یہ معصوم بچے

عیدپھرآئی اورچلی گئی ۔یہ توخوشی کاموقع،اللہ کے انعام پرشکراداکرنے کادن لیکن جب میں اپنے وطن کے ان بے شمارلوگوں کودیکھتاہوں جن کے پاس عید کے دن بھی پیٹ بھرکرکھانے کوہے اورنہ ہی ان کے بچوں کیلئے،نئے تو کیا صاف ستھرے کپڑے بھی نہیں،اورایسے لوگ بھی توبے شمار ہیں جواللہ کی عطا کردہ بے شمارنعمتوں سے اگرکچھ حصہ ان کودے دیں جوبے وسیلہ ہیں توان کے چہروں پربھی مسکراہٹ آجائے،ان کی آنکھوں سے اداسی ایک دن کیلئے ہی سہی ،مفقودہوجائے اورخوشیاں رقص کرنے لگیں۔مجھے مدینہ منورہ کاوہ یتیم بچہ بھی یادآجاتاہے جس کے سرپررحمت العالمین رسول اکرمۖ نے ہاتھ رکھاتھاتو اسے دنیا کی سب سے بڑی نعمت مل گئی تھی۔کیااس کے امتیوں کورحمت العالمین رسول اکرمۖ کی یہ سنت یاد نہیں رہی؟ کیا قرآن کریم میں یہ نہیں کہا گیاکہ”تم نیکی کونہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خداکی راہ)میں خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیزرکھتے ہو۔”اور پھرفرمایا”تم نے دیکھااس شخص کوجوآخرت جزاوسزاکوجھٹلاتاہے؟وہی توہے جویتیم کو دھکے دیتاہے اورمسکین کوکھانادینے پرنہیں اکساتا”۔یعنی نہ اپنے نفس کواس کام پرآمادہ کرتاہے اورنہ اپنے گھر والوں سے کہتاہے کہ مسکین کو کھانا دیاکریں اورنہ لوگوں کومسکین کی مددپراکساتاہے۔سبحان اللہ!رب العزت نے یتیموں اورمسکینوں سے بدسلوکی کرنے اورکھانانہ دینے یادوسروں کواس کیلئے آمادہ نہ کرنے کاتعلق”یوم دین”کوجھٹلانے سے جوڑاہےیعنی یتیموں اورمسکینوں کی مددنہ کرنے والے وہ ہیں جویوم آخرت اورجزاوسزاپرایمان نہیں رکھتے اورظاہرہے انہیں مسلمان نہیں کہا جا سکتاتو گویا مسلمان ہونے اوریوم آخرت پرایمان رکھنے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ یتیموں کوگلے لگایاجائے، ان سے شفقت سے پیش آیاجائے اوریتیموں،ناداروں اورمسکینوں کوخودبھی کھاناکھلایاجائے اور دوسروں کواس پرآمادہ کرنے کیلئے باقاعدہ مہم بھی چلائی جائے۔

ان آیات مبارکہ کی روشنی میں آج اپنے اپنے کرداراورعمل کاجائزہ لیجئے۔بیشک بنیادی ذمہ داری توحکمرانوں کی ہے جوعوام سے ٹیکس اسی لئے وصول کرتے ہیں کہ عوام کی فلاح وبہبودپرخرچ کیاجائے۔بینکوں کے ذریعے سال پورانہ ہونے اورنصاب کو نہ پہنچنے والی رقم پربھی زکوٰةکا ٹ لی جا تی ہے تاکہ ناداروں پرصرف کی جائے لیکن پھربھی ناداروں غریبوں اورمسکینوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ایساکیوں ہے؟کیامسلمانوں کے حکمران یوم آخرت پریقین نہیں رکھتے یانظام زکوٰةصحیح طورپرنافذ نہیں کرسکے۔

