عید کے دن بھی لیل گردیاں

امیرجان حقانی قلم کاروں کیساتھ عبدالبشیر خان کے دولت کدے پر

عید کے دن بھر پور کرشش کرکے گھر رہا۔مہمانوں کی أمد ورفت رہی۔رات کو پھر سلیمی صاحب کیساتھ لیل گردی ہو ہی گٸی۔اشیاق یاد صاحب کو پِک کیا اور سیدھا محترم عبدالبشیر خان کے دولت کدے پر پہنچے ، وہاں پہلے سے دکھی صاحب اور دیگر احباب بیٹھے تھے۔ سلیمی کی شرارتوں سے اچھی خاصی محفل عید ”محل مشاعرہ“ بن گٸی۔پھررات گٸے تک شعرا ٕ نے کلام سنایا اور ہم نے نہ چاہتے ہوٸے بھی سر ہلا ہلا کر داد دیا۔ہاں دکھی صاحب کا سورة الفاتحہ کے منظوم کلام نے محفل طرب و غرب بلکہ محفل زعفران کو محفل ثواب وعقاب میں بدل دیا۔دوران گفتگو سخت قسم کے علمی سوالات ہوٸے۔ یہ طے ہے کہ علما ٕ کرام کو قلم کاروں اور شاعروں کے سوالات کا سامنا کرنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔ان کو ڈانٹ کر خاموش بھی نہیں کروایا جاسکتا ہے اور نہ ہی کمزور دلاٸل سے ان کو منوایا جاسکتا۔ یہ حساس لوگ ہوتے ہیں جو بہت دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ان کا مطالعہ وسیع ہوتا۔یہ لوگ أسانی سے ہتھیار نہیں ڈالتے۔ جی جی کرکے چبتے سوالات کی بھرمار کرتے ہیں۔برادرم ڈاکٹر عبدالقدیر خان عبدالبشیرصاحب کے صاحبزادے ہیں۔ بہت ہی انٹیلکچول قسم کے نوجوان ہیں۔ شاعری بھی اچھی کرتے ہیں۔کسی پراٸیوٹ کمپنی میں اچھی پوسٹ پر براجمان ہیں۔والد کے فرمانبردار لیکن جب بات علم و دانش اور فکر و نظر کی چلی تو مجھ سے بھی کھل کراختلاف کیا۔یہاں تک کہ اپنے والد گرامی کے ساتھ نہ صرف اختلاف کیا بلکہ علمی نقد بھی کیا۔ ایسی روایت ہر گھر کی ہونی چاہیے۔ اولاد پر ناجاٸز پابندیاں لگانا کسی صورت مفید نہیں۔ انہیں اپنے خیالات اور فیصلوں پر جاٸز أزادی دینی چاہیے۔

مکمل جدید فنون سے أراستہ ایک نوجوان کا دینی مطالعہ بہت اچھا اور دینیات پر گفتگو بہت اچھی لگی۔ورنا تو انگریزی اداروں میں جدید فنون پڑھنےوالے نوجوانوں کا علم و ادب اور اسلامیات پر مطالعہ توہوتا ہی ناقص مگر انکو اس کی فکربھی نہیں ہوتی کہ ضروریات دین سے بھی ان کو واقفیت نہیں۔بعضوں کو تو جنازہ تک نہیں أتا۔والدین کے جنازے میں ساٸڈ پر کھڑے رہتے کہ جی نماز جنازہ کا پتہ ہی نہیں۔یہ انتہاٸی افسوسناک پہلو ہے۔اس پر توجہ کی اشد ضرورت ہے۔برادرم قدیر کی یہ ادا اچھی لگی کہ مہمانوں کو خلوص کیساتھ بڑھ چڑھ کرکھلا پلا رہے تھے۔عید کا پیٹ تھا اس لیے ہم نے کھانے میں مولویانہ جھلک نہیں دکھاٸی ورنا تو سلیمی صاحب کہہ کہہ کر تھک گٸے کہ ”حلوہ اور جلوہ مولوی کا ہی خاصہ ہے“۔

