ورلڈکپ جیتنا یقیناً آسان نہیں ہے۔ مایہ ناز انڈین بلے
باز سچن تندولکر سے ہی پوچھ لیں۔ اس عظیم شخص کو ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھانے
کے لیے چھ بار کوشش کرنا پڑی۔
|
|
سچن تندولکر نے 1989 میں ایک روزہ میچوں میں ڈیبیو کیا اور پھر دیکھتے ہی
دیکھتے دنیا کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز بن گئے۔
لیکن اپنے 23 سالہ طویل کیریئر میں انھوں نے چھ ورلڈ کپ کھیلے جن میں سے
پہلے پانچ میں وہ انڈیا کو عالمی کپ دلانے میں ناکام رہے۔ لیکن 2011 کے
ورلڈ کپ میں یہ ٹائٹل انڈیا کے نام ہوا۔ یہ سچن کے کیریئر کا آخری ورلڈ کپ
تھا۔
اگر ہم کرکٹ کے عالمی کپ کی مختصر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں مختلف
ادوار میں کچھ ٹیمیں کرکٹ کی دنیا پر راج کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
ایک عرصے تک ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا نے دنیائے کرکٹ پر اپنی دھاک بٹھائے
رکھی۔ ویسٹ انڈیز نے 70 کی دہائی میں پہلے دو ورلڈ کپ اپنے نام کیے جبکہ
سنہ 1999 سے سنہ 2007 تک آسٹریلیا نے مسلسل تین دفعہ ورلڈکپ کی ٹرافی
اٹھائی۔
اس پسِ منظر میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ان ادوار میں دوسری ٹیموں
سے بہت سے ایسے عظیم کھلاڑی ہوں گے جنھیں یہ اعزاز نصیب نہیں ہوا۔ اس حوالے
سے جنوبی افریقہ، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے کھلاڑی سب سے زیادہ بدقسمت رہے۔
آئی سی سی نے 10 ایسے عظیم کھلاڑیوں کی فہرست جاری کی ہے جو ورلڈکپ نہیں
جیت سکے۔ ورلڈ کپ جیتنے کی مختصر فہرست میں ایسے بہت سے کھلاڑی شامل نہیں
ہوسکے جن کا شمار دنیا کے عظیم ترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔
جیسے جنوبی افریقہ کے بالر ایلن ڈونلڈ اور ویسٹ انڈیز کے کورٹنی واش اور
کرٹلی ایمبروز۔ اسی طرح نیوزی لینڈ کے عظیم بلے باز مارٹن کرو اور پاکستان
کے ظہیر عباس بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
اور انگلینڈ کی موجودہ ٹیم کے بارے میں کیا خیال ہے؟
جو رووٹ، جوس بٹلر اور آئن مارگن نے پچھلے چار برسوں میں ایک روزہ کرکٹ
میچوں میں انگلینڈ کا تسلط قائم رکھا ہے۔ کیا ان میں سے کسی کا نام اس
فہرست میں آنے کے قابل ہے یا یہ بحث ابھی قبل از وقت ہے؟
ہر کسی کے اپنے پسندیدہ کھلاڑی ہوتے ہیں لیکن امید ہے کہ مندرجہ ذیل 10
ناموں کی قابلیت پر کسی کو شک نہیں ہو گا۔
گراہم گوچ
انگلینڈ کے مایہ ناز بلے باز گراہم گوچ نے ورلڈ کپ جیتنے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی۔ انھوں نے تین ورلڈ کپ کے فائنل کھیلے اور سنہ 92 کے عالمی کپ میں
اپنی ٹیم کی قیادت بھی کی لیکن ہر بار شکست ہی ان کا مقدر بنی۔
سنہ 1987 کے عالمی کپ میں گراہم گوچ نے ممبئی میں انڈیا کے خلاف سیمی فائنل
میں عمدہ سنچری بنائی جس کی بدولت انگلینڈ کو فائنل تک رسائی حاصل ہوئی۔ یہ
انگلینڈ کی طرف سے ورلڈ کپ میچوں میں کھیلی جانے والی بہترین اننگز میں سے
ایک تھی۔
لسٹ اے میچوں میں گوچ نے 22,211 رنز بنائے ہیں جو کہ آج بھی ایک ریکارڈ ہے۔
