رونقیں کیا کیا!

 صبح منہ اندھیرے ساتھ والے والے کمرے میں پرندوں کا ایسا شور اٹھا کہ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ گھر کے ارد گرد تو یہ پرندے سارا دن مصروف دکھائی دیتے تھے، مگر ’’جنگلی‘‘ ہونے کے ناطے کمرے کے اندر اِن کا آجانا اور ہنگامہ برپا کردینا نئی بات تھی۔ دراصل ایگزاسٹ کے لئے رکھی گئی جگہ پر بیٹھنے کے بعد یہ درست اندازہ نہیں لگا سکے تھے کہ باہر جائیں یا اندر، تاہم میں بھاگم بھاگ موقع پر پہنچا اور دروازہ کھول کر اُن کی آزادی کا بندوبست کیا۔ ’’شِہرک‘‘ ( لالی) نام کا یہ پرندہ گھروں اور آبادیوں کے آس پاس تو پایا جاتا ہے، مگر پالتو ہونے یا کہلوانے کی تہمت سے مکمل آزاد ہے۔ یہ فاختہ سے کچھ چھوٹا ہلکا پھلکا پرندہ ہے، جو سارا دن بھاگ دوڑ میں مصروف ہی نظر آتا ہے۔ کمرے کی چند سیکنڈ کی قید سے تو انہیں رہائی مل گئی، مگر وہ کسی اور فطرت کے ہاتھوں مجبور تھے کہ شام سویر تنکے منہ میں ڈالے ہمارے گھر کے مختلف راستوں سے اندر آنے کی کوشش کرتے۔ حتیٰ کہ انہوں نے کچن کے ایگزاسٹ والے راستے کو فائنل کر لیا اور کچن کا دھواں نکلنے والا کیبن سا انہیں ایسا پسند آیا کہ بس اسی میں ٹھکانا بنا لیا۔ باہر سے تنکے لاتے، بنے بنائے پلیٹ فارم پر رکھتے، اور چلتے بنتے۔ پھر کیا تھا، چند ہی روز بعد خالص جنگلی پرندے کے بچوں کی آوازیں آنے لگیں۔

دوسری طرف ہمارے گھر کے ساتھ والے خالی پلاٹ میں نشیبی جگہ پر بارش کا پانی کھڑا ہوگیا، بارشوں سے کچھ گھاس پھوس اور چند جڑی بوٹیاں اُگ آئیں۔ وہاں پرندوں کی ایک جوڑی نے اپنا ڈیرہ لگا لیا، یہ عجیب شکل کا پرندہ ہے، اس کی ٹانگیں ماچس کی تیلیوں جیسی باریک مگر سات آٹھ انچ تک لمبی ہوتی ہیں، سمارٹ اور لمبی ٹانگیں ہونے کے ناطے یہ بھاگنے میں شتر مرغ جیسا لگتا ہے، مقامی زبان میں اسے ’’ٹٹیری‘‘ بولا جاتا ہے، دوسرے پرندوں کے برعکس یہ رات کو بھی ٹیِں ٹیِں کرتا رہتا ہے، دیہاتوں میں تو یہ پایا ہی جاتا ہے، مگر چھوٹے شہروں والے بھی اس سے بخوبی واقف ہے۔ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اپریل مئی کی تیز گرمی میں بھی کھیتوں اور کھلی جگہوں پر بیٹھ کر دوپہر گزار لیتا ہے، رات کو بارش ہو جائے تو بھی کچھ پرواہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پرندہ گھونسلے کا محتاج نہیں ہوتا، بس تھوڑی سی مٹی ہموار کی اور موسم کی سختیوں کی پروا کئے بغیر وہاں انڈے دے دیئے۔ ہر جاندار کی فطرت کی طرح پہلے انڈوں اور بعد ازاں بچوں کی حفاظت کے لئے یہ بھی دن رات ایک کر دیتا ہے، جوڑی میں سے ایک پرندہ خوراک کا بندوبست کرنے جاتا ہے تو دوسرا نگرانی کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ جب انڈوں (یا بچوں) کے قریب سے بشمول انسان کے کوئی جاندار گزرتا ہے، تو یہ شور کر کے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، چلنے والے کے ساتھ ساتھ بھاگتے جاتے ہیں، شور کرتے جاتے ہیں، نہ جانے اسے تنبیہ کرتے ہیں، یا ملتمس ہوتے ہیں۔ اگر خطرہ بڑھ جائے تو سر پر منڈلانے لگتے ہیں، اور ’راہگیر‘ کو ڈرانے لگتے ہیں۔ ان کے انڈے کسی محفوظ جگہ پر نہیں ہوتے اس لئے یہ ہمہ وقت ایمرجنسی کی کیفیت میں ہی رہتے ہیں۔

