مخبرِ وضاع کی اطلاعات ہیں کہ معاملات حتمی مراحل میں
ہیں۔بساط الٹنے کو ہے۔پھر مخبر کذاب کو تشویش لاحق ہے کہ ان کا کیا بنے گا
جن کے گردن میں اتنے طویل عرصے سے سریا پھنسا ہوا تھا جن کو اب تلک اپنا
کوٸی نظر نہیں أرہا ہے۔اڑان اتنی بلند تھی کہ داٸیں باٸیں کوٸی باصرہ نواز
ہی نہ ہوپایا۔
ہم نے عرض کیا: بساط الٹے یا تشویش حلقوم میں پھنسے، بلکہ پھنس کر حلقی سڑن
ہوجاٸے۔
ہم وہی تھے وہی ہیں اور ان شا ٕاللہ وہی رہیں گے۔ اور تم بھی وہی پر اقامت
گزیں ہو۔
اپنے ہوں یا غیر !
جب اوجِ ثریا نصیب ہو تو ان کو کوٸی نظر نہیں أتا، وہ تو محبین اور ابن
الوقتوں میں امتیاز تک نہیں کرپاتے۔اور جب قعرِمذلت میں گِر جاٸیں تو ہر کس
وناکس کی خاک پروری کریں بلکہ قدموں کی خاک ِ نجسِ رقیق و رطوب چاٹیں۔
تو اے میرے پیارے
مخبر وضاع
و
مخبرکذاب
تمہیں شاداں و فرحاں ہونے اور ازردہ خاطر و اندوہ گیں ہونے کی کوٸی ضرورت
نہیں۔
یہ قابوچی لوگ ہیں۔سفلہ پنی ان کا مذہب ہے ۔پاجیانہ پنی ان کا مسلک ہے اور
لوٹا کریسی ان کی سیاست۔فروماٸیگی ان کا کردارہے۔ اور بے بضاعتی ان کا فخر
اور ان کی ٹوٹل وقعت اڑنچھو ہونا ہے۔جنہوں نے بلبلوں پر پل تعمیر کیے ہوں
اور پلوں کے حبلے بہت ہی نحیف ونزار ہوں تو ان کی حبل ِ ورید نے کٹنا ہی
ہے۔۔۔کاہے کو حبل ِ متین ہوسکتی۔۔تو یاد رہے!
ایک کی گرن سے سریا اترے گا تو دوسرے کے گلے میں سرکنڈہ فٹ ہوجاٸے گا۔ اور
جب جب وہ طیش میں أٸے گا تو تم ہی گردن زدنی کیے جاٶ گے، لہذا تم دونوں
ٹینشن سے فری حیات جاوداں میں سرشار رہو نہ کہ أپس میں سرگرداں اور نہ
پھٹولِ رأس کا کوٸی محصل ہے۔مغزپاشی سے صرف مغز استخوانی کے ضیاع کے سوا
کچھ نہیں۔تو تم کیوں ان اتراہٹوں کے لیے دل ودماغ جلاتے ہو بلکہ درست روی
سے ان دل ودماغ کو جِلا بخشیو۔
نوٹ: میری اس تحریر کا توپچی ، خلیفہ اور فٹافٹ سینٸر رھنما ٕ سے کوٸی تعلق
نہیں لہذا کوٸی غلط روی سے مطلب سو ٕ اخذ نہ کرے۔پھر بھی کسی کو اصرار ہوتو
اس کو ”تحریرِ طلا“ ہی سمجھ لیں۔تو
احباب کیا کہتے ہیں؟
|