بستی میں مذہبی تہوار منایا جا رہا ہے اور ایک میلہ لگا
ہے ۔یہ افسُس کی بستی ہے جسے رومی شہنشاہ نے اپنا پایۂ تخت بنایا ہے۔ لوگ
میلے میں شریک ہیں جبکہ بستی کی ایک جانب ایک نوجوان درخت کے نیچے تنہا
بیٹھا ہے وہ اس میلے اور اس کی رونقوں سے بیزار بیٹھا ہے ۔ چہرے پہ افسردگی
کے آثار بھی نمایاں ہیں لیکن عامۃ الناس سے الگ تھلگ میلے میں نہ جانے پہ
مطمئن بھی دکھائی دیتا ہے ۔ وہ دل ہی دل میں بستی والوں کو کوس بھی رہا ہے
کہ کیسے لوگ ہیں جو اس طرح کی رسومات اور میلوں میں اپنی زندگی برباد کر
رہے ہیں ۔ ابھی وہ انہی خیالات میں گم تھا کہ ایک اور نوجوان بھی اسی کیفیت
میں وہاں آتا ہے اور خاموشی سے درخت کی چھاؤں میں بیٹھ جاتا ہے ۔ ابھی
دونوں کے درمیان خاموشی کا پردہ حائل ہے کہ تیسرا نوجوان بھی وہاں آ جاتا
ہے اور خاموشی کی چادر اوڑھ کر وہیں بیٹھ جاتا ہے ۔ ایک ایک کرتے سات
نوجوان وہاں جمع ہو جاتے ہیں ۔ یہ سب بادشاہ کے مصاحبین کے بیٹے ہیں۔ خوش
لباس نوجوان معزز اور کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ ہیں لیکن سبھی اس
دنیا کی محفل سے اکتائے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ یہ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں
لیکن ایک دوسرے کے حال دل سے واقف نہیں ہیں ۔ ہر کوئی کسی لیلی ٰ کا مجنوں
نظر آتا ہے جو عشق میں گرفتار ہو کر دنیا اور اس کی رنگین محفلوں سے بیزار
ہو گیا ہے ۔ایسی ہی کیفیت کو اقبال ؒنے کیا خوب بیان کیا ہے ۔
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سب کے سینوں میں ایک ہی روشنی ہےجو انہیں ظلمت کدۂ
دنیا سے باہر کھینچ لائی ہے ۔سیدنامسیح عیسیٰ علیہ السلام کو زمین سے اٹھا
لئے جانے کے بعد ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا ہے ۔ یہ سب نوجوان بھی سیدنا مسیح
علیہ السلام کی تعلیمات سے متاثر ہوئے ہیں ۔ ان کے قلب ونظر نے ان تعلیمات
کے برحق ہونے کی گواہی دے دی ہے ۔سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں پہ
عرصہ حیات تنگ تھا اس لئے کھل کر ایمان کا اعلان کرنا ان کے لئے ناممکن تھا
لیکن اپنے اپنے گھروں میں یہ حال ِ دل بتا چکے تھے ۔ ان کی بستی کے لوگ بت
پرست تھے اور حکام بھی بتوں کے پجاری ۔ اس بستی میں توحید پرستوں کے لئے
کوئی جگہ نہ تھی ۔ان نوجوانوں کے والدین بادشاہ کے مصاحبین تھے اسلئے وہ
نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بیٹوں کی وجہ سے یہ اعلی ٰ عہدے ان سے چھین لئے
جائیں اور ان کی پر تعیش زندگی میں کوئی رخنہ آئے اسلئے انہوں نے اپنے
بیٹوں کے ایمان کے بارے میں خود بادشاہ کو آگاہ کر دیا اور بادشاہ سے کہا