گوچ نے اپنے ایک روزہ کیریئر کا آغاز 1976 میں کیا جبکہ اپنا آخری میچ سنہ
1995 میں کھیلا۔
|
|
این بوتھم
بوتھم نے انگلینڈ کی طرف سے دو ورلڈ کپ کے فائنلز کھیلے۔ وہ انگلینڈ کی
تاریخ کے بہترین آل راؤنڈرز میں سے ایک تھے اور اس پیشہ وارانہ مہارت کا
مظاہرہ انھوں نے عالمی کپ کے دوران بھی کیا۔
بوتھم ہمیشہ سے ہی اچھی باؤلنگ کرتے تھے لیکن سنہ 1992 کے ورلڈکپ میں انھوں
نے انتہائی عمدہ باولنگ کا مظاہرہ کیا۔
اس ٹورنامنٹ میں انھوں نے 10 میچوں میں 16 وکٹیں حاصل کیں جس کی بدولت
انگلینڈ کی ٹیم فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کے علاوہ ان کی
وجہ شہرت جارحانہ انداز سے بلے بازی کرنا بھی تھا۔ وہ بیٹنگ آرڈر میں شروع
اور آخر میں تیز کھیلنے میں مہارت رکھتے تھے۔
بوتھم شاید ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب کرکٹ میں عظیم کھلاڑیوں کی ریل
پیل تھی جس کی وجہ سے وہ اتنی کامیابیاں نہیں سمیٹ سکے جس کے وہ شاید اصل
حقدار تھے۔ شاید اگر وہ آج کے دور میں پیدا ہوتے تو نئے ریکارڈز بنا رہے
ہوتے۔
|
|
وقار یونس
ماضی کی ان تلخ یادوں کو دوبارہ سے تازہ کرنا آسان نہیں ہے۔ ایسی ہی ایک
تلخ یاد وقار یونس سے جڑی ہے جو بلاشبہ اپنے دور کے بہترین بولرز میں سے
ایک تھے۔
وقار کی بدقسمتی یہ تھی کہ ان کا نام 1992 کی ورلڈ کپ ٹیم میں تو تھا اور
وہ ٹیم کے ساتھ آسٹریلیا بھی گئے لیکن زخمی ہونے کے باعث انھیں وطن واپس
لوٹنا پڑا۔
پاکستان نے وہ ورلڈ کپ تو جیت لیا لیکن وقار کی یہ حسرت باقی رہی۔ انھوں نے
اس کے بعد مزید تین ورلڈ کپس میں شرکت کی اور سنہ 1999 میں تو وہ اس ٹیم کا
بھی حصہ تھے جو ورلڈ کپ کے فائنل تک پہنچی تھی لیکن جیت کا یہ خواب فقط ایک
خواب ہی رہا۔
1992 کے ورلڈ کپ میں وسیم اکرم نے بہترین باؤلنگ کی اور ٹورنامنٹ میں سب سے
زیادہ وکٹیں حاصل کیں۔ لیکن ان کے ساتھ باؤلنگ کروانے والے وقار یونس وہاں
موجود نہیں تھے۔
وقار یونس کو پرانی گیند سے ریورس سوئنگ کرانے کا موجد بھی کہا جاتا ہے۔ ان
کے خلاف اننگز کے آخری حصے میں جارحانہ انداز سے بلے بازی کرنا تقریباً
ناممکن ہوتا تھا اور نئی گیند سے عمدہ باؤلنگ کرنے کی بدولت انھیں ’دی بورے
والا ایکسپریس‘ بھی کہا جاتا تھا۔
وقار ایک روزہ میچوں کے بہترین بولر تھے۔ ان کے پاس اس فارمیٹ میں اننگز سب
سے زیادہ پانچ وکٹیں لینے کا اعزاز ہے۔
|
|
سارو گنگولی
سارو گنگولی نے اپنے مختصر کیریئر کے دوران تین ورلڈ کپ کھیلے اور سنہ 2003
میں انڈیا کی اس ٹیم کی سربراہی کی جو ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچی۔
ان کی انفرادی قابلیت پر تو کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔ سنہ 2003 کے ورلڈ کپ
کے دوران انھوں نے تین سنچریاں بنائیں۔ ان کی وجہ شہرت انڈیا کے نئے آنے
والے کھلاڑیوں کی تربیت کرنا تھا۔
گنگولی ایک جارحانہ اور بے باک کپتان تھے جنھوں نے انڈیا کی ٹیم میں لڑنے
کا جذبہ پیدا کیا۔ ان کی کپتانی میں انڈیا کی ٹیم ناصرف اپنے گھر میں بلکہ
دنیا بھر میں ایک بہترین ٹیم بن کر سامنے آئی۔
