اُتْلُ مَآاُوْحِی‘قرآن کریم کا اکیسواں (21) پارہ ہے ۔
اُتْلُ مَآاُوْحِی کامطلب ہے ’’اے نبی ﷺ اس کتاب کی تلاوت کیجئے ‘‘ ۔ یہ
پارہ چار سورتوں سُوْرَۃُ الْعَنْکَبُوْت کی آخری 25آیات، سُوْرَۃُ
الرُّوم، سُوْرَۃُ لُقْمٰن، سُوْرَۃُ السَّجْدَہ اور سُوْرَۃُ الْاحْزَابِ
کی 30آیات، بقیہ آیات اگلے پارہ میں ہیں ۔
سُوْرَۃُ الْعَنْکَبُوْت(آخری25آیات)
سورہ کی ابتدائی آیات میں ہجرت،مکہ میں مسلمانوں ہونے والوں کے ساتھ کفار
کی زیادتی، ظلم و مشکلات کا ذکر تھا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی حوصلہ
افزائی ،عزم و ہمت اور استقامت پیدا کرنے کی غرض سے یہ سور نازل فرمائی ۔
پارہ 20کی آخری آیت 44 میں کہا گیا تھا کہ’’ اللہ نے زمین اور آسمان حق
کے ساتھ پیدا کیے ، بلاشبہ اس میں مومنوں کے لیے عظیم نشانی ہے‘‘ ۔ پارہ
اکیس کے آغاز میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی ﷺ کو تلاوت کلام کریم اور
نماز قائم کرنے کی تلقین کی، اس لیے کہ یہ برے کاموں ، بے حیائی سے روکتی
ہے ۔ اہل کتاب جو اچھے ہوں سے بات کرو، جب کہ ظالموں سے گفتگو سے منع
فرمایا ۔ اللہ کا خطاب بظاہر اپنے نبی ﷺ سے ہے لیکن اصل میں مخاطَب تمام
اہل ا یمان ہیں ۔ غور و فکر کریں تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اللہ بڑی حکمت
والا ہے، اس نے ان حالات میں جب کہ مکہ کے کفار مسلمان ہونے والوں کے ساتھ
ظلم و زیادتی کررہے تھے ، اللہ چاہتا تو حکم دے سکتا تھا کہ جو سلوک وہ
تمہارے ساتھ کر رہے ہیں تم بھی وہی سلوک ان کے ساتھ کرولیکن نہیں ،اس نے
ایسا حکم نہیں دیا بلکہ ’قرآن کی تلاوت، اور نماز قائم ‘کرنے کا کہا ۔ اس
کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں عمل انسان کو ظلم و زیادتی سے روکتی ہیں ،
اور ان حالات میں خاص طور پر مسلمانوں کو مادی طاقت کے برعکس اَخلاقی قوت
کے مظاہرہ کی ضرورت تھی ۔ کفار نے نشانیاں طلب کیں ،کہا کہ ان پر یعنی
’نبیﷺ پر نشانیاں کیوں نہ اتاری گیں ‘ ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا
’’کہو : نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں اور میں صرف خبردار کرنے والا ہوں صاف
صاف ‘‘ ۔ پھر کہا کہ ’’کیا ان لوگوں کے لیے یہ نشانیاں کافی نہیں کہ ہم نے
تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ‘‘ ۔ اللہ نے قرآن کے
حافظوں کا ذکر کیا ، کہا یہ قرآن مجیدکا اعجاز ہے کہ قرآن مجید لفظ بہ
لفظ سینے میں محفوظ ہوجاتا ہے، اللہ نے اسے بھی ایک نشانی قرار دیا ، کہا
کہ کیا یہ نشانی ان کے لیے کافی نہیں ۔ اللہ نے فرمایا آیت 53 میں ’کہ یہ
پیغمبر کی بات ماننے کے بجائے کہتے ہیں کہ اگر تو سچا ہے توہم پر عذاب نازل
کروادے ‘ ۔ اللہ نے کہا کہ ’’اگر عذاب کا وقت مقررنہ ہوتا تو عذاب ضرور
آجاتا، اور وہ یقینا اچانک ہی آئے گا انہیں خبر تک نہ ہوگی‘‘ ۔ ’ہر
جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ، پھر ہماری طرف لوٹائے جاوَگے ‘ کہا اللہ
نے مشرکین ِ مکہ جو مسلمانوں کومحض توحید کی وجہ سے تکلیف پہنچارہے تھے ان
سے اگر پوچھا جائے کہ آسمان و زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا اور سورج
اور چاند کو اپنے اپنے مدار پر چلانے والا کون ہے;238; تو وہاں یہ اعتراز
کیے بغیر چارہ نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہے ۔ اس سورہ کے آخر
