محبت کا عالمی دن ہر سال 14فروری کو بڑے
زور و شور سے دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔پاکستان میں بھی نوجوان نسل اس
روز اپنے احساسات و جذبات سے اپنے پیاروں کو مختلف انداز میں ظاہر کرتی
ہے۔اگرچہ ایک اسلامی مملکت ہونے کے ناطے اس تہوار کے منانے کا کوئی مذہبی
واخلاقی جواز تو ہمیں نہیں ہے مگر پھر بھی ہمارے کچھ ناسمجھ لوگ اسے بھی
مذہبی فریضہ کی مانند ہر سال بڑے اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں۔اور بعض اوقات
اپنی حدوں سے بھی گزر جاتے ہیں جو کہ قابل مذمت عمل ہے مگر ہم اپنے جذبات
کی رو میں کسی بات کی پروا نہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اسلئے ہم اچھائی ،برائی
کی تمیز اپنی خوشی کی خاطر بھول جاتے ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ اس کا آغاز کب ، کیسے ،کیوں ہوا؟ہمیں بحیثیت مسلمان
اس دن سے لاتعلقی کا اظہار کرنا چاہیے۔یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ آج کے
دور میں جب ہمارے پاس معاشی بھاگ دوڑ کے بعد اپنے پیاروں(بالخصوص والدین،
بہن ،بھائی ) اور خاندان کے لوگوں کے پاس بیٹھنے کا وقت نہیں ملتا ہے تو اس
روز ان سے مل ملاپ کر لیا جائے اور دلی کدورتیں دور کر لی جائیں تاکہ کچھ
محبت کا بھرم رہ جائے اور احساس دلایا جائے کہ ہمارا بھی کوئی ہے کوئی
برائی کی بات نہیں ہے ۔ اگرچہ محبت کے ایک دن ہونے پر مجھے بے حد اختلاف ہے
مگر زندگی میں بعض اوقات سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے کہ ہر چیز انسان کے بس سے
باہر ہے۔ ویسے بھی ہم بطور انسان کسی نہ کسی چیز سے تو محبت کرتے ہی ہیں نا؟
تو پھر اظہار کے دن پر اعتراض کیسا ؟
محبت کے بارے آپ کو بتاتا چلوں کہ محبت ایک عجیب جذبہ ہے اور محبت کرنے
والے لوگ عجیب تر ہوتے ہیں۔محبت کو میں ایک ایسا پہاڑ سمجھتا ہوں جس کو سر
کرنا اگر ناممکن نہیں ہے تو ممکن کرنا بھی کسی معرکے سے کم نہیں ہے۔محبت
انسان کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ محبت کے بل بوتے پر کسی سے بھی کچھ بھی
کروایا جاسکتا ہے۔ اگر ہماری زندگیوں میں محبت کا جذبہ نہ ہو تو شاید زندگی
کی بیشتر رعنائیاں ختم ہو جائیں ۔محبت کے بغیر زندگی بیکار ہے۔جیسے مچھلی
کا پانی کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا ہے اسی طرح سے محبت کے بغیر انسان
زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔ چاہیے یہ محبت انسانوں سے ہو یا اللہ تعالیٰ اور
رسول ﷺ سے ،ہماری زندگیوں کا لازمی جز محبت بن چکی ہے۔حب رسولﷺ ہمیں اپنی
زندگیوں سے بھی زیادہ عزیز تر ہے جس کے لئے جان تک قربان کرنے کے لئے ہم
ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔اور اسی محبت کی بدولت ہم اللہ اور رسولﷺ کی تعلیمات
کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارتے ہیں اور شان رسالت میں گستاخی کرنے والے
کا سرقلم کرتے ہیں اس سلسلے میں غازی علم دین شہید جیسے لوگوں کے واقعات
ہمارے لئے روشن مثال ہیں جنہوں نے اپنی جانیں حب رسولﷺ میں لوٹا دیں۔
ہماری زندگیوں کے صحرا میں جب محبت کی بارش برستی ہے تو ہماری زندگیوں میں
بہار سی آجاتی ہے۔ محبت ایسا جذبہ ہے جو مرتے ہوئے شخص کو بھی زندگی کی طرف
لاسکتا ہے۔اگر آپ کسی سے محبت کرتے ہیں تو اس کے بھروسے پر مت رہیے ہو سکتا
ہے اس کے پاس الفاظ حوصلہ اور الفاظ نہ ہو یا وہ اپنے آپ کو آپ کی محبت کا
قابل نہ سمجھتا ہو اور آپ کسی چاہنے والے سے اس کی چاہت معلوم ہو جانے کے
بعد بھی محبت کی شاہراہ پر اس کے ساتھ زندگی کا سفر نہ بسر کر سکیں۔اس لئے
خود ہی کہیں دیجئے آپ اس کو پسند کرتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے
اور آپ راہ ہی دیکھتے رہ جائیں ۔ایک بات ہمیشہ یا د رکھئے گا کہ ساتھ
نبھانے کا ہر حال میں سوچیے گا۔ وگرنہ اس راہ پرُخار میں قدم رکھنے کا خیال
بھی دل میں مت لائیے گا کہ کسی کا دل توڑنا اچھی بات نہیں ہے۔محبت کا دن
ضرور منائیں مگر اپنی حدود و قیود کا بھی خیال رکھیں کہ ہم ایک اسلامی
معاشرے کے شہری ہیں ہمارے کھلے عام حرکات وسکنات سے کسی پر ہمارا غلط تاثر
نہ ابھارے ۔محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے اس کے تقد س کا بھی خیال رکھیں محبت
کرنا اور نبھانا آسان کام نہیں ہے لہٰذا سوچ سمجھ کر محبت کیجئے گا کہیں آپ
کی دل لگی آپکے کے دل کا ”روگ“ ہی نہ بن جائے۔ محبت سب سے کیجئے گا تب ہی
آپ کو ہر جانب سے محبتیں نصیب ہوگی۔ |