سنہ 2007 کے ورلڈ کپ میں گروپ مرحلے میں ناکامی کے بعد گنگولی نے ایک روزہ
میچوں کو خیرباد کہہ دیا۔ لیکن بدقسمتی سے سنہ 2011 میں جب انڈیا نے ورلڈ
کپ جیتا تو گنگولی اس ٹیم میں شامل نہیں تھے۔
لیکن گنگولی کا ورلڈ کپ کی تاریخ میں ریکارڈ لاجواب تھا۔ انھوں نے 22 ورلڈ
کپ میچوں 55.88 کی اوسط سے 1006 رنز بنائے۔
|
|
برائن لارا
برائن لارا کے ٹیسٹ میچوں میں ریکارڈ تو کرکٹ کے تمام شائقین کو معلوم ہی
ہیں۔
لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پورٹ آف سپین کا شہزادہ ایک روزہ میچوں
میں بھی ویسے ہی رنز بناتا تھا جیسے ٹیسٹ میچوں میں۔
ان سے پہلے بہت کم کھلاڑیوں نے ایک روزہ میچوں میں 10 ہزار سے زائد رنز
بنائے تھے۔ آج بھی وہ سب سے زیادہ رنز بنانے والوں کی فہرست میں دسویں نمبر
پر ہیں۔
لارا نے اپنے ایک روزہ کیریئر میں 299 میچ کھیلے لیکن ان کا شمار ان
کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے انفرادی اننگز میں تین دفعہ 150 سے زائد رنز
بنائے۔
لارا کا شمار دنیا کہ پرجوش ترین بلے بازوں میں ہوتا ہے۔ لیکن افسوس اس بات
کا ہے کہ لارا نے دنیائے کرکٹ میں اس وقت قدم رکھا جب ویسٹ انڈیز اس پر راج
کے آخری ادوار سے گزر رہا تھا۔
|
|
لانس کلوزنر
لانس کلوزنر ’زولو‘ کے لقب سے جانے جاتے تھے کیونکہ وہ زولو زبان روانی سے
بولتے تھے۔ لانس کلوزنر ایک اعلیٰ پائے کے آل راؤنڈر تھے۔
کلوزنر ٹیسٹ میچوں کے بہترین کھلاڑی تھے لیکن سنہ 1999 کے ورلڈ کپ میں
انھوں نے ایک روزہ میچوں میں اپنی کارکردگی کا لوہا منوایا۔
لیکن بدقسمتی سے جنوبی افریقہ کی ٹیم ایک انتہائی سنسنی خیز سیمی فائنل
مقابلے کے بعد میچ برابر کرنے میں ہی کامیاب ہو سکا، جو اس کی فائنل تک
رسائی کے لیے کافی نہیں تھا۔
سنہ 1999 کے ورلڈ کپ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز پانے والے کلوزنر اپنی
جارحانہ بیٹنگ اور نپی تلی باؤلنگ کی وجہ سے ایک اہم کھلاڑی گردانے جاتے
تھے۔ سنہ 2000 میں انھیں کرکٹ میگزین وزڈن کی طرف سے سال کے بہترین کھلاڑی
کا اعزاز ملا۔
بیس بال کھیلنے والے انداز میں بلے بازی کرنے والے کلوزنر نے اس ورلڈ کپ کے
بعد بھی تسلسل کے ساتھ کارکردگی دکھائی۔ ریٹائرمنٹ کے وقت ان کی بیٹنگ اوسط
41 جبکہ باؤلنگ اوسط 29 تھی۔
جس کے باعث ان کا شمار ناصرف جنوبی افریقہ بلکہ دنیا کے عظیم آل راؤنڈرز
میں بھی ہوتا ہے۔
|
|
جیک کیلس
لانس کلوزنر کے بعد جنوبی افریقہ کے عظیم آل راؤنڈر جیک کیلس کا نام لینا
ضروری ہے۔ کیلس نے ٹیسٹ اور ایک روزہ میچوں میں رنز اور وکٹوں کے انبار
لگائے۔
انھوں نے ایک روزہ میچوں میں 273 وکٹیں حاصل کیں اور 11 ہزار سے زائد رنز
بنائے۔ سری لنکا کے سنتھ جے سوریا کیلس کے بعد دنیا کے دوسرے ایسے آل
راونڈر ہیں جنھوں نے 10 ہزار سے زائد رنز اور 250 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
کیلس نے اپنے کیریئر میں 17 سنچریاں اور 85 نصف سنچریاں بنائیں۔ وہ ہر
صورتحال میں کھیلنے والے کھلاڑی تھے۔ ٹیم کی ضرورت کے مطابق وہ محتاط اور