ی آیات میں اللہ تعالیٰ نے احسان کا تذکرہ فرمایا ہے، دین پر چلنے میں
دشواریوں کا ذکر کیا گیا ہے جن پر عمل کرنے سے دشواریاں ، آزمائشیں اور
مشکلات تو پیش آتی ہی ہیں ۔ لیکن دنیا و آخرت کے راستے پر چل کر ہی انسان
کواللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے ۔ نیکی کا حکم دیتے ہوئے آخری آیت69 میں کہا
گیا کہ ’’اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘ ۔
سُوْرَۃُ الرُّوم (مکمل)
سُوْرَۃُ الرُّوم مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے تیسویں
(30)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار 84ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 6رکو ،60آیات ہیں ۔
ایک تو اس سورہ میں روم کا ذکر ہے، دوم یہ کہ اس میں دو پیش گوئیاں کی گئیں
جو سچ ثابت ہوئیں ۔ ایک میں کہا گیا کہ نو سال کے اندر اندر روم (عیسائی)ایران
(بت پرست) کو شکست دے دیں گے، دوسری یہ کہ اس عرصہ میں مسلمان مشرکین قریش
پر فتح حاصل کر کے (بدر کی صورت میں ) جشن منائیں گے ۔ اس کے علاوہ توحید
کے حوالے سے اللہ کی عظمت کی نشانیاں بیان ہوئی ہیں ۔ یہ باتیں اس سورۃ کو
ممتاز بناتی ہیں ۔ یہ پیشن گوئیاں قرآن کریم کو کلام الہٰی ہونے اور محمد
ﷺ کے رسولِ برحق ہونے کی نمایاں ترین شہادتوں میں سے ایک ہے ۔
سورہ روم کی ابتداء اللہ نے اس بات سے کی کہ اے بنیﷺ! ہم آپ کو خبردے رہے
ہیں کہ عنقریب رومی، فارس(ایران) پر دوبارہ غالب آجائیں گے ۔ عہد رسالت
میں دو بڑی قوتیں تھیں ایک رومی جو اہل کتاب تھے یعنی عیسائی ، جب کہ فارس
یعنی ایران کی حکومت آتش پرست تھی ۔ یہاں مسلمان عیسائیوں سے ہمدردی رکھتے
تھے، کیونکہ وہ اہل کتاب تھے ۔ اللہ نے جو بات کہہ دی ہو وہ کیوں کر نہ
ہوگی، وہ تو پتھر پر لکیر کی حیثیت رکھتی ہے ، چنانچہ رومی حکومت ڈولنے لگی،
حالات ابتر سے ابتر ہوتے چلے گئے ۔ رومیوں کا بادشہ ’ہرقل‘ زوال کے اثرات
دیکھ کر بے بس ہوتا جارہا تھا ، رومی عیسائی جب کہ ایرانی مشرک اور آتش
پرست تھے، قرآن کی پیش گوئی تھی کہ نوسال کے اندر رومی ایرانیوں پر غالب
آجائیں گے،رومیوں کی ابتر حالات کو دیکھتے ہوئے مشرکین نے مسلمانوں کا
مزاق اڑایا اس لیے ان کی ہمدردریاں رومیوں کے ساتھ تھیں ، لیکن قرآن کیسے
غلط ثابت ہوسکتا ہے، پیش گوئی پوری ہوئی رومیوں نے ایرانیوں کو شکست دی ۔
توحید کے حوالے سے اللہ کی عظمت کی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ نے
فرمایا کہ انسان کو مٹی سے پید ا کیا، اپنی نشانی بیان کرتے ہوئے فرمایا
آیت 21 میں ’’اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیداکیں ، تاکہ تم
ان سے سکون حاصل کرو، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی ،بلاشبہ
غور و فکر کرنے والوں کے لیے عظیم نشانیاں ہیں ۔ دنیا میں بے شمار زبانوں
کا پیدا کردینا بھی اللہ کی قدرت میں سے ایک ہے، زبانوں کا ذکر آیت 22 میں
کیا گیاہے ۔ اسی طرح انسان کا سونا اور اللہ کا فضل تلاش کرنا بھی اللہ کی
نشانیوں میں سے ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اللہ اپنی بے شمار نشانیاں بیان کرتا ہی
چلا جاتا ہے ۔ پھر وہ مضمون بیان ہوا ہے جس میں انسان خوشی میں سب کچھ بھول
جاتا ہے اترانے لگتا ہے اور جب کوئی مشکل آجاتی ہے ، پریشانی میں مبتلا
ہوتا ہے تو نا امید ہوجاتا ہے ۔ آخرت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ
قیامت کے قریب دو گروہ ہوجائیں گے ایک مومنوں کا ، دوسرا کافروں کا، جنہوں
