نے اہل مکہ کو آیت 47 میں تنبیہ کی مشرکین کو اور ایمان لانے والوں کی تعریف کی گئی، مشرکین کے اعتراضات اور طرح طرح کی باتوں کے جواب میں اللہ نے ’ آپ کہہ دیجئے! اگر تم سچے ہو تو اللہ کے پاس سے کوئی ایسی کتا ب لے آوَ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت والی ہو تاکہ میں بھی اس کی اتباع کروں ‘ ۔ اللہ کا کہنا ہے کہ ہم ایک رسول کے بعد دوسرا رسول ، ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب بھیجتے رہے اور اس طرح مسلسل ہم اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے رہے ۔ قیامت کے مناظر میں سے بعض مناظر کی منظر کشی کی گئی ، تخلیق اور اختیار کا بیان ہے ۔ اس کے بعد ایک اور ظالم شخص ’قارون‘‘ کا ذکر کیا گیا ۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کا قرابت دار بھی بتا یاجاتاہے، بعض کا خیال ہے کہ یہ آپ کا چچا زاد تھا ، یہ امیر کبیر ، سرمایہ دار، بے پناہ دولت کا مالک لیکن خود غرض ، خود سر اور مغرور بھی تھا ۔ آج بھی دنیا میں اکثر لوگ یہ کہا کرتے ہیں کہ قارون کا خزانہ ہاتھ آگیا ہے کیا ، یہ قارون وہی ہے موسیٰ علیہ السلام کے زمانے والا،موسیٰ علیہ السلام کی باتوں کا بھی اس پر اثر نہیں ہوا ، انہوں نے اسے بہت سمجھایا کہ دولت آنی جانی چیز ہے مستحقین میں خرچ کرو لیکن اس کے سر پر گھمنڈ اور غرور کا بھوت سوار تھا ۔ اس کا خیال تھا کہ اسے یہ دولت اس کی اپنی محنت ، حکمت اور عمل سے ملی اسے وہ جس طرح چاہے خرچ کرے ۔ ایسے لوگ خود کے لیے تو خوشی کا باعث ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث ہوتے ہیں ، ایسے لوگوں کا انجام بہت برا ہوتا ہے، دولت دھری کی دھری رہ جاتی ہے، جب دم آخر آتا ہے تو یہ دولت بھی اس سے منہ پھیر لیتی ہے اور اس کے کسی کام نہیں آتی، قارون کے پاس بھی بے شمار خزانہ تھا لیکن جب وہ موت کے منہ میں جانے لگا تو اس کا خزانہ اس کے کام نہ آیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آیت 81 میں فرمایا ’’ہم نے اسے (قارون) کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا ، پھر اس کے لیے اس کے حامیوں کی کوئی ایسی جماعت نہ تھی جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کرتی اور نہ وہ بدلہ لینے والوں میں تھا‘‘ ۔ اگلی آیت میں فرمایا اللہ نے ’’اور جنہوں نے اس کے مقام و مرتبہ کی تمنا کی تھی وہ صبح اٹھ کر کہنے لگے ، ہائے شامت! اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہے تنگ کرتا ہے، اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو یقینا وہ ہ میں بھی دھنسا دیتا ، ہائے شامت‘‘ ۔ اس سورت کی آخری آیت88 میں کہا گیا ’’اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو ، اللہ کے سوا کوئی نہیں عبادت کے لائق، ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے، اسی کی حاکمیت و فرمانروائی ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹا ئے جاوَ گے‘‘ ۔ فرعون اور قارون جیسے ظالموں ، خزانوں کے مالکوں ، بے پناہ دولت کے پچاریوں کا عبرت ناک انجام دیکھتے ہوئے عبرت ہونی چاہیے آج کے سرمایہ داروں ، دولت کے انبار لگانے والوں کو عبرت پکڑنی چاہیے ۔

سُوْرَۃُ الْعَنْکَبُوْت(ابتدائی 44آیات)

سُوْرَۃُ الْعَنْکَبُوْت مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے انتیس ویں (29)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار 85 ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 7رکو اور69آیات ہیں ۔ اس پارہ میں 44 آیات ہیں ، باقی 25 آیات اگلے پارہ میں ہیں ۔ عربی میں عنکبوت

