زرعی زمینوں پر تیزی سے پھیلتی شہری آبادیاں اور اس کے اثرات

پاکستان زرعی ملک ہے۔پاکستان کی کثیرآبادی براہِ راست زراعت سے منسلک ہے ۔چاہیے تو یہ تھاکہ زراعت کا شعبہ جو پاکستان کو معاشی بحران سے نکال سکتا تھا پر خصوصی توجہ دی جاتی اور اس شعبہ میں بہتری کے لئے اقدامات جاتے مگرہمارے حکمران طبقہ نے ہمیشہ محض اپنے وقتی مفاد کو مدِنظر رکھا۔ہمارے حکمرانوں کی زرعی شعبہ سے خطرناک حدتک غفلت کے باعث سونا اُگلنے والا خطہ ہمیشہ پسماندگی اور بنیادی اجناس کے بحران کا شکاررہا ہے۔

ملک کی آبادی میں روزبروزاضافہ اوربڑھتی ہوئی غذائی ضروریات کے پیش نظر ایسے اقدامات کئے جاتے کہ بنجر ، ویران اور خالی رقبہ کو قابل کاشت بنایا جاتا۔ زراعت کو جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جاتا کہ فی ایکٹر پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔ ہنگامی بنیادوں پر کاشتکاروں کو جدید زرعی طریقوں کی طرف راغب کیا جاتا کہ ان کی پیدا واری صلاحیتوں میں اضافہ ممکن ہوتا۔مگرجیسا کہ پہلے عرض کیاکہ زراعت کا شعبہ ہماری حکومتوں کی کبھی بھی ترجیح نہیں رہا۔ زراعت کا شعبہ ہمارے حکمرانوں کی غفلت اور لا پرواہی کے سبب اس حد تک تباہ حال ہوچکا ہے ،کہ کسان جو دوسروں کے لئے فصلیں اُگاتا ہے خود آٹے ، چینی کے بحران کا شکارچلا آرہا ہے۔ چھوٹے کاشتکار کے کھاتے میں نئی فصل کی آمدتک قرض اس حدتک بڑھ چکا ہوتا ہے، کہ وہ قرض چکانے کے لئے اپنی فصل مقامی منافع خور سرمایہ دارکے ہاتھوں کم قیمت پرفروخت کرنے پرمجبورہوتاہے۔

اس ملک کا غریب کسان زمین کی تیاری سے لے کر اس میں بیج کھاد ،زرعی ادویات،جڑی بوٹیوں کی تلفی اور فصل کی تیاری تک تمام تکلیف دہ اور صبر آزما مراحل سے گزرتا ہے۔جب فصل تیار ہوجاتی ہے اوراس کی فروخت کا وقت آتاہے تو آڑھتی، بیوپاری اپنی مرضی سے قیمتوں کا تعین کرکے غریب کسان کا استحصال کرتے ہیں۔پریشان حال کسان سال بھر محنت کے باوجودبدحالی میں گزربسرکرتا ہے، اس کی پیدوار کومنافع بخش قیمت نہیں ملتی اورفصل کی کم قیمت کی ادائیگی کے لئے بھی ہمیشہ تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں،جس سے کسانوں کی مشکلات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ان میں مایوسی بڑھتی ہے۔ مناسب نرخ نہ ملنے کی وجہ سے چھوٹے کاشت کار اہم اور نقد آور فصلوں کی کاشت کی بجائے چھوٹی چھوٹی فصلیں کاشت کرنے لگے ہیں۔جس کے نتیجہ میں زرعی ملک ہونے کے باوجودملکی طلب اور کھپت کو پورا کرنے کے لئے اجناس بھاری مقدار میں دیگرممالک سے درآمدکرنے پرغیرمعمولی زرِمبادلہ خرچ ہوتا ہے ۔

کھاد ، زرعی ادویات، بجلی کی اووربلنگ،زرعی آلات، ڈیزل وغیرہ کی قیمتیں ، ٹریکٹروں کے کرائے اور پانی کی قلت سے فصلوں کے متاثر ہونے کے سبب کاشتکاروں کو بہت نقصان اُٹھانا پڑتاہے۔ پیداواری لاگت میں بے تحاشہ اضافہ اور قیمت فروخت کے درمیان گھٹتے ہوئے فرق نے کسان کو دل برداشتہ کردیا ہے۔ سب سے قابل ِرحم حال بارانی علاقوں کے چھوٹے اورمعمولی کاشتکار طبقہ کاہے، جو موسمی تبدیلیوں سے براہ راست متاثرہوتے ہیں۔سارا سال پانی کی ایک بوند کو ترستے رہتے ہیں اور پھر بارشوں کے موسم میں فصل ِ خریف زخیرہ آب کی عدم موجودگی کی وجہ سے سیلاب کی نظرہوجاتی ہے۔اس طرح ہرسال ہزاروں ایکڑ رقبہ تباہی وبربادی کا شکارہوجاتا ہے اور غریب کسان مزید بدحال ہوجاتا ہے۔