نے نیک عمل کیے وہ اس کا پھل پائیں گے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بنی ﷺ سے
مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ ہم نے تم سے پہلے بھی رسول بھیجے ، ان کی قوم نے
انہیں جھٹلایا ، کچھ نے ان کا ساتھ دیا، انہیں جھٹلانے والوں سے ہم نے
انتقام لیا جب کے ان کا ساتھ دینے والے کی مدد کی ۔ پھر اللہ کی مختلف
نعمتوں کا تذکرہ ہے جیسے بارش کا برسنا، زمین کو ویران ہونے کے بعد پھر سے
آبادہوجانا یعنی فصل پیدا کرنا، پھر کہا آیت 50 میں ’’بے شک وہ ضرور
مُردوں کو زندہ کرنے والا ہے، اور ہر چیز پر خوب قادر ہے‘‘ ۔ آیت54سے اللہ
تعالیٰ اپنی قدرت کا ایک اور کمال بیان فرمارہا ہے ، مختلف اطوار سے انسان
کی تخلیق ۔ یعنی انسان کمزوری کی حالت میں پیدا ہوتا ہے رفتہ رفتہ اس کی
نشو نما ہوتی ہے، طاقت والا بن جاتا ہے،قوت کے بعد پھر کمزور اور بڑھاپے کی
جانب چلا جاتا ہے ۔ انسان کی زندگی کے یہ ادوار اللہ ہی کی عطا اور کرم سے
ہے ۔ سورۃکا اختتام صبر کی تلقین پر ہوتا ہے ۔ اللہ فرماتا ہے آیت 60 میں
آپ صبر کیجئے !بلا شبہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، اور آپ کو وہ لوگ بے صبر نہ
کردیں جویقین نہیں رکھتے‘‘ ۔ یعنی آپﷺ کو غضب ناک کر کے صبر و حلم ترک
کرنے یا مدہنت پر مجبور نہ کردیں بلکہ آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور اس سے
انحراف نہ کریں ۔
سُوْرَۃُ لُقْمٰن(مکمل)
سُوْرَۃُ لُقْمٰنمکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے اکتیسو یں
(31)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار 57ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 4رکو اور34آیات ہیں
۔ اس سورہ میں لقمان کی وہ نصیحتیں ہیں جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں ،
اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام سورۃ لقمان رکھاگیا ۔ اس سورہ کا نزول بھی اس
وقت ہوا جب مکہ المکرمہ میں اعلان حق کیا جاچکا تھا، لوگ اللہ کے نبی کی
دعوت پر لبیک کہہ رہے تھے ، اس کے ساتھ ہی مشرکین مکہ جنہیں اللہ کے نبیﷺ
کی باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا وہ اللہ کے پیغام کو روکنے کے لیے مختلف
ہتھ کنڈے استعمال کر رہے تھے، مسلمان ہونے والوں پر طرح طرح کی ظلم ڈھارہے
تھے ۔ سابقہ سورتوں میں بھی اللہ نے ان حالات اور مکہ کے مشرکین کی ریشا
دوانیوں ، ظلم و زیادتی کا ذکر کیا ہے، اور انہیں منع کرتے ہوئے ان پر عذاب
کی نوید بھی سنائی ۔ اس سورہ میں شرک کی خرابی اور توحید کی صداقت پر بھی
بات کی گئی ہے ۔ اندھی تقلید کو چھوڑ کر اللہ کے آخری بنی کے پیغام کو
سنیں اور اس پر عمل کریں ۔
ابتدائی آیت میں کہا گیا ’’یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں ، ہدایت اور رحمت
نیکوکار لوگوں کے لیے ، جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت
پر یقین رکھتے ہیں ، یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور یہی
فلاح پانے والے ہیں ‘‘ ۔ اللہ کا پیغام بہت واضح اور دو ٹوک ہے، قرآن اللہ
کی کتاب ، نماز، زکوٰۃ اور آخرت پر ایمان ۔ جن لوگوں نے انکار کیا ان کے
لیے سخت عذاب ، جو ایمان لائے جنت کی خوشخبری سنائی اللہ نے ۔ پھر اللہ
اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے ، آسمانوں ، زمین ، پہاڑ، جانور، بارش، زمین سے