کہ آپ کسی طرح انہیں سیدھے راستے (شرک )پہ لگا دیں ۔بادشاہ نے ان نوجوانوں
کو فرداً فرداً اپنے دربار میں بلایا اور انہیں سمجھانے کی کوشش کی ۔ یہ
نوجوان پختہ ایمان والے تھے انہوں نے بادشاہ کے سوالات کا مدلل جواب دیا
اور اس سے بھرپور مناظرہ کیا ۔
وَرَبَطْنَا عَلٰی قُلُوبِھِمْ اِذْ قَامُوافَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ
السَّمٰوٰتِ وَ الاَرْضِ لَنْ نَدْعُوَاْ مِنْ دُونِہِ اِلٰہاً لَقَدْ
قُلْنَا اِذًا شَطَطاً (الکہف 14)
اور ہم نے ان کے دل مظبوط کر دئے تھے جبکہ یہ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے
کہ ہمارا رب تو وہی ہے جوآسمان و زمین کا رب ہے یہ ہمارے لئے ممکن نہیں کہ
اسے چھوڑ کر کسی اور کو معبود بکاریں اور اگر ایسا کیا تو ہم نے نہایت ہی
غلط بات کہی ۔
الوہیت میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ربوبیت
میں بھی اسے یکا و تنہا ماننا ضروری ہے اور اسکی صفات میں بھی اسے یکتا
ماننا لازمی ہے ۔بادشاہ نے جب دیکھا کہ یہ لوگ اس سے زیادہ اچھی دلیل سے
اپنے موقف کا دفاع کرتے ہیں اور با آسانی اس کے قابو میں آنے والے نہیں تو
اس نے انہیں تین دن کا موقع دیا کہ اپنے دین کی طرف پلٹ آؤ ورنہ قتل ہونے
کے لئے تیار ہو جاؤ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سب اپنے پختہ ایمان کے سبب شرکیہ
محفل میں جانے سے باز رہے لیکن اپنے سامنے موت کو دیکھتے ہوئے مضطرب بھی
تھے ۔ ہر کوئی یہ سوچ رہا تھا کہ کیونکر اپنے عقیدے پہ قائم رہتے ہوئے ان
مشرکوں سے خود کو بچایا جا سکتا ہے ۔ چونکہ وہ سب ایک دوسرے کے حال سے واقف
نہ تھے اس لئے خاموشی اختیار کیے بیٹھے تھے ۔
آخر پہلے آئے نوجون نے سکوت توڑا اور سوالیہ انداز میں سب سے مخاطب ہوا کہ
تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ شہر کے لوگوں کی طرح میلے میں نہیں جاتے
؟میرا معاملہ تو یہ ہے کہ میں ان مشرکانہ عقائد کو نہیں مانتا جن کی اسیر
اس وقت پوری بستی اور اس کے حکمران ہیں ۔ یہ سب اس ایک اللہ جس کا کوئی
شریک نہیں کو چھوڑ کر اصنام پرستی کا شکار ہو چکے ہیں۔ میں اللہ کی وحدانیت
کا قائل ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیراتا۔اسی لئے میں بستی
والوں سے اور ان کی جاہلانہ رسومات سے بغاوت کر کے یہاں آیا ہوں ۔ اس کے
الفاظ سن کر سب نے باری باری اپنے ایمان کا اعلان کرنا شروع کر دیا ۔ سب کی
ایک ہی کیفیت تھی اور سب کے ساتھ ایک ہی طرح کے حالات درپیش تھے ۔ ان سب کو
تین دن کی مہلت ملی تھی کہ وہ زندگی کا عقیدے میں سے کسی ایک کا انتخاب
کریں ۔ یہ سب ایک ہی کشتی کے سوار نکلے ۔
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
اب یہاں میرے رازداں اور بھی ہیں
