قرآن کریم : پارہ19( وَقَالَ الَّذِیْنَ) خلاصہ

وَقَالَ الَّذِیْنَ‘قرآن کریم کا انیسوواں (19) پارہ ہے ۔ وَقَالَ الَّذِیْنَکا مطلب ہے ’’اور کہتے ہیں وہ لوگ جو ‘‘ ۔ یہ پارہ تین سورتوں سُوْرَۃُ الْفُرْقَان کی57آیات، سُوْرَۃُ الشُعَرَآء،اور سُوْرَۃُ النَّمْل کی 93 آیات پر مشتمل ہے ۔ اس سورہ کی بقیہ 34آیات اگلے پارہ میں شامل ہیں ۔

سُوْرَۃُ الْفُرْقَان

21ویں آیت سے خلاصہ کا آغاز ہوا ہے ۔ مشرکین کے سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اور ان لوگوں نے کہا جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے : ہم پر فرشتے کیوں نہیں نازل کیے گئے ، یاہم اپنے رب کو دیکھتے;238; بلاشبہ انہوں نے اپنے نفسوں میں تکبر کیا اور بہت بڑی سرکشی کی‘‘ ۔ مشرکین کا کہنا شاید یہ تھا کہ کسی انسان کو رسول بنا کر بھیجنے کی بجائے کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجا جاتا یا یہ مطلب کہ پیغمبر کے ساتھ فرشتے بھی نازل ہوتے جنہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور اس بشر رسول کی تصدیق کرتے ۔ اللہ نے مشرکین کی اس خواہش کو سرکشی قرار دیا ۔ بے شک اللہ ایسے کام کیوں کرے جو اس کی اپنی حکمت تخلیق اور مشیت کے خلاف ہے ۔ قیامت کے دن کا ذکر ہے جس دن ہر ظالم افسوس کرے گا کہ کاش میں رسول ﷺ کے ساتھ راہ اختیار کرلیتا ۔ اس دن اللہ کا رسول ﷺ ، اللہ کے حضور اپنے رب سے اپنی قوم کی شکایت کریں گے، کافر طرح طرح کے اعتراضات کیا کرتے ،آیت 32 میں کہا گیا کہ’ کافروں نے کہا یہ قرآن ایک ہی بار اکٹھا کیوں نہیں نازل کیا گیا ‘ ۔ اللہ نے فرمایا ’کہ اسی طرح ہم نے نازل کیا ہے تاکہ ہم اس سے آپ کا دل مضبوط کریں اور ہم نے اسے خوب ٹہر ٹہر کر پڑھ سنایا ہے‘ ۔ اللہ نے قرآن کے لیے وقفے وقفے سے اتارے جانے کی حکمت و علت بیان کی اور کہا کہ یہ مشرک جب بھی کوئی مثال یا اعتراض اور شبہ پیش کریں گے تو قرآن کے ذریعے سے ہم اس کا جواب یا وضاحت پیش کردیں گے ، اس طرح انہیں لوگوں کو گمراہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا ۔ آیت 45سے توحید کے لیے دلائل کا آغاز ہوتا ہے ۔ کہا گیا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے کائنات میں کس طرح سایہ پھیلایا ہے جو صبح صادق کے بعد سے سورج کے طلوع ہونے تک رہتا ہے یعنی اس وقت دھوپ نہیں ہوتی ، دھوپ کے ساتھ یہ سمٹنا اور سکڑنا شروع ہوجاتا ہے ۔ گویا دھوپ سائے کی پہچان ہے ۔ لباس کی مثال دی گئی کہ جس طرح لباس انسانی ڈھانچے کو چھپا لیتا ہے ، اسی طرح رات تمہیں اپنی تاریکی میں چھپا لیتی لیتی ہے ۔ بارش کے بارے میں فرمایا کہ بارش کو ہم پھیر پھیر کر برساتے ہیں یعنی کبھی ایک علاقے میں کبھی دوسرے علاقے میں ، کفرانِ نعمت یہ بھی قرار دی گئی کہ بارش کو مشیت الہٰی کے بجائے ستاروں کی گردش کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے ۔ کہا گیا کہ اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرنا اسراف اور اللہ کی اطاعت میں خرچ نہ کرنا افتار (بخیلی) اور اللہ کی اطاعت میں خرچ کرنا معدل ہے یعنی میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ جھوٹی گواہی سے احتراز، بری مجالس سے پہلو تہی کرنا ۔ اللہ نے آیت 70 میں کہا ’’مگر جس نے توبہ کی اور وہ ایمان لایا اور نیک عمل کیے تو انہی لوگوں کی برائیوں کو اللہ اچھائیوں سے بدل دے گا اور اللہ غفور اور رحیم ہے اور جو توبہ کرے اور نیک کام کرے، تو بلاشبہ وہ اللہ سے توبہ کرتا ہے جیسے توبہ کرنے کا حق ہے‘‘ ۔ انہی لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے میں (جنت کے ) کے بالا خانے جزا میں دیے جائیں گے اور وہاں دعا اور سلام کے ساتھ ان کا استقبال ہوگا ۔ یہاں سورہ فرقان کا اختتام ہوتا ہے ۔