فصلیں اور بہت کچھ ، اللہ کہتا ہے کہ اب ’’مجھے دکھاوَ، اِن دوسروں نے کیا
پیدا کیا;238;یہ ظالم اور گمراہ لوگ ہے ۔
اللہ نے آیت12 میں ’حکیم لقمان‘ کو حکمت عطا کرنے کا ذکرکیا، یاد دلایا
اللہ پاک نے! جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا ’’اے
میرے پیارے بیٹے!خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑ
ا ظلم ہے ‘‘ ۔ پھر کہا کہ ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا
حکم دیا ہے ۔ پھر آیت19-16 میں لقمان نے کہا ’’اے میرے پیارے بیٹے! کوئی
چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین
میں کہیں چھپی ہو ، اللہ اُسے نکال لائے گا، وہ باریک بیں اور باخبر ہے‘ ۔
اے میرے پیارے بیٹے !تو نماز قائم کر، اورنیکی کا حکم دے ،بدی سے منع کر،
اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر،بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے، پھر
کہا کہ ’’تکبر اورغرورسے اپنے رخسارکو لوگوں سے نہ پھیر اور زمین پر اکڑ کر
نہ چل، بے شک اللہ ہر مغرور اور ڈینگیں مارنے والے کو پسند نہیں کرتا ، اور
تو اپنی چال درمیانی رکھ ، اور اپنی آوز دھیمی رکھ‘‘ ۔ ایک اچھے انسان کو
زندگی گزارنے کے لیے جن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ایک اچھا شہری بننے کے
لیے وہ تمام کی تمام یہاں بیان کردی گئیں ہیں ۔ آیت 27 میں اللہ کی
کبریائی بیان ہوئی ہے ۔ اللہ کی تعریف کے لیے انسان جس قدر بھی اشیاء کا
استعمال کر لے کم ہے ، ارشاد ربانی ہے ’’بلا شبہ اگر زمین میں جتنے درخت
ہیں سب قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی بن جائے اور اس کے بعد سات سمندر اس
میں مزید روشنائی شامل کریں تو بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں ، بے شک اللہ
نہایت غالب، بہت حکمت والا ہے‘‘ ۔ اس سورہ کی آخری آیت34 میں فرمایا ’’بے
شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش نازل کرتا ہے، اور سہی
جانتا ہے ماؤں کے پیٹوں میں ہے، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام
کرے گا، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا، بے شک اللہ خوب
جاننے والا ، خوب باخبر ہے‘‘ ۔ بے شک اللہ بڑا حکمت والا ہے ۔
;230; سُوْرَۃُ السَّجْدَہ
سُوْرَۃُ السَّجْدَہمکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے بتیسویں
(32)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار 75ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 3رکو ،30آیات ہیں ۔
قرآن کی عظمت اورتوحید اس سورہ کے بنیادی موضوعات ہیں ۔ اس سورہ کی آیت
15 میں سجدہ کا تذکرہ آیاہے اسی کو سامنے رکھتے ہوئے اس سورہ کا نام سورہ
سجدہ قرار پایا ۔ مکی سورت کے موضوعات سابقہ سورتوں میں بیان ہونے والے
موضوعات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس سورہ کا نزول
بھی مکہ کے انہی حالات میں ہوا جب کفار کا ظلم عروج پر تھا ۔ موضوعات میں
توحید، آخرت اور رسالت کے متعلق کفار کے شکوک و شبہات کو دور کرنا، انہیں
ایمان کی دعوت دیناہے ۔
سورہ سجدہ کی پہلی آیت میں کہا گیا ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب کا
نزول رب العالمین کی طرف سے ہے ۔ کفار کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے جس
میں ان کا کہنا تھا کہ یہ قرآن ان کا پنا گھڑا ہوا ہے، آیت 3 میں اللہ نے