سب نے مل کر یہ تہیہ کیا کہ کسی صورت اپنے عقیدے سے نہیں پھریں گے ۔ دنیا
میں انسان کی سب سے قیمتی متاع اس کا عقیدہ ہے ۔ اللہ تعالٰی کو وہ لوگ
پسند ہیں جو اللہ کی وحدانیت اور آخرت کے حق ہونے کے عقیدے کو مانتے ہیں
اور اس پہ ڈٹ جاتے ہیں اور جان قربان کر دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔لیکن
سوال تو یہ تھا کہ بستی کے لوگ ظالم تھے اور اہل شرک مقتدر وہ کسی صورت
ہمیں ہمارے عقیدے پہ رہنے نہیں دیں گے ۔یا تو ہمیں اپنے دین سے ہٹا دیں گے
یا ہمیں قتل کر دیں گے ۔ لہذا اس بستی کو چھوڑ کر کسی ایسی جگہ چلتے ہیں
جہاں اللہ اور اس کے رسول ؑ کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا آسان ہو ۔کسی
دنیاوی سہارے پہ اعتماد کرنے کے بجائے وہ خود کو اللہ کی پناہ میں دیتے ہیں
اور ہر حال میں اپنے دین کو بچانے کی ٹھان لیتے ہیں وہ اب ایک جماعت بن چکے
تھے بیک وقت اٹھے اور محفوظ مقام کی جانب روانہ ہو گئے ۔ عقیدے کا تحفظ
لازمی ہے اس کے لئے ہجرت کر کے ایسی جگہ جانا چاہئے جہاں عقیدے کے مطابق
زندگی گزارنا آسان ہو۔ دنیاوی آسائشوں ، عُہدوں اور تعلق واسطےکی خاطر
عقیدے کوپس پشت نہیں ڈالنا چاہئے ۔
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الّا اللہ
بستی کا ایک کُتا جو اِن اولیاء اللہ کی بات چیت سن رہا تھا ان کے پیچھے ہو
لیا ۔ ان نوجوانوں نے اسے دھتکارنے کی بہتیری کوشش کی لیکن وہ ان کے پیچھے
پیچھے چلتا ہی گیا ۔ آخر انہوں نےاسے پیچھے آنے کی جازت دے ہی ڈالی ۔ یہ
لوگ بستی سے نکل کر ایک غار کی جانب گئے اور وہاں جاکر پناہ گزین ہو جاتے
ہیں اور ان کے پیچھے چلنے والا کتا غار کے دھانے پہ بازو پھیلا کر بیٹھ
جاتا ہے جیسے رکھوالی کر رہا ہو ۔ان کی اس حالت کو قرآن عظیم الشان اس طرح
بیان کرتا ہے
اِذْ اَوَی الفِتْیَۃُاِلَی الکَہْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا اٰتِنَا مِنْ
لَدُنْکَ رَحْمَۃًوَّ ھَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا (الکہف 10)
ان چند نوجوانوں نے جب غار میں پناہ لی تو دعا کی کہ اے پروردگار ہمیں اپنے
پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں ہمارے لئے راہ یابی کو آسان بنا۔
اللہ کے علاوہ کوئی اور مشکل کشا نہیں ،مشکل میں صرف اللہ کو ہی مشکل کشا
ماننا چاہیئے اللہ کے ولیوں کا یہی وطیرہ ہے۔ جو اپنی زندگیوں میں اللہ کی
مدد کے محتاج رہے وہ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کسی کی مشکل کشائی کیونکر کر
سکتے ہیں ۔ غار میں پہنچ کر یہ سب دوست آرام کی نیت سے سو جاتے ہیں ۔جو لوگ
رب کی رضا کے لئے خود کو وقف کر دیتے ہیں اللہ بھی ان سے راضی ہو جاتا ہے