سُوْرَۃُ الشُعَرَآء

سُوْرَۃُ الشُعَرَآء مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے چھبیسویں (26)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار 47ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 11رکو اور227آیات ہیں ۔ سورہ شعراء کے بارے میں تفہیم القرآن میں درج ہے کہ ’مضمون و انداز بیان سے محسوس ہوتا ہے اور روایت اس کی تائید کرتی ہیں کہ اس سورہ کا زمانہ نزول مکہ کا دور متوسط ہے ۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ پہلے سورہ ’طہٰ‘ نازل ہوئی پھر ’سورہ واقعہ‘ اور اس کے بعد سوۃ ’شعرا‘نازل ہوئی ۔

نبی ﷺ اللہ کا پیغام لوگوں تک اسی انداز ارو طریقے سے پہنچانے میں مصروف تھے جیسا کہ اللہ نے حکم دیا تھا ۔ آپ کے پیغام کے جواب میں مشرکین آپ کی باتوں پر عمل کرنے کے لیے طرح طرح کے بہانے تراشہ کرتے، کبھی کہتے کہ کوئی نشانی دکھاوَ کے تم اللہ کے رسول ہو، کبھی کچھ کبھی کچھ غرض طرح طرح کے بہانے بیان کیا کرتے،آپ کو طرح طرح کے غلط خطابات دے رہے تھے جادو گر، شاعر اور کاہن قرار دے رہے تھے ۔ کبھی کہتے کہ آپ کے ساتھ تو نیچے درجے کے لوگ ہیں ،چند نوجوان ہے ،جو نادان ہے، انہیں حقیقت کا علم نہیں ، کبھی کہتے کہ اگر آپ سچے ہوتے تو اشراف اور شیوخ (یعنی مکہ کے پیسے والے لوگ )آپ کی باتوں پر یقین کرتے ، اور وہ آپ پر ایمان کیوں نہیں لارہے ۔ آپ ﷺ بہت پریشان اور اس غم میں کہ کفار کسی بھی طرح میرے پیغام کو سمجھنے کو تیار نہیں ہورہے آپ اس غم میں پریشان اورغم میں گھلے چلے جارہے تھے ۔ ایسے حالات میں اللہ نے سورہ شعراء نازل فرمائی جس کی اولین آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اے نبی! آپ اس غم سے کہ لوگ ایمان نہیں لاتے، آپ خود کو ہلاک ہی کر لیں گے‘‘ ۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو آسمان سے کوئی نشانی اتاردیں ، پھر اس کے آگے ان کی گردنیں جھکی ہی رہ جائیں ۔ اللہ نے کہا کہ ایسا نہیں کہ انہوں نے کوئی نشانی نہیں دیکھی ، وہ سب دیکھتے ہیں ، جانتے ہیں وجہ صرف یہ ہے کہ وہ ہٹ دھرم ہیں ، کوئی ایسی نشانی چاہتے ہیں جس سے ان کی گردنیں شرم سے جھک جائیں ۔ جب وہ نشانی اپنے وقت پر آجائے گی تو پھر انہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس قدر غلطی پر تھے ۔ اس تمہید کے ساتھ آیت 122تک بہت تفصیل سے اللہ نے ان نشانیوں کا تذکرہ کیا ہے جو بہت واضح اور دنیا میں سب کے سامنے پھیلی ہوئی ہیں ۔ یہ تو آفاق کی نشانیہ دیکھ اور انبیا ء کے معجزات دیکھ کر بھی حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے، لیکن یہ تو ہٹ دھرم لوگ ہیں ،یہ تو اللہ کے عذاب کا انتظار کرتے ہیں ۔ اس کے بعد سابقہ سات قوموں کے حالات تحریر کیے گئے ہیں جنہوں نے اللہ کے پیغام کو جھٹلایا ، ہٹ دھرمی سے کام لے رہے تھے جس طرح یہ کفار مکہ اس وقت ہٹ دھرمی دکھارہے ہیں ۔ اس اہم تاریخی بات کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے چند باتیں بیان کیں ۔ کہا گیا کہ نشانیوں کی دو قس میں ہوتی ہیں ۔ ایک نشانی وہ ہے کہ جو روئے زمین پر اللہ کی بے شمار نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں ، جس جانب نظر اٹھائیں اللہ کی قدرت دکھائی دیتی ہے ۔ کوئی بھی با شعور انسان انہیں دیکھ کر اللہ کے پیغام پر سر خم تسلیم کردے گا اور کرنا بھی چاہیے لیکن کفار کا طرز عمل ، طریقہ ، انبیاء کو جھٹلانے کا، اللہ کے پیغام سے رو گردانی کرنے کا ایک جیسا ہی رہا ہے ۔ اللہ نے ان نشانیوں کو جو زمین میں پھیلی ہوئی ہیں ایک ایک کر کے اور کھول کھول کا بیان کردیا ہے ۔ اللہ نے نشانی کی دوسری قسم وہ بیان کی جو فرعون اور اس کی قوم نے دیکھیں ، قوم نوح نے دیکھیں ، قوم عاد نے دیکھیں ، قوم ثمود نے دیکھیں ، قوم لوط نے دیکھیں ، اصحاب الآیکہ نے دیکھیں اور اب یہ فیصلہ کرنا کفار کا کام ہے کہ وہ نشانی کی کون سی قسم دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے 950سال تبلیغ کی ان کی قوم نافرمان ہی رہی ، آخر کار انہوں نے اپنی قوم کے لیے عذاب کی بد دعا کی، طوفان نوح نے ان کی قوم کو ہلاک کردیا ۔ قوم عاد اور ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا ،وہ بڑی مضبوط قوم تھی اس کے بارے میں کہا گیا وہ قوی ترین قو م تھی اس جیسی قوم ملکوں میں پیدا ہی نہیں کی گئی ، لیکن اس قوم نے کفر کا راستہ نہیں چھوڑ، انہوں نے پہاڑ سے نکلنے والی اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ ڈالی اور اسے ہلاک کردیا تھا ۔ ا تو اللہ نے سخت ہوا کی صورت میں ان پر عذاب نازل فرمایا ۔ آیت 178 میں کہا گیا کہ اصحاب ایکہ نے رسولوں کو جھٹلایا ، جب ان سے شعیب نے کہا: کیا تم ڈرتے نہیں ، بیشک میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں ۔ ایکہ جنگل کو کہتے ہیں ۔ اس سے مراد حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم اور بستی مدین کے اطراف کے باشندے مراد ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ایکہ کے معنی گھنا درخت اور ایسا ایک درخت مدین کی نواحی آبادی میں تھا جس کی پوجا پاٹ ہوتی تھی ۔ شعیب علیہ السلام کا دائرہ بنوت مدین سے لے کر اس نواحی بستی تک تھا جہاں ایکہ درخت کی پوجا ہوتی تھی ۔ وہاں کے رہنے والوں کو اصحاب الآیکہ کہا گیا ہے ۔ شعیب کی قوم کو سائے والے دن کے عذاب نے آن پکڑا ، اللہ نے آیت 189 میں کہا کہ ’’بے شک وہ بہت بڑے دن کا عذاب تھا‘‘ ۔ اسی طرح دیگر پیغمبروں کے ساتھ ہونے والے کفار کے سلوک ، انہیں ڈھیل دینے، سمجھانے ، یقین دلانے کی تمام تر کوششوں کے بعد ان پر اللہ نے عذاب نازل کیا جس کی تفصیل سابقہ سورتوں میں بھی آچکی ہیں ۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، وہ قادر ہے، طاقت والا ہے، جو چاہے کرسکتا ہے، ساتھ ہی رحیم بھی ہے، درگزر سے بھی کام لیتا ہے اور لیا ہے، کسی بھی قوم پر عذاب آخری اور حتمی عمل کے طور پر کیا گیا ۔ کفار اور مشرکین کی ذہنیت ہر دور میں ایک جیسی رہی ہے ۔