جارحانہ دونوں انداز سے کھیلتے تھے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جیک کیلس سمیت جنوبی افریقہ کے دیگر عظیم کھلاڑیوں
کو بھی ورلڈ کپ جیتنے کا موقع نہیں مل سکا۔
|
|
کمارسنگاکارا
کمار سنگاکار نے جس انداز سے 2015 کے ورلڈ کپ میں شاندار پرفارمنس کے بعد
کرکٹ کو خیرباد کہا وہ ایک روزہ میچوں میں ان کی عظمت کو ثابت کرتا ہے۔
انھوں نے اس ٹورنامنٹ میں یکے بعد دیگرے چار سنچریاں بنائیں۔
بہت عرصہ تک وہ بیٹنگ کے ساتھ وکٹ کیپنگ کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے
لیکن اپنے کیریئر کے اختتام پر انھوں نے وکٹ کیپنگ چھوڑ دی جس کے باعث وہ
تیزی سے رنز بنانے لگے۔
اپنے انٹرنیشنل کیریئر کے اختتام پر صرف سچن ٹنڈولکر کے رنز ان سے زیادہ
تھے۔
ایک افسوس جو شاید انھیں ہمیشہ رہے گا وہ یہ کہ انھوں نے کبھی کوئی ورلڈ کپ
نہیں جیتا۔ ورلڈ کپ 2007 اور 2011 کے فائنلز میں آنے کے باوجود سری لنکا کی
ٹیم فتح سے ہمکنار نہ ہو سکی حالانکہ ان دونوں ٹورنامنٹس میں ان کی بیٹنگ
اوسط 50 سے زائد رہی۔
|
|
اے بی ڈی ویلیرز
اے بی ڈی ویلیرز اپنے بلے کے ساتھ وہ کچھ کر سکتے تھے جس کے بارے میں کوئی
اور بلے باز سوچ بھی نہیں سکتا۔
ان کے کیریئر کی بیٹنگ اوسط 53.50 تھی جو انھیں عظیم کھلاڑیوں کی فہرست میں
ڈالنے کے لیے کافی ہے، اور ان کا 100 سے زائد کا سٹرائک ریٹ بھی انھیں
منفرد بناتا ہے۔ اس سب میں ان کی 31 گیندوں پر بنائی گئی تیز ترین سنچری
صرف اعداد و شمار کی بنا پر انھیں عظیم بنا دیتی ہے۔
لیکن جب وہ بیٹنگ کرنے آتے تھے تو اعداد و شمار کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔
وہ ایسی شاٹس مارتے تھے جو کوئی اور نہیں مار سکتا تھا۔ وہ اننگز کے آخری
حصے میں باؤلرز کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوتے تھے اور سیکنڈز میں مخالف
ٹیم کے ہاتھوں سے جیتا ہوا میچ چھین لیتے تھے۔
وہ ٹینس، ہاکی اور گالف میں بھی مہارت رکھتے تھے جس کی وجہ سے انھیں وہ قوت،
ٹائمنگ اور نفاست حاصل تھی جس کی بدولت وہ گراونڈ کے ہر کونے میں کھیل سکتے
تھے۔
ڈی ویلیرز نے 2015 کے ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ کو سیمی فائنل میں فتح کے
دہانے پر لا کھڑا کیا لیکن ہمیشہ کی طرح ان کی ٹیم ’چوک‘ کر گئی اور ڈی
ویلیرز بغیر کوئی ورلڈ کپ جیتے کرکٹ سے ریٹائر ہو گئے۔
|
|
شاہد آفریدی
کسی کو ’بوم بوم‘ کا لقب ایسے ہی نہیں مل جاتا۔
شاہد آفریدی نے سنہ 1996 میں اپنی جارحانہ بیٹنگ کے ذریعے خود کو دنیا میں
متعارف کروایا۔ لیکن ان کا کیریئر اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بطور کھلاڑی
تبدیل ہوئے ہیں۔
ہاں وہ لمبے چھکے مارتے تھے اور سنہ 1996 میں 37 گیندوں پر تیز ترین سنچری
بنانے کا ریکارڈ بہت عرصے تک ان کے نام رہا لیکن ساتھ ہی وہ اپنی لیگ سپن
کی بدولت سب سے زیادہ وکٹیں لینے والوں کی فہرست میں پانچویں نمبر پر بھی
ہیں۔
اس سب میں آفریدی کی کپتانی بھی ملا دی جائے تو ان کا شمار ان عظیم
کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے کرکٹ کے کھیل میں جدت ڈالی اور جس سے شائقین
کی دلچسپی میں اضافہ ہوا۔
|
|