اور انہیں وہ مقام دیتا ہے جو ان کے تصور میں بھی نہیں ہوتا ۔ان اللہ کے
یاروں کو اللہ غار میں ایسے پناہ دیتا ہے کہ ان پہ نیند کو طول دے دیتا ہے
، ان کے کانوں سے سننے کی حس کو اٹھا لیتا ہے اور یہ کروٹیں بدلتے رہتے ہیں
یہاں تک کہ نیند ہی نیند میں وہ تین سو نو (309) برس تک سوئے رہتے ہیں ۔
وقت اپنی رفتار سے چلتا رہتا ہے اور تغیرات زمانہ برپا ہوتے رہتے ہیں لیکن
اس عرصہ میں کوئی درندہ یا زہریلہ جانور ان کی جانب نہیں آتا ، کوئی انسان
ان کی مدہوشی میں ان کی جانب نہیں آتا اور اگر آتا بھی تو انکے رعب کی تاب
نہ لا کر واپس لوٹ جاتا۔ سورج کی شعائیں تک انہیں بیدار نہیں کرتیں ،کروٹیں
بدلنے سے ان پر بیدار ہونے کا گمان ہوتا،مٹی ان کے جسموں کو نقصان نہیں
پہنچاتی ، اور یہ اللہ کے ولی تین صدیوں سے زائد بغیر خورونوش کے سوتے رہتے
ہیں ۔یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ اپنے محبوب بندوں کی جس طرح چاہے حفاظت
فرماتاہے ۔
وقت بدلتا ہے حالات بدلتے ہیں اور یہ اللہ کے ولی دنیا ما فیہا سے بے خبر
اللہ کی رحمت تلے سو رہے ہیں ۔ اس اثناء میں گرد و پیش کی آبادیاں بھی اسی
روشنی سے منور ہو جاتی ہیں جس روشنی نے ان اولیاء اللہ کے سینوں کو منور
کیا تھا۔ بادشاہ سمیت رعایا حضرت مسیح ؑکی تعلیمات کو اپنا چکی ہے ۔اور
بستی کا حکمران اللہ کے حضور سجدہ ریز ہے اور گڑگڑا کر دعا کر رہا ہے کہ اے
اللہ زندگی بعد الموت سے انکارکا جو فتنہ زور پکڑ رہا ہے اور لوگوں کو
گمراہ کر رہا ہے اے اللہ اپنے فضل سے کوئی ایسا معجزہ رونما فرما جس کے
ذریعے لوگوں کے عقیدے کی اصلاح ہو سکے ۔ ادھر دعا قبول ہوتی ہے اور غار
والے بیدار ہوتے ہیں ۔ واقعات جوہمارے سامنے رونما ہوتے ہیں وہ اللہ کی
تدبیر کے ساتھ رونما ہوتے ہیں یہ محض حوادث نہیں ہوتے ۔ بیدار ہونے کے بعد
وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کتنا وقت گزر گیا کچھ کہتے ہیں دن گزرا کچھ
کہتے ہیں دن سے کچھ زیا دہ گزرا۔ غیب کا علم صرف اللہ کو حاصل ہے اور کوئی
بھی ولی اللہ غیب کے علم پہ دسترس نہیں رکھتا اگر ایسا ہو سکتا تو یہ اللہ
کے ولی اپنی خوابیدگی کی مدت سے ضرور آگاہ ہوتے۔وہ ایک ساتھی کو تیار کرتے
ہیں کہ جائے اور جاکر ان کے لئے پاک رزق کا بندوبست کرے اور ساتھ ہی اسے
نصیحت کرتے ہیں کہ دیکھو کسی کو بھی اپنے بارے میں کچھ نہ بتانا ورنہ مارے
جاؤ گے یا پھر اسی گمراہی میں لوٹا دئے جاؤ گے ۔ جب یہ نوجوان سکے لئے
بازار کے لئے روانہ ہوتا ہے تواپنے ارد گرد کے ماحول کو بدلا محسوس کرتا ہے
لیکن کسی سے کچھ کہے بنا کھانے کی تلاش میں بازار تک پہنچتا ہے ۔ جب اشیا ء
کا سودا طے کر لیتا ہے اور قیمت کے طور پر سکے دکاندار کو دیتا ہے تو
