گزشتہ دہائی سے کیا جاتا رہا ہے کہ تھانہ کلچر بدلنے کی
ضرورت ہے اور آج بھی سارا دکھ تھانہ کلچر کی وجہ سے ہے ،آپ اچھے سے اچھا
آئی جی لگا دیں ،آر پی او لگائیں ،سی پی او بدلیں مگر جو ایس ایچ ا و
نے’’بگاڑنا ‘‘ہے اس کا ازالہ وہ بھی نہیں کر پائے گا ،پولیس سال ہا سال تک
اپنا تاثر بنانے کی جو کوشش کرتی ہے وہ تھانے کے سامنے خود سوزی کے ایک
’’واقعہ‘‘ سے زائل ہو جاتا ہے ،اس لئے جب تک تھانے کو بہتر نہیں بنایا جاتا
’’پولیس‘‘ بہتر نہیں ہو سکتی ، خیبر پختونخوامیں پولیس اس لئے بہتر نظر آتی
ہے کہ وہاں تھانوں کا ماحول بدل گیا ہے ،ان کی عمارتوں اور اندرونی ماحول
پنجاب کے تھانوں جیسا نہیں جن میں داخل ہوتے ہی خوف اور وحشت طاری ہو جاتی
ہے ،اور یہ کام آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) محمد عارف نواز خان کے کرنے کے نہیں
بلکہ حکومت کے کرنے کے کام ہیں مگر حکومت اسے ’’کار بیکار‘‘ سمجھا گیا ہے
،وردی بدلنے پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے مگر تھانوں کی عمارتیں اور ماحول
بدلنے کے لئے کچھ نہیں کیا گیا ، برسوں پہلے دانشور اور سابق آئی جی سردار
محمد چوہدری کی کہی بات یاد آئی کہ ’’انہوں نے کہا کہ پولیس کو ہر شخص
معتوب قرار دیتا ہے مگر مشکل کے وقت اسے سب سے پہلا خیال پولیس کا ہی آتا
ہے ،انہوں نے ایک مثال کہ جب رات کے کسی وقت کسی ویران سٹرک سے گزر رہے
ہوتے ہیں اور آپ کو پولیس کی ہوٹر لائیٹ والی گاڑی نظر آ جاتی ہے تو آپ
’’تحفظ‘‘ محسوس کرتے ہیں کہ اس سٹرک پر پولیس موجود ہے ‘‘ کہا تو انہوں نے
بالکل درست تھا مگر اس بات کو نظر انذاز نہیں کیا جاسکتا کہ پولیس نے اس
تاثر کو ’’نقصان‘‘بھی بہت پہنچایا ہے ،پولیس خوف کی علامت بن گئی حالانکہ
اسے ’’ تحفظ ‘‘ کی علامت ہونا چائیے ، اﷲ رب العزت نے اپنے نا ئب اشرف
المخلوقات حضرت انسان کو بے پناہ خوبیاں اور صلاحتیں ودیعت کی ہیں اب یہ اس
پر منحصر ہے کہ وہ اپنی صلاحتوں کاکیسے اظہار کرتا ہے اور انہیں کیسے
استعمال کرتا ہے یہ اس کا وصف اور اوصاف کا امتحان ہوتا ہے انسان کو خود کو
منوانے کے بے شمار مواقع ملتے ہیں جو لوگ اپنی بہترین صلاحتوں کا مظاہرہ کر
کے ان مواقع سے استفادہ کرتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں ،پولیس کا نام آتے ہی
کئی لوگوں کے چہرے اتر جاتے ہیں کیوں کہ بظاہر پولیس کا امیج اور تصور
ڈروانا اور خطرناک ہے، بعض شخصیات اور شاہکار ایسے ہوتے ہیں جن پرقمطرازی
خاصا مشکل اور کٹھن کام ہوتا ہے یہ پاک سر زمین بہت زرخیز ہے اس دھرتی نے
ایسے ایسے سپوتوں کو جنم دیا ہے کہ جو نہ صرف ستاروں پر کمند بلکہ تسخیر
کائنات کی صلاحیت رکھتے ہیں عسکری شعبہ ہو یاسول ہمارے جرات مندوں اور
جانبازوں نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں جس پر ملک اور پوری دنیا
خراج تحسین پیش کرتی ہے،یہ پاکستانی جن کی محنت،عزم اور حوصلے ،فولادی
ارادوں کے مالک،ہمارے جفاکش ہر مشکل گھڑی میں سینہ چاک کرکے مقابلہ کرتے
ہیں اس غیور قوم نے کبھی ملک کی بقاء اور سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا
ہے ،اور مادر وطن کے دفاع کے لیے ہر پاکستانی اپنی جان ہتھلیی پر لئے پھرتا