سورہ کی آخری آیات میں بحث کو سمیٹتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے کہا ’’کہ تم لوگ اگر نشانیاں ہی دیکھنے کی خواہش رکھتے ہو تو آخر وہ خوف ناک اور درد ناک نشانیاں دیکھنے پر کیوں اصرار کرتے ہو، وہ تو گمراہ اور تباہ شدہ قوموں نے دیکھی ہیں ۔ اگر دیکھنا ہی ہیں تو اس قرآن کو دیکھو جو تمہاری اپنی زبان میں نازل کیا گیا ہے،محمد ﷺ کو دیکھو، ان کے پیغام کو دیکھو، اس رسول ﷺ کے ساتھیوں کو دیکھو ۔ کیا تمہیں یہ کام کسی شیطان یا جن کے لگتے ہیں ;238; کیا اس کام کا پیش کرنے والا تمہیں کاہن نظر آتا ہے، کیا محمد ﷺ اور ان کے اصحاب تمہیں ویسے ہی نظر آتے ہیں جسیے شاعر اور ان کے ہم مشرب ہوا کرتے ہیں ، اگر تمہارا عمل (کفارکا عمل) یہ سب کچھ ضد ہے تو دوسری بات ہے، اپنے دلوں کو ٹٹولوں ، سنجیدگی سے سوچو، غور و فکرکرو، تمہارا دل یہ شہادت دیتا ہے اور اگر محسوس کرو کہ کہانت اور شاعری سے اس کلام کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے تو پھر ی بھی جان لو کہ تم ظلم کر رہے ہو، اور ظالموں کا انجام دیکھ چکے ہو، تم بھی دیکھ کر رہو گے ۔ آیت 224 میں کہا اللہ نے ’’کیا میں تمہیں بتاؤں کس پر شیطان نازل ہوتے ہیں ، وہ ہر جھوٹ گھڑنے والے، گناگار پر نازل ہوتے ہیں ، جو شیطانوں کی طرف کان لگاتے ہیں اور ان کے اکثر جھوٹے اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ ہی کرتے ہیں ‘‘ ۔ شاعروں کی اکثریت چونکہ ایسی ہوتی ہے کہ وہ مدہ و ذم میں اصول و ضابطے کے بجائے ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق اظہار کرتے ہیں ،علاوہ ازیں اس میں غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور شاعرانہ تخیلات میں کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھٹکتے ہیں اس لیے فرمایا گیا کہ ان کے پیچھے لگنے والے بھی گمراہ ہیں ۔