دکاندار کہتا ہے یہ کس دور کے سکے لے آئے بھئی ۔ وہ بازار کے دیگر افراد کو
بھی جمع کر لیتا ہے سب ان سکون کا معائنہ کرتے ہیں ۔ کوئی سیانہ کہتا ہے یہ
تو تین صدیاں پہلے کا سکہ ہے اس پہ اس وقت کے بادشاہ کا نام کندہ ہے ۔لوگ
خیال کرتے ہیں کہ اس شخص کو دفینہ ملا ہے وہ پوچھ گچھ شروع کر دیتے ہیں ۔
اس اچناء میں ایک مجمع اس کے ارد فرد جمع ہو جاتا ہے ۔ وہ لوگوں کو بتاتا
ہے کہ وہ ابھی ایک یا دو دن پہلے غار میں گئے تھے اور وہاں سو گئے تھے اور
ابھی بیدار ہو کر کھانا لینے آیا ہوں میرے باقی ساتھی ابھی تک غار میں
بیٹھے ہیں ۔ لوگوں کا ہجوم دیکھ کر سرکاری اہلکار بھی وہاں آجاتے ہیں اور
اس نوجوان کو بادشاہ کے پاس لے جاتے ہیں ۔ مجمع بھی دربار کی جانب روانہ
ہوتا ہے ۔ بادشاہ اور رعایا کو اپنا ہم مذہب پا کر نوجوان کو حوصلہ ہوتا ہے
اور وہ اپنا قصہ بیان کر دیتا ہے ۔ بادشاہ اپنے ریکارڈ سے معلوم کراتا ہے
تو اس امر کی بھی تصدیق ہو جاتی ہے کہ تین سو برس پہلے ایک مشرک اور ظالم
حکمران غزرا ہے جس نے توحید کے متوالون پہ عرصہ ٔ حیات تنگ کر رکھا تھا ۔
اور اسی بادشاہ کے دور میں کچھ اعلٰی گھرانون کے نوجوان لاپتہ بھی ہو گئے
تھے ۔بادشاہ اس نوجوان سے کہتا ہے کہ مجھے اور اس سب مجمے کو وہاں لے چلو ۔
وہ غار کی جانب چل پڑتا ہے اور یہ سب لوگ بادشاہ کے ہمراہ اس کے پیچھے
پیچھے غار کی جانب چل پڑتے ہیں ۔ غار کے دھانے پہ پہنچ کر وہ سب کو رکنے کے
لئے کہتا ہے اور اندر جا کر ساتھیوں کو سب حال سناتا ہے ۔ وہ سب یہ جان کر
خوش ہوتے ہیں کہ اب ان کے دین کو کوئی خطرہ نہیں ۔ مجمے کے لوگ باہر کھڑے
انہیں باتیں کرتے دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ نوجوان خود کو مامون پا کر پھر سو
جاتے ہیں لیکن اس بار وہ ابدی نیند سو جا تے ہیں ۔ کافی دیر گزرنے کے بعد
جب وہ نوجوان باہر نہ آئے تو بادشاہ کے ہمراہ لوگ اندر داخل ہوتے ہیں اور
ان افراد کو موت کی حالت میں پاتے ہیں۔
لوگ اختلاف کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ۔ایک
گروہ نے کہا کہ ان اولیا اللہ کی غار کے سامنے کوئی یادگار تعمیر کر دی
جائے تاکہ انہیں یاد رکھا جائے اور کچھ نے کہا کہ ان کے مقام پہ عبادت
گاہ(مسجد) بنا دی جائے ۔ چنانچہ بادشاہ نے غار کے دھانے پہ کتبہ لکھ کر
لگوا دیا جس پہ تحریر تھا کہ یہ اللہ کے ان نیک بندوں کا مدفن ہے اور غار
سے متصل عبادت گاہ تعمیر کر دی ۔
اللہ کو یہ نوجوان انتہائی محبوب تھے اسی لئے ان کا ذکر خیر قرآن پاک میں
فرمایاہے۔
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ نَبَأَ ھُمْ بِالْحَقِّ اِنَّھُمْ فِتْیَۃٌ اٰ
مَنُوا بِرَبِّھِمْ وَ زِدْنٰھُمْ ھُدًی الکہف 13