فرمایا ’’کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نبی نے اسے گھڑ لیا ہے، نہیں ، بلکہ وہ آپ
کے رب کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے
کوئی ڈرانے والا نہیں آیا ، شایدکہ وہ ہدکت پائیں ‘‘ ۔ دوسرا اعتراض کفار
یہ کیا کرتے تھے کہ نبی ﷺ ان کے بتوں کو خدا نہیں مانتے بلکہ ان کی معبودیت
سے انکار کیا کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس یہ دعوت دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی
معبود نہیں ، کفار کے اس اعتراض کا جواب اللہ نے آیت 5-4 میں دیا فرمایا
اللہ نے ’’وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے
درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرماہوا، اس کے
سوا نہ تمہارا کوئی حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کے آگے سفارش کرنے
والا ، پھر کیا تم ہوش میں نہ آوگے;238; وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے
معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اس کے حضور جاتی ہے ایک
ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے‘‘ ۔ اس کے بعد
اللہ نے انسان کی پیدائش اور اس کی نسل کو بڑھانے کا ذکر کیا ۔ کفار کا یہ
بھی اعتراض تھا کہ نبی ﷺ کا کہنا ہے کہ ہ میں مرنے کے بعد پھر زندہ کیاجانے
کی خبردیتا ہے، حساب کتاب ہوگا، اور دوزخ اور جنت ہوگی، ہمارے دیوی دیوتا
اور بزرگ کوئی چیز نہیں ، بس اکیلا ایک خدا ہی معبود ہے ۔ اللہ نے آیت 11
میں انہیں جواب دیا کہ ’’ان سے کہو ! موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا
گیا ہے تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا اور پھر تم اپنے رب کی
طرف پلٹالائے جاوَگے‘‘ ۔ پھر اللہ نے کہا ’’کاش ! تم دیکھو وہ وقت جب یہ
مُجرم سرجھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے اس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے ، اے
ہمارے رب ! ہم نے خو دیکھ لیا اور سن لیا ، اب ہ میں واپس بھیج دے تاکہ ہم
نیک عمل کریں ، ہ میں اب یقین آگیا ہے ۔ جواب میں ارشاد ہوگا’اگر ہم چاہتے
تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدیت دے دیتے، مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو
میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دونگا ۔ پس اب
چھکومزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کردیا، ہم نے
بھی اب تمہیں فراموش کردیا ہے ۔ چکھو ہمیشگی کے عذاب کا مزا اپنے کرتوتوں
کی پاداش میں ‘‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام کو کتاب اوربنی اسرائیل کے لیے ہدایت
بنانے کا تذکرہ آیت23 میں کیا گیا ہے ۔ یہ اس بات کی تنبیہ ہے کہ محمدﷺ
اور موسیٰ علیہ السلام کی رسالت میں مشابہت پائی جاتی ہے ۔ موسیٰ کو بنی
اسرئیل کے لیے نبی بنا کر بھیجا جب کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ پوری دنیا
کے لیے ہدایت ہیں ۔ یہاں سورہ سجدہ کا اختتام ہوتا ہے ۔
سُوْرَۃُالْاحْزَابِ(ابتدائی 30آیات
سُوْرَۃُالْاحْزَابِ مدنی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے
تینتیسویں (33)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار 90 سورۃ ہے ۔ اس میں 9رکو
،73آیات ہیں ۔ یہا ں اس سورہ کی ابتدائی 30آیا کا خلاصہ ہیں ، اس سورہ کے
موضوعات میں امت کواللہ نے ڈرنے، کافروں اور منافقوں کی آراء کی تباع نہ