ہے ملک کی ترقی اور خوشحالی میں جہاں دوسرے شعبے مصروف عمل ہیں وہاں پولیس
فورس بھی شریک ہے اور یہ پولیس فورس کا ہی کمال ہے کہ آج پاکستان میں
سرمایہ کاری کے لیے ماحول ساز گار اور مشالی ہے جس کی وجہ سے بڑی تعداد
ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ،مگر
پولیس سروس میں بھی بے شمار پولیس آفیسرز ایسے ہیں جو اپنے کام ،لگن،
اہلیت،ایمانداری سے اپنا منفرد مقام رکتھے ہیں،جو کسی خوف ،سفارش کو خاطر
میں نہیں لاتے اور ایسے ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دئیے کہ لوگوں نے بھی
اپنی محبتوں کے پھول نچاور کئے،میری مراد ہے آئی جی پولیس کیپٹن (ر) محمد
عارف نواز خان ایک اچھے ،کمیٹڈ اور مثبت سوچ رکھنے والے افسر ہیں ، وہ
دوسری بار آئی جی پنجاب پولیس تعینات ہوئے ہیں انہوں نے 1986ء میں پولیس
سروس جوائن کی ،1992ء میں انہیں ایس پی کے عہدے پر ترقی ملی ،2009ء میں ڈی
آئی جی اور بعد ازاں 204ء میں ایڈیشنل آئی جی کے عہدے پر ترقی ملی ، وہ
فیصل آباد ،بہاولپور ،سپشل برانچ ،وی وی آئی پیز سیکورٹی ،ڈی آئی جی ٹرینگ
بھی تعینات رہے ، انہوں نے پولیس سیاست سے نجانے کب ’’پاک‘‘ ہوتی ہے تاہم
اگر وہ اپنے دامن کو کرپشن اور ناانصافی کے الزامات سے پاک کر لیتی ہے تو
وہ جلد عوام کے دلوں میں گھر کر سکتی ہے ، ماشاء اﷲ وہ دوسری بار پاکستان
کے سب سے بڑے صوبے کے آئی جی تعینات ہوئے ہیں ، اخبارت ایسی خبروں سے بھرے
پڑے ہوتے ہیں جن میں پولیس کی ناانصافی ،باثر افراد کے کہنے پر مطالم
،ناہلی اور کرپشن کی داستانیں رقم ہوتی ہیں ،بریکنگ نیوز بھی سب سے زیادہ
پولیس مظالم کی ہی چلتی ہے ،میڈیا ایک آئینہ ہے اور آئینہ جو رونما ہوتا ہے
وہی دکھاتا ہے تاہم موجودہ آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان کی یہ
اچھی سوچ ہے کہ وہ پولیس کے امیج کو بہتر بنانا چاہتے ہیں ،موجودہ آئی جی
پنجاب کو میڈیا کے ساتھ رابطہ مزید مضبوط کر نا ہو گا گو کہ ڈائریکٹر پی
آر’’ نایاب حیدر‘‘ کی کاوشیں قابل تحسین ہیں ،میڈیا ہی آنکھ اور کان ہیں
پولیس میڈیا کے بغیر اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکتی ہے ،دونوں ایک دوسرے کے
لئے لازم وملزوم ہیں ،مگر بدقسمتی سے دونوں ایک دوسرے کے مقابل آ کھڑے ہوتے
ہیں ،جس سے سماج دشمن قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں ،آئی جی پولیس کو چائیے کہ
ڈائریکٹر پی آر نایاب حیدر کے ذمے لگائیں کہ وہ پنجاب بھر میں میڈیا کے
ساتھ مضبوط راوبط کے لئے سمینار منعقد کئے جائیں اور لائحہ عمل ترتیب دیں
،تاکہ پولیس کے امیج کو بہتر کیا جائے ،مجھے اچھی طرح علم ہے کہ پنجاب
پولیس میں اپنی حد تک آزادی کے ساتھ کام کرنے کی کم از کم کوشش ضرور کر رہی
ہے ،اور یہ تاثر بھی درست ہے کہ جب ملازمت کا ہر وقت کھٹکا لگا رہے تو
کمزوریاں بھی آجاتی ہیں ،راقم اس بات کی بھی گواہی دینے کو تیار ہے کہ
پنجاب پولیس میں ایسے افسران کی کمی نہیں جو پوسٹنگ بچانے کے لئے اصول
قربان کر دیتے ہیں تاہم ایسے بھی ان گنت’’ سر پھرے‘‘ ہیں جو میرٹ پر کام
کرتے ہیں اور غلط کام کرنے کی قیمت پر اپنی نوکری نہیں بچاتے ہیں ،کیا آئی
جی پنجاب عارف نواز خان کے پاس مکمل اختیارات ہیں ۔۔؟؟ آئی جی پنجاب کا