ہم ان کا صحیح واقعہ تیرے سامنے بیان کر رہے ہیں یہ چند نوجوان اپنے رب پر
ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی دی تھی ۔
لیکن یہ ذکر محض قصہ گوئی کی غرض سے نہیں کیا بلکہ ان نوجوانوں کے چلن کو
مثال بناکر پیش کیا ہے تاکہ امت مسلمہ کے نوجوان نامساعد حالات میں یہی روش
اختیار کریں جو اصحاب کہف نے اپنائی تھی ۔ شریعت عیسی ؑ میں نامساعد حالات
میں ترک دنیا کی اجازت بھی تھی اسلئے اس دور کے اولیاء نے غاروں میں پناہ
لی لیکن متاخرین نے ترک دنیا کو شعار بنا لیا اور رہبانیت کو تقوی کا معیار
گردانا۔ اس کے برعکس شریعت محمدی ﷺمیں ترک دنیا کی گنجائش نہیں البتہ ہجرت
اور جہاد کا حکم ہے کہ ایسی صورت میں کسی ایسی جگہ جایا جائے جہاں دین کے
مطابق زندگی گزارنا آسان ہو یا سینہ سپر ہو کر اہل باطل کا مردانہ وار
مقابلہ کیا جائے ۔
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر ِخانقاہی ہے فقط اندوہ و دل گیری
نبی ﷺ نے جہاد کو اپنی امت کی رہبانیت قرار دیا ہے ۔ اس سورۃکے نزول کے بعد
ہی اہل توحید نے پہلے حبشہ اور بعد ازاں مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی جو کہ
تاریخ انسانی میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
نبی ﷺ نے رہتی دنیا کے مسلمانوں کو جمعے کے دن سورۃ کہف پڑھنے کی تاکید
فرمائی ہے اور اسے قرب قیامت وقوع پزیر ہونے والے فتنہ ٔ دجال سے حفاظت کا
ذریعہ قرار دیا ہے ۔ ۔عصر حاضر میں بھی جب کفر کا غلغلہ ہوا تو اللہ کے
ولیوں اور مجاہدین ِاسلام نے باطل کے نرغے سے اپنا ایمان بچانے کے لئے
اصحاب کہف کی طرح غاروں میں پناہ لی لیکن ہم ان کے ہم مذہب ہی ان کی جان کے
دشمنوں سے جاملے اور انہیں غاروں میں بھی پناہ نہ لینے دی ان میں سے کوئی
تو جان کی بازی ہار گئے اور کچھ انہی اہل باطل کی قید میں دین پہ پامردی
دکھاتے ہوئے صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔اس دور ِپُر فتن میں ہم اصحاب کہف کا
کردار کیا نبھاتے ہم سے اس کتے کا کردار بھی ادا نہ ہوا جو ان اللہ والوں
کے قدموں کے پیچھے چلتا ہوا غار کے دھانے پہ بیٹھ گیا تھا۔ عہد پُرفتن میں
قرآن ہماری رہنمائی کر تاہے کہ اصحاب الکہف کی پیروی کرتے ہوئے اپنے دین و
ایمان کو بچانا لیکن ہمیں روشن مستقبل کی چکا چوند نے اندھا کر دیا اور ہم
صف دشمناں میں جا کھڑے ہوئے صف اول کے اتحادی کہلائے ۔اب اصحاب کہف کی یہ
داستاں ہمارے ضمیر پہ دستک دے کر سوال کر رہی ہے۔۔۔۔ کیا ہم مسلمان ہیں ؟
اللہ تعالیٰ ہماری خطاؤں سے درگزر فرمائے اور ہمیں اور ہماری آئندہ نسلوں
کو عصر حاضر اور مستقبل میں برپا ہونے والے فتن میں اصحاب الکہف کے کردار
کو نبھانے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے آمین ۔
|