’ مکڑی ‘کو کہتے ہیں ۔ اس آیت میں ان لوگوں کو مکڑی جیسا کہہ کر مثال دی گئی ہے جنہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو اپنا سرپرست بنا رکھا ہے، ایک مثال مکڑی کے گھر کی دی گئی ہے جو بہت کمزور ہوتا ہے ۔ اس سورۃ میں مکڑی کا تذکرہ آیا اس وجہ سے اس کا نا مسُوْرَۃُ الْعَنْکَبُوْت کہلایا ۔ اس کا نزول مکہ میں ہی ہوا ، اس سورہ میں مسلمانوں کو ہجرت کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ یہ ہجرت مکہ سے مدینہ کے علاوہ مکہ سے حبشہ بھی ہوسکتی ہے ۔ سورت کے موضوعات میں مکہ میں مسلمانوں پر زندگی تنگ سے تنگ ہوتی جارہی تھی، مصائب بڑھتے ہی جارہے تھے، کفار بہت ہی شد ومد کے ساتھ مسلمانوں کی مخالفت کررہے تھے ۔ بلکہ ان کے مظالم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جارہے تھے ۔ یہ سورت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرنے ، لوگوں میں عزم و ہمت اور استقامت پیدا کرنے کی غرض سے نازل فرمائی، اس میں ہجرت کے مسائل اور مشکلات سے بھی مسلمانوں کو آگاہ کیا ۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے مخاطب ہے جنہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے، اللہ نے کہا کہ اتنا کافی نہیں ، ان کو آزمائش سے گزرنا ہوگا، اللہ کو دیکھنا ہے کہ سچے کون ہے اور چھوٹے کون ہیں ۔ اُس دور میں مکہ معظمہ کے حالات مسلمانوں کے لیے بہت پریشان کن تھے جو اسلام کے دائرے میں داخل ہوتا اس کے لیے کفار کی جانب سے مصیبتیں اور آفات بے انتہا بڑھ جاتیں ، اگر کوئی کمزور ، غلام یا غریب ہوتا تو اس کی تو مصیبت ہی آجاتی ، انہیں بری طرح مارا پیٹا جاتا ، روزی کے دروازے اس کے لیے بند ہوجاتے، اس کے اپنے خاندان کے لوگ اس کا جینا مشکل کردیتے ۔ اکثریت نے ان مشکلات کا مقابلہ کیا ، وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے، اپنے بنی ﷺکی آواز پر لبیک کہا اور پھر ان کے جانثار بن گئے، لیکن بعض کمزور دل بھی تو ہوتے ہیں ، وہ ان مشکلات سے، پریشانیوں سے گھبراگئے ۔ اللہ نے انہیں سمجھانے ، حوصلہ دینے کے لیے فرمایا کہ ایمان والوں کو آزمانا اللہ تعالیٰ کی پرانی سنت اور دستو رہے تاکہ سچے اورجھوٹے مومن اور منافق کا فرق واضح ہوجائے ۔ صاحبِ ایمان بڑے بڑے حوادث کے سامنے استقامت دکھاتا ہے جب کہ ظاہری ایمان کا دعویٰ کرنے والے ، سچ اور حق کے راستے سے واپس بھی لوٹ جاتے ہیں ، جن کا انجام بہت براہوتا ہے ۔ آیت 10 میں فرمایا اللہ نے ’’لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے پھر جب اللہ کی راہ میں ایذادی جاتی ہے تو وہ لوگوں کے ستانے کو اللہ کے عذاب کے برابر ٹہراتے ہیں اور اگر آپ کے رب کی طرف سے مدد آجائے تو وہ ضرور کہیں گے بے شک ہم تمہارے ساتھ تھے، کیا جو کچھ جہان والوں کے سینوں میں ہے اللہ اُسے جاننے والا ہے‘‘ ۔ اللہ نے توحید اور عبادت کے حکم کے ساتھ ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید بھی کی ۔ حضرت نوح علیہ السلاکے بارے میں آیت 14 میں کہا گیا کہ ’’نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا چنانچہ وہ ان میں پچاس کم ایک ہزار سال رہا ، پھر انہیں طوفان نے اس حال مین پکڑلیا کہ وہ ظالم تھے ، پھر ہم نے اسے اور کشتی والوں کو نجات دی اور ہم نے اس کشتی کو دنیاوالوں کے لیے عظیم نشانی بنادیا‘‘ ۔ کفار بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے اللہ نے فرمایا کہ جب یہ بت تمہاری روزی کے اسباب و وسائل میں سے کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں ، نہ بارش برساسکتے ہیں ، نہ زمین میں درخت اگا سکتے ہیں ، نہ سورج کی حرارت پہنچاسکتے ہیں اور نہ تمہیں صلاحیتیں دے سکتے ہیں جنہیں بروئے کار لاکر تم قدرت کی ان چیزوں سے فیض یاب ہوتے ، تو تم پھر روزی اللہ ہی سے طلب کرو، اسی کی عبادت اور اسی کی شکر گزاری کرو ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر بھی آیت 24 میں آیا ، ابرہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کے احکامات سے روگردانی کی سخت سزا بتائی ، ابرہیم کے بعد لوط علیہ السلام ، پھر اسحق اور یعقوب کا ذکر ہوا ہے ۔ لوط علیہ السلام کی قوم نے اللہ کے نبی کی بات نہ مانی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوط علیہ السلام کی بددعا پر ان کی قوم پر سخت عذاب بھیجا گیا ، وہی فرشتے تھے جو پہلے ابراہیم علیہ السلام کے پاس گئے تھے ، پھر لوط علیہ السلام کے پاس گئے تو لوط علیہ السلام کو فکر ہوئی کہ ان کی قوم کے لوگ ان فرشتوں کو خوفزدہ نہ کردیں ، لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا لیکن وہ نہ مانے ۔ پتھروں کی بارش کی گئی، سیاہ بدبودار پانی پوری بستی کو الٹ دیا گیا ۔ قوم تباہ ہوگئی ۔ پھر شعیب علیہ السلام کا ذکر ہے، مدین شہر ان کا مرکز تھا ، یہ قوم ناپ تول میں کمی کرنے کی عادی تھی، شعیب علیہ السلام کی باتوں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا ، آخر بادلوں کے سائے والے اور جبریل کی ایک سخت چیخ سے ز میں زلزلے سے لرز اٹھی جس سے وہ قوم تباہ وبرباد ہوگئی ۔ صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کا ذکر ہے، اس کے بعدآیت 69 میں قارون ، فرعون اور ہامان کی ہلاکت بیان کی گئی ہے ، موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ مختصر ہوا ہے ۔ یہ تمام واقعات گزشتہ سوررتوں میں تفصیل سے بیان ہوچکے ہیں ۔ پارہ 20کی آخری آیت 44 میں کہا گیا ہے کہ’’ اللہ نے زمین اور آسمان حق کے ساتھ پیدا کیے ، بلاشبہ اس میں مومنوں کے لیے عظیم نشانی ہے‘‘ ۔ سورہ عنکبوت کی بقیہ 25آیات کا خلاصہ انشاء اللہ پارہ نمبر21 میں بیان کیا جائے گا ۔
( 20رمضان المبارک 1440ھ ،26 مئی2019ء)
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1288509 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More