سُوْرَۃُ النَّمْل

سُوْرَۃُ النَّمْلمکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے ستائیسویں (27)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار 48ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 7رکو اور93آیات ہیں ۔ یہاں اس پارہ میں اس سورہ کی 59آیات کا خلاصہ بیان ہوگا جب کہ باقی 20آیات کا خلاصہ اگلے پارے میں بیان کیا جائے گا ۔ عربی میں نمل چیونٹی کو کہا جاتا ہے ، اس سورہ میں وادی النمل یعنی چیونٹیوں کی وادی کا ذکر آیا ہے اس مناسبت سے یہ سُوْرَۃُ النَّمْل کہلائی ۔ سُوْرَۃُ النَّمْلکی ایک خاص خوبی جو کسی دوسری کسی سورت میں نہیں وہ یہ کہ اس کی آیت 30 کے درمیان میں بِسمِ ا للہِ الرَّحمْن ِ الرَّحِیْم آیا ہے،دیگر سورتوں سوائے سورہ توبہ کے آغاز میں بسم اللہ لکھا اور پڑھا جاتا ہے لیکن یہ واحد سورۃ ہے کہ جس کے آغاز میں اور آیت30 میں بسم اللہ آیا ہے ۔ یہ واقعہ حضرت سلیمان علیہ السلام کاہے ، جس میں ایک پرندہ ہدد کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ملکہ سبا کو ان کا خط پہنچا کر آئے ، اس طرح کہ اسے محسوس نہ ہو، ہد ہد وہ خط ملکہ کو پہنچادیتا ہے، بلقیس اپنے سرداروں سے مشورہ کرتے ہوئے کہتی ہے ’’اے سردارو ! ایک گرامی نامہ ڈالا گیا ہے ، بے شک وہ سلیمان کی طرف سے ہے ، اور بے شک اس کا آغاز اللہ کے نام سے ہے’’ جو نہایت مہربان ، بہت رحم کرنے والا ہے‘‘ ۔ یہ خوبی اس سورت کو ممتاز بھی کرتی ہے، اور اس وجہ سے بسم اللہ کی تعداد جو قرآن کی مکمل سورتوں کی تعداد کے برابر ہونے چاہیے وہ تعد بھی اس وجہ سے پوری ہوگئی ۔

سُوْرَۃُ النَّمْلکا آغازقرآن کریم کی عظمت ، تعارف ، حقانیت و صداقت کے ذکر سے ہوتا ہے ۔ آیت اول میں کہا گیا کہ ’ ’ یہ قرآن اور واضح کتاب کی آیات ہیں ،یہ ہدایت اور بشارت ہے ان مومنوں کے لیے جو نماز قائم کرتے ہیں ، اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ‘‘ ۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا اللہ نے کہ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، ہم نے ان کے لیے ان کے اعمال پر کشش بنادیے ہیں لہٰذا وہ بھٹکتے پھرتے ہیں ،یعنی گمراہی کے جس راستے پر وہ چل رہے ہوتے ہیں ، اس کی حقیقت سے وہ آشنا نہیں ہوتے اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی نہیں پاتے ۔