کرنے، وحی ِ الہٰی کی اتباع کرنے اور اعتماد اور بھروسہ کرنے کا حکم دیا
گیا، زمانہ جاہلیت کے بعض معتقدات اور عادات کی تردید کی گئی، سینے میں دو
دلوں کی وضاحت کی گئی، بیوی کو ماں جیسے کہنے، منہ بولے بیٹے کا شرعی تصور،
دو غزوات یعنی غزوہ احزاب اور غزوہ بنی قریظہ کا ذکر ہے ۔ غزوہ احزاب کے
ذکر کی وجہ سے یہ سورہ ’احزاب‘ کہلائی ۔
سورہ احزاب کی پہلی آیت میں نبی ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’ اے
نبی! اللہ سے ڈرتے رہیے ، یعنی تقویٰ اور تبلیغ و دعوت میں استقامت کاحکم
ہے، پھر کہا کہ ’اور کافروں اورمنافقوں کی اطاعت نہ کیجئے، بے شک اللہ سب
کچھ جاننے والا، خوب حکمت والا ہے‘، پھر جووحی کی جاتی ہے اس کا اتباع کرنے
کا حکم دیا ۔ ایک منافق نے یہ دعویٰ کیا کہ اس کے سینے میں دو دل ہیں ، ایک
مسلمانوں کے ساتھ اور دوسرا کفر اور کافروں کے ساتھ ۔ اللہ تعالیٰ نے آیت
4 میں کہا ’’اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں رکھے‘‘ ۔ ایک مسئلے کی
وضاحت کی کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو یہ کہہ دے کہ تو میرے لیے ایسے ہی
ہے جیسے میری ماں کی پشت، اللہ نے آیت نازل فرمائی ’’اور تم اپنی جن
بیویوں کو ماں کہہ بیٹھتے ہو ، انہیں اس اللہ نے تمہاری مائیں نہیں بنایا‘‘
۔ اس طرح آیت5 میں منہ بولے یا لے پالک بیٹے کے بارے میں اللہ نے صاف صاف
الفاظ میں وضاحت کردی ہے، فرمایا گیا ’’لے پالکوں کو ان کے حقیقی باپوں کی
نسبت سے پکارو، اللہ کے نزدیک یہ بہت انصاف کی بات ہے ،پھر اگر تمہیں ان کے
باپوں کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں ‘‘ ۔ اللہ آپ ﷺ
کی شفقت اور خیر خواہی کو دیکھتے ہوئے آپ کو مومنوں کے اپنے نفسوں سے بھی
زیادہ حق دار قراردیا، آیت 6 میں ’نبی کی بیویاں مومن مردوں اورمومن
عورتوں کی مائیں ہیں ‘ ۔ عہد لینے کا ذکر ہے فرمایا آیت 7 میں ’’یاد کریں
جب ہم نے تمام نبیوں سے ان کا عہد لیا اور آپ سے بھی اور نوح اور ابرہیم
اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی، اور ان سے ہم نے پختہ عہد لیا‘‘ ۔ یہ
ایک دوسرے کی مدد اور تصدیق کا انبیاء سے لیا گیا تھا، اس میں اللہ نے
نبیوں سے پوچھا کہ انہوں نے اللہ کا پیغام اپنی قوم تک ٹھیک طریقے سے پہنچا
دیا تھا;238;
اس کے بعد نویں آیت سے غزوہ احزاب کا ذکر شروع ہوتا ہے ۔ فرمایا اللہ
تعالیٰ نے اے ایمان والو! تم اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو، جب تمہیں
کفار کے لشکروں نے آلیا تھا ،پھر ہم نے ان پر آندھی اور فرشتوں کے ایسے
لشکر بھیجے جنہیں تم نے دیکھا نہیں اور تم جو عمل کرتے ہو اللہ اسے خوب
دیکھ رہا ہے‘‘ ۔ غزوہ احزاب 5ہجری میں پیش آیا، اس کو غزوہ احزاب اس لیے
کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر اسلام دشمن گروہ جمع ہوکر مسلمانوں کے مرکز’
مدینہ منورہ‘کے اطراف میں حملہ آور ہوئے تھے ۔ اسے جنگ خندق بھی کہتے ہیں
بلکہ یہ جنگ خندق کے نام سے زیادہ مشہور ہے ، اس لیے کہ مسلمانوں نے اپنے
بچاوَ کے لیے مدینے کے اطراف میں خندق کھود تھی تاکہ دشمن مدینے کے اندر نہ
آسکیں ، مشرکین مکہ کی قیادت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس تھی جو اس وقت
تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ خندق حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے
کھودی گئی تھی، کفار کا محاصرہ ایک ماہ تک رہا ، اس سے مسلمان سخت پریشان
رہے ۔ بالآ خر اللہ تعالیٰ نے غیب سے مدد فرمائی ، تیز و تند طوفانی
ہوائیں ، آندھی کی شکل میں آئیں جس نے کفار کے خیموں کو اکھاڑ پھینکا،
جانوررسیاں تڑا کر بھاگ کھڑے ہوئے ، ہانڈیاں الٹ گئیں اور کفار کے لشکر
بھاگنے پر مجبور ہوگئے ۔ اللہ کی اس غیبی مدد کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ۔ ان
آیات میں جنگ خندق کے حالات ، واقعات کا تفصیل سے ذکر ہے ۔
اس کے بعد غزوہَ بنی قریظہ کا ذکر ہے،مدینہ کے قریب آباد قبیلہ بنی قریظہ
نے غزوہ احزاب میں عہد کی خلاف ورز کرتے ہوئے مشرکوں اور دوسرے یہودیوں کا
ساتھ دیا تھا، چنانچہ جنگ احزاب سے واپس آکر رسول اللہ ﷺابھی غسل ہی
فرماسکے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے ، کہا کہ آپ نے ہتھیار
رکھ دیے;238; ہم فرشتوں نے تو نہیں رکھے ۔ چلیے اب بنو قریظہ کے ساتھ نمٹنا
ہے، مجھے اللہ نے اسی لیے آپ کی طرف بھیجا ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے مسلمانوں
میں اعلان فرمادیا کہ عصر کی نماز وہاں جاکر پڑھنی ہے ۔ ان کی آبادی مدینہ
سے چند میل کے فاصلے پر تھی ۔ یہ اپنے قلعوں میں بند ہوگئے ، باہر سے
مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کر لیا جو کم و بیش پجیس روز جاری رہا ، بالآخر
انہوں نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو اپنا ثالث تسلیم کر لیا جو فیصلہ
ہماری بابت دیں گے ہ میں منظور ہوگا، چناچہ انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان
میں سے لڑنے والوں کو قتل اور بچوں ، عورتوں کو قیدی بنالیا جائے اور ان کا
مال مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے ۔ نبیﷺ نے یہ فیصلہ سن کر فرمایا کہ یہی
فیصلہ آسمانوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کا بھی ہے ۔ اس کے مطابق ان کے
جنگجوافراد کی گردنیں اڑا دی گیں اور مدینہ کو ان کے ناپاک وجود سے پاک
کردیا گیا ۔
سورہ احزاب کی آیت 28تا 30 میں اللہ نے نبی ﷺ کو مخاطب کیا ان کی بیویوں
کو پیغام دینے کے لیے ارشاد ِباری تعالیٰ ہوا ’’اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ
دیجئے : اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آوَ میں تمہیں
کچھ دنیوی فائدہ دوں اور تمہیں اچھے طریقے سے رخصت کردوں اور اگر تم اللہ
اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہو، تو اللہ نے تم میں سے نیک
کام کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے، اے نبی کی بیویو! تم
سے جو کوئی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرے، اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا، اور
اللہ کے لیے یہ نہایت آسان ہے‘‘ ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت اس وقت
نازل فرمائی جب فتوحات کا دور شروع ہوا تو ازواج مطہرات نے حضور اکرم ﷺ سے
درخواست کی کہ ہمارے وظیفہ اور نفقہ میں کچھ اضافہ کردیاجائے ، اس موقع پر
یہ آیات نازل ہوئیں ۔ ان میں انہیں دوباتوں میں سے ایک کا اختیار دیا گیا
کہ وہ خوشحالی کی زندگی گزانے کے لیے علیحدگی اختیار کر لیں یا اپنی آخرت
سنوارلیں ، تمام ازواج مطہرات نے آخرت سنوار نے کو ترجیح دی ۔ اس موضوع کی
مزید تفصیل پارہ 22 میں آئے گے، یہاں آیت 30پر پارہ 21اختتام ہوتا ہے ۔
(21رمضان المبارک 1440ھ ،27 مئی2019ء) |