کیا دنیا مردان جفاکش کے لئے تنگ ہے؟

کسی دانشور نے کہا تھا: "انسان اگرغریب پیدا ہوتا ہے تواس میں اس کاقصور نہیں اگرغریب مرتا ہے تو اس میں اس کاضرورقصورہے"۔ بے نشان رہنا بھی غریبی سے کم نہیں۔ فطری طور سے انسان میں لامحدود ،نا قابل تسخیر نعمتیں ودیعت ہوئی ہیں۔اس لیے انسان سب سے پہلے اپنے اندر سے پوشیدہ جوہر کوپرکھتا ہے۔پھر کوئی جوہری کی طرح صلاحیتوں کومحنت، عزم مصمم اورمستقل مزاجی کی آگ میں پکا کرکندن بناتاہے تب جا کر دنیا کے سامنے پیش ہوتا ہے ۔ جب دنیا اسے دیکھتی ہے تو اس پر لوگ رشک کرتے ہیں اس کی مثالیں دیتے ہیں۔انسان کواﷲ تبارک وتعالیٰ نے عقل جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے۔ اسی عقل کی بناپر انسان ناممکن کوممکن بنالیتا ہے۔دنیا میں ایسے لوگوں کی داستانیں موجود ہیں۔کتابیں بھری پڑی ہیں اورورق خاک آلود ہو چکے ہیں۔ان لوگوں کے کہانیوں کے نشانات باقی ہیں کہ جب انہوں نے عقل سے سوچ وفکر کرکے افق کوچھوا تو پھر یہی انسان چاند تک پہنچ گیا۔یہی انسان مادی دنیا میں شاہکار ایجادات کرتاچلاگیا اور ان ایجادات سے عقلیں دنگ رہ گئیں۔

کبھی انسان "رومن بادشاہ " کی صورت 2000ء سال قبل کی ’’کیل‘‘ دریافت کرتا ہے۔ کبھی جرمنی کا’’یوہان گاٹنبرگ‘‘1440ء میں ’’ٹائپ رائٹر‘‘ بناکرخطاطی کو نیا رخ دیتا ہے۔ ’’اندرونی احتراق محرکیہ‘‘ کی کھوج میں کئی دہائیاں صرف ہوئیں لیکن انسان نے اس کوشش کو ترک نہیں کیا۔ بلآخر 1808ء میں’’اندرونی احتراقی محرکیہ‘‘ کے چھپے آثار پرسے بھی انسان نے پردہ اٹھا لیا۔ اس سے بھی آگے انسان کی سوچ وفکر کے دریچے کھلے تو 1876ء میں ’’انٹوینومیوچی‘‘نے ’’ ٹیلی فون‘‘ ایجاد کیااور دنیا کے طویل فاصلوں کو سکینڈوں میں بند کردیا۔ دن کام کاج محنت ومشقت کے لیے ہوتا ہے لیکن جب جستجو اور ناممکن کوممکن کرنے کا جذبہ جنوں کی حدتک سرچھڑ کر بولے تو ’’ٹامس ایڈیسن‘‘ پیدا ہوتا ہے۔جس نے 1928ء میں ’’بلب‘‘ایجاد کرکے رات کی تاریکی کودن کی روشنی جیسا بنا دیا۔ 1928 ء میں ہی اسکاٹ لینڈ کے ’’الیگ نیڈز فلیمنگ‘‘نے ’’ پنسلین‘‘ بنا کر ہزاروں انسانوں کی جان بچائی۔ آج کی دنیا جس تیزی کے ساتھ ترقی کرکے عروج پر پہنچی ہے اور سالوں کے کام سمٹ کر چند لمحوں میں آگئے ہیں ان کے محرکات وہی انسانی ترقی کچھ نیا کرنے کا جنون ہے۔ 1969ء میں ’’آربانٹ‘‘نامی فوجی پروجیکٹ سے وجود پذیر ہونے والے ’’انٹرنیٹ‘‘کے طوفان نے انسانوں کو ہی چکرا دیا ہے۔

یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ تاریخ کے اوراق پر ہمیں دسیوں ایسے کردار چمکتے نظر آتے ہیں،جو دانے سے گوہر، قطرے سے دریااور رائی سے پہاڑ بنے۔ اسی طرح کے روشن نام کہ جن کوان کی مسلسل محنت ومشقت نے نیلگوں آسمان کی بلندیوں تک لے گئی۔ یہ اپنے عمل پیہم، عقابی پرواز سے زمین کی بے نام ونشان وادیوں سے نکل کر فلک کی وسعتوں تک جا پہنچے۔تاریخ کے یہ روشن نام جنہوں نے اپنی محرومیوں کا رونا نہیں رویا۔ اپنے مقام اپنے مرتبے سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے اور آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔انہوں نے خود کوروبہ زوال نہیں کیا۔ بلکہ اپنے اٹل ارادوں،پکی دھن اور مضبوط قوت ارادی کے سے رستے میں حائل تمام رکاوٹوں کوپاؤں کی ٹھوکر سے دور کیااور خندہ پیشانی سے منزل ِمقصود کوپالیا۔ دنیا ان کو ’’مسلم سائنس دانوں‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ بارویں صدی میں یورپ کو ’’الجبرا‘‘ کے نیے حساب وکتاب کے سسٹم سے روشناس کرانے والا’’محمد بن موسیٰ الخورزمی‘‘ مسلم سائنس دان ہیں۔تصویری صنعت کے موجد ’’ابن الہیثم‘‘بھی مسلمان ہیں۔جن کی کامیابی کا مغرب و مشرق معترف ہے۔ ابن الہیثم نے آنکھ کے حصوں کی تشریح کے لیے ڈایا گرام بنائی۔ایٹنا،کٹاریکٹ، کورنیا، جس سے آج تک دنیا انسانیت کوفائدہ پہنچ رہا ہے۔ ’’کافی‘‘کی ابتدا پہلی مرتبہ 1645ء میں ہو، یا 943ء میں ’’ڈپلوما‘‘ کافارمولا۔1185ء میں بننے والی ’’گھڑی‘‘ ہو ، یا ہوا بازی، جہاز سازی، طب، ہسپتال ہر جگہ مسلمان سائنس دانوں کی جستجو اور ان کی محققانہ ،مفکرانہ سوچ نے انسانی زندگی میں ایک انقلاب بپا کردیا۔

نبی آخرالزمان رحمۃ للعالمین جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ کامفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سے بعض ایسے بندے ہیں اگروہ کسی ناممکن کوممکن بنانے کی قسم کھا لیں توگردش زمانہ پلٹ جایے سورج کی دھڑکن رک جایے مگر ان کی قسم پوری ہوکررہے گی‘‘۔اب سوچنے کاامریہ ہے کہ انسانوں میں امیرہو یا غریب، مسلم ہویاغیرمسلم ، مغربی ہو یا مشرقی سب یکساں ہیں۔صلاحیتوں کوپیمانہ ایک اور مثبت منفی پہلو بھی ایک جیسے ہیں۔ سائنس وٹیکنالوجی تک دسترس بھی ہرفریق کو ہے۔ اس کے باوجود محرومی وناکامی کا اژدھا صرف عالم اسلام کی طرف منہ کھولے کیوں کھڑا ہے؟ جب کہ دین حنیف جیسا روشن مذہب مسلمانوں کے پاس ہے۔ کیوں مسلمان خالی ہاتھ بے نام ونشان پھر رہے ہیں؟ یہودونصاریٰ نامور ہوتے جارہے ہیں۔ تسخیرِ دنیا کا میزان بھی ان کا بھرا ہوا ہے اور مسلمانوں کاپلڑا خالی اور جھکا ہوا ہے۔مسلمانوں کو اپنی تاریخ کی طرف لوٹنا ہوگا۔ یہ دنیا ایسے لوگوں کے لیے تنگ نہیں جنہوں نے اپنی سحر انگیز شخصیت سے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ آج بھی یہ دنیا وہی ہے ۔اس لیے جس نے اس کو بند گلی سمجھا ا س کے لیے کوئی جائے حیات نہیں ہے۔

Muhammad Ansar Usmani
About the Author: Muhammad Ansar Usmani Read More Articles by Muhammad Ansar Usmani: 32 Articles with 21413 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.