اپنے اطراف میں نظرڈالئے آپ کوکتنے ہی نادار،مسکین اوریتیم بچے کوڑے پررزق تلاش کرتے نظرآجائیں گے۔معصوم سے بچے جوکچرے میں پھینکے گئے گلے سڑے اناروں سے اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کرتے ہیں،ایسے بچے ہرجگہ اورہرشہرمیں آپ کوملیں گے۔”کیاتم نے دیکھاان لوگوں کوجوجزاوسزاکو جھٹلارہے ہیں”۔کیاہم بھی توان میں شامل نہیں؟ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں،ایک اسلامی ملک میں جگہ جگہ ننگے بھوکے لوگوں کی بھیڑنظرآئے اور معاشرہ ان سے آنکھیں چرالے؟فرمان الٰہی تویہ ہے کہ مسلمان اس وقت تک نیکی کونہیں پہنچ سکتے جب تک وہ اپنی ایسی چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کردیں جوان کوبہت عزیزومحبوب ہیں۔ ہم روزے رکھ کر،نمازپڑھ کر،حج اورعمرے کی ہرسال سعادت حاصل کرکے خودکونیکوکاروں میں شمارتو کر تے ہیں،پڑوسی بھوکاہو،محلے میں یتیم،مسکین اورناداربیوائیں بے سہاراہوں اورہم عمرے کیلئے دوڑے چلے جائیں جوفرض نہیں ہے۔حج بھی زندگی میں صرف ایک بارمخصوص شرائط کے ساتھ فرض کیاگیاہے پھربھی کتنے ہی لوگ فخریہ گنواتے ہیں کہ انہوں نے کتنے حج کر لئے۔گھر کے باہرنام کی تختی پر جلی حروف میں ”الحاج” لکھوارکھاہے۔ہرکسی سے”حاجی صاحب” سننے میں سرشاری محسوس کرتے ہیں لیکن یہ توبتائیں کہ اللہ کی راہ میں کتنا خرچ کیا،کتنے یتیموں،ناداروں اورمسکینوں کوسہارادیا،اپنی کتنی محبوب اشیاءاللہ کی راہ میں خرچ کردیں،ایساہوتاتوآج کوڑے کے ڈھیرپریہ بچے نظرنہ آتے جنہیں دیکھ کریہ تمیزکرنامشکل ہوگیاہے کہ یہ انسان کے بچے ہیں یاپھراسی کوڑے کرکٹ اورکچرے کا حصہ!

اللہ کاشکرہے کہ کئی تنظیمیں ان حالات میں بھی یتیم،مسکین اورناداربیوائوں کی نہ صرف خود مدد کررہی ہیں بلکہ دوسروں کوبھی اکسارہی ہیں۔شاید اسی لئے زلزلے آآکر پلٹ جاتے ہیں اورآسمان سے بارش بھی برس جا تی ہے کہ کھیتیاں سوکھنے نہ پا ئیں لیکن ہرکوشش ناکافی ہے کہ غربت میں اضافے اور یتیموں مسکینوں ناداروں کی تعدادبڑھانے کی منظم مہم اس سے کہیں زیادہ شدید ہے۔آگے بڑھئے آپ کواپنے عزیزوں رشتہ داروں میں ایسے سفید پوش،نادارغریب مل جائیں گے جوآپ کی توجہ اورمدد کے طالب ہیں۔ان کی مددکرتے ہوئے ان کی عزت نفس کاخیال رکھنا بہت ضروری ہے۔جب میں نے بالآخران سے عزت نفس کے خیال رکھنے کابہترین طریقہ دریافت کیا توحسب عادت مسکرائے کہ پگلے دنیامیں سب سے آسان کام بھی یہی ہے اورسب سے مشکل بھی۔ ”آپ آسان زباں میں کیوں نہیں بتاتے،ایسے جواب سے توالجھن بڑھتی ہے؟”فرمانے لگے ”مشکل اس لئے ہے کہ اپنے کسی عزیزیارشتہ دارکودیتے ہوئے دل کے کسی گوشے میں برتری کااحساس ہرنیکی بربادکردینے کااحتمال رہتاہے لیکن اگریہی کام اس طرح کیاجائے کہ اس عزیزیارشتہ دار کوپتہ نہ چلے کہ یہ مددآپ کررہے ہیں، یہی کام اپنے کسی ایسے دوست کے ذریعے کریں جوان کیلئے اجنبی ہوتوپھردونوں اطراف میں خیرباقی رہتی ہے۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.