مشرف کے دورحکومت میں کپاس کی ریکارڈ فصل ہوئی ،اس کے بعدآج تک ہم مطلوبہ حدف نہیں حاصل کرسکے ،بلکہ ہمارے حکمرانوں کی فراخدلی اوردوراندیشی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے،کہ کپاس جیسی نقدآورجنس کی کاشت اورپیداوار بڑھانے کی بجائے انڈیا سے امپورٹ پر زوردیا گیا،تاکہ انڈیا کے کسانوں کی مدد کی جاسکے۔ہمیں چاہیے کہ پانی کی قلت کے باعث کماد کی کاشت میں کمی کی جائے اورچینی کی پیداوار کے لئے متبادل ذرائع استعمال کئے جائیں اورچاول کی خشک کاشت کا طریقہ کار رائج کرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے خطرناک بات جس سے دُنیا بھر کے ماہرین مسلسل آگاہ کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ زرعی زمینیں بہت تیزی سے شہری آبادیوں کی نظرہورہی ہیں۔جدیدتحقیق کے مطابق پاکستان سمیت دُنیا بھر میں جس رفتارسے زرعی زمینوں پرنئی شہری آبادیاں پھیل رہی ہیں، یہ سلسلہ اسی سے رفتار سے جاری رہا تو2030تک ایشیااورافریقہ میں پھیلتے شہرکم ازکم 3کروڑہیکٹر زرعی زمینوں کو نگل جائیں گے،جوفلپائن کے برابررقبہ ہے۔ماہرین کے مطابق یہ عمل ایشیا اورافریقہ میں سب سے زیادہ ہے۔ویت نام، چین اورپاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہیں۔محتاط اندازے کے مطابق پاکستان 18لاکھ ہیکٹر زرعی رقبہ سے محروم ہوجائے گا۔ جو اس خطرناک فہرست میں چوتھے نمبرپر۔رپورٹ کے مطابق 2030تک زراعت اس قدرتباہ ہوجائے گی کہ2000کے مقابلے میں پیداوار 3سے 4فیصدمقدارکم ہوجائے گی ۔پاکستان میں خاص کر چھوٹے کسان خطرناک حدتک متاثرہوں گے ۔جس کی وجہ سے گندم، چاول،مکئی اورسویابین کی فصلیں زیادہ متاثرہوں گی ۔اس کے علاوہ جنگلات بھی تباہ ہوجائیں گے،جس سے آب وہوا پربرے اثرات مرتب ہوں گے۔

اگر ہم پاکستان کو واقعی خوشحال اور معاشی اعتبارسے مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں شہری آبادی میں تیزی سے ضم ہوتی زرعی زمینوں کی سختی سے روک تھام کرنی ہو گی ۔ اس کے علاوہ زرعی شعبہ پر خصوصی توجہ دینا ہوگی اورکسانوں کی بدحالی دورکرنے کے لئے مستقل حل کی ضرورت ہے۔ سائنسی بنیادوں پرجدید تحقیق اورکسانوں کے لئے تربیتی پروگرام،سبزیوں کی کاشت کے سستے اور مفید بیج،جانوروں کے چارے کے لئے فی ایکڑپیدوار میں اضافہ کے لئے منصوبہ بندی،زمین کا درست انتخاب،قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے تربیت اوردیگرزرعی اصلاحات کے فروغ کیساتھ ساتھ زرعی ترقی کے لئے یقینی عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ملکی معیشت کومضبوط کرنے میں زراعت کا شعبہ اپنا موئثرکرداراسی صورت میں ادا کر سکتا ہے ، جب چھوٹے درجے کے کسان کا زراعت پراعتمادبحال ہوگا۔اﷲ رب العزت کا فرمان ہے ترجمہ"-: حقیقت یہ ہے کہ اﷲ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتیـ"القرآن 13:11۔
 

MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 92449 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.