اس کے بعد سات انبیائے کرام کے قصے بیان کیے گئے ہیں ان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ہود علیہ السلام ، حضرت صالح علیہ السلام ، حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام شامل ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بات شروع ہوتی ہے آیت 10 میں موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ جس میں ان کا عصا سانپ بن جاتا ہے بیان ہوا ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ اس سے پہلے بھی کئی سورتوں میں بیان ہوچکا ہے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا قصہ بہت تفصیل سے یہاں بیان ہوا ہے، اللہ پاک نے سلیمان علیہ السلام کو خاص علم دیا تھا، وہ جانوروں کی زبان سمجھتے اور پرندوں سے گفتگو کر سکتے تھے یعنی انہیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ، جیسے چیونٹی اور ہد ہد کا قصہ، جنات بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کا حکم بجالاتے تھے، پرند ے اور جنات کو ان کے لیے مسخر کردیا تھا، سب پر ان کی بادشاہت تھی ۔ ایک دن سلیمان علیہ السلام کا گزر اپنے لشکر کے ساتھ چیونتیوں کی وادی کے پاس سے ہوا، تو انہوں نے سا ’ایک چیونٹی دوسرچیونٹیوں سے کہہ رہی تھی کہ جلدی سے اپنے بلوں میں داخل ہوجاوَکہ کہیں سلیمان علیہ السلام کا لشکر بے خبری میں تمہیں روندنہ ڈالے‘سلیمان علیہ السلام چیونٹی کی بات سن کر مسکرائے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے بہت سی نعمتیں عطا کیں اور پرندوں اور حیوانوں کی بولی بھی سمجادی ۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام کے دربار میں مستقل طور پر رہنے والا پرندہ ہد ہد بھی تھا ۔ جس نے ایک دن سلیمان علیہ السلام کو ملکہ سبا ، اس کے مثالی تخت اور اس کی قوم کی اطلاع دی ۔ یہ بھی بتایا کہ وہ سورج کی بوجا کرتے ہیں ۔ سلیمان علیہ السلام نے ہد ہد کے ذریعے ملکہ سبا کو خط پہچایاجس میں اسے ان کے دربار میں حاضر ہونے کا کہا گیا تھا،ملکہ سبا کو اپنی مملکت ، مادی اسباب پر بڑا ناز تھا، ملکہ کا تخت اس کے آنے سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں پہنچادیاگیا ، ملکہ سبا جب سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پہنچی تو اس کا اپنا شاندان تخت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پہلے سے موجود تھا، وہ سلیمان علیہ السلام کی حکومت اور سج دھج دیکھ کر حیران رہ گئی، وہ متاثر ا س حد تک ہوئی کہ اسلام قبول کر لیا ۔ یہ واقعات تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔ اس سورۃ کی ایک خاص بات جو کسی اور سورت میں نہیں وہ یہ کہ اس کی آیت 30 میں بِسمِ ا للہِ الرَّحمْن ِ الرَّحِیْم آیا ہے،دیگر سورتوں سوائے سورہ توبہ کے آغاز میں بسم اللہ لکھا اور پڑھا جاتا ہے لیکن یہ واحد سورۃ ہے کہ جس کے آغاز میں اور آیت30 میں بسم اللہ آیا ہے ۔ یہ اس حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کے واقعہ میں ہے ۔ جب سلیمان علیہ السلام ہدد کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ملکہ سبا کو ان کا خط پہنچا کر آئے ، اس طرح کہ اسے محسوس نہ ہو، ہد ہد وہ خط ملکہ کو پہنچادیتا ہے، بلقیس اپنے سرداروں سے مشورہ کرتے ہوئے کہتی ہے ’’اے سردارو ! ایک گرامی نامہ ڈالا گیا ہے ، بے شک وہ سلیمان کی طرف سے ہے ، اور بے شک اس کا آغاز اللہ کے نام سے ہے’’ جو نہایت مہربان ، بہت رحم کرنے والا ہے‘‘اور یہ کہ تم میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرنا ‘‘، ملکہ سبا حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس جانے کا پروگرام بناتی ہے ادھر جنات میں سے ایک’ دیو جن‘ نے کہا کہ میں آپ کو تخت لادیتا ہوں اس سے پہلے کہ آپ اپنی جگ کے پاس سے اٹھیں ، یہی ہوا کہ بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں آئی تو اس کا تخت پہلے سے موجود تھا ۔ پھر بعد میں جو کچھ ہوا اس کی تفصیل بھی ان آیات میں بیان کی گی ہے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد حضرت صالح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر ہے ۔ ان کی قوموں نے بھی دونوں نبیوں کے لیے پریشانیاں پیدا کیں ، طرح طرح کی باتیں بنائیں ، الزامات آید کیے، سرکشی کرتے رہے، دونوں انبیاء نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا لیکن وہ اپنی بیہودہ باتوں سے نہ رکے، آخر اللہ تعالیٰ نے انہیں عذاب میں مبتلا کیا جو قرآن میں بیان ہوا ہے ۔ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے ۔ یہاں پارہ انیس اختتام ہوتا ہے ۔ آئندہ پارہ یعنی بیسویں پارہ کا آغاز اسی سورت کی باقی آیات کے خلاصہ سے ہوگا ۔ 19) رمضان المبارک 1440ھ ،25 مئی2019ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437109 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More