خشک علمی محفل میں موقع محل کے مطابق دکھی صاحب کوٸی کلام پڑھ کر محفل کو خوشگوار بنانے کی کوشش کرتے مگر پھر وہی گاڑھے دلاٸل اور تیکھے سوالات شروع ہوجاتے۔ محفل میں شعرا ٕ اور ادبا ٕ کے علاوہ کچھ احباب بھی تھے جو بہت حیران تھے کہ وہ شاید سمجھ رہے تھے کہ”کیا بکواس لوگ ہیں جو عشق و محبت کی بات کرتے ہیں۔دانش و بیش پر لڑتے ہیں۔ ہنستے ہیں پھر سنجیدہ ہوتے ہیں پھر مذاق پر اتر أتے ہیں اور یک دم شاعری شروع کرتے ہیں پھر اچانک تاریخی حوالوں میں گم ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی ایک دوسروں پر بھتیاں کستے ہیں“۔بہر صورت وہ وقت سے پہلے محفل سے رفوچکر ہوگے حالانکہ میں نے أفر بھی کی تھی کہ اگر وہ اس سوقیانہ گفتگو سے ڈسٹرب ہورہے ہیں تو میں تلاوت قرأن بھی سنادونگا۔ان کے جاتے ہی اشتیاق یاد گویا ہوٸے ” دیکھیں نا۔ عید کی خوشیاں منانے کا اپنااپنا انداز ہے۔ لوگ کھانے پینے اور مادیت میں غرق ہیں اور اسی میں خوشیاں اور فرحتیں ڈھونڈتے اور ہم اصحاب دانش و بینش کا خوراک اور خوشی ہی ایسی عالمانہ محفلیں ،ادیبانہ مکالمے اور جارحانہ بحثیں ہیں۔یہی ہماری مفرح ساعتیں ہیں“۔ دفعتا دیسی دودھ سے بنے کھیر کا پورا تھال اپنی طرف سرکا دیا ،فنجان خوب بھرا اور سنجیدگی کے ساتھ زہرمار کرتے رہے۔اس کو شکم پروری بھی کہا جاسکتا۔بدنام ویسے بیچارے مولوی ہیں۔
ہنسی مذاق میں علم وادب کی اس محفل سے بہت ساری نٸی چیزوں کا علم ہوا۔ اشتیاق یاد کے مصنوعی قسم کی سنجیدہ سوالوں پر مغز ماری ہوتی رہی۔وہ مسلم امہ کی تنزلی کا تمام کریڈیٹ علما ٕ کرام اور دینی طبقے کو دینے میں کھبی کنجوسی نہیں کرتے۔ہم اپنی سی دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ” ہاں ٹھیک ہے مگر سنیں نا“ کہہ کر دوبارہ شروع ہوتے ہیں۔ان کی اپروچ اور سوچنے اور سوال اٹھانے کا انداز بہر صورت لاٸق تحسین ہیں۔میرے ساتھ ان کی یہ کرم فرماٸی نو سال سے جاری ہے۔ان کے بہت سارے تیکھے سوالات کا فاٸدہ یہ ہوتا ہے کہ مجھے بعد میں تلاش بیسار کے بعد جواب مل ہی جاتا ہے اور میرے علم میں اضافہ ہوجاتا۔مسلمانوں کی تنزلی پر سب کڑھتے رہے جوہات خواہ کچھ بھی ہوں لیکن درد سب کا ایک ہی ہے۔