ایک روز شام کے وقت میں کسی مطالعہ میں مصروف تھا کہ خاتونِ اول کی تقریباً چیختے ہوئے آواز آئی، ’’ابوبکر! بھاگ کر جاؤ ، باہر کچھ بچے ٹٹیری کے بچوں کو پکڑ رہے ہیں ․․․‘‘ ابوبکر بھاگتاہوا باہر نکلا تو چار پانچ میلے کچیلے بچے ٹٹیری کے ایک بچے کو قابو کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے، ٹٹیری تھی کہ لہرا لہرا کر بچوں پر لپک رہی تھی، احتجاج کر رہی تھی، فریاد کر رہی تھی، مگر اسے کیا خبر تھی کہ اس کے بچوں کو پکڑنا بچوں کا عام کھیل ہے۔ بہرحال ابوبکر کو اپنی طرف حملہ آور انداز میں آتا دیکھ کر وہ بچے کو پھینک کر بھا گ گئے، مگر شرارت اور ضد پر آمادہ تھے، سامنے نہر کے کنارے پر جا کر اِس تاک میں کھڑے ہوگئے کہ یہ صاحب اندر جائے اور ہم ٹٹیری کا بچہ اٹھانے میں کامیابی حاصل کریں، بہرحال اس میدانِ جنگ میں بڑوں کو بھی کودنا پڑا، یعنی میں بھی ٹٹیریوں کے حق میں نکل آیا اور ہم باپ بیٹا بہت مشکلوں سے شرارت پر آمادہ بچوں کو وہاں سے بھگانے میں کامیاب ہو سکے۔ تب جا کر ٹٹیریوں کی اور ہماری جان میں جان آئی۔ اب ان کے بچے بھاگنے اور اڑنے کے قابل ہو چکے ہیں۔

ہم نے گھر سے باہر کچھ پودے لگائے ہیں، چھوٹی چھوٹی نفیس اور ملائم سی رنگ برنگی چڑیاں اُن پودوں کی شاخوں پر بیٹھتی، پھُدکتی، اِدھر اُدھر گردن گھماتی اور اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتی ہیں۔ باہر صحن میں ہُد ہُد بھی مٹی میں اپنی لمبی چونچ سے اپنا رزق تلاش کر رہی ہوتی ہے۔ دیوار پر رکھے پانی کے برتن سے یہ پرندے پانی پی کر اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ پانی کے مقام پر کوّے بھی روٹیوں کے خشک ٹکڑے تلاش کر لاتے ہیں اور پانی میں ڈبو ڈبو کر نرم کر کے کھاتے ہیں۔ گھر کے سامنے چھوٹی سی مٹی کی پہاڑی بنا کر اُس پر’ فوٹو لاکس‘ (جسے گُل دوپہری کہنا زیادہ اچھا لگتا ہے) کے چند پودے لگائے ہیں، صبح ہی پھول نمودار ہو جاتے ہیں، یہاں وہاں بھٹکتی ہوئی چھوٹی چھوٹی تتلیاں ان پھولوں پر منڈلاتی دیکھ کر روح میں تازگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ یہ پودے راتوں رات درخت بن جائیں، میں انہیں کسی طرح کھینچ کے بڑا کردوں، ان کی شاخوں پر اچھلنے والی چڑیاں یہیں اپنے گھونسلے بنا لیں، وہ مایوس ہو کر یہ علاقہ نہ چھوڑ جائیں، بہت سی پھلواری ہو، یہ تتلیاں قرب وجوار میں ہی اپنی ٹھکانا بنا لیں۔ مگر میں بے بس ہوں، ایک تو میں سب پودوں کو بہت جلدی بڑا کرنے سے عاجز ہوں، دوسرا یہ کہ ہمارے گھر کے دائیں بائیں پڑے خالی پلاٹوں پر آخر گھر بن جائیں گے، کچھ عرصہ قبل ہی یہاں فصلیں ہوتی تھیں، ہم ان پرندوں کو ، تتلیوں کو ، فطرت کے حُسن کو بے دردی سے ختم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ مجھے یقین ہے اور میری پوری کوشش ہے، کہ میں اِن چڑیوں، پرندوں اور تتلیوں کو اُن کا پسندیدہ ماحول دینے میں کامیاب ہو جاؤں گا، کچھ وقت لگے گا، مگر اچھا وقت ضرور آئے گا ، انشاء اﷲ۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428433 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.