کہنا ہے کہ ایف آئی آر کے اندراج میں مشکل کی صورت میں آئی جی پنجاب
کمپلینٹ سیل 8787 پر رابطہ کریں،پولیس کے حوالے سے عوامی شکایات کو کسی
صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا,شکایات کے ازالے کیلئے بروقت اقدامات نہ
کرنیوالے افسران کے خلاف محکمانہ کاروائی میں تاخیر کا سبب بننے والے
افسران بھی خود کو کسی رعائیت کا مستحق نہ سمجھیں، لاہور شہر نہ صرف پنجاب
کا چہرہ مہرہ ہے بلکہ انٹرنیشنل اور تاریخی شہر ہونے کے ناطے دنیا بھر میں
اہم مقام رکھتا ہے ،جہان دنیا بھر سے اہم ترین شخصیات اور سیاحوں کا آنا
جانا معمول ہے ایسے شہر میں اگر امن وامان کی فضا بہتر ہو گی تو پورے ملک
میں اچھا تاثر جائے گا ،تو کیا وجہ ہے کہ بقول استاد متحرم توفیق بٹ کہ سی
سی پی او لاہور مردم بیزار آدمی ہے اور عمران خان وزیراعظم پاکستان کو فی
الفور تبدیل کر کے کسی اچھے ایڈیشنل آئی جی کو لگایا جائے ،لاہور میں ڈی
آئی جی آپریشن اشفاق خان جیسے منجھے ہوئے تجربہ کار ،قابل اور محنتی افسر
کو لگایا گیا ہے ،تو سی سی پی او بھی کوئی محنتی اور کرائم فائٹر اور
پروفیشنل افسر لگایا جائے تا کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف ایک بہترین کمبی
نیشن بنایا جا سکے۔۔؟؟ گزشتہ ہفتے آئی جی پنجا ب کیپٹن (ر) عارف نواز خان
کی زیر صدارت سنٹرل پولیس آفس میں پولیس فورس کی ٹریننگ، تربیتی نصاب اور
ٹریننگ کالجز کے حوالے سے اہم اجلاس کا انعقاد ہوااور زیر تربیت اہلکاروں
کو تربیتی کورسز کے ساتھ پبلک ڈیلنگ اور ٹائم مینجمنٹ کے حوالے سے خصوصی
کورسز کروانے کا فیصلہ کیا گیا جو کہ انتہائی بروقت ہے ، آئی جی پولیس عارف
نواز خان صاحب جو کہ مضبوط اعصاب کے مالک اور بہادر افسر ہیں ان کی ٹیم میں
پروفیشنل اور کمیٹڈ افسران کی ضرورت ہے ،تاکہ جرائم پیشہ افراد سے صوبے کو
پاک کرنے ڈاکوؤں ،راہزنوں اور چوروں کے خلاف اصل معنوں میں جارحانہ پولیسنگ
کا آغاز کیا جائے ،پنجاب پولیس کے سربراہ کو حکومتی اداروں کی جانب سے بھی
مکمل سپورٹ کی ضرورت ہے ،کیونکہ صوبے کو امن و امان کا گہوراہ بنانا ،سماج
دشمن عناصر سے پاک کرنا ،خالی پولیس کا کام نہیں ہم سب شہریوں کا مشترکہ
فریضہ ہے ،ہم سب کو اپنی اپنی سطح پر ہر ممکن کردار ادا کرنا ہو گا ،اور
اگر کوئی یہ سمجھے کہ پولیس ہی جرائم کنٹرول کر سکتی ہے تو یہ خیام خیالی
ہو گی کیونکہ جرائم پیشہ افراد نت نئے اور جدید طریقوں سے واردتیں شروع کر
رکھی ہیں ،پولیس میں 8787، انٹرنل اکاؤنٹیبلٹی، خدمت مراکزاور پولیس خدمت
کاؤنٹرز قابل رشک کام ہیں،پولیس کو مزید بہتر کرنے کے اقدامات جاری ہیں،آئی
جی پولیس کا عزم ہے کہ پولیس کے محکمے میں عوام کا اعتماد اور اہلکاروں کی
عزت میں اضافہ کیا جائے ،آئی جی پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس کے اہلکار فرائض
کی ادائیگی کے دوران خوش اخلاقی اور شائستگی کو اپنا شعار بنائیں اور خدمت
خلق کے جذبے سیعوام کی جان ومال کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے محکمے کی عزت و
وقار میں اضافے کا باعث بنیں، آئی جی پولیس کیپٹن (ر) محمد عارف نواز خان
کرائم کے خاتمے اور عوام دوست پولیسنگ کے لئے دن رات کوشاں ہیں خدا پاک
انہیں اس مشن میں کامیاب کرے آمین ،،
|