منٹو کے لحاف سے مودودی صاحب کی تفہیم القرأن تک ،کارل مارکس کی کیپٹل داس سے ڈارون کی تھیوری اور ابن خلدون کی مقدمہ اور جدید شاعری کے رجحانات تک، غرض بہت سارے موضوعات زیر بحث رہے۔عبدالبشیر صاحب کے پاس کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے لیکن کراچی سے گلگت شفٹنگ کے دوران ضیاع کتب پر دل گرفتہ ہیں۔اپنے سلیمی جی کے پاس خالص ادبی کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ان سے دوستی کا کٸی نقصانات کیساتھ ایک بڑا فاٸدہ یہ بھی ہورہا ہے کہ وہ کڑوی کسیلی سناتے ہوٸے نایاب اور بہترین کتابیں مطالعہ کے لیے عنایت کرتے ہیں۔راجہ گدھ اور لوح أیام جیسی کٸی ادبی کتابیں اور تحریریں ان کی مرہون منت بالاستیعاب پڑھنے کا موقع ملا۔أج بھی الطاف حس قریشی کی ایک کتاب ”ملاقاتیں کیا کیا“ ان کی لاٸیبریری سے اچک لی، کمال کتاب ہے۔ پڑھ کر تبصرہ کرونگا۔ان سے لی ہوٸی تمام کتابیں پڑھ کر لوٹا دی ہیں۔ مگر محی الدین نواب کی ایک کتاب کا نہ لوٹانے کا الزام ہنوز باقی ہے جو غالبا پانچ سال پہلے لی تھی۔اپنے دکھی صاحب سے بھی ایک انتہاٸی نایاب اور قیمتی کتاب ”شمالی علاقہ جات کا انسکلوپیڈیا“ عاریتا لی ہوٸی ہے۔دکھی صاحب اس کتاب کے ایک حصے کے شریک ریسرچر بھی ہیں۔کافی پہلے حلقہ ارباب ذوق کی طرف سے شاٸع کردہ کتب گفٹ بھی کرچکے ہیں۔اس جمع ضرب کا خلاصہ یہی ہے کہ اگلی دفعہ عبدالبشیر خان سے بھی کوٸی کتاب ہتھیا لینی ہے۔ اپنے یاد صاحب نے بھی ”سوفی“ نامی کتاب اور میکاولی کی بادشاہ اس غرض سے مجھے مطالعہ کرنے کے لیے خصوصی عنایت کی تھی تاکہ میرے عقاٸد متزلزل ہوں لیکن میں بھی اس معاملے میں ٹھیٹھ ملا ہوں۔ ایسے پھونکوں سے یہ چراغ بجھاٸے نہیں جاسکتے۔۔۔اچھا خیر محفل میں اور رات کی لیل گردیوں میں ہونے والی گفتگوٸیں بلاکم وکاست اس لیے بھی شیٸر نہیں کی جاسکتی ہیں کہ کہیں جدید وقدیم سے فتوی کا ہتھوڑا صادر نہ ہو۔أجکل فتوی چسپاں کرنے میں قدیم طبقے سے زیادہ تیزی جدید طبقہ دکھا رہا ہے۔أپ دیکھیں نا مفتی فواد چوھدری کے سامنے مفتی منیب صاحب جیسے لوگ بھی بے بس ہی ہیں۔اس باب میں دکھی کا مذہب ہی الگ ہے۔ پوپلزٸی،منیب اور فواد کی چاند سے انہیں کوٸی غرض نہیں ہوتا۔اس بڑھاپے میں بھی ان کو اپنا چاند ہر وقت اپنے نظر میں رہتا۔دکھی صاحب فرماتے ہیں کہ؎
کوئی خیال کوئی دل کے گھر میں رہتا ہے
کوئی تو ہے جو مسلسل سفر میں رہتا ہے
کسی نے چاند نہ دیکھا ہو وہ تلاش کریں
ہمارا چاند ہماری نظر میں رہتا ہے
أپ سب قارٸین کو عید الفطر کی ڈھیڑوں ڈھیروں خوشیاں مبارک ہوں۔اور اگر أپ نے بھی ایسی محفلیں جماٸی ہیں تو وہ بھی مبارک۔

دوستو ! سویرے بستر سے اٹھ بیٹھ کر چاٸے کی چسکیاں لینےکا ایک فاٸدہ یہ بھی ہوتا کہ أدمی بیٹھے بیٹھے موباٸل پر ہی کافی کچھ لکھ لیتا ہے۔بلکہ أج توکافی سے زیادہ ہوگیا۔اسی پر اکتفا ٕ کیا جاوے۔ورنا میری چولیں ختم ہونے کو کہاں۔۔تو
احباب کیا کہتے ہیں